نہ اس حدیث کی سند ہمارے اور آپ ک بیچ مختلف فیہ نہ اس کا متن اور نہ ہی میں اس کی تشریح پر اعتراض کر رہا ہوں اور نہ میں نے اس حدیث کی تشریح کا موضوع چھیڑا ہے تو پھر خوامخواہ متفقہ امور اور غیر متعلق امور پر بات کرنے کا کیا فائدہ ۔
حدیث کی سند، حدیث کا متن اور واضح ہونے والی تشریح جب آپ کی طرف سے ہماری سامنے تھی ہی نہیں ، تو پھر کیسے کہا جاتا یا سمجھ لیا جاتا کہ آپ بھی اس حدیث کو اور اس سے واضح تشریح کو مانتے ہیں۔؟ یا متفقہ امور ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سوال کا مقصود یہ تھا کہ اگر آپ کی طرف سے بذاتہ حدیث پر، اس کی سند پر کوئی اعتراض ہے تو سامنے لایا جائے۔۔ اب ہمارے سامنے آپ کی بات آچکی ہے کہ آپ اس حدیث کو بحیثہ مانتے ہیں۔۔جزاک اللہ
جب ہم اس نتیجہ تک پہنچ چکے ہیں کہ یہ حدیث آپ کے ہاں اور ہمارے ہاں حجت ہے، تو پھر آپ مجھے بتائیں کہ کیا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہورہا کہ جب بندہ نماز میں الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواباً حمدنی ربی کہتے ہیں۔؟۔۔علی ہذا القیاس۔
یقیناً آپ میری اس بات سے بھی متفق ہونگے۔۔۔ اور مزید آپ ان الفاظ قسمت اور نصفین پر غور کریں۔۔ان دونوں کی وضاحت یہ الفاظ
’’ قال العبد : الحمد لله رب العالمين ، قال الله تعالى : حمدني عبدي ‘‘ کررہے ہیں، کہ کیسے تقسیم کی گئی ہے۔ اور کیسے اللہ اور بندہ کے درمیان نصفین نصفین ہے۔۔۔
یقیناً آپ میری اس بات سے بھی متفق ہونگے۔۔۔کہ جب بندہ الحمدللہ رب العالمین کہہ لیتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ جواباً حمدنی عبدی کہتے ہیں۔۔۔آپ اس نقطہ کو
’’ یعنی بندے کا کہہ لینا اور پھر اللہ تعالیٰ کا کہنا ‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ
زمان اس حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟
دو باتیں ہیں قابل محترم
1۔ زمان کا پایا جانا۔۔( جو اس حدیث سے ثابت ہے، اور یقیناً آپ تسلیم بھی کرتے ہونگے۔ اور اس زمان کو اللہ تعالیٰ نے خود شامل کیا ہے۔)
2۔ زمان کا محتاج ہونا۔۔۔( یہ بات نہ اس حدیث سے ثابت ہے اور نہ دیگر دلائل وغیرہ سے)
محترم بھائی یہاں زمان تو پایا جارہا ہے، اور وہ حدیث سے ثابت بھی ہے لیکن یہاں سے یہ تو قطعاً ثابت نہیں ہورہا کہ اللہ تعالیٰ زمان کے محتاج ہیں۔۔۔ہم نص کے مکلف ہیں، نص جب زمان کے پائے جانے کی طرف اشارہ کررہی ہے، تو پھر ایک اور اضافی بات کو اس کے ساتھ جوڑ کر اعتراض کھڑا کردینا چہ معنی ؟
میرا اعتراض اس نتیجہ پر ہے جس پر راشدی صاحب پہنچے کہ نماز میں سورہ الفاتحہ کی ہر آیت میں وقف اس لئیے کیا جائے گا تاکہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے جواب ہوتا جائے اگر آپ اس نتیجے سے متفق ہیں تو بتادیں اور اس کو صحیح ثابت کریں ورنہ غیر متعلق امور پر بات چیت قطعا مفید نہیں
آپ نے راشدی صاحب رحمہ اللہ کے ان الفاظ
’’ اس سے معلوم ہوا کہ " الحمد للہ رب العالمین " کہ کر کچھ توقف کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے ‘‘ پر یہ اعتراض کیا ہے، کہ راشدی صاحب یہاں سے شاید اللہ تعالیٰ کو زمانے کا محتاج ثابت کررہے ہیں۔۔۔آپ کے اس نقطہ پر بات کرنے سے پہلے مناسب عمل یہی ہے کہ راشدی صاحب رحمہ اللہ کی طرف سے دیا جانے والا سوال کا جواب مکمل یہاں نقل کردیا جائے۔۔۔
’’ سوال یہ تھا کہ قرآن مجید کی ہر آیت کے آخر میں ایک گول نشان (0) درج ہوتا ہے کیا وہاں پر وقف کرنا لازم ہے یا پھر مروجہ طریقہ یعنی ’’ لا۔ط۔م۔ک ‘‘ وغیرہ جنہیں رموز القرآن کے نام سے موسوم کرتے ہیں پر وقف کیا جائے۔ نیز وقف کی تفصیل واضح فرمائیں؟
الجواب بعون الوہاب: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات کے اختتام پر گول نشانوں پر وقف کیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم ( کتاب الصلاۃ باب وجوب القراۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، رقم الحدیث878) میں سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : قال الله تعالى : ( قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ما سأل ، فإذا قال العبد : الحمد لله رب العالمين ، قال الله تعالى : حمدني عبدي ، وإذا قال : الرحمن الرحيم ، قال الله تعالى : أثنى علي عبدي ، وإذا قال : مالك يوم الدين ، قال : مجدني عبدي ، وقال مرة : فوض إلي عبدي ، فإذا قال : إياك نعبد وإياك نستعين ، قال : هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل ، فإذا قال : اهدنا الصراط المستقيم ، صراط الذين أنعمت عليهم ، غير المغضوب عليهم ولا الضالين ، قال : هذا لعبدي ولعبدي ما سأل ) وفي رواية : ( قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ، فنصفها لي ونصفها لعبدي ) رواه مسلم .
ہر آیت کے آخر میں رب تعالیٰ جواب دیتا ہے، اس سے معلوم ہو کہ الحمد للہ رب العالمین کہہ کر کچھ توفق کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے۔ علی ہذا القیاس الرحمن الرحیم پھر مالک یوم الدین اور اس کے بعد ایاک نعبد وایاک نستعین۔۔الخ اسی طرح احادیث میں یہ بیان بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت پڑھنے کے بعد کچھ وقف فرماتے تھے، اور پھر دوسری آیت پڑھتے تھے۔ باقی یہ رموز القرآن یا اوقاف وغیرہا کا ثبوت حدیث شریف میں نہیں ملتا۔
لہذا ان پر عمل کرنے کو لازم یا مندوب ومستحب قرار نہیں دیا جاسکتا، ۔ ۔۔۔۔الخ۔۔‘‘
اس جواب میں راشدی صاحب نے دو باتیں یہ بھی لکھی ہیں کہ
1۔ الحمد للہ رب العالمین کہہ کر کچھ توفق کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے۔۔۔(یہ توجیہ، وضاحت، قیاس، فوائد، تشریح یا مسئلہ وغیرہ راشدی صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ساتھ ان احادیث کی روشنی میں لکھا ہے۔ جن میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیات پر وقف کیا کرتے تھے۔۔راشدی صاحب رحمہ اللہ نے ایک توجیہ بیان کی ہے، اس توجیہ سے آپ یہ نہیں ثابت کرسکتے کہ راشدی صاحب رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کو زمانی محتاج تسلیم کرتے ہیں۔(نعوذ باللہ) یہ عالمانہ توجیہ ہے، اور پھر اس توجیہ کا ثبوت بھی نصوص سے ثابت ہے۔)
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت پڑھنے کے بعد کچھ وقف فرماتے تھے، اور پھر دوسری آیت پڑھتے تھے۔۔(آپ نے راشدی صاحب کی اس عبارت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس سےمتفق ہیں، تو یہاں سے یہ ثابت ہوگیا کہ آیات کے اختتام پر وقف کرنا چاہیے۔۔)
آیات پر وقف کرنا دوسرے پوائنٹ سے ثابت ہوگیا اور راشدی صاحب رحمہ اللہ نے جو توجیہ، وضاحت، قیاس، فائدہ وغیرہ بیان فرمایا ہے۔۔ وہ اس حدیث سے ثابت ہے۔۔۔ اور پھر راشدی صاحب کے ان الفاظ ’’ اس سے معلوم ہوا ‘‘ پر بھی غور کریں۔۔۔اللہ سمجھنے کی توفیق دے۔۔آمین
جناب والا یہ علماء کی توجیہات ہیں،تشریحات ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور علماء کی توجیہات کو ماننا ہر کسی پر لازم نہیں۔۔۔ اگر آپ کو درست لگے تو مان لو اور اگر نہ درست لگے تو چھوڑ دو۔۔۔
گزارش:
جناب گزارش یہ ہے کہ حدیث میں قرآنی آیات میں توقف کا حکم ہے، اور زیر بحث حدیث کے ساتھ توفق والی احادیث کو سامنے رکھ کر راشدی صاحب رحمہ اللہ نےجو نتیجہ نکالا ہے، وہ قرین قیاس ہے۔۔۔شاید آپ نے غور سے ان کی تحریر کو نہیں پڑھا۔۔کیونکہ وہ دونوں حدیثیوں کے نتیجہ کی بات کررہے ہیں۔۔
لہذا آپ کا اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے لیے زمان مقرر کرکے اور پھر اللہ کا زمانی محتاج بنانا خود ساختہ اعتراض ہے۔۔۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس جرات کی وجہ سے آپ اللہ کی پکڑ میں نہ آجائیں۔۔۔کیونکہ ہم ذخائر حدیث کو کھنگالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سارے ایسے معاملات ہیں ۔۔ کہ جن میں اگر آپ کی تھیوری مان لی جائے تو یہی زمانی محتاجی مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ پر چسپاں کی جاسکتی ہے ( نعوذباللہ) اور ان معاملات کو آج تک امت مثبت انداز می مانتی آرہی ہے ۔۔۔مثلاً
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پیشین گوئیاں کہ جن کے پورے ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ قیامت برپا کریں گے۔۔۔کیا یہاں پر اللہ تعالیٰ ان پیشین گوئیوں کا محتاج نہیں؟ اور کیا یہ پیشین گوئیاں وقت/زمان کی محتاج نہیں؟۔۔نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ پیشین گوئیوں کی وجہ سے زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
اسی طرح قیامت کے دن جب تک بندہ نماز کا جواب نہیں دے لے گا اگلا حساب شروع نہیں ہوگا۔۔یہاں پر اللہ تعالیٰ اگلا حساب لینے کےلیے نماز کے حساب کے محتاج نہیں؟۔۔۔اور نماز کا حساب دینا زمانے کا محتاج ہونا ہے۔۔۔ نتیجہ نکلا یہاں بھی اللہ تعالیٰ زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
اسی طرح حساب وکتاب شروع ہونے کی کیفیت کو اگر دیکھیں تو تمام امتیں اپنے اپنے نبیوں کے پاس جائیں گے تو اللہ تعالی ٰا س وقت تک حساب شروع نہیں کریں گے جب تک آپ صلی اللہ کے متعلق وارد شدہ حالات واقع نہیں ہو جائیں گے۔۔ تو کیا یہاں پر حساب وکتاب شروع کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے/دعا وغیرہ کا محتاج نہیں۔۔۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا خود زمانے کی محتاج ہے۔۔ نتیجہ نکلا اللہ تعالیٰ زمانے کا محتاج ہے۔۔نعوذ باللہ من ہفوات الشیاطین
جناب ایسی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ جن پر پوری امت کا ایمان بھی ہے اور اجماع بھی ۔۔۔ تو کیا خیال ہے کہ مذکورہ بالا مثالوں میں اللہ تعالیٰ دوسرے عمل کے وقوع کےلیے پہلے عمل کے ختم ہونے کے انتظار نہیں کررہے۔۔ ؟ کیا یہ وقت نہیں؟ کیا یہ زمان نہیں .؟
اور پھر تفصیل سے بات سمجھانے کی میں نے کوشش کی ہے لیکن ہارون بھائی نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے کہ
اللہ تعالی جواب دینے کے لیے ، وقفہ کا محتاج نہیں ہے، بلکہ نمازی جواب سننے کے لیے ، وقفہ کا محتاج ہے ، اسی لیے الشیخ محب اللہ شاہ راشدی صاحب نے نمازی کے وقفہ کی بات کی ہے ۔
اگر ہارون بھائی کے اس جواب کو میں اپنا جواب لکھنے سے پہلے دیکھ لیتا تو پھر اسی کو ہی کافی سمجھتا۔۔۔۔جزاکم اللہ خیرا ہارون بھائی