درج ذیل عبارت علامہ البانی رحمہ اللہ کی آڈیو تقریر سے ماخوذ ہے۔ اس استدلال میں دو چیزیں قابل ذکر ہیں۔ایک تو انہوں نے سنن ابو داود کی روایت کے صحیح ہونے پر ایک قلمی نسخے سے استدلال کی بات کی ہے جو ان علماء کے سامنے نہیں ہے جو متعلقہ روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
میں نےپہلے ہی مراسلہ میں لکھاتھا:
اسی طرح وہ روایت بھی ضعیف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت ہوجاتی ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس آخری روایت کو فیصلہ کن قرار دیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہی ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں نے بھی اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔
اس مراسلہ میں میں نے اسی مخطوطہ والی روایت ہی کی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی روایت کو اس بارے میں فیصلہ کن قراردیاہے۔
نیزمیں نے جو یہ کہا تھا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے بعض شاگرد اس روایت کو ضعیف قراردیتے ہیں تو اس سے مراد بھی یہی مخطوطہ والی روایت تھی۔
دراصل اس روایت کے کئی طرق ہیں جن میں سے صرف اور صرف ایک طریق میں ایک راوی نے اس روایت کو موصول بیان کیا ہے اور یہ مخطوطہ والی روایت ہے اور اس ایک طریق کے علاوہ باقی تمام طرق میں دیگر رواۃ نے اس روایت کو منقطا بیان کیا ہے لہٰذا اس روایت کا منقطع ہونا ہی راجح ہے۔
زیادتی ثقہ کے موضوع پر میرا ایک مفصل مضمون میری کتاب ”یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیق جائزہ “ میں ص 195 تا 236 پر موجود ہے اس میں بھی میں اسی مخطوطہ والی روایت کو زیادتی ثقہ کے مردود ہونے کی مثال میں پیش کیا ہے دیکھیے:”یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیق جائزہ “ میں ص215 تا216۔