وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
آج مجھے یہ تحریر فیس بک پر ملی-
سرچ کرنے پر ڈاکٹر محی الدین وسیم کی اپنی ویب سائٹ پر بھی یہ عبارت مل گئی-
کیا شیعہ اور سنی مسالک میں امن ممکن ہے؟ ہمارے عھد میں
محی الدین وسیم
شیعان حضرت علی رضی الله عنہ اگرچہ کہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں ظہور پذیر ہو چکے تھے مگر حسین رضی الله عنہ کی شہادت ایک ایسا واقعہ ہے جس نے شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان ہمیشہ کے لیے تقسیم کی دیوار کھڑی کر دی. حضرت حسین کو کس نے قتل کیا؟ اس کا کوئی بھی جواب ہو مگر مخالف گروہ کے لیے قابل قبول نہیں. کیا وہ کوفی باغی تھے جو اپنی بغاوت چھپانا چاہتے تھے؟ یا یزیدی لشکر سے یہ فعل قبیح سرزرد ہوا، اس سوال کا جواب مبصرین اور مفکرین اسلام پچھلے چودھا سو سال سے اپنے اپنے مسالک کے نقطہ نظر پر تحقیق کر کے دیتے چلے آے ہیں مگر امت کی تفریق کم ہونے کا نام نہیں لیتی. ہر دور میں لوگ اپنے اپنے مخالفین میں کوفی یا یزیدی ڈھونڈتے رہے اور ایک دوسرے پر مرتد کا فتویٰ لگا کر ایک دوسرے کی جان مال اور آبرو کو اپنے اوپر حلال کرتے رہے-
ایسا ہی ایک مسلہ پچھلے دو ہزار سال میں یہود و نصاریٰ کے لیے درد سر بنا ہوا تھا مناسب خیال کیا کہ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کراؤں- شاید ہم کو بھی اپنے مسلے کا حل اغیار کی تاریخ میں مل جاے. اگرچہ قرآن تصلیب عیسیٰ علیہ سلام کے عقیدے کا انکار اس مفہوم کے ساتھ کرتا ہے کہ یہودی نہ تو ان کو صلیب دے پاے اور نہ ان کو قتل کر سکے اور یوں اسلام یہود کو قتل کے الزام سے بری کر دیتا ہے مگر عیسائی دنیا میں ان کے مصائب اسلیے ختم نہ ہو سکے کیونکہ بائبل کے مطابق حضرت عیسیٰ کی تصلب یہودیوں اور رومیوں کے باہمی تعاون اور تائید سے ہوئی تھی. چنانچہ پچھلے دو ہزار سال میں اکثر ایسٹر کے تہواروں پر یورپ کے عیسائی اپنا بدلہ چکانے کے لیے یہودیوں کی املاک کو نظر آتش کرتے چلے آے ہیں. کیتھولک چرچ کی عبادتوں میں تو یہودیوں کو "مسیح کے قاتل" کہہ کر پکارا جاتا تھا. اس پر سونے پے سہاگہ یہودیوں کی اپنی کتاب تلمود نے کیا جس میں عیسیٰ علیہ سلام اور حضرت مریم پر تبرّہ بھیجا گیا اور یوں عیسایوں کے قہر کو انھوں نے از خود بھی دعوت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی. اس سب کا منطقی نتیجہ دوسری جنگ عظیم میں ہولوکوسٹ کی صورت میں ظاہر ہوا جس میں لاکھوں یہودیوں کا قتل عام کیا گیا. وہ وہ مظالم ہووے کہ انسانیت کو خود سے شرم آ جاے، یہودیوں کو جس طرح گیس چمبروں میں قتل کیا گیا اور آگ کی بھٹیوں میں جھونکا گیا یہ ہمارے ماضی قریب کا ایک بھیانک باب ہے. مگر اس المناک واقعے نے یہود و نصاریٰ پر یہ بات ثابت کر دی کہ یہ مذہبی منافرت کا شاخسانہ ہی تھا جس نے ہولوکوسٹ جیسے واقعے کو جنم دیا. چنانچہ نا صرف یہ کہ آج کے یہودی حضرت عیسیٰ کی تعظیم و تکریم پر آمادہ ہوے اور انہیں "رومیوں کے مخالف انقلابی" کہنے لگے ہیں بلکہ کیتھولک چرچ نے بھی اپنی عبادات میں سے یہودیوں کے لیے عیسیٰ کے قاتل کے الفاظ حذف کر دیے ہیں. چرچ کے ١٩٦٥ کے مشہور اعلامیہ "نوسٹرا ایٹاٹے" (ہمارے عھد میں) میں یہ کہہ کر آج کے یہودیوں کو حضرت عیسیٰ کے قتل سے بری الذمہ قرار دیا کہ سب نہیں صرف چند یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کے قتل کی سازش میں حصہ لیا تھا، لہذا من حیث القوم یہودیوں کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جانا چاہیے-
مندرجہ بالا بیان پڑھ کر آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں. مجھے اندیشہ ہے کہ اگر شیعہ سنی اختلاف ختم نہ ہوا اور اپنی موجودہ صورت میں جاری رہا تو اگلا ہولوکوسٹ کہیں مسلم دنیا کا مقدّر نہ بن جاۓ. کیا ہم یہود و نصاریٰ کی طرح مسلم دنیا میں اپنا ذاتی نوسٹرا ایٹاٹے (ہمارے عھد میں) نہیں بنا سکتے؟ کیا ہم اس بات پر متفق نہیں ہو سکتے کہ حضرت حسین کا قتل اس وقت کے کچھ شرپسندوں نے کیا تھا جن کا آج کے شیعہ اور سنیوں سے کوئی تعلق نہیں اور یوں ایک دوسرے کی جان بخش دیں. الله ہم سب کو صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرماے-
ااااااااااااااااا
پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس عبارت میں جو کچھ کہا گیا وہ صحیح ہے- اور کیا علماء اس سے اتفاق کر سکتے ہیں -
لنک
سرچ کرنے پر ڈاکٹر محی الدین وسیم کی اپنی ویب سائٹ پر بھی یہ عبارت مل گئی-
کیا شیعہ اور سنی مسالک میں امن ممکن ہے؟ ہمارے عھد میں
محی الدین وسیم
شیعان حضرت علی رضی الله عنہ اگرچہ کہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں ظہور پذیر ہو چکے تھے مگر حسین رضی الله عنہ کی شہادت ایک ایسا واقعہ ہے جس نے شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان ہمیشہ کے لیے تقسیم کی دیوار کھڑی کر دی. حضرت حسین کو کس نے قتل کیا؟ اس کا کوئی بھی جواب ہو مگر مخالف گروہ کے لیے قابل قبول نہیں. کیا وہ کوفی باغی تھے جو اپنی بغاوت چھپانا چاہتے تھے؟ یا یزیدی لشکر سے یہ فعل قبیح سرزرد ہوا، اس سوال کا جواب مبصرین اور مفکرین اسلام پچھلے چودھا سو سال سے اپنے اپنے مسالک کے نقطہ نظر پر تحقیق کر کے دیتے چلے آے ہیں مگر امت کی تفریق کم ہونے کا نام نہیں لیتی. ہر دور میں لوگ اپنے اپنے مخالفین میں کوفی یا یزیدی ڈھونڈتے رہے اور ایک دوسرے پر مرتد کا فتویٰ لگا کر ایک دوسرے کی جان مال اور آبرو کو اپنے اوپر حلال کرتے رہے-
ایسا ہی ایک مسلہ پچھلے دو ہزار سال میں یہود و نصاریٰ کے لیے درد سر بنا ہوا تھا مناسب خیال کیا کہ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کراؤں- شاید ہم کو بھی اپنے مسلے کا حل اغیار کی تاریخ میں مل جاے. اگرچہ قرآن تصلیب عیسیٰ علیہ سلام کے عقیدے کا انکار اس مفہوم کے ساتھ کرتا ہے کہ یہودی نہ تو ان کو صلیب دے پاے اور نہ ان کو قتل کر سکے اور یوں اسلام یہود کو قتل کے الزام سے بری کر دیتا ہے مگر عیسائی دنیا میں ان کے مصائب اسلیے ختم نہ ہو سکے کیونکہ بائبل کے مطابق حضرت عیسیٰ کی تصلب یہودیوں اور رومیوں کے باہمی تعاون اور تائید سے ہوئی تھی. چنانچہ پچھلے دو ہزار سال میں اکثر ایسٹر کے تہواروں پر یورپ کے عیسائی اپنا بدلہ چکانے کے لیے یہودیوں کی املاک کو نظر آتش کرتے چلے آے ہیں. کیتھولک چرچ کی عبادتوں میں تو یہودیوں کو "مسیح کے قاتل" کہہ کر پکارا جاتا تھا. اس پر سونے پے سہاگہ یہودیوں کی اپنی کتاب تلمود نے کیا جس میں عیسیٰ علیہ سلام اور حضرت مریم پر تبرّہ بھیجا گیا اور یوں عیسایوں کے قہر کو انھوں نے از خود بھی دعوت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی. اس سب کا منطقی نتیجہ دوسری جنگ عظیم میں ہولوکوسٹ کی صورت میں ظاہر ہوا جس میں لاکھوں یہودیوں کا قتل عام کیا گیا. وہ وہ مظالم ہووے کہ انسانیت کو خود سے شرم آ جاے، یہودیوں کو جس طرح گیس چمبروں میں قتل کیا گیا اور آگ کی بھٹیوں میں جھونکا گیا یہ ہمارے ماضی قریب کا ایک بھیانک باب ہے. مگر اس المناک واقعے نے یہود و نصاریٰ پر یہ بات ثابت کر دی کہ یہ مذہبی منافرت کا شاخسانہ ہی تھا جس نے ہولوکوسٹ جیسے واقعے کو جنم دیا. چنانچہ نا صرف یہ کہ آج کے یہودی حضرت عیسیٰ کی تعظیم و تکریم پر آمادہ ہوے اور انہیں "رومیوں کے مخالف انقلابی" کہنے لگے ہیں بلکہ کیتھولک چرچ نے بھی اپنی عبادات میں سے یہودیوں کے لیے عیسیٰ کے قاتل کے الفاظ حذف کر دیے ہیں. چرچ کے ١٩٦٥ کے مشہور اعلامیہ "نوسٹرا ایٹاٹے" (ہمارے عھد میں) میں یہ کہہ کر آج کے یہودیوں کو حضرت عیسیٰ کے قتل سے بری الذمہ قرار دیا کہ سب نہیں صرف چند یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کے قتل کی سازش میں حصہ لیا تھا، لہذا من حیث القوم یہودیوں کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جانا چاہیے-
مندرجہ بالا بیان پڑھ کر آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں. مجھے اندیشہ ہے کہ اگر شیعہ سنی اختلاف ختم نہ ہوا اور اپنی موجودہ صورت میں جاری رہا تو اگلا ہولوکوسٹ کہیں مسلم دنیا کا مقدّر نہ بن جاۓ. کیا ہم یہود و نصاریٰ کی طرح مسلم دنیا میں اپنا ذاتی نوسٹرا ایٹاٹے (ہمارے عھد میں) نہیں بنا سکتے؟ کیا ہم اس بات پر متفق نہیں ہو سکتے کہ حضرت حسین کا قتل اس وقت کے کچھ شرپسندوں نے کیا تھا جن کا آج کے شیعہ اور سنیوں سے کوئی تعلق نہیں اور یوں ایک دوسرے کی جان بخش دیں. الله ہم سب کو صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرماے-
ااااااااااااااااا
پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس عبارت میں جو کچھ کہا گیا وہ صحیح ہے- اور کیا علماء اس سے اتفاق کر سکتے ہیں -