عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰قسط اوّل
۰۰( ابو المحبوب سید انور شاہ راشدی)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد:-
آج صبح ہمارے محترم وکرم فرما شیخ شاہدرفیق حفظہ اللہ کے توسط سے کسی شیعہ کی تحریر موصول ہوئی ، جس کاعنوان تھا:-
“کیاصحیح البخاری محمدبن اسماعیل بخاری کی تالیف ہے،،؟؟”
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ صحیح بخاری کی امام بخاری کی طرف نسبت ہونے میں اجماع ہے ، اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہہ نہیں، لہذا جس شخص نے یہ تحریر لکھ کر اجماع کوتوڑنے کی کوشش کی ہے اور جن باتوں کوبنیاد بناکر اس نے یہ موقف دیاہے تو حقیقت میں اس کا جواب نہ بھی لکھاجائے تب بھی اس کی تحریر اپنی آپ موت ہی مرجائیگی، لیکن پھربھی اس کی تحریر کے دلائل کوذکرکرکے ہم جواب دے ہی دیتے ہیں۰
شیعہ موصوف نے صحیح بخاری کوامام بخاری کی کتاب نہ ہونے کے لئے درج ذیل باتیں ذکرکی ہیں:
۱- صحیح بخاری کے متن میں بہت سارے ایسے نصوص ہیں جو اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ کتاب کل کی کل بخاری کی جمع کردہ نہیں بلکہ بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس میں من موافق اضافات کیے ہیںدنیا میں
۲-صحیح بخاری کی صرف ایک ہی متصل سند ہے۔
۳-یہ حکایت کہ:”صحیح بخاری کونوے ہزارلوگوں نے امام بخاری سے سناہے” غیرثابت اورضعیف ہے۔
۴-محمدبن یوسف فربری راوی کی توثیق محل نظرہے۔
۵-خود فَرَبْری کاامام بخاری سے سماع صحیح بخاری ہی مشکوک وغیرثابت ہے۔
( گویایہ روایت بھی منقطع ہے )
نتیجتا صحیح بخاری کسی ایک بھی متصل وصحیح سند سے ثابت نہیں!اناللہ واناالیہ راجعون!
اولا: موصوف نے اس تحریر میں فی الحال ایسی نصوص ذکرنہیں کیں کہ جوصحیح بخاری کو مشکوک کردیتی ہوں، بلکہ -جیساکہ ان کے کلام سے ظاہرہے- یہ تحریر بطورتمہیدکے ہے، اور آنے والی اپنی تحریر میں وہ ان نصوص کوذکرکرکے اپنے موقف کوواضح کرینگے۔لہذا اس بات سے فی الوقت ہم بھی خاموش ہی رہتے ہیں۰
ثانیا: موصوف نے جو باقی اعتراضات پیش کئے ہیں، یہ بھی انہی کی اختراع ہی ہیں، اگر صحیح بخاری ، امام بخاری کی کتاب نہ ہوتی تو یہ پوری امت تواتر کے ساتھ اسے امام صاحب کی طرف منسوب کرتی چلی آرہی ہے، لوگوں نے سینکڑوں کی تعداد میں اس پر شروحات لکھیں،اس کے رجال پر مستقل تالیفات لکھنا وغیرہ وغیرہ اس طرح کی دیگرتحقیقات کے ساتھ اس پربے شمار کام ہوچکے ہیں، اورمزید پروجیکٹ پر بھی کام جاری وساری ہے، تو کیاسب کچھ فضولیات کے باب میں سے ہے،،؟خود امام صاحب سے اسانید صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ کتاب امام بخاری کی ہے، سچ تویہ کہ اس پر دلیل دیتے ہوئے یا اس کی امام صاحب کی طرف نسبت کوثابت کرتے ہوئے ہمیں شرم سی محسوس ہورہی ہے، لیکن معترض کی جرات دیکھئے جن ائمہ عظام نے صحیح بخاری پر امام صاحب کی جلالت علمی اوربزرگی اور صحیح بخاری کی اہمیت وشرف کے پیش نظر شروحات لکھیں یاان پرکام کیاہے انہیں ائمہ سے اقوال نقل کرکے ناسمجھی میں ان سے اپنا جڑتو مفہوم اخذکرتے ہوئے امام بخاری کی طرف اس نسبت کے منکرہورہے ہیں، بھلا ابن حجر بھی (کہ جس نے ایک لمبا عرصہ صحیح بخاری کی شرح لکھتے ہوئے گذاردی اور پھر “لاھجرة بعد الفتح ولاشرح بعد الفتح” جیسے اعزازات سے نوازدی گئی) ایسی کوئی بات کہہ سکتے ہیں یاان کے متعلق یہ گمان کیاجاسکتاہے کہ : صحیح بخاری جن اسانید سے مروی ہے ان میں سے صرف ایک ہی سند متصل ہے باقی تمام اسانید میں انقطاع ہے،،،؟؟ موصوف کی تحریر سے واضح ہورہاہے کہ یاتوعربیت سے ناواقف ہیں یاپھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے:
“فان کنت لاتدری فتلک مصیبة، وان کنت تدری فالمصیبة اعظم”
اب یہ موصوف نے ہی فیصلہ کرناہے کہ آیا وہ عربی سے ناواقف ہیں یاپھر جان بوجھ کر تجاہل عارفانہ سے کام لیاگیاہے، یہ ہم موصوف پر ہی چھوڑتے ہیں، تاکہ بدگمانی سے بچاجاسکے،
ثالثا: ہم نے اندازہ لگایاکہ موصوف کویہ ہی معلوم نہیں کہ کتاب کی نسبت کے کیاکیااصول ہوتے ہیں، وہ کونسی باتیں ہیں جن سے کسی کتاب کی نسبت ثابت ہوتی ہے، اور نہ ہی اسے یہ معلوم ہے کہ راوی کی توثیق کے لئے کون کون سے ذرائع ہیں، اپنے تئیں گفتگو کرکے سمجھ لیاکہ اس نے صحیح بخاری پر بڑی مضبوط گرفت کی ہے، دوسرے الفاظ میں آج تک ساری امت دھوکہ کھاتی رہی، محض موصوف پر ہی انکشاف عظیم ہواہے کہ صحیح بخاری توامام بخاری کی کتاب ہی نہیں،کہتے ہیں کہ سمجھنے کے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، جناب! کچھ توعقل سے کام لیتے نقل میں اگرمہارت نہیں رکھتے۰
۰۰۰( جاری ہے)
صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰قسط اوّل
۰۰( ابو المحبوب سید انور شاہ راشدی)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد:-
آج صبح ہمارے محترم وکرم فرما شیخ شاہدرفیق حفظہ اللہ کے توسط سے کسی شیعہ کی تحریر موصول ہوئی ، جس کاعنوان تھا:-
“کیاصحیح البخاری محمدبن اسماعیل بخاری کی تالیف ہے،،؟؟”
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ صحیح بخاری کی امام بخاری کی طرف نسبت ہونے میں اجماع ہے ، اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہہ نہیں، لہذا جس شخص نے یہ تحریر لکھ کر اجماع کوتوڑنے کی کوشش کی ہے اور جن باتوں کوبنیاد بناکر اس نے یہ موقف دیاہے تو حقیقت میں اس کا جواب نہ بھی لکھاجائے تب بھی اس کی تحریر اپنی آپ موت ہی مرجائیگی، لیکن پھربھی اس کی تحریر کے دلائل کوذکرکرکے ہم جواب دے ہی دیتے ہیں۰
شیعہ موصوف نے صحیح بخاری کوامام بخاری کی کتاب نہ ہونے کے لئے درج ذیل باتیں ذکرکی ہیں:
۱- صحیح بخاری کے متن میں بہت سارے ایسے نصوص ہیں جو اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ کتاب کل کی کل بخاری کی جمع کردہ نہیں بلکہ بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس میں من موافق اضافات کیے ہیںدنیا میں
۲-صحیح بخاری کی صرف ایک ہی متصل سند ہے۔
۳-یہ حکایت کہ:”صحیح بخاری کونوے ہزارلوگوں نے امام بخاری سے سناہے” غیرثابت اورضعیف ہے۔
۴-محمدبن یوسف فربری راوی کی توثیق محل نظرہے۔
۵-خود فَرَبْری کاامام بخاری سے سماع صحیح بخاری ہی مشکوک وغیرثابت ہے۔
( گویایہ روایت بھی منقطع ہے )
نتیجتا صحیح بخاری کسی ایک بھی متصل وصحیح سند سے ثابت نہیں!اناللہ واناالیہ راجعون!
اولا: موصوف نے اس تحریر میں فی الحال ایسی نصوص ذکرنہیں کیں کہ جوصحیح بخاری کو مشکوک کردیتی ہوں، بلکہ -جیساکہ ان کے کلام سے ظاہرہے- یہ تحریر بطورتمہیدکے ہے، اور آنے والی اپنی تحریر میں وہ ان نصوص کوذکرکرکے اپنے موقف کوواضح کرینگے۔لہذا اس بات سے فی الوقت ہم بھی خاموش ہی رہتے ہیں۰
ثانیا: موصوف نے جو باقی اعتراضات پیش کئے ہیں، یہ بھی انہی کی اختراع ہی ہیں، اگر صحیح بخاری ، امام بخاری کی کتاب نہ ہوتی تو یہ پوری امت تواتر کے ساتھ اسے امام صاحب کی طرف منسوب کرتی چلی آرہی ہے، لوگوں نے سینکڑوں کی تعداد میں اس پر شروحات لکھیں،اس کے رجال پر مستقل تالیفات لکھنا وغیرہ وغیرہ اس طرح کی دیگرتحقیقات کے ساتھ اس پربے شمار کام ہوچکے ہیں، اورمزید پروجیکٹ پر بھی کام جاری وساری ہے، تو کیاسب کچھ فضولیات کے باب میں سے ہے،،؟خود امام صاحب سے اسانید صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ کتاب امام بخاری کی ہے، سچ تویہ کہ اس پر دلیل دیتے ہوئے یا اس کی امام صاحب کی طرف نسبت کوثابت کرتے ہوئے ہمیں شرم سی محسوس ہورہی ہے، لیکن معترض کی جرات دیکھئے جن ائمہ عظام نے صحیح بخاری پر امام صاحب کی جلالت علمی اوربزرگی اور صحیح بخاری کی اہمیت وشرف کے پیش نظر شروحات لکھیں یاان پرکام کیاہے انہیں ائمہ سے اقوال نقل کرکے ناسمجھی میں ان سے اپنا جڑتو مفہوم اخذکرتے ہوئے امام بخاری کی طرف اس نسبت کے منکرہورہے ہیں، بھلا ابن حجر بھی (کہ جس نے ایک لمبا عرصہ صحیح بخاری کی شرح لکھتے ہوئے گذاردی اور پھر “لاھجرة بعد الفتح ولاشرح بعد الفتح” جیسے اعزازات سے نوازدی گئی) ایسی کوئی بات کہہ سکتے ہیں یاان کے متعلق یہ گمان کیاجاسکتاہے کہ : صحیح بخاری جن اسانید سے مروی ہے ان میں سے صرف ایک ہی سند متصل ہے باقی تمام اسانید میں انقطاع ہے،،،؟؟ موصوف کی تحریر سے واضح ہورہاہے کہ یاتوعربیت سے ناواقف ہیں یاپھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے:
“فان کنت لاتدری فتلک مصیبة، وان کنت تدری فالمصیبة اعظم”
اب یہ موصوف نے ہی فیصلہ کرناہے کہ آیا وہ عربی سے ناواقف ہیں یاپھر جان بوجھ کر تجاہل عارفانہ سے کام لیاگیاہے، یہ ہم موصوف پر ہی چھوڑتے ہیں، تاکہ بدگمانی سے بچاجاسکے،
ثالثا: ہم نے اندازہ لگایاکہ موصوف کویہ ہی معلوم نہیں کہ کتاب کی نسبت کے کیاکیااصول ہوتے ہیں، وہ کونسی باتیں ہیں جن سے کسی کتاب کی نسبت ثابت ہوتی ہے، اور نہ ہی اسے یہ معلوم ہے کہ راوی کی توثیق کے لئے کون کون سے ذرائع ہیں، اپنے تئیں گفتگو کرکے سمجھ لیاکہ اس نے صحیح بخاری پر بڑی مضبوط گرفت کی ہے، دوسرے الفاظ میں آج تک ساری امت دھوکہ کھاتی رہی، محض موصوف پر ہی انکشاف عظیم ہواہے کہ صحیح بخاری توامام بخاری کی کتاب ہی نہیں،کہتے ہیں کہ سمجھنے کے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، جناب! کچھ توعقل سے کام لیتے نقل میں اگرمہارت نہیں رکھتے۰
۰۰۰( جاری ہے)