نوٹ: استاد محترم نے’فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ‘ (ص۲۴۲) میں ’اُمہات ‘کی تفسیر کو قراء تِ شاذہ قرار دیا ہے مگر مجھے کوئی ایسی قراء ت نہیں ملی۔٭ واللہ اعلم بالصواب
واضح رہے کہ ’امام‘ کی معتبر مفسرین نے تین چار تفسیریں ذکر کی ہیں مگر ان میں سے سب سے معتبرتفسیر یہ ہے کہ ’امام‘ سے مراد آدمی کا اعمال نامہ ہے، کیونکہ
یوم ندعوا کل أناس بـإمامہم کے بعد اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
{فَمَنْ أُوْتِيَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ۔۔۔ الآیۃ}
حافظ ابن کثیرؒ نے اسی تفسیر کو اختیارکیاہے اور علامہ شنقیطیؒ نے ان کی تائید کی ہے۔
إمام کی تفسیر نبی اور پیشوا سے بھی کی گئی ہے۔ حافظ ابن کثیر ؒلکھتے ہیں:
قال بعض السلف: ھذا أکبر شرف لأصحاب الحدیث لأن إمامہم النبيﷺ
’’بعض سلف نے کہا ہے کہ یہ اہل الحدیث کے لئے بہت بڑا شرف ہے، کیونکہ ان کے امام نبیﷺ ہیں۔‘‘
دوسری دلیل
بعض بے کار اور سخت ضعیف قسم کی روایات ہیں، جودرج ذیل ہیں:
حدیث ِانسؓ ،جس کے الفاظ یہ ہیں:
یُدعی الناس یوم القیامۃ بأمہاتہم سترا من اﷲ عزوجل علیہم
’’روزِ قیامت لوگوں کو اللہ عزوجل کی طرف سے ان پر پردہ پوشی کی خاطر ان کی ماؤں کے ساتھ بلایا جائے گا۔‘‘
مگر اس حدیث کی سند سخت ضعیف ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ کا اس حدیث کی تقویت کی طرف رجحان ہے، چنانچہ اُنہوں نے اس حدیث پر ابن جوزیؒ کاتعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے:
قلت:صرح ابن عدي بأن الحدیث منکر فلیس بموضوع ولہ شاھد من حدیث ابن عباس أخرجہ الطبراني
’’میں کہتا ہوں: ابن عدی نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث منکر ہے، چنانچہ یہ موضوع نہیں، اور اس کا ابن عباسؓ کی حدیث سے ایک شاہد ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘
جبکہ امام سیوطی کا دعویٰ درست نہیں ، طبرانی والی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں :
إن اﷲ یدعو الناس یوم القیامۃ بأسمائہم سترا منہ علیٰ عبادہ
مگر یہ حدیث درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر شاہد بننے کے قابل نہیں :
اس میں
بأسمائہمہے، بأمہاتہم نہیں۔
اس کی سند بھی سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے۔
نوٹ: مزید برآں حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری (۱۰؍۵۶۳) میں ابن بطال کا یہ قول
’’في ھذا الحدیث رد لقول من زعم أنہم لا یدعون یوم القیامۃ إلا بأمہاتہم سترا علی آبائہم ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:
قلت: ھو حدیث أخرجہ الطبراني من حدیث ابن عباس وسندہ ضعیف جدا وأخرج ابن عدي من حدیث أنس مثلہ،وقال: منکر أوردہ في ترجمۃ إسحاق بن إبراھیم الطبري
میں کہتا ہوں کہ حدیث ابن عباس میں بھی
بأسمائھم ہے،
بأمہاتہم نہیں۔ اسی طرح ان کا حدیث أنس مثلہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ اس حدیث میں
بأمہاتہم ہے۔
یہی وہم علامہ ابوطیب شمس الحق عظیم آبادی کو ہوا ہے کہ اُنہوں نے حدیث ابن عباس کو لفظ
بأمہاتہم سے ذکر کیا ہے۔ نیز اُنہیں ایک غلطی یہ بھی لگی ہے کہ اُنہوں نے کہا ہے کہ حدیث ِابن عباس کو طبرانی نے بہ سند ضعیف روایت کیا ہے، جیسا کہ ابن قیم نے حاشیۃ السننمیں کہا ہے جبکہ ابن قیم نے حدیث ابن عباس کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے حدیث ِابوامامہ کا ذکر کیا ہے جوعنقریب آرہی ہے۔