• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا سید محب اللہ شاہ الراشدی اللہ تبارک و تعالی کو زمان سے پاک نہیں سمجتھے ؟؟؟

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ہمارے گرد و پیش بعض ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو بلا توقف کلام کیے جاتے ییں اور سامنے والے کو بات کرنے اور جواب دینے کے لئیے ٹائم (زمان ) نہیں دیتے ۔ مد مقابل انتظار کرتا ہے کہ صاحب کلام کچھ وقت (زمان) کے لئیے توقف کرے تو اس کو کچھ جواب دیا جائے ۔ یہ تو مخلوق کی بات ہوئی ۔ بعض افراد معاذاللہ خالق الکائنات کو بھی مخلوق پر قیاس کر بیٹھتے ہیں اور سمجتھے ہیں جہاں پر اللہ تبارک و تعالی کے جواب کا ذکر آیا ہے تو وہاں پربھی کچھ توقف کرنا چاہئیے تاکہ اللہ تبارک و تعالی کو جواب کا ٹائم (زمان) مل جائے ۔
جبکہ اللہ تبارک و تعالی تو زمان و مکان سے پاک ہے
مثلا ایک حدیث میں آیا ہے
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : قال الله تعالى : ( قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ما سأل ، فإذا قال العبد : الحمد لله رب العالمين ، قال الله تعالى : حمدني عبدي ، وإذا قال : الرحمن الرحيم ، قال الله تعالى : أثنى علي عبدي ، وإذا قال : مالك يوم الدين ، قال : مجدني عبدي ، وقال مرة : فوض إلي عبدي ، فإذا قال : إياك نعبد وإياك نستعين ، قال : هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل ، فإذا قال : اهدنا الصراط المستقيم ، صراط الذين أنعمت عليهم ، غير المغضوب عليهم ولا الضالين ، قال : هذا لعبدي ولعبدي ما سأل ) وفي رواية : ( قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ، فنصفها لي ونصفها لعبدي ) رواه مسلم .
اس حدیث کا مختصر سا مفہوم یوں ہے کہ جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی کہتے ہیں کہ میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی کہتے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی ۔۔۔۔۔ الخ
اب سورہ الفاتحہ پڑھتے ہوئے ہر آیت پر توقف کیا جاتا ہے ۔ اس کی اگر کوئي وجہ یہ بیان کرے کہ یہ توقف اس لئیے کیا جاتا ہے کہ تاکہ اللہ تبارک و تعالی جوابات دیتے جائین تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کو بھی ٹائم (زمان) چاہئیے تاکہ وہ جواب دے سکے (العیاذ باللہ ) اور مذکورہ شخص اللہ تبارک و تعالی کو زمان سے پاک نہیں سمجھتا

اس ساری تمہید کے بعد آپ کو ایک اہل حدیث عالم کا فتوی دکھانا چاہتا ہوں۔ وہ اسی مذکورہ بالا حدیث کے بعد لکھتے ہیں
" ہر آیت کے آخر میں رب تعالی جواب دیتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ " الحمد للہ رب العالمین " کہ کر کچھ توقف کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے علی ھذا القیاس "الرحمن الرحیم " پھر "مالک یوم الدین "
فتاوی راشدیہ از سید محب اللہ شاہ الراشدی ، جلد اول صفحہ 73
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
تلمیذ بھائی حدیث کی صحت پر تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ؟ کیا آپ اس حدیث کو درست مانتے ہیں ؟ سنداً ومتناً ۔۔۔ اگر آپ درست مانتے ہیں تو پھر درست تشریح فرمادیں۔۔ تاکہ آپ کی بات ہمارے سامنے آجائے۔۔۔ جزاکم اللہ
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !

تلمیذ صاحب ، غالبا الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب کی بات نہیں سمجھے

الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب نے ، نمازی کے وقفہ کرنے کی بات کی ہے ، اللہ تعالی کے وقفہ کرنے کی بات نہیں کی ہے ۔

جبکہ نمازی مخلوق ہے ، اور مخلوق کا زمانے کامحتاج ہونے پر ، کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ بھائی حدیث کی صحت پر تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ؟ کیا آپ اس حدیث کو درست مانتے ہیں ؟ سنداً ومتناً ۔۔۔ اگر آپ درست مانتے ہیں تو پھر درست تشریح فرمادیں۔۔ تاکہ آپ کی بات ہمارے سامنے آجائے۔۔۔ جزاکم اللہ
نہ اس حدیث کی سند ہمارے اور آپ ک بیچ مختلف فیہ نہ اس کا متن اور نہ ہی میں اس کی تشریح پر اعتراض کر رہا ہوں اور نہ میں نے اس حدیث کی تشریح کا موضوع چھیڑا ہے تو پھر خوامخواہ متفقہ امور اور غیر متعلق امور پر بات کرنے کا کیا فائدہ ۔ میرا اعتراض اس نتیجہ پر ہے جس پر راشدی صاحب پہنچے کہ نماز میں سورہ الفاتحہ کی ہر آیت میں وقف اس لئیے کیا جائے گا تاکہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے جواب ہوتا جائے اگر آپ اس نتیجے سے متفق ہیں تو بتادیں اور اس کو صحیح ثابت کریں ورنہ غیر متعلق امور پر بات چیت قطعا مفید نہیں

اسلام علیکم !

تلمیذ صاحب ، غالبا الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب کی بات نہیں سمجھے

الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب نے ، نمازی کے وقفہ کرنے کی بات کی ہے ، اللہ تعالی کے وقفہ کرنے کی بات نہیں کی ہے ۔

جبکہ نمازی مخلوق ہے ، اور مخلوق کا زمانے کامحتاج ہونے پر ، کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔
وعلیکم السلام
بالکل راشدی صاحب نے نمازی کے وفقہ کی بات ہے لیکن اس کی وجہ یہ بیان کی ہے ہر آیت کے آخر میں رب تعالی جواب دیتا ہے تو اس کا جواب ہوتا جائے
میں بھی یہی کہ رہا ہوں کہ راشدی صاحب نے نمازی کے وقفہ کی بات ہے لیکن اعتراض نمازی کے وقفہ پر نہیں اعتراض اس وجہ پر ہے جو اس وقفہ کو ثابت کرنے لئیے راشدی صاحب نے بیان کیا ہے ۔ کیا اللہ تبارک و تعالی جواب دینے کے لئیے ہمارے وقفہ کا محتاج ہے ؟؟؟
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
السلام علیکم !

اللہ تعالی جواب دینے کے لیے ، وقفہ کا محتاج نہیں ہے ، بلکہ نمازی جواب سننے کے لیے ، وقفہ کا محتاج ہے ، اسی لیے الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب نے نمازی کے وقفہ کی بات کی ہے ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
نہ اس حدیث کی سند ہمارے اور آپ ک بیچ مختلف فیہ نہ اس کا متن اور نہ ہی میں اس کی تشریح پر اعتراض کر رہا ہوں اور نہ میں نے اس حدیث کی تشریح کا موضوع چھیڑا ہے تو پھر خوامخواہ متفقہ امور اور غیر متعلق امور پر بات کرنے کا کیا فائدہ ۔
حدیث کی سند، حدیث کا متن اور واضح ہونے والی تشریح جب آپ کی طرف سے ہماری سامنے تھی ہی نہیں ، تو پھر کیسے کہا جاتا یا سمجھ لیا جاتا کہ آپ بھی اس حدیث کو اور اس سے واضح تشریح کو مانتے ہیں۔؟ یا متفقہ امور ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سوال کا مقصود یہ تھا کہ اگر آپ کی طرف سے بذاتہ حدیث پر، اس کی سند پر کوئی اعتراض ہے تو سامنے لایا جائے۔۔ اب ہمارے سامنے آپ کی بات آچکی ہے کہ آپ اس حدیث کو بحیثہ مانتے ہیں۔۔جزاک اللہ

جب ہم اس نتیجہ تک پہنچ چکے ہیں کہ یہ حدیث آپ کے ہاں اور ہمارے ہاں حجت ہے، تو پھر آپ مجھے بتائیں کہ کیا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہورہا کہ جب بندہ نماز میں الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواباً حمدنی ربی کہتے ہیں۔؟۔۔علی ہذا القیاس۔
یقیناً آپ میری اس بات سے بھی متفق ہونگے۔۔۔ اور مزید آپ ان الفاظ قسمت اور نصفین پر غور کریں۔۔ان دونوں کی وضاحت یہ الفاظ ’’ قال العبد : الحمد لله رب العالمين ، قال الله تعالى : حمدني عبدي ‘‘ کررہے ہیں، کہ کیسے تقسیم کی گئی ہے۔ اور کیسے اللہ اور بندہ کے درمیان نصفین نصفین ہے۔۔۔
یقیناً آپ میری اس بات سے بھی متفق ہونگے۔۔۔کہ جب بندہ الحمدللہ رب العالمین کہہ لیتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ جواباً حمدنی عبدی کہتے ہیں۔۔۔آپ اس نقطہ کو ’’ یعنی بندے کا کہہ لینا اور پھر اللہ تعالیٰ کا کہنا ‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ زمان اس حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟
دو باتیں ہیں قابل محترم
1۔ زمان کا پایا جانا۔۔( جو اس حدیث سے ثابت ہے، اور یقیناً آپ تسلیم بھی کرتے ہونگے۔ اور اس زمان کو اللہ تعالیٰ نے خود شامل کیا ہے۔)
2۔ زمان کا محتاج ہونا۔۔۔( یہ بات نہ اس حدیث سے ثابت ہے اور نہ دیگر دلائل وغیرہ سے)
محترم بھائی یہاں زمان تو پایا جارہا ہے، اور وہ حدیث سے ثابت بھی ہے لیکن یہاں سے یہ تو قطعاً ثابت نہیں ہورہا کہ اللہ تعالیٰ زمان کے محتاج ہیں۔۔۔ہم نص کے مکلف ہیں، نص جب زمان کے پائے جانے کی طرف اشارہ کررہی ہے، تو پھر ایک اور اضافی بات کو اس کے ساتھ جوڑ کر اعتراض کھڑا کردینا چہ معنی ؟

میرا اعتراض اس نتیجہ پر ہے جس پر راشدی صاحب پہنچے کہ نماز میں سورہ الفاتحہ کی ہر آیت میں وقف اس لئیے کیا جائے گا تاکہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے جواب ہوتا جائے اگر آپ اس نتیجے سے متفق ہیں تو بتادیں اور اس کو صحیح ثابت کریں ورنہ غیر متعلق امور پر بات چیت قطعا مفید نہیں
آپ نے راشدی صاحب رحمہ اللہ کے ان الفاظ ’’ اس سے معلوم ہوا کہ " الحمد للہ رب العالمین " کہ کر کچھ توقف کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے ‘‘ پر یہ اعتراض کیا ہے، کہ راشدی صاحب یہاں سے شاید اللہ تعالیٰ کو زمانے کا محتاج ثابت کررہے ہیں۔۔۔آپ کے اس نقطہ پر بات کرنے سے پہلے مناسب عمل یہی ہے کہ راشدی صاحب رحمہ اللہ کی طرف سے دیا جانے والا سوال کا جواب مکمل یہاں نقل کردیا جائے۔۔۔
’’ سوال یہ تھا کہ قرآن مجید کی ہر آیت کے آخر میں ایک گول نشان (0) درج ہوتا ہے کیا وہاں پر وقف کرنا لازم ہے یا پھر مروجہ طریقہ یعنی ’’ لا۔ط۔م۔ک ‘‘ وغیرہ جنہیں رموز القرآن کے نام سے موسوم کرتے ہیں پر وقف کیا جائے۔ نیز وقف کی تفصیل واضح فرمائیں؟
الجواب بعون الوہاب: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات کے اختتام پر گول نشانوں پر وقف کیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم ( کتاب الصلاۃ باب وجوب القراۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، رقم الحدیث878) میں سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : قال الله تعالى : ( قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ما سأل ، فإذا قال العبد : الحمد لله رب العالمين ، قال الله تعالى : حمدني عبدي ، وإذا قال : الرحمن الرحيم ، قال الله تعالى : أثنى علي عبدي ، وإذا قال : مالك يوم الدين ، قال : مجدني عبدي ، وقال مرة : فوض إلي عبدي ، فإذا قال : إياك نعبد وإياك نستعين ، قال : هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل ، فإذا قال : اهدنا الصراط المستقيم ، صراط الذين أنعمت عليهم ، غير المغضوب عليهم ولا الضالين ، قال : هذا لعبدي ولعبدي ما سأل ) وفي رواية : ( قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ، فنصفها لي ونصفها لعبدي ) رواه مسلم .
ہر آیت کے آخر میں رب تعالیٰ جواب دیتا ہے، اس سے معلوم ہو کہ الحمد للہ رب العالمین کہہ کر کچھ توفق کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے۔ علی ہذا القیاس الرحمن الرحیم پھر مالک یوم الدین اور اس کے بعد ایاک نعبد وایاک نستعین۔۔الخ اسی طرح احادیث میں یہ بیان بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت پڑھنے کے بعد کچھ وقف فرماتے تھے، اور پھر دوسری آیت پڑھتے تھے۔ باقی یہ رموز القرآن یا اوقاف وغیرہا کا ثبوت حدیث شریف میں نہیں ملتا۔
لہذا ان پر عمل کرنے کو لازم یا مندوب ومستحب قرار نہیں دیا جاسکتا، ۔ ۔۔۔۔الخ۔۔‘‘
اس جواب میں راشدی صاحب نے دو باتیں یہ بھی لکھی ہیں کہ
1۔ الحمد للہ رب العالمین کہہ کر کچھ توفق کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے۔۔۔(یہ توجیہ، وضاحت، قیاس، فوائد، تشریح یا مسئلہ وغیرہ راشدی صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ساتھ ان احادیث کی روشنی میں لکھا ہے۔ جن میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیات پر وقف کیا کرتے تھے۔۔راشدی صاحب رحمہ اللہ نے ایک توجیہ بیان کی ہے، اس توجیہ سے آپ یہ نہیں ثابت کرسکتے کہ راشدی صاحب رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کو زمانی محتاج تسلیم کرتے ہیں۔(نعوذ باللہ) یہ عالمانہ توجیہ ہے، اور پھر اس توجیہ کا ثبوت بھی نصوص سے ثابت ہے۔)
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت پڑھنے کے بعد کچھ وقف فرماتے تھے، اور پھر دوسری آیت پڑھتے تھے۔۔(آپ نے راشدی صاحب کی اس عبارت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس سےمتفق ہیں، تو یہاں سے یہ ثابت ہوگیا کہ آیات کے اختتام پر وقف کرنا چاہیے۔۔)
آیات پر وقف کرنا دوسرے پوائنٹ سے ثابت ہوگیا اور راشدی صاحب رحمہ اللہ نے جو توجیہ، وضاحت، قیاس، فائدہ وغیرہ بیان فرمایا ہے۔۔ وہ اس حدیث سے ثابت ہے۔۔۔ اور پھر راشدی صاحب کے ان الفاظ ’’ اس سے معلوم ہوا ‘‘ پر بھی غور کریں۔۔۔اللہ سمجھنے کی توفیق دے۔۔آمین

جناب والا یہ علماء کی توجیہات ہیں،تشریحات ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور علماء کی توجیہات کو ماننا ہر کسی پر لازم نہیں۔۔۔ اگر آپ کو درست لگے تو مان لو اور اگر نہ درست لگے تو چھوڑ دو۔۔۔


گزارش:
جناب گزارش یہ ہے کہ حدیث میں قرآنی آیات میں توقف کا حکم ہے، اور زیر بحث حدیث کے ساتھ توفق والی احادیث کو سامنے رکھ کر راشدی صاحب رحمہ اللہ نےجو نتیجہ نکالا ہے، وہ قرین قیاس ہے۔۔۔شاید آپ نے غور سے ان کی تحریر کو نہیں پڑھا۔۔کیونکہ وہ دونوں حدیثیوں کے نتیجہ کی بات کررہے ہیں۔۔
لہذا آپ کا اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے لیے زمان مقرر کرکے اور پھر اللہ کا زمانی محتاج بنانا خود ساختہ اعتراض ہے۔۔۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس جرات کی وجہ سے آپ اللہ کی پکڑ میں نہ آجائیں۔۔۔کیونکہ ہم ذخائر حدیث کو کھنگالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سارے ایسے معاملات ہیں ۔۔ کہ جن میں اگر آپ کی تھیوری مان لی جائے تو یہی زمانی محتاجی مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ پر چسپاں کی جاسکتی ہے ( نعوذباللہ) اور ان معاملات کو آج تک امت مثبت انداز می مانتی آرہی ہے ۔۔۔مثلاً
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پیشین گوئیاں کہ جن کے پورے ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ قیامت برپا کریں گے۔۔۔کیا یہاں پر اللہ تعالیٰ ان پیشین گوئیوں کا محتاج نہیں؟ اور کیا یہ پیشین گوئیاں وقت/زمان کی محتاج نہیں؟۔۔نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ پیشین گوئیوں کی وجہ سے زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
اسی طرح قیامت کے دن جب تک بندہ نماز کا جواب نہیں دے لے گا اگلا حساب شروع نہیں ہوگا۔۔یہاں پر اللہ تعالیٰ اگلا حساب لینے کےلیے نماز کے حساب کے محتاج نہیں؟۔۔۔اور نماز کا حساب دینا زمانے کا محتاج ہونا ہے۔۔۔ نتیجہ نکلا یہاں بھی اللہ تعالیٰ زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
اسی طرح حساب وکتاب شروع ہونے کی کیفیت کو اگر دیکھیں تو تمام امتیں اپنے اپنے نبیوں کے پاس جائیں گے تو اللہ تعالی ٰا س وقت تک حساب شروع نہیں کریں گے جب تک آپ صلی اللہ کے متعلق وارد شدہ حالات واقع نہیں ہو جائیں گے۔۔ تو کیا یہاں پر حساب وکتاب شروع کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے/دعا وغیرہ کا محتاج نہیں۔۔۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا خود زمانے کی محتاج ہے۔۔ نتیجہ نکلا اللہ تعالیٰ زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
جناب ایسی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ جن پر پوری امت کا ایمان بھی ہے اور اجماع بھی ۔۔۔ تو کیا خیال ہے کہ مذکورہ بالا مثالوں میں اللہ تعالیٰ دوسرے عمل کے وقوع کےلیے پہلے عمل کے ختم ہونے کے انتظار نہیں کررہے۔۔ ؟ کیا یہ وقت نہیں؟ کیا یہ زمان نہیں .؟


اور پھر تفصیل سے بات سمجھانے کی میں نے کوشش کی ہے لیکن ہارون بھائی نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے کہ
اللہ تعالی جواب دینے کے لیے ، وقفہ کا محتاج نہیں ہے، بلکہ نمازی جواب سننے کے لیے ، وقفہ کا محتاج ہے ، اسی لیے الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب نے نمازی کے وقفہ کی بات کی ہے ۔
اگر ہارون بھائی کے اس جواب کو میں اپنا جواب لکھنے سے پہلے دیکھ لیتا تو پھر اسی کو ہی کافی سمجھتا۔۔۔۔جزاکم اللہ خیرا ہارون بھائی
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السلام علیکم !

اللہ تعالی جواب دینے کے لیے ، وقفہ کا محتاج نہیں ہے ، بلکہ نمازی جواب سننے کے لیے ، وقفہ کا محتاج ہے ، اسی لیے الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب نے نمازی کے وقفہ کی بات کی ہے ۔
کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں یہ وقف اس لئیے کہ نمازی اللہ تبارک و تعالی کا جواب سن سکے اور راشدی صاحب کا بھی یہ مطلب ہے تو یہ توجیہ دو وجوہ سے غلط ہے ۔
اولا
راشدی صاحب کہتے ہیں
کچھ توقف کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے
انہوں نے یہ نہیں کہا کہ تاکہ جواب سنتا جائے بلکہ جواب کے وقوع کی بات ہے اور وہ وقوع من جانب اللہ ہے
ثانیا
کیا آپ اپنے علماء کے حوالہ جات سے دکھا سکتے ہیں کہ ایک نمازی اللہ تعالی کے ان جوابات کو سنتا بھی ہے


حدیث کی سند، حدیث کا متن اور واضح ہونے والی تشریح جب آپ کی طرف سے ہماری سامنے تھی ہی نہیں ، تو پھر کیسے کہا جاتا یا سمجھ لیا جاتا کہ آپ بھی اس حدیث کو اور اس سے واضح تشریح کو مانتے ہیں۔؟ یا متفقہ امور ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سوال کا مقصود یہ تھا کہ اگر آپ کی طرف سے بذاتہ حدیث پر، اس کی سند پر کوئی اعتراض ہے تو سامنے لایا جائے۔۔ اب ہمارے سامنے آپ کی بات آچکی ہے کہ آپ اس حدیث کو بحیثہ مانتے ہیں۔۔جزاک اللہ
آپ نے غیر متعلق امور پھر چھیڑنے کی کوشش کی۔
1- میں مذکورہ حدیث کی سند پر کوئي اعتراض نہیں کر رہا
2- میں مذکورہ حدیث کی متن پر کوئی اعتراض نہیں کر رہا
3- میرا یقین ہے جب بندہ الحمدللہ رب العالمین کہتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ جواباً حمدنی عبدی کہتے ہیں
4 میں ہر آیت پر توقف کا قائل ہوں

یہ تمام امور متفقہ ہیں براہ مہربانی ان کو نہ چھیڑیں
احتلافی امر
ہر آیت پر توقف اس لئيے ہے کہ جوں کہ اللہ تبارک و تعالی ہر آیت پر جواب دیتے ہیں تو توقف کرنا چاہئیے تاکہ جواب ہوتا جائے

یقیناً آپ میری اس بات سے بھی متفق ہونگے۔۔۔کہ جب بندہ الحمدللہ رب العالمین کہہ لیتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ جواباً حمدنی عبدی کہتے ہیں۔۔۔آپ اس نقطہ کو ’’ یعنی بندے کا کہہ لینا اور پھر اللہ تعالیٰ کا کہنا ‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ زمان اس حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟
زمان اس حدیث سے ثابت ہے لیکن اللہ تبارک و تعالی کے لئیے نہیں کیوں کہ اللہ تبارک و تعالی تو نمازی کے بغیر توقف کے جواب دینے پر قادر ہے ۔
کیا آپ اللہ تبارک و تعالی کے لئیے زمان کے قائل ہیں یعنی اللہ تبارک و تعالی کو زمان سے پاک نہیں سمجھتے ؟

محترم بھائی یہاں زمان تو پایا جارہا ہے، اور وہ حدیث سے ثابت بھی ہے لیکن یہاں سے یہ تو قطعاً ثابت نہیں ہورہا کہ اللہ تعالیٰ زمان کے محتاج ہیں۔۔۔ہم نص کے مکلف ہیں، نص جب زمان کے پائے جانے کی طرف اشارہ کررہی ہے، تو پھر ایک اور اضافی بات کو اس کے ساتھ جوڑ کر اعتراض کھڑا کردینا چہ معنی ؟
زمان تو پایا جارہا ہے لیکن اللہ کے لئیے نہیں
پہلے آپ کھل کر بتائيں کیا اللہ تبارک و تعالی زمان و جہت سے پاک ہے یا نہیں ۔


الحمد للہ رب العالمین کہہ کر کچھ توفق کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے۔۔۔(یہ توجیہ، وضاحت، قیاس، فوائد، تشریح یا مسئلہ وغیرہ راشدی صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ساتھ ان احادیث کی روشنی میں لکھا ہے۔ جن میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیات پر وقف کیا کرتے تھے۔۔راشدی صاحب رحمہ اللہ نے ایک توجیہ بیان کی ہے، اس توجیہ سے آپ یہ نہیں ثابت کرسکتے کہ راشدی صاحب رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کو زمانی محتاج تسلیم کرتے ہیں۔(نعوذ باللہ) یہ عالمانہ توجیہ ہے، اور پھر اس توجیہ کا ثبوت بھی نصوص سے ثابت ہے۔)
اولا
آپ کو ثابت کرنا ہے کہ اس توقف کی وجہ اس لئیے ہے کہ اللہ کی طرف سے جواب ہوتا جائے کیوں کہ آپ کہ رہے ہیں کہ اس توجیہ کا ثبوت نصوص سے ہے
ثانیا
اگر کوئی توقف نہیں کرتا تو کیا اللہ تبارک و تعالی جواب نہ دیں گے ۔ آکر دیں گے تو اس وجہ سے توقف کرنا چہ معنی دارد ؟

آگے آپ نے میری تھیوری مان کر کچھ غلط نتائج کشید کیے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پیشین گوئیاں کہ جن کے پورے ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ قیامت برپا کریں گے۔۔۔کیا یہاں پر اللہ تعالیٰ ان پیشین گوئیوں کا محتاج نہیں؟ اور کیا یہ پیشین گوئیاں وقت/زمان کی محتاج نہیں؟۔۔نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ پیشین گوئیوں کی وجہ سے زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
چوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے فلاں فلاں نشانیوں کے بعد قیامت آئے گي تو ہمارا بھی ایمان ہے کہ ان نشانیوں کے بعد قیامت آئے گي اللہ تبارک و تعالی ان نشانیوں کا محتاج نہیں لیکن ان کی خبر چون کہ خاتم الانبیاء نے دی ہے اس لئيے ہمارا ایمان ہے کہ ایسا ہی ہوگا ۔
اب ہر آیت پر توقف کرنا حدیث سے ثابت ہے اور اللہ تبارک و تعالی کا جواب دینا بھی ثابت ہے تو ہمارا اس پر ایمان ہے لیکن اس کی وجہ جو راشدی صاجب نے بیان کی ہے اس وجہ کا ثبوت کہیں سے بھی نہیں بلکہ وہ ان کی صریح خطا ہے اس پر بالکل اعتراض کیا جائے گآ
اسی پر باقی دو مثالوں کے جواب کو قیاس کرلیں
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
اب چونکہ بات دوسے زیادہ افراد کے درمیان چل نکلی ہے اس لیے اب میرے لیے وجہ جواز ہے:
گزارش:
جناب گزارش یہ ہے کہ حدیث میں قرآنی آیات میں توقف کا حکم ہے، اور زیر بحث حدیث کے ساتھ توفق والی احادیث کو سامنے رکھ کر راشدی صاحب رحمہ اللہ نےجو نتیجہ نکالا ہے، وہ قرین قیاس ہے۔۔۔شاید آپ نے غور سے ان کی تحریر کو نہیں پڑھا۔۔کیونکہ وہ دونوں حدیثیوں کے نتیجہ کی بات کررہے ہیں۔۔
لہذا آپ کا اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے لیے زمان مقرر کرکے اور پھر اللہ کا زمانی محتاج بنانا خود ساختہ اعتراض ہے۔۔۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس جرات کی وجہ سے آپ اللہ کی پکڑ میں نہ آجائیں۔۔۔کیونکہ ہم ذخائر حدیث کو کھنگالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سارے ایسے معاملات ہیں ۔۔ کہ جن میں اگر آپ کی تھیوری مان لی جائے تو یہی زمانی محتاجی مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ پر چسپاں کی جاسکتی ہے ( نعوذباللہ) اور ان معاملات کو آج تک امت مثبت انداز می مانتی آرہی ہے ۔۔۔مثلاً
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پیشین گوئیاں کہ جن کے پورے ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ قیامت برپا کریں گے۔۔۔کیا یہاں پر اللہ تعالیٰ ان پیشین گوئیوں کا محتاج نہیں؟ اور کیا یہ پیشین گوئیاں وقت/زمان کی محتاج نہیں؟۔۔نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ پیشین گوئیوں کی وجہ سے زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
اسی طرح قیامت کے دن جب تک بندہ نماز کا جواب نہیں دے لے گا اگلا حساب شروع نہیں ہوگا۔۔یہاں پر اللہ تعالیٰ اگلا حساب لینے کےلیے نماز کے حساب کے محتاج نہیں؟۔۔۔اور نماز کا حساب دینا زمانے کا محتاج ہونا ہے۔۔۔ نتیجہ نکلا یہاں بھی اللہ تعالیٰ زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
اسی طرح حساب وکتاب شروع ہونے کی کیفیت کو اگر دیکھیں تو تمام امتیں اپنے اپنے نبیوں کے پاس جائیں گے تو اللہ تعالی ٰا س وقت تک حساب شروع نہیں کریں گے جب تک آپ صلی اللہ کے متعلق وارد شدہ حالات واقع نہیں ہو جائیں گے۔۔ تو کیا یہاں پر حساب وکتاب شروع کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے/دعا وغیرہ کا محتاج نہیں۔۔۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا خود زمانے کی محتاج ہے۔۔ نتیجہ نکلا اللہ تعالیٰ زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
جناب ایسی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ جن پر پوری امت کا ایمان بھی ہے اور اجماع بھی ۔۔۔ تو کیا خیال ہے کہ مذکورہ بالا مثالوں میں اللہ تعالیٰ دوسرے عمل کے وقوع کےلیے پہلے عمل کے ختم ہونے کے انتظار نہیں کررہے۔۔ ؟ کیا یہ وقت نہیں؟ کیا یہ زمان نہیں .؟
اور پھر تفصیل سے بات سمجھانے کی میں نے کوشش کی ہے لیکن ہارون بھائی نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے کہ
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: ھارون عبداللہ پیغام دیکھیے
اللہ تعالی جواب دینے کے لیے ، وقفہ کا محتاج نہیں ہے، بلکہ نمازی جواب سننے کے لیے ، وقفہ کا محتاج ہے ، اسی لیے الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب نے نمازی کے وقفہ کی بات کی ہے ۔
اگر ہارون بھائی کے اس جواب کو میں اپنا جواب لکھنے سے پہلے دیکھ لیتا تو پھر اسی کو ہی کافی سمجھتا۔۔۔۔جزاکم اللہ خیرا ہارون بھائی
عرض ہے
راشدی صاحب رحمہ اللہ کا مذکورہ استدلال بجائے خود محل نظر ہے اور یہ ان کا خود کا قیاس اور رائے ہے
قرآن پاک کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا’’ ورتل القرآن ترتیلا ‘‘ کے تحت آتا ہے نہ کہ الحمد کی آیات کو جواب ربانی کی وجہ سے توقف کرنا
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے
سئل علي بن أبي طالب - رضي الله عنه - عن هذه الآية ، ورتل القرآن ترتیلاً فقال :
الترتيل هو تجويد الحروف ، ومعرفة الوقوف .

ترتیل کہتے ہیں :حروف کو مجود پڑھنا اور وقوف کی معرفت حاصل ہونا
اور یہ آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کا قرین قیاس ہے:
راشدی صاحب رحمہ اللہ نےجو نتیجہ نکالا ہے، وہ قرین قیاس ہے
اور رہا قیامت کا معاملہ
آسمان اور زمین کے معاملات دو نوں جداگانہ ہیں
البتہ مذکورہ حدیث سے ایک بات یہ ثابت ہورہی ہے جب بندہ سورہ فاتحہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بندے سے قریب ہوتےہیں اور اس کا جوب دیتے ہیں اور بھی کئی باتیں ثابت ہورہی ہیں ان کو یہاں ذکرنا موضوع کا رخ موڑنا ہے۔
اور یہ قیاس کہ ہر آیت کے بعد توقف کرنا تاکہ اللہ تعالیٰ جواب پورا کرلیں مناسب نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو جواب اس کے علاوہ بھی دیتے ہیں اور صالح بندوں کا ذکر خیر بھی کرتے ہیں اور بندے کو خبر بھی نہیں ہوتی۔جوب دینا نہ دینا یہ اللہ کا کام ہے بندے کا کام تو بندگی ہے اس کو تلاوت میں تحسین پیدا کرنے حکم ہے
دنیاوی مثال لیجئے ایک قاری تلاوت کرتے ہیں اور سامعین سبحان اللہ وغیرہ کی تکرار کرتے ہیں اس سے قاری ڈسٹرب نہیں ہوتا اس لیے کجا قاری اور کہاں اللہ تعالی
 
Top