عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط -۱۱)
۰۰( ابوالمحبوب سیدانورشاہ راشدی)
۴- تعدیل وتوثیق کا مفسر ہونا بھی ضروری ہے۔
جب امام سمعانی نے امام فربری کی توثیق کردی تو موصوف معترض نے کہاکہ امام سمعانی نے تعدیل مفسرنہیں کی کہ معلوم ہوکہ آخرکس بناپر انہوں نے ان کی توثیق کی ہے؟گویا وہ یہ کہناچاہ رہے ہیں کہ جس طرح جرح کامفسر ہوناضروری ہے اسی طرح تعدیل بھی مفسر ہی ہو،ورنہ وہ جرح غیرمفسر کی طرح تعدیل مبہم مردود اور غیرمعتبرٹھہریگی۔
عرض ہے کہ توثیق کرنے والاناقد یہ جان کر - کہ توثیق کس بناپرکی جاتی ہے - ہی توثیق کرتاہے،اس ناقد کے نزدیک جس کی توثیق کررہاہے وہ عادل بھی ہےاور ضابط بھی (ضبط الصدر یا الکتاب سے متصف) جب ہی تو اس کی وہ توثیق کررہاہے،مُعَدِّل کے نزدیک اس راوی میں عدالت کی خصوصیات تھیں اور ضبط بھی قوی تھا اسی لئے اس کی تعدیل کررہاہے،ورنہ اگر وہ سبب ذکرتاتو تو تعدیل کے کئی اسباب ہیں،اسے یہ کہنا پڑتا کہ :یہ راوی جھوٹ نہیں بولتا، نہ چوری کرتا ہے، نہ ڈاکہ زنی کرتاہے ،نہ شراب پیتا ہے، نہ کسی کاحق غصب کرتاہے،نہ کسی کو قتل کرتاہے،نہ ناپ تول میں کمی بیشی کرتا ہے،نہ جوا کھیلتا ہے،نہ موسیقی سنتاہے ، نہ حرام کھاتا ہے،اورگناہ کبیرہ اور صغیرہ سے بچتاہے،وغیرہ وغیرہ، یہاں اگر اس طرح کسی راوی کی تعدیل کرتے ہوئے اسباب کوذکرکرنا کرناشروع کیاجائے تو ایک لمبی لائن لگ جائیگی،آپ کس کس بات کو ذکرکرینگے،یہ تو نہایت عجیب تر ہوگا، ہم بھی اگر کسی کے بارے گواہی دیتے ہیں تو چند الفاظ پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے شہادت پیش کردیتے ہیں۔ مثلا کہتے ہیں: فلاں شخص بہت اچھا ہے، یافلاں شخص بہت نیک ہے، یافلاں شخص بہت ایماندار ہے، یافلاں شخص بہت سچاہے ، وغیرہ وغیرہ، ان چندالفاظ سے ہی ہم محض کسی کی حقیقت کوواضح کئے دیتے ہیں، اس طرح ہمارا مخاطب معلوم کرلیگا کہ تزکیہ کردہ شخص کی حیثیت اور مقام کیاہے، زیادہ لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں پڑتی،اہل السنہ کے کئی ایک ائمہ کا یہی موقف ہے کہ تعدیل مبہم مقبول ہے، اس کی تفسیر کی ضرورت نہیں، اور ان کی دلیل یہی ہے کہ اسباب تعدیل بہت زیادہ ہیں ، جن کاذکر شاق ہے، لہذا تعدیل کے اسباب کوذکر کئے بغیر ہی محض تعدیل اور تزکیہ پر اکتفاء کی جاتی ہے، اور راجح موقف بھی یہی ہے۔
امام ابن الصلاح فرماتے ہیں:
التعدیل مقبول من غیرذکرسببہ علی المذھب الصحیح المشھور، لان اسبابہ کثیرة یصعب ذکرھا ، فان ذالک یُحوج المعدل الی ان یقول :لم یفعل کذا ،لم یرتکب کذا ،فعل کذا وکذا ،فیعدد جمیع مایفسق بفعلہ اوبترکہ وذالک شاق جدا.
کہ مشہور اور صحیح مذہب کے مطابق تعدیل اس کے سبب کوذکرکئے بغیرہی مقبول ہے،اس لئے کہ تعدیل کے کئی ایک اسباب کے ذریعے کی جاتی ہے جن کاذکرکرنا گراں ہے،کیونکہ ایسا کرنے سے مُعَدِّل(تعدیل کرنے والا)کو یہ کہنے پر کامحتاج بنادیگاکہ :اس نے یہ نہیں کیا، فلاں کام کاارتکاب نہیں کیا، فلاں کام کیا، وغیرہ، تو اس طرح تمام فسق وغیر فسق پر مشتمل باتوں کو وہ شمارکرناشروع کردیگا، جوکہ انتہائی شاق(گراں) ہے.
[علوم الحدیث:۹٦]
خلاصہ کلام کہ تعدیل کے حوالے سے درست اور صحیح مذہب یہی ہے کہ مبہم الفاظ میں کی گئی تعدیل عندالمحدثین والمحققین مقبول ہے،ورنہ تمام فسق اورفسق باتوں کااحصاء کرناپڑیگا جوکہ بہت ہی مشکل اورگراں امر ہے۔
کیا امام فربری کی توثیق ان کے ہم عصروں سے ثابت نہیں؟؟
معترض موصوف فرماتے ہیں :
جہاں تک ہمیں معلوم ہے سب سے پہلے اس کی توثیق ذہبی نے ابوبکر سمعانی کی کتاب امالی سے نقل کی ہے :
ﺃﺭﺥ ﻣﻮﻟﺪﻩ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺍﻟﺴﻤﻌﺎﻧﻲ ﻓﻲ " ﺃﻣﺎﻟﻴﻪ " ﻭﻗﺎﻝ : ﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻭﺭﻋﺎ”
ابوبکر سمعانی نے اپنی امالی میں اس کی سنہ وفات نقل کی ہے اور کہا کہ ثقہ ہے
سیر اعلام النبلاء ج 15 ص 11
مگر یہ توثیق کافی نہیں ہے کیونکہ خود فربری کے ہم عصر علماء میں سے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔
اولا: یہ کہناکہ امام فربری کی سب سے اول توثیق کرنے والے امام سمعانی ہیں، ان سے قبل کسی بھی محدث سے ان کی توثیق ثابت نہیں، بلکل عبث رائے ہے،امام سمعانی قبل بھی ان کی توثیق ثابت ہے:
امام ابوالولید باجی(المتوفی ۴۷۴ ھ) نے فربری کو ثقہ قراردیاہے،جوکہ امام سمعانی سے متقدم ہیں، امام سمعانی پانچویں ،صدی ہجری کے ہیں جیساکہ ان کے سن وفات سے ظاہر ہے، جبکہ امام باجی چوتھی صدی ہجری کے ہیں۔
امام ابن رشید فہری فرماتے ہیں:
انباناابوالحسن ابن احمد الصالحی کتبنا بظاہر دمشق عن ابی طاہر ابن ابراہیم الفرشی عن ابی بکر ابن الولید الطرطوشی ،عن ابی الولید ابن خلف الباجی الامام قال : والفربری ثقة مشھور.
[افادة النصیح :۱۴- ۱۵][التعدیل والتجریح :۱/ ۱۷۳]
امام باجی کی توثیق آپ کے سامنے ہے، لہذا یہ کہنا کہ امام سمعانی سے قبل امام فربری کی کسی محدث سے توثیق ثابت نہیں محض تکے سے ہی کہاگیاہے ، تحقیق کی طرف بلکل بھی توجہ نہیں دی گئی، اورہم ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ معترض موصوف اہل السنہ کے ائمہ کی کون سی کتب رجال وکتب اصول حدیث کا گہرائی سے مطالعہ فرمایاکرتے ہیں یاان کے مطالعے کی عادت ڈالی ہوئی ہے، جو ہر سطحی بات میں تحقیق بلکل ادھوری اور ناقص معلوم دکھائی دے رہے ہی، حالانکہ جتنا دعوی کیاگیا ہے موصوف کا طرز تحقیق اس کے کسی حصہ سے بھی موافقت نہیں رکھتا۔
ویسے فربری کے نصا توثیق بعض دیگر ائمہ سے بھی ثابت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
امام ابومحمد الرشاطی فرماتے ہیں: وعلی الفربری العمدة فی روایة کتاب البخاری “[افادة النصیح :۱۵- ۱٦]
کہ صحیح بخاری کے روایت کرنے میں فربری پراعتماد کیاگیاہے۔
امام ابن رشید فہری فرماتے ہیں: عمدة المسلمین فی کتاب البخاری۔
نیز فرماتے ہیں: الثقة الامین وسیلة المسلمین الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی کتاب البخاری وحبلھم المتین۔
[افادة النصیح
خیر آگے چلئے، ہم اس سے بھی آگے امام فربری کی توثیق ان کے ایک ہمعصر محدث وامام بلکہ ان کے استاذ کبیر وحافظ حدیث سے بھی توثیق ثابت کردیتے ہیں،تاکہ اس الزام کی سرے سے ہی جڑ کٹ جائے کہ :امام فربری کی توثیق ان کے ہم عصروں سے ثابت نہیں۔
آئے ہم آپ کو اس کی بھی حقیقت واضح کئے دیتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
معلوم شد کہ توثیق کے مختلف ذرائع ہیں، جن میں سے بعض اوپر بھی بیان کیے جاچکے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض روات کی محض اس لیے بھی توثیق کی گئی اورانہیں ثقہ قراردیدیاگیاکہ وہ کسی بڑے اوربزرگ صحابی کے غلام یاماتحت رہے، یاان کے معتمد تھے،گویاکسی اہم شخصیت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے بھی ائمہ نقد روات کی توثیق کردیتے ہیں، اس کے لئے میں ایک راوی کو بطورمثال ذکرتاہوں۔
۰۰( جاری ہے)
صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط -۱۱)
۰۰( ابوالمحبوب سیدانورشاہ راشدی)
۴- تعدیل وتوثیق کا مفسر ہونا بھی ضروری ہے۔
جب امام سمعانی نے امام فربری کی توثیق کردی تو موصوف معترض نے کہاکہ امام سمعانی نے تعدیل مفسرنہیں کی کہ معلوم ہوکہ آخرکس بناپر انہوں نے ان کی توثیق کی ہے؟گویا وہ یہ کہناچاہ رہے ہیں کہ جس طرح جرح کامفسر ہوناضروری ہے اسی طرح تعدیل بھی مفسر ہی ہو،ورنہ وہ جرح غیرمفسر کی طرح تعدیل مبہم مردود اور غیرمعتبرٹھہریگی۔
عرض ہے کہ توثیق کرنے والاناقد یہ جان کر - کہ توثیق کس بناپرکی جاتی ہے - ہی توثیق کرتاہے،اس ناقد کے نزدیک جس کی توثیق کررہاہے وہ عادل بھی ہےاور ضابط بھی (ضبط الصدر یا الکتاب سے متصف) جب ہی تو اس کی وہ توثیق کررہاہے،مُعَدِّل کے نزدیک اس راوی میں عدالت کی خصوصیات تھیں اور ضبط بھی قوی تھا اسی لئے اس کی تعدیل کررہاہے،ورنہ اگر وہ سبب ذکرتاتو تو تعدیل کے کئی اسباب ہیں،اسے یہ کہنا پڑتا کہ :یہ راوی جھوٹ نہیں بولتا، نہ چوری کرتا ہے، نہ ڈاکہ زنی کرتاہے ،نہ شراب پیتا ہے، نہ کسی کاحق غصب کرتاہے،نہ کسی کو قتل کرتاہے،نہ ناپ تول میں کمی بیشی کرتا ہے،نہ جوا کھیلتا ہے،نہ موسیقی سنتاہے ، نہ حرام کھاتا ہے،اورگناہ کبیرہ اور صغیرہ سے بچتاہے،وغیرہ وغیرہ، یہاں اگر اس طرح کسی راوی کی تعدیل کرتے ہوئے اسباب کوذکرکرنا کرناشروع کیاجائے تو ایک لمبی لائن لگ جائیگی،آپ کس کس بات کو ذکرکرینگے،یہ تو نہایت عجیب تر ہوگا، ہم بھی اگر کسی کے بارے گواہی دیتے ہیں تو چند الفاظ پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے شہادت پیش کردیتے ہیں۔ مثلا کہتے ہیں: فلاں شخص بہت اچھا ہے، یافلاں شخص بہت نیک ہے، یافلاں شخص بہت ایماندار ہے، یافلاں شخص بہت سچاہے ، وغیرہ وغیرہ، ان چندالفاظ سے ہی ہم محض کسی کی حقیقت کوواضح کئے دیتے ہیں، اس طرح ہمارا مخاطب معلوم کرلیگا کہ تزکیہ کردہ شخص کی حیثیت اور مقام کیاہے، زیادہ لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں پڑتی،اہل السنہ کے کئی ایک ائمہ کا یہی موقف ہے کہ تعدیل مبہم مقبول ہے، اس کی تفسیر کی ضرورت نہیں، اور ان کی دلیل یہی ہے کہ اسباب تعدیل بہت زیادہ ہیں ، جن کاذکر شاق ہے، لہذا تعدیل کے اسباب کوذکر کئے بغیر ہی محض تعدیل اور تزکیہ پر اکتفاء کی جاتی ہے، اور راجح موقف بھی یہی ہے۔
امام ابن الصلاح فرماتے ہیں:
التعدیل مقبول من غیرذکرسببہ علی المذھب الصحیح المشھور، لان اسبابہ کثیرة یصعب ذکرھا ، فان ذالک یُحوج المعدل الی ان یقول :لم یفعل کذا ،لم یرتکب کذا ،فعل کذا وکذا ،فیعدد جمیع مایفسق بفعلہ اوبترکہ وذالک شاق جدا.
کہ مشہور اور صحیح مذہب کے مطابق تعدیل اس کے سبب کوذکرکئے بغیرہی مقبول ہے،اس لئے کہ تعدیل کے کئی ایک اسباب کے ذریعے کی جاتی ہے جن کاذکرکرنا گراں ہے،کیونکہ ایسا کرنے سے مُعَدِّل(تعدیل کرنے والا)کو یہ کہنے پر کامحتاج بنادیگاکہ :اس نے یہ نہیں کیا، فلاں کام کاارتکاب نہیں کیا، فلاں کام کیا، وغیرہ، تو اس طرح تمام فسق وغیر فسق پر مشتمل باتوں کو وہ شمارکرناشروع کردیگا، جوکہ انتہائی شاق(گراں) ہے.
[علوم الحدیث:۹٦]
خلاصہ کلام کہ تعدیل کے حوالے سے درست اور صحیح مذہب یہی ہے کہ مبہم الفاظ میں کی گئی تعدیل عندالمحدثین والمحققین مقبول ہے،ورنہ تمام فسق اورفسق باتوں کااحصاء کرناپڑیگا جوکہ بہت ہی مشکل اورگراں امر ہے۔
کیا امام فربری کی توثیق ان کے ہم عصروں سے ثابت نہیں؟؟
معترض موصوف فرماتے ہیں :
جہاں تک ہمیں معلوم ہے سب سے پہلے اس کی توثیق ذہبی نے ابوبکر سمعانی کی کتاب امالی سے نقل کی ہے :
ﺃﺭﺥ ﻣﻮﻟﺪﻩ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺍﻟﺴﻤﻌﺎﻧﻲ ﻓﻲ " ﺃﻣﺎﻟﻴﻪ " ﻭﻗﺎﻝ : ﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻭﺭﻋﺎ”
ابوبکر سمعانی نے اپنی امالی میں اس کی سنہ وفات نقل کی ہے اور کہا کہ ثقہ ہے
سیر اعلام النبلاء ج 15 ص 11
مگر یہ توثیق کافی نہیں ہے کیونکہ خود فربری کے ہم عصر علماء میں سے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔
اولا: یہ کہناکہ امام فربری کی سب سے اول توثیق کرنے والے امام سمعانی ہیں، ان سے قبل کسی بھی محدث سے ان کی توثیق ثابت نہیں، بلکل عبث رائے ہے،امام سمعانی قبل بھی ان کی توثیق ثابت ہے:
امام ابوالولید باجی(المتوفی ۴۷۴ ھ) نے فربری کو ثقہ قراردیاہے،جوکہ امام سمعانی سے متقدم ہیں، امام سمعانی پانچویں ،صدی ہجری کے ہیں جیساکہ ان کے سن وفات سے ظاہر ہے، جبکہ امام باجی چوتھی صدی ہجری کے ہیں۔
امام ابن رشید فہری فرماتے ہیں:
انباناابوالحسن ابن احمد الصالحی کتبنا بظاہر دمشق عن ابی طاہر ابن ابراہیم الفرشی عن ابی بکر ابن الولید الطرطوشی ،عن ابی الولید ابن خلف الباجی الامام قال : والفربری ثقة مشھور.
[افادة النصیح :۱۴- ۱۵][التعدیل والتجریح :۱/ ۱۷۳]
امام باجی کی توثیق آپ کے سامنے ہے، لہذا یہ کہنا کہ امام سمعانی سے قبل امام فربری کی کسی محدث سے توثیق ثابت نہیں محض تکے سے ہی کہاگیاہے ، تحقیق کی طرف بلکل بھی توجہ نہیں دی گئی، اورہم ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ معترض موصوف اہل السنہ کے ائمہ کی کون سی کتب رجال وکتب اصول حدیث کا گہرائی سے مطالعہ فرمایاکرتے ہیں یاان کے مطالعے کی عادت ڈالی ہوئی ہے، جو ہر سطحی بات میں تحقیق بلکل ادھوری اور ناقص معلوم دکھائی دے رہے ہی، حالانکہ جتنا دعوی کیاگیا ہے موصوف کا طرز تحقیق اس کے کسی حصہ سے بھی موافقت نہیں رکھتا۔
ویسے فربری کے نصا توثیق بعض دیگر ائمہ سے بھی ثابت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
امام ابومحمد الرشاطی فرماتے ہیں: وعلی الفربری العمدة فی روایة کتاب البخاری “[افادة النصیح :۱۵- ۱٦]
کہ صحیح بخاری کے روایت کرنے میں فربری پراعتماد کیاگیاہے۔
امام ابن رشید فہری فرماتے ہیں: عمدة المسلمین فی کتاب البخاری۔
نیز فرماتے ہیں: الثقة الامین وسیلة المسلمین الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی کتاب البخاری وحبلھم المتین۔
[افادة النصیح
خیر آگے چلئے، ہم اس سے بھی آگے امام فربری کی توثیق ان کے ایک ہمعصر محدث وامام بلکہ ان کے استاذ کبیر وحافظ حدیث سے بھی توثیق ثابت کردیتے ہیں،تاکہ اس الزام کی سرے سے ہی جڑ کٹ جائے کہ :امام فربری کی توثیق ان کے ہم عصروں سے ثابت نہیں۔
آئے ہم آپ کو اس کی بھی حقیقت واضح کئے دیتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
معلوم شد کہ توثیق کے مختلف ذرائع ہیں، جن میں سے بعض اوپر بھی بیان کیے جاچکے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض روات کی محض اس لیے بھی توثیق کی گئی اورانہیں ثقہ قراردیدیاگیاکہ وہ کسی بڑے اوربزرگ صحابی کے غلام یاماتحت رہے، یاان کے معتمد تھے،گویاکسی اہم شخصیت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے بھی ائمہ نقد روات کی توثیق کردیتے ہیں، اس کے لئے میں ایک راوی کو بطورمثال ذکرتاہوں۔
۰۰( جاری ہے)