• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں اجماع کا منعقد ہونا ممکن تھا ؟

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
سوال : کیا صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں اجماع کا منعقد ہونا ممکن تھا ؟ [فتاویٰ الامارات:٥٦]

جواب : صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی اجماع ممکن نہیں تھا کیونکہ نبی علیہ السلام کے ہوتے ہوئے تو وہ ایک دوسرے کے قریب تھے اور آپ علیہ السلام کے بعد جب اجماع کی ضرورت تھی تو اس وقت تو صحابہ رضی اللہ عنہھم ایک دوسرے سے الگ ہو چکے تھے۔فتوحات کی وجہ سے۔
تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم تصور کریں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپس میں ملے اور ایک مسئلہ پر انہوں نے اجماع کیا۔تو یہ کہاں جمع ہوئے ؟ اور کون ان سے ملا ؟کہ جس نے ان صحابہ سے اجماع نقل کیا۔تو یہ ساری باتیں ثابت ہونا نا ممکن ہے۔
یہاں اس سے بھی واضح ایک بات ہے کہ اس طرح کے اجماع کے بجائے مسلمان کے لیے یہ ہی کافی تھا کہ بعض صحابہ نے اس مسئلہ کے بارے میں یہ مؤقف اپنایا بعض صحابہ سے یہ کام ثابت ہے۔تو یہ چیز بھی ان کے لیے دلیل بن سکتی ہے کہ جس سے وہ استدلال کریں۔اجماع کی ایک اور قسم ہے کہ جسے اجماع سکوتی کہا جاتا ہے۔یہ عام اجماع کو شامل نہیں۔
مثلا:بہت سارے صحابہ رضی اللہ عنھم کی موجودگی میں اگر ایک شخص ایک بات کرے یا کوئی بھی کام کرے کہ جس کا شریعت سے تعلق ہو اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم اس پر خاموش رہیں تو دل تو اس طرح کے اجماع پر مطمئن ہوتا ہے،اس میں کوئی شک نہیں۔لیکن یہ ایسا اجماع نہیں کہ جس طرح اس کی تعریف کی جاتی ہے۔جیسے کہا جاتا ہے کہ امت کا اجماع ہے۔یا صحابہ رضی اللہ عنھم کا اجماع ہے،کیونکہ یہ اجماع نسبی ہے۔
مثلا جیسے صحیح بخاری[٣٣٧/١] میں آتا ہے کہ:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔اپنی خلافت کے زمانہ میں تو خطبہ میں ایک سجدہ والی آیت انہوں نے پڑھی تو منبر سے اترے اور سجدہ کیا ،ان کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنھم نے بھی سجدہ کیا،پھر اگلے جمعہ خطبہ ارشاد فرمایا تو اس میں سجدہ کی آیت پڑھی تو لوگ سجدہ کرنے کے لیے تیار ہوئے کہ جس طرح پہلے جمعہ میں انہوں نے کیا تھا۔تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت ہم پر فرض نہیں کیا،مگر یہ کہ ہم چاہیں۔تو یہ ہے اجماع سکوتی،کیونکہ جمعہ میں صحابہ رضی اللہ عنھم اور تابعین بہت سارے لوگ تھے لیکن کسی نے نہ اس کا انکار کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کتاب و سنت میں سے کوئی دلیل پیش کی،تو بلا شبہ اس طرح کی مثالیں دیکھ کر دل مطمئن ہوتا ضرور ہوتا ہے۔بجائے اس کے کہ متاخرین کے ان میں سے جیسے احناف کہتے ہیں کہ سجدہ تلاوت واجب ہے۔اس کو چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔
[فتاویٰ البانیہ،ص 127-129]
 
Top