• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا سیدنا مروان بن الحکمؓ نے اہل بیت پر لعنت کی؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا سیدنا مروان بن الحکمؓ نے اہل بیت پر لعنت کی؟
تحریر: محمد فھد حارث

مسند ابو یعلیٰ سے ایک روایت پیش کیا جاتی ہے کہ ابو یحییٰ نے کہا کہ میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا اور مروانؓ ان دونوں کو بر ا بھلا کہہ رہا تھا۔ سیدنا حسنؓ اپنے بھائی حسینؓ کو خاموش کروا رہے تھے۔ تب مروانؓ نے کہا: اہل بیت ملعون ہیں۔ اس پر بات پر سیدنا حسنؓ شدید غصے میں آئے اور کہا: کیا تو کہتا ہے کہ اہل بیت ملعون ہیں؟ پس اللہ کی قسم! اللہ نے تجھ پر اپنے نبیﷺ کی زبان کے ذریعے لعنت فرمائی تھی جبکہ تو اپنے باپ کے صلب میں تھا۔ (مسند ابو یعلی حدیث ۶۷۶۴)

مسند ابو یعلی میں یہ حدیث جس سند سے آئی ہے وہ کچھ یوں ہے حدثنا ابراہیم بن الحجاج السامی، حدثنا حماد بن سلمہ عن عطاء بن سائب عن ابو یحییٰ۔ اب اس روایت کی سند پر کلام کرلیتے ہیں۔ پھر ان شاءاللہ درایتاً اس روایت پر بحث کریں گے۔ اس روایت کی سند میں ایک راوی عطاء بن سائب ہیں جو کہ عن سے روایت کررہے ہیں۔ یہ راوی عطاء بن سائب مختلف فیہ ہیں اور محدثین کے نزدیک کچھ خاص پسندیدہ نہیں ہیں۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں عطاء بن سائب پر مفصل کلام کیا ہے جو سارا کا سارا یہاں نقل کرنا موجبِ طوالت ہوگا۔ لیکن پھر بھی ہم اس کا بہت کچھ حصہ ہدیۂ قارئین کردیتے ہیں۔ امام ذہبی عطاء بن سائب بن زید ثقفی، ابو زید کوفی کے ترجمہ کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ تابعین کے علماء میں سے ایک ہے۔ اس نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیؓ، سیدنا انسؓ، اپنے والد ایک جماعت سے روایات نقل کی ہیں۔ اس سے سفیان ثوری، شعبہ اور فلاس نے روایات نقل کی ہیں۔ آخری عمر میں یہ اختلاط کا شکار ہوگیا تھا اور اس کا حافظہ خراب ہوگیا تھا۔ امام احمد کہتے ہیں کہ جس نے اس سے پہلے زمانے میں سماع کیا تھا وہ مستند ہے اور جس نے بعد میں اس سے سماع کیا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ اس سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔ احمد بن ابو خثیمہ نے یحییٰ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس کی نقل کردہ روایات ضعیف ہیں۔البتہ وہ روایات جو شعہب اور سفیان کے حوالے سے منقول ہے (ان کا حکم مختلف ہے)۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ حماد بن زید نے عطاء بن سائب سے ان کے اختلاط کا شکار ہونے سے پہلے سماع کیا تھا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ عطاء بن سائب کی نقل کردہ پرانی روایات قابلِ حجت ہیں۔ ابن عینیہ کہتے ہیں کہ ابو اسحٰق سبیعی نے عطاء بن سائب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عطاء کا کیا بنا! وہ تو اب بقایا جات میں سے ہیں۔ امام ذہبی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان نے ان کے حوالے سے حدیث روایت کی ہے اور وہ وفات کے اعتبار سے ان کے سب سے مقدم شیخ ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ عطاء بن سائب ثقہ ہیں، ثقہ ہیں، نیک آدمی ہیں البتہ جن حضرات نے ان سے (اختلاط سے) پہلے سماع کیا تھا وہ صحیح ہیں۔ ابو حاتم فرماتے ہیں کہ اختلاط کا شکار ہونے سے پہلے ان کا محل صدق تھا۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ اپنی قدیم روایات میں ثقہ ہیں تاہم بعد میں تغیر کا شکار ہوگئے تھے۔ شعبہ، ثوری اور حماد بن زید نے ان سے جو روایات نقل کی ہیں وہ عمدہ ہیں (کیونکہ وہ انہوں نے ان کے اختلاط سے پہلے سنی تھیں)۔ ابو بکر بن عیاش کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی عطاء بن سائب اور ضرار بن مرہ کو دیکھا تو ان کے رخساروں پر رونے کے نشان تھے۔ امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ۱۳۶ ہجری تک زندہ رہے، اس اعتبار سے ان کی عمر ۱۰۰ سال کے لگ بھگ ہوگی۔ یہ علم قرات کے ماہر تھے۔ انہوں نے عبدالرحمٰن سلمی سے علم قرات سیکھا تھا۔

ابن علیہ بیان کرتے ہیں کہ عطاء بن سائب ہمارے پاس بصرہ آئے، ہم نے ان سے سوالات کرنے شروع کئے تو وہ وہم کا شکار ہونے لگے۔۔۔ وہیب بیان کرتے ہیں کہ عطاء بن سائب ہمارے پاس آئے تو میں نے دریافت کیا کہ آپ نے عبدہ سے کتنی روایات حاصل کی ہیں؟ انہوں نے جواب: چالیس۔ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ انہوں نے عبیدہ سئ ایک بھی حرف روایت نہیں کیا۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔ حمیدی بیان کرتے ہیں کہ سفیان نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ میں نے پہلے زمانے میں عطاء بن سائب سے سماع کیا تھا ، پھر وہ دوسری مرتبہ ہمارے پاس آئے تو میں نے انہیں ان روایات میں سے بعض روایات بیان کرتے ہوئے سنا جو ان سے پہلے سن چکا تھا تو ان روایات میں وہ اختلاط کا شکار ہوچکے تھے، تو میں نے ان بچاؤ کیا اور علیحدگی اختیار کرلی۔ اس کے بعد امام ذہبی نے عطاء بن سائب کی منکر روایات نقل کی ہیں۔ (میران الاعتدال جلد ثالث تحت الترجمہ عطاء بن سائب)

اس قدر تفصیل کے ساتھ عطاء بن سائب پر امام ذہبی کا کلام نقل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ قاری خود دیکھ لیں کہ ان عطاء بن سائب کی روایت کردہ روایات کی استنادی حیثیت کیا ہوسکتی ہے۔ ان کی توثیق مجمل جبکہ جرح مفسر ہے۔ پھر ان کی صرف وہی روایات قابلِ قبول ہیں جو کہ انہوں نے اوائل عمری میں روایت کیں اور اوائل عمری میں ان کی روایات شعبہ، سفیان ثوری اور حماد بن زید سے ہیں۔ جب کہ مذکورہ بالا روایت میں عطاء کا تحمل اور ادا دونوں ہی ان تینوں راویوں میں سے کسی سے نہیں۔ عطاء نے یہ روایت ابو یحییٰ سے کب لی اس کی کوئی تصریح ہم کو کتب رجال میں نہیں مل سکی اور پھر انہوں نے اس روایت کو حماد بن سلمہ سے کس زمانے میں بیان کیا، اس کے زمانے کی بھی کوئی تحدید نہیں ہے۔ اور جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ عطاء کی اوائل دور کی روایات جو کہ مستند و صحیح قرار دی جاسکتی ہیں وہ تین اشخاص سے ہیں یعنی شعبہ، سفیان اور حماد بن زید۔ سو اس لحاظ سے عطاء بن سائب کی بیان کردہ یہ روایت قطعی قابلِ حجت نہیں ہوسکتی اور ان کے اختلاط کے سبب سخت ضعیف ٹھہرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ ناصر الدین البانی نے عطاء بن سائب کے اختلاط کی وجہ سے اس کی روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ سلسلۃ الضعیفۃ رقم الحدیث ۲۵۷۷ کے تحت علامہ البانی لکھتے ہیں کہ "میں کہتا ہوں کہ یہ سند ضعیف ہے۔ اس کی کئی علتیں ہیں۔ پہلی علت یہ ہے کہ عطاء بن السائب کان اختلط یعنی عطاء بن سائب راوی کو اختلاط ہوگیا تھا۔"

اسی طرح شیخ زبیر علی زئی مرحوم نے بھی عطاء کی روایت کو ضعیف ہی ٹھہرایا ہے جیسا کہ اضواء المصابیح میں حدیث نمبر ۷۴ کے تحت وہ لکھتے ہیں کہ "اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ۔۔ اس روایت کے بنیادی راوی عطاء بن سائب آخری عمر میں حافظے کی خرابی کی وجہ سے اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔۔ اور روایت کے راوی ابو الاحوص سلام بن سلیم کا قبل از اختلاط عطاء بن سائب سے سماع ثابت نہیں ہے۔"

الغرض عطاء بن سائب کے اختلاط کے سبب یہ روایت ضعیف ٹھہرتی ہے بالخصوص جب قبل از اختلاط انہوں نے صرف شعبہ، سفیان اور حماد بن زید سے ہی روایات کی ہیں اور ان تینوں میں سے کوئی بھی اس حدیث کی سند میں موجود نہیں۔

پھر درایتاً بھی یہ روایت سخت ناقابل اعتبار ہے کیونکہ تاریخی حقائق اور قرائن اس چیز پر دلالت کرتے ہیں کہ سیدنا مروان بن الحکمؓ کے آخری عمر تک سیدنا حسنؓ و حسینؓ اور ان کی وفات کے بعد دیگر اعیانِ آل علیؓ سے نہایت خوشگوار تعلقات تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ سیدنا مروان بن الحکمؓ اہل بیت کو ملعون قرار دیتے ہوں اور پھر بھی اہل بیت ان سے خوشگوار تعلقات استوار رکھے ہوئے ہوں۔ سنن سعید بن منصور کے باب جامع الشہادۃ میں روایت موجود ہے کہ جنگِ جمل کے دن سیدنا مروانؓ نے سیدنا حسنؓ و حسینؓ اور عبداللہ بن عباسؓ وغیرہم کے ذریعے سیدنا علیؓ سے اپنے لیے امان طلب کروائی اور ان حضرات نے سیدنا علیؓ سے سیدنا مروانؓ کے لیے امان طلب کی تو سیدناعلیؓ نے سیدنا مروانؓ کو امان تفویض کردی۔ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں امام محمد باقر سے روایت موجود ہے کہ ان سے کسی نے سوال کیا کہ سیدنا حسنؓ و حسینؓ ہمیشہ مروان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے، تو کیا وہ گھر آکر اپنی نمازیں لوٹاتے تھے؟امام محمد باقر نے اللہ کی قسم کھا کر کہا ہمارے اکابر امامِ نماز کی نماز سے زیادہ نہیں بڑھاتے تھے۔ یہی بات تاریخِ صغیر میں امام بخاری نے بھی نقل کی ہے کہ حدثنی شرحبیل ابو سعد قال رایت الحسن و الحسین یصلیان خلف مروان۔

علامہ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ کی جلد ۸ میں سیدنا مروانؓ کے آلِ علیؓ کی محبت و عنایات سے متعلق چند ایک واقعات نقل کیے ہیں۔ ان میں دو واقعات ہم یہاں نقل کردیتے ہیں۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں جب سیدنا حسنؓ کا انتقال ہوا تو سیدنا مروانؓ ان کی تجہیز و تکفین میں شامل تھے اور جنازے کے ساتھ روتے جاتے تھے۔ چونکہ سیدنا مروانؓ اور سیدنا حسنؓ تقریباً ہم عمر تھے سو دونوں میں خوشگوار نوک جھوک چلتی رہتی ہے۔ سیدنا مروانؓ کو روتا دیکھ کر کسی نے آپ سے کہہ دیا کہ اب رو رہے ہیں جبکہ ان کی زندگی میں ان کے ساتھ خوب نوک جھونک کرتے تھے۔ سیدنا مروانؓ نے یہ سن کر سامنے کے پہاڑ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ میں تو اس پہاڑ سے بھی زیادہ اَحلَم یعنی حلیم ترین شخص سے نوک جھونک کرتا تھا۔

اسی طرح البدایہ و النہایہ کی جلد ۸ میں ہی علامہ ابن کثیر سیدنا مروانؓ کے ترجمہ میں ایک اور واقعہ بھی لائے ہیں جس کو مولانا محمد نافع مرحوم نے بھی اپنی کتاب "رحماء بینہم جلد۴ صفحہ ۲۶۹ " میں نقل کیا ہے کہ جناب جعفر صادق سے مروی ہے کہ سیدنا مروان بن الحکمؓ نے جناب علی بن الحسینؒ المعروف زین العابدین کو ایک لاکھ درہم کی رقم بطور قرضہ دی تاکہ وہ اس کے ایک باندی خرید سکیں جس سے ان کی اولاد ہو۔ چنانچہ جناب زین العابدین نے اسی طرح کیا اور اس باندی سے زین العابدین کی کثیر اولاد ہوئیں۔ اس کے بعد جب سیدنا مروانؓ بیمار پڑے تو انہوں نے اپنے بیٹے عبدالملک بن مروانؒ کو وصیت کی کہ ہم نے جو کچھ قرض علی بن الحسین ؒ کو دیا ہوا ہے، ان سے واپس نہ لینا۔ سیدنا مروانؓ کی وفات کے بعد جناب علی بن الحسینؒ نے وہ قرض واپس کرنے کی کوشش کی لیکن امیر عبدالملک بن مروانؒ نے لینے سے انکار کردیا۔

یہ ان خوشگوار تعلقات کی کرشمہ سازی ہی تھی کہ سیدنا علیؓ کے خاندان سے سیدنا مروانؓ کے خاندان کی کئی رشتہ داریاں قائم ہوئیں۔ جو کہ یہ ثابت کردیتی ہیں کہ سیدنا مروانؓ خود اور انکی آل اولاد بنو ہاشم و علیؓ کی نظروں میں بھی قدر و منزلت والے اور مستحسن تھے اسی لئے بنو ہاشم کی کئی لڑکیاں مروانؓ کے بیٹے اور پوتوں کو بیاہی گئیں۔ سیدنا علی ؓ کی صاحبزادی رملہ بنت علیؒ سیدنا مروانؓ کے بیٹے معاویہ ؒ بن مروانؓ کے نکاح میں تھیں۔ اس لحاظ سے سیدنا علی ؓ اور سیدنا مروانؓ سمدھی تھے۔ ( کتاب نسب قریش ص ۴۵، تحت ولد علی بن ابی طالبؓ)

سیدنا علیؓ کی دوسری صاحبزادی انہی مروانؓ بن الحکم کے بیٹے عبدالملک بن مروان جو کہ خلیفہ تھے اپنے زمانہ میں انکو بیاہی تھی۔ (البدایہ و النہایہ ج ۹، ص ۶۹)

اسی طرح سیدنا علی ؓ کے برے بیٹے سیدنا حسن ؓ بن علی کی صاحبزادی سیدہ نفسیہؒ بنت زید بن حسن کی شادی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروانؒ سے ہوئی (عمدۃ الطالب ص ۴۴)

ان نفسیہؒ کی چچا زاد بہن زینب بنت حسن مثنیٰ بن حسن کی شادی بھی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروانؒ سے ہوئی تھی۔ (جمہرۃ الانساب ص ۳۶)

سیدنا حسن بن علیؓ کی چوتھی پوتی مروانؓ کے ایک فرزند معاویہؒ بن مروان بن الحکم کے عقد میں آئیں جن کے بطن سے حسنؓ کے اموی نواسہ ولید بن معاویہ متولد ہوئے۔ (جمہرۃ الانساب ص ۸۰، ۱۰۰)

سیدنا حسن بن علیؓ کی پانچویں پوتی حمادہ بنت حسن مثنیٰ مروانؓ کے ایک بھتیجے کے فرزند، اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم کو بیاہی گئی تھیں۔ (جمرۃالانساب ص ۱۰۰)

اسی طرح سیدنا علیؓ کے چھوٹے بیٹے سیدنا حسین ؓ بن علیؓ کی مشہور صاحبزادی سکینہؒ نے اپنے شوہر مصعب بن زبیرؓ کے مقتول ہوجانے کے بعد مروانؓ کے پوتے الاصبغ بن عبدالعزیز بن مروان سے نکاح کیا جو کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے بھائی تھے۔ ان الاصبغ کی دوسری بیوی یزید بن معاویہ ؒ کی بیٹی ام یزیدؒ تھیں ۔ (کتاب نسب قریش ص ۵۹، المعارف ابن قیتبہ ص ۹۴)

سیدنا حسینؓ کی نواسی ربیحہ بنت سکینہ جو ان کے شوہر عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم سے تھیں، مروانؓ کے پڑپوتے العباس بن ولید بن عبدالملک بن مروان کو بیاہی تھیں۔ (کتاب نسب قریش مصعب زبیری ص ۵۹)


یہ ساری رشتہ داریاں بھی یہی ثابت کرتی ہیں کہ سیدنا مروانؓ اور آلِ علیؓ کے درمیان نہایت خوشگوار تعلقات تھے اور آپس میں ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے والی یہ روایات مجروح راویوں کی اختراع کردہ ہیں۔ ایسی ہی روایات کی بابت محدث احناف مُلّا علی قاری حنفی ؒ اپنی کتاب "موضوعات کبیر" صفحہ ۱۰۶ پر لکھتے ہیں :

"روافض نے سیدنا علی ؓ اور اہلبیت کے فضائل میں تین لاکھ کے آس پاس روایتیں وضع کی ہیں۔۔۔ اور انہیں وضعی احادیث میں وہ روایات بھی ہیں جو سیدنا معاویہؓ ، سیدنا عمرو بن العاص ؓ اور بنو امیہ کی مذمت، منصور و سفاح کی مدح میں اور ایسے ہی یزید و ولید مروان بن الحکم ؓکی مذمت میں گھڑی گئی ہیں ۔"

سو مُلّا علی قاریؒ کے اس بیانیے سے ایسی تمام روایات کے حقیقت مبرہن ہوجاتی ہیں جن میں بنو امیہ کی ان شخصیات کا نام لیکر ان پر تبرا پڑھا جاتا ہے اور لعنت کروائی جاتی ہے۔
 
Top