ہر نماز میں سورہ فاتحه کا پڑھنا واجب ہے
چاہے امام ہو یا مقتدی یا منفرد سب پر واجب ہے
محترم! اس کو صحیح صریح غیر مجروح مرفوع حدیث سے ثابت کردیں۔ یا پھر قرآن و حدیث کی نافرمانی اور مخالفت سے توبہ تائب ہوں۔
فرمانِ باری تعالیٰ؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛
ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما رواه مسلم في صحيحه من حديث أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا" (بلكہ يہ تاكيد فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو)۔ تفسیر ابن کثیر
سنن النسائي: كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (حدیث مرفوع)
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "۔ (اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث مرفوع ہے)۔
مفسرِ قرآن جلیل القدر صحابی عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے؛
حدثنا أبو كريب حدثنا المحاربي عن داود بن أبي هند عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود فسمع ناسا يقرؤن مع الإمام فلما أنصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا أما آن لكم أن تعقلوا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا " كما أمركم الله (ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو)۔تفسیر ابن کثیر
زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے؛
صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ:
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ الحدیث۔
زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔