مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,391
- ری ایکشن اسکور
- 453
- پوائنٹ
- 209
مقلدوں نے اپنے مسلک کی تائید میں بہت ساری احادیث کا معنی و مفہوم بدل ڈالا ۔ قرات خلف الامام کے متعلق بھی ان لوگوں نے بہت سارے شبہات پیدا کئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ صحیحین کی روایت "لاصلاۃ" کا مطلب نماز ہوجاتی ہے ۔ اس کی تائید ابن ماجہ کی روایت سے پیش کرتے ہیں۔ دونوں روایات اور ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
(1) لا صلاةَ لمن لم يقرأْ بفاتحةِ الكتابِ(صحيح البخاري:756, صحيح مسلم:394)
ترجمه: جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
(2) كلُّ صلاةٍ لا يُقرَأُ فيها بأمِّ الكتابِ ، فَهيَ خِداجٌ ، فَهيَ خِداجٌ (صحيح ابن ماجه:693)
ترجمہ:ہروہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ فاسد ہے، فاسد ہے۔
پہلی حدیث کی وضاحت :
پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی بھی نماز نہیں ہوگی خواہ فرض ہو یا نفل ، خواہ منفرد ہویا جماعت ، خواہ امام ہو یا مقتدی۔ یہ حدیث فاتحہ کے نمازکا رکن ہونے پہ بھی دلیل ہے ۔ جو نمازکا رکن چھوڑ دے اس کی نماز فاسد وباطل ہے ۔
اولاً: اس حدیث میں امام اور مقتدی کا فرق کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث امام کے ساتھ خاص ہے ، حالانکہ یہ حدیث امام و مقتدی دونوں کوعام ہے اس کو خاص کرنے کی دلیل چاہئے ۔ دلیل سے یہی واضح ہے کہ یہ حدیث جیسے امام کے لئے ہے ویسے مقتدی کے لئے بھی ہے ۔
لا صلاةَ لمن لا وضوءَ له(السلسلة الصحيحة: 4/545)
ترجمہ: اس کی نماز نہیں جس نے وضو نہیں کیا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ جو بھی وضو نہ کرے اس کی نماز نہیں خواہ امام ہو یا مقتدی ۔ اسی طرح نماز کا حال ہے جو بھی سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے لئے یہ باب باندھا ہے : "باب وجوب القرأۃ للامام والمأموم في الصلوات کلھا في الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت"یعنی امام ومقتدی کے لیے سب نمازوں میں قرأت (سورہ فاتحہ ) واجب ہے، نماز حضری ہو یا سفری، جہری یا سری ، یعنی ہر قسم کی نماز میں امام ومقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
ثانیاً: اس حدیث کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں "لا" نفی صحت کے لئے نہیں بلکہ نفی کمال کے لئے ہے یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز تو ہوجاتی ہے مگر کامل نہیں ہوتی ،ناقص ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں "لا" جنس کا ہے جس سے ذات کی نفی مراد ہے جسے نفی صحت بھی کہہ سکتے ہیں یعنی اس کی نماز صحیح نہیں ہے جو سورہ فاتحہ نہیں پڑھے ۔ احادیث سے اس کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں یہی معنی مراد لیا جاتا ہے جو مقلدین کے یہاں بھی تسلیم شدہ ہے ۔ چند مثالیں :
(1) لاالہ الا اللہ ( نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ) یہاں لا اپنے اسی معنی میں ہے ۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے علاوہ بھی عبادت کے لائق ہے وہ بے شک مشرک ہے ۔
(2) لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ( صحيح ابن ماجه:1537)
ترجمہ : ولی کے بغیر نکاح ہی نہیں ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں لا نفی کمال کے لئے یعنی نکاح تو ہوجاتا ہے مگر مکمل نہیں ہوتا وہ کفر کرتا ہے ، ایسا نکاح نکاح نہیں حرام کاری ہے۔
(3) أنا خاتمُ النبيِّينَ لا نبيَّ بعدي( صحيح أبي داود: 4252)
ترجمہ : میں سب سے آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
کس کی جرات ہے کہ یہ کہہ دے یہاں "لا" جنس کی نفی کے لئے نہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپﷺ جیسانبی نہیں آئے گا مگر دوسری قسم کا نبی آئے گا ۔ ایسا شخص مرتد اور خارج ملت ہے ۔ (یہی عقیدہ قادیانی کاہے)
اس کی بے شمار مثالیں ہیں وضاحت کے لئے یہ چند کافی ہیں ۔
ثالثاً: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جہری نماز میں مقتدی سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا صرف سری نماز میں پڑھے گا وہ بھی خطا پہ ہیں ۔ صواب یہی ہے کہ سورہ فاتحہ امام ومقتدی اور سری وجہری سب کو شامل ہے ، پہلے شبہے میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے ۔ رہا امام ومقتدی کی قرات ٹکرانے کا معاملہ تو مقتدی کو اپنے نفس میں پڑھنا ہے اس سے امام کی قرات پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا، نہ قرات بوجھل ہوگی اور نہ ٹکراؤ ہوگا۔
دوسری حدیث کی وضاحت :
دوسری حدیث کو صحیحین کے معنی نفی کمال کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں ۔ میں آپ کو بتلاتا چلوں ۔ اس میں خداع کا لفظ آیا ہے جو فاسد کے معنی میں ہے ۔ خداع کا لغوی معنی فساد کے آتا ہے ۔ یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے ،اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (البقرة:9)
ترجمہ: مگر(حقیقت میں) اپنے سواکسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبرہیں ۔
اس لئے ابن ماجہ کی حدیث کا مطلب ہوا ہروہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ فاسد ہے، باطل ہے ، صحیح نہیں ہے ۔ اس طرح صحیحین اور ابن ماجہ کی روایت میں کوئی اختلاف و تعارض نہیں ۔ بس ایک ذہنیت ہے جو تقلید کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ۔
اہل تقلید کو نصیحت :
مقلدوں نے اتنا تو خود ہی تسلیم کیا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر پڑھی جانے والی نماز ناقص ہے ۔ میں ہرمقلد کونصیحت کرتاہوں کہ کم از کم اپنی اسی بات کو لوگوں میں عام کرو ، خود بھی مکمل نماز پڑھو اور دوسروں کو بھی پڑھنے کا حکم دو۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صَلُّوا كما رأيتُموني أُصَلِّي(صحيح البخاري:631)
ترجمہ : تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
دیوبندیوں کا دعوی ہے کہ ہم سواد اعظم ہیں ، ان کی تعداد بڑھنے میں تبلیغی جماعت کا بڑا کردارہے جس کا مقصد صرف نمازکی دعوت ہے ۔ اسے تحریک صلاۃ کا نماز دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ پوری دنیا میں یہ جماعت گھوم گھوم کر صرف نماز کی تعلیم دیتی ہے اور جو نماز پڑھواتی ہے وہ ناقص اور ادھوری ہے ۔
ابھی بنگلہ دیش میں تبلیغیوں کا اجتماع ہوا تھا ، ایک تبلیغی بھائی کا کہنا ہے کہ اس اجتماع میں ساڑھے تین کروڑ تبلیغیوں نے شرکت کی ۔ فرضا ًیہ عدد مان لیا جائے تو اگر اس کا مطلب ہے ایک وقت کی نماز میں ساڑھے تین کروڑ مسلمانوں نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی یعنی ساڑھے تین کروڑ تبلیغی مسلمانوں نے نامکمل نماز پڑھی ۔ میرا چھوٹا سا سوال ہے اس غلطی کا ذمہ دار کون؟ شائد جواب ہوگا اس جماعت کے علماء جو بغیر سورہ فاتحہ نماز پڑھنے کی تعلیم دیتے ہیں ۔ مگرمیرا جواب دوسراہے ۔میرا مانناہےکہ اس جماعت کا ہرفرد ذمہ دار ہے کیونکہ دین کا علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔ اس لئے ادنی اعلی سب کو دین سیکھناچاہئے تاکہ عبادت کا صحیح طریقہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں جانے اور اسی طرح انجام دے جیساکہ نبی ﷺ نے انجام دینے کا حکم دیا ہے ۔
میرے مسلمان بھائیو! نبی ﷺ کے اس فرمان کو زندہ کرو۔
صَلُّوا كما رأيتُموني أُصَلِّي(صحيح البخاري:631)
ترجمہ : تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
(1) لا صلاةَ لمن لم يقرأْ بفاتحةِ الكتابِ(صحيح البخاري:756, صحيح مسلم:394)
ترجمه: جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
(2) كلُّ صلاةٍ لا يُقرَأُ فيها بأمِّ الكتابِ ، فَهيَ خِداجٌ ، فَهيَ خِداجٌ (صحيح ابن ماجه:693)
ترجمہ:ہروہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ فاسد ہے، فاسد ہے۔
پہلی حدیث کی وضاحت :
پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی بھی نماز نہیں ہوگی خواہ فرض ہو یا نفل ، خواہ منفرد ہویا جماعت ، خواہ امام ہو یا مقتدی۔ یہ حدیث فاتحہ کے نمازکا رکن ہونے پہ بھی دلیل ہے ۔ جو نمازکا رکن چھوڑ دے اس کی نماز فاسد وباطل ہے ۔
اولاً: اس حدیث میں امام اور مقتدی کا فرق کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث امام کے ساتھ خاص ہے ، حالانکہ یہ حدیث امام و مقتدی دونوں کوعام ہے اس کو خاص کرنے کی دلیل چاہئے ۔ دلیل سے یہی واضح ہے کہ یہ حدیث جیسے امام کے لئے ہے ویسے مقتدی کے لئے بھی ہے ۔
لا صلاةَ لمن لا وضوءَ له(السلسلة الصحيحة: 4/545)
ترجمہ: اس کی نماز نہیں جس نے وضو نہیں کیا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ جو بھی وضو نہ کرے اس کی نماز نہیں خواہ امام ہو یا مقتدی ۔ اسی طرح نماز کا حال ہے جو بھی سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے لئے یہ باب باندھا ہے : "باب وجوب القرأۃ للامام والمأموم في الصلوات کلھا في الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت"یعنی امام ومقتدی کے لیے سب نمازوں میں قرأت (سورہ فاتحہ ) واجب ہے، نماز حضری ہو یا سفری، جہری یا سری ، یعنی ہر قسم کی نماز میں امام ومقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
ثانیاً: اس حدیث کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں "لا" نفی صحت کے لئے نہیں بلکہ نفی کمال کے لئے ہے یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز تو ہوجاتی ہے مگر کامل نہیں ہوتی ،ناقص ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں "لا" جنس کا ہے جس سے ذات کی نفی مراد ہے جسے نفی صحت بھی کہہ سکتے ہیں یعنی اس کی نماز صحیح نہیں ہے جو سورہ فاتحہ نہیں پڑھے ۔ احادیث سے اس کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں یہی معنی مراد لیا جاتا ہے جو مقلدین کے یہاں بھی تسلیم شدہ ہے ۔ چند مثالیں :
(1) لاالہ الا اللہ ( نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ) یہاں لا اپنے اسی معنی میں ہے ۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے علاوہ بھی عبادت کے لائق ہے وہ بے شک مشرک ہے ۔
(2) لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ( صحيح ابن ماجه:1537)
ترجمہ : ولی کے بغیر نکاح ہی نہیں ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں لا نفی کمال کے لئے یعنی نکاح تو ہوجاتا ہے مگر مکمل نہیں ہوتا وہ کفر کرتا ہے ، ایسا نکاح نکاح نہیں حرام کاری ہے۔
(3) أنا خاتمُ النبيِّينَ لا نبيَّ بعدي( صحيح أبي داود: 4252)
ترجمہ : میں سب سے آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
کس کی جرات ہے کہ یہ کہہ دے یہاں "لا" جنس کی نفی کے لئے نہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپﷺ جیسانبی نہیں آئے گا مگر دوسری قسم کا نبی آئے گا ۔ ایسا شخص مرتد اور خارج ملت ہے ۔ (یہی عقیدہ قادیانی کاہے)
اس کی بے شمار مثالیں ہیں وضاحت کے لئے یہ چند کافی ہیں ۔
ثالثاً: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جہری نماز میں مقتدی سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا صرف سری نماز میں پڑھے گا وہ بھی خطا پہ ہیں ۔ صواب یہی ہے کہ سورہ فاتحہ امام ومقتدی اور سری وجہری سب کو شامل ہے ، پہلے شبہے میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے ۔ رہا امام ومقتدی کی قرات ٹکرانے کا معاملہ تو مقتدی کو اپنے نفس میں پڑھنا ہے اس سے امام کی قرات پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا، نہ قرات بوجھل ہوگی اور نہ ٹکراؤ ہوگا۔
دوسری حدیث کی وضاحت :
دوسری حدیث کو صحیحین کے معنی نفی کمال کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں ۔ میں آپ کو بتلاتا چلوں ۔ اس میں خداع کا لفظ آیا ہے جو فاسد کے معنی میں ہے ۔ خداع کا لغوی معنی فساد کے آتا ہے ۔ یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے ،اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (البقرة:9)
ترجمہ: مگر(حقیقت میں) اپنے سواکسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبرہیں ۔
اس لئے ابن ماجہ کی حدیث کا مطلب ہوا ہروہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ فاسد ہے، باطل ہے ، صحیح نہیں ہے ۔ اس طرح صحیحین اور ابن ماجہ کی روایت میں کوئی اختلاف و تعارض نہیں ۔ بس ایک ذہنیت ہے جو تقلید کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ۔
اہل تقلید کو نصیحت :
مقلدوں نے اتنا تو خود ہی تسلیم کیا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر پڑھی جانے والی نماز ناقص ہے ۔ میں ہرمقلد کونصیحت کرتاہوں کہ کم از کم اپنی اسی بات کو لوگوں میں عام کرو ، خود بھی مکمل نماز پڑھو اور دوسروں کو بھی پڑھنے کا حکم دو۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صَلُّوا كما رأيتُموني أُصَلِّي(صحيح البخاري:631)
ترجمہ : تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
دیوبندیوں کا دعوی ہے کہ ہم سواد اعظم ہیں ، ان کی تعداد بڑھنے میں تبلیغی جماعت کا بڑا کردارہے جس کا مقصد صرف نمازکی دعوت ہے ۔ اسے تحریک صلاۃ کا نماز دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ پوری دنیا میں یہ جماعت گھوم گھوم کر صرف نماز کی تعلیم دیتی ہے اور جو نماز پڑھواتی ہے وہ ناقص اور ادھوری ہے ۔
ابھی بنگلہ دیش میں تبلیغیوں کا اجتماع ہوا تھا ، ایک تبلیغی بھائی کا کہنا ہے کہ اس اجتماع میں ساڑھے تین کروڑ تبلیغیوں نے شرکت کی ۔ فرضا ًیہ عدد مان لیا جائے تو اگر اس کا مطلب ہے ایک وقت کی نماز میں ساڑھے تین کروڑ مسلمانوں نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی یعنی ساڑھے تین کروڑ تبلیغی مسلمانوں نے نامکمل نماز پڑھی ۔ میرا چھوٹا سا سوال ہے اس غلطی کا ذمہ دار کون؟ شائد جواب ہوگا اس جماعت کے علماء جو بغیر سورہ فاتحہ نماز پڑھنے کی تعلیم دیتے ہیں ۔ مگرمیرا جواب دوسراہے ۔میرا مانناہےکہ اس جماعت کا ہرفرد ذمہ دار ہے کیونکہ دین کا علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔ اس لئے ادنی اعلی سب کو دین سیکھناچاہئے تاکہ عبادت کا صحیح طریقہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں جانے اور اسی طرح انجام دے جیساکہ نبی ﷺ نے انجام دینے کا حکم دیا ہے ۔
میرے مسلمان بھائیو! نبی ﷺ کے اس فرمان کو زندہ کرو۔
صَلُّوا كما رأيتُموني أُصَلِّي(صحيح البخاري:631)
ترجمہ : تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔