• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا صدیق حسن خان رحمہ اللہ حنفی تھے؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
کیا صدیق حسن خان رحمہ اللہ حنفی تھے؟

بعض حقائق کا بعض الناس پر مخفی رہ جانا یابعض مسائل کی تحقیق میں ٹھوکر کھا کر حقیقت کے برعکس موقف کواپنا لینا انسان کے غیر کامل اور خطا کا پتلا ہونے کی وجہ سے ایک فطری عمل ہے۔یہی سبب ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا امام ہو یا چھوٹے سے چھوٹا عالم جمہور سے اختلاف کے نتیجے میں کچھ تفردات رکھتا ہے جو اس کی اجتہادی خطاء اورتحقیق میں درست بات تک نہ پہنچ سکنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جس پر بہرحال وہ قابل مذمت نہیں ہوتا۔

اس مختصر تمہید کے بعد عرض ہے کہ محدث وقت ، محقق عصرحافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اہل حدیث کے اکابرنواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کو مسلک اہل حدیث سے خارج قرار دیتے ہوئے انہیں غیر اہل حدیث قرار دیا ہے۔ چناچہ لکھتے ہیں:
محمد الیاس گھمن دیوبندی نے اہل حدیث(اہل سنت)کے خلاف ایک کتاب: ’’فرقہ اہلحدیث پاک و ہند کا تحقیقی جائزہ‘‘لکھی ہے، جس میں وحیدالزماں حیدرآبادی ، نواب صدیق حسن خان، نورالحسن ،حافظ عنایت اللہ گجراتی اور فیض عالم صدیقی وغیرہم جیسے غیر اہل حدیث اشخاص کے حوالے.....(ماہنامہ الحدیث،فروری 2010، شمارہ نمبر 69، صفحہ 16)

نواب صاحب رحمہ اللہ سے حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی بے زاری اور انہیں غیر اہل حدیث قرار دینے کی بنیاد خود نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے بیٹے سید محمد علی حسن خان کی مندرجہ ذیل تحریر ہے جسے مآثر صدیقی موسوم بہ سیرت والا جاہی سے زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
نواب صدیق حسن خان صاحب ’’غیر مقلد‘‘ ہونے کے ساتھ’ ’حنفی‘‘ بھی تھے۔ نواب کا اپنا بیٹا سید محمد علی حسن خان لکھتا ہے: ’’ سنی خالص محمدی قح موحد بحت مبتع کتاب و سنت حنفی مذہب نقشبندی مشرب تھے اور ہمیشہ طریقہ اسلاف پر مذہب حنفی کی طرف اپنے کو منسوب کرتے تھے مگر عملاً و اعتقاداً اتباع سنت کو مقدم رکھتے تھے‘‘(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، ص 537، جلد دوم)

نواب صاحب رحمہ اللہ کے بیٹے محمد علی حسن خان نے اس کے علاوہ بھی ایک اور الزام اپنے والد بزرگوارپر عائد کیا ہے جسے انوار خورشید دیوبندی نے بھی اپنی مطلب بر آوری کے لئے اہل حدیثوں پر بطور الزام پیش کیا ہے دیکھئے: نواب صاحب حنفی طریقہ نماز کو اقرب الی السنۃ سمجھتے تھے.....صرف یہی نہیں کہ نواب صاحب حنفی طریقہ نماز کو اقرب الی السنۃسمجھتے تھے بلکہ وہ نماز پڑھتے ہی حنفی طریقہ کے مطابق تھے ۔چناچہ نواب سید علی حسن خان فرزند صاحب سوانح لکھتے ہیں۔ ’’والا جاہ مرحوم نماز پنجگانہ حنفی طریقہ پر پڑھتے تھے‘‘ (حدیث اور ہل حدیث، صفحہ 84)

نواب محمد علی حسن خان کے یہ الزامات جو انہوں نے اپنی تصنیف مآثر صدیقی موسوم بہ سیرت والا جاہی میں اپنے والد محترم پر عائد کئے ہیں اس قدر غیر حقیقی اور خلاف واقع ہیں کہ ایک عرصے تک علمائے اہل حدیث نے نہ تو اس جانب التفات کیا اور نہ ہی ان بے بنیاد الزامات کے جواب دینے کی کوئی ضرورت محسوس کی۔لیکن جب بعض لوگوں کی جانب سے ان الزامات کو اچھالا گیا تو مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے قلم اٹھایااور دلائل کے ذریعے ان کمزور الزامات کو بالکل بے وزن کرکے رکھ دیا۔

چونکہ نواب صاحب رحمہ اللہ کا اہل حدیث ہونا اہل حدیث اور غیر اہل حدیث ہر دو کے درمیان ایک غیر متنازعہ اور اتفاقی امر ہے اس لئے صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی نسبت حنفی مذہب کی طرف کرنا اکثر لوگوں کے لئے نہایت حیرت کاباعث ہے۔ اسی بات کو بیان کرتے ہوئے مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: آج اہلحدیث ہی نہیں، احناف میں بھی حضرت نواب صاحب قدس سرو کا مسلکاً اہلحدیث ہونا اتنا مشہور اور معروف ہے کہ شاید بہتوں کو اس پر تعجب ہوگا کہ اس عنوان پر گفتگو کرنے کی ہم نے ضرورت کیوں محسوس کی؟(اھلحدیث اور سیاست، ص138)

ویسے تو صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے اہل حدیث مسلک سے تعلق پر اہل حدیث اور غیر اہل حدیث کا اتفاق و اتحاد ہی اس اعتراض (صدیق حسن خان حنفی المذہب تھے)کو دور کردینے کے لئے کافی ہے۔ لیکن یہاں ہم ان الزامات کاجنھیں محمد علی حسن خان نے مآثر صدیقی میں درج کیا ہے اور جو بہت سے لوگوں بشمول محدث وقت، محقق عصر جناب حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے لئے غلط فہمی کا باعث بنے ہیں ترتیب وار تفصیلی جائز ہ لیں گے۔ ان شاء اللہ

پہلا الزام: نواب صدیق حسن خان حنفی المذہب تھے۔

یہ الزام یا دعویٰ اوّل تو اس لئے نہایت کمزور ہے کہ نواب محمد علی حسن خان مرحوم جنھوں نے یہ الزام اپنے والد پر عائد کیا اپنے اس الزام یا دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے کو ئی ایسی خاطر خواہ چیز پیش کرنے سے بالکل قاصر رہے جسے دلیل کہا جاسکے۔جبکہ بنا کسی ثبوت کہ محض ان کا اپنا بیان اس قابل نہیں کہ دلیل بن سکے اور وہ بھی اس خاص صورت میں کہ جب موجود دلائل اس دعویٰ کے برخلاف ہوں۔نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کثیر تصنیفات اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے ہیں جو ان کے اہل حدیث ہونے پر گواہ ہیں۔ اسی لئے مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ نے بھی نواب صاحب پر اس الزام کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
نواب صاحب کی تالیفات ، ان کے مضامین اور تحریروں کا جہاں تک ہم نے مطالعہ کیا ہے ان کی بنیادپر .......ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’سیرت والا جاہی‘‘ کے یہ دونوں بیان غلط اور ناقابل اعتبار ہیں۔(اھلحدیث اور سیاست، صفحہ 139)

مذہب حنفی میں لوگوں کی مذہبی لحاظ سے صرف دو حیثیتیں ہیں ایک مجتہدانہ حیثیت اور دوسری مقلدانہ حیثیت۔ جو حنفی دعویٰ اجتہاد نہ رکھتا ہو اس کے لئے دین پر عمل کے لئے تقلید کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ۔اب دیکھتے ہیں کہ صدیق حسن خان رحمہ اللہ جوکہ خود ان کے بیٹے کے دعویٰ کے مطابق خود کو حنفی کہتے تھے مجتہد تھے یا مقلد؟

اپنی خود نوشت میں صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مجھے مجتہد ہونے کا دعویٰ ہے نہ مجدد ہونے کا....کیوں کہ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ مجھ میں کوئی شرط اجتہاد، کوئی صورت تجدید اور کوئی وصف مولویت موجود نہیں ہے۔(ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 120)

معلوم ہوا کہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ مجتہد نہیں تھے اور نہ ہی بزعم خود ایسا کوئی دعویٰ رکھتے تھے۔نواب صاحب کے بحیثیت حنفی ہونے کے اب صرف ایک صورت باقی رہتی ہے کہ نواب صاحب رحمہ اللہ مقلدہونگے۔ لیکن ان کی خود نوشت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقلد بھی نہیں تھے کیونکہ ان کے نزدیک کسی شخص کی تقلید کرنا اسے نبی بنانے کے مترادف ہے۔چناچہ رقم طراز ہیں:
یعنی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ آدمی دوسرے شخص کی بات کو حلت و حرمت کے سلسلہ میں بلا دلیل ونص شارع قبول کرلے۔ سو یہ بات ظاہر ہے کہ سب مسلمان آنحضرت ﷺ کی امت ہیں اور کسی شے کی حلت و حرمت آپ کے بتائے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی تو اتباع آپ ہی کا چاہیے کسی اور شخص کا نہیں ۔ ورنہ اسے پیغمبر ماننا پڑے گا۔(ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 116)

تقلید کو صدیق حسن خان رحمہ اللہ مشرکین کا فعل قرار دیتے تھے۔دیکھئے لکھتے ہیں: بالخصوص جب کہ تمام کتاب اللہ میں اس تقلید کذائی کے جواز میں ایک حرف بھی نہیں ملتا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے تقلید کو اہل کتاب و مشرکین کا طرز عمل بیان کرکے اسکی تردید فرمائی ہو۔(ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 118)

نواب صاحب رحمہ اللہ نے خود بھی تقلید کے رد میں بہت کچھ تحریر کیا ہے جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں: الحمداللہ میں نے آج تک کسی مقلد مذہب کو بالتخصیص برا نہیں کہا، اگرچہ رد تقلید میں بہت کچھ لکھا ہے۔(ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 119)

صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے اپنے مقلد ہونے کا صاف صاف انکار کرتے ہوئے لکھا ہے: پھر بھلا جو شخص ائمہ سلف کی تقلید نہیں کرتا۔ وہ ائمہ خلف کی تقلید کیوں کرنے لگا؟ (ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 191)

ان حوالاجات کے بعد تو نواب صاحب رحمہ اللہ کا مقلد ہونا بعید از امکان ہے۔اور ان کا مجتہد مطلق نہ ہونا بھی خود ان ہی کی تحریر سے ثابت کیا جاچکا ہے۔ مذکورہ تفصیل کے بعد ایک طرف تو ان پر غیروں کا لگایا ہوا یہ الزام کے نواب صاحب رحمہ اللہ حنفی تھے، غلط اور جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ سوال بھی پید ا ہوتا ہے کہ جب وہ مقلد نہیں تھے اور نہ ہی مجتہد تھے تو پھر کون تھے؟!

نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے میرے والد کو خالص سنی و محمدی بنایا۔اس ملک میں اہل حدیث بہت کم ہوئے ہیں۔(ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ116)

صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی صراحت کے مطابق ان کے والد بزرگوار اہل حدیث تھے اور خود صدیق حسن خان رحمہ اللہ بھی اسی مسلک پر کاربند تھے جیسا کہ خود ان کی تحریروں سے جابجا اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ مجھے وہ مذہب پسند ہے جو دلائل کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح، قوی اور احوط ہو۔ اور اس بات کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اہل علم کے اقوال کے مقابلہ میں کتاب و سنت کے دلائل کو ترک کر دیا جائے۔(ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 64)

۲۔ قصہ مختصر یہ کہ میں متبع ہوں مبتدع نہیں ،اور یہ بھی دلیل کے اعتبار سے کہہ رہا ہوں۔ اس لئے کہ امت کو ظاہری اور باطنی اعتبار سے کتاب وسنت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔اور اللہ کے رسول کے سوا کوئی متبوع نہیں ہے۔ امت کے جس قدر علماء و مشائخ ہیں ، ان کے اقوال مقبول بھی ہیں اور مردود بھی ۔ اگر کوئی بات رد نہیں کی جاسکتی تو وہ صرف خداکا ارشاد اور حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے۔ پس متبع سنت بلا شک و شبہ افضل ہے اور مقلد(اگر مشاقق خدا و رسول نہیں تو)مفضول ہے۔(ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 66)

۳۔ میں اظہار حق میں کسی یار و اغیار کا لحاظ نہیں کرتا ۔ میرا دل اتباع سنن پر مطمئن ہے اور شک و شبہ کی کوئی گرد میرے دامن خاطر پر نہیں جمتی۔(ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 73)

۴۔ میری اہل علم و دین کی خدمت میں گزارش ہے کہ میری کتاب کا جو مسئلہ کتاب و سنت کی صحیح نص کے خلاف ہو اسے اٹھا کر دیوار پر مار دیں اور جو مسئلہ قرآن و حدیث کے موافق ہو اسے قبول کرلیں۔میں ان شاء اللہ اس رد سے خوش دل ہوں گا۔ (ابقاء المنن ، صفحہ 132)

دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کیا یہ کلام کسی حنفی کا ہوسکتا ہے؟؟؟!!! حاشا وکلا بلکہ یہ توایک متبع سنت یعنی ایک اہل حدیث کا کلام ہے۔نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے مسلکاً اہل حدیث ہونے کا ایک قوی ثبوت یہ بھی ہے کہ ان پر مقلدوں کی جانب سے وہی الزامات عائد کئے گئے جو عام طور پرکسی اہل حدیث پر عائد کئے جاتے ہیں۔ جیسے

۱۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کی تقلید کا الزام:
۲۔ ائمہ اربعہ خصوصاًامام ابوحنیفہ کی گستاخی کی تہمت:
۳۔ تہمت وہابیت:
۴۔اولیا اللہ کے منکرہونے کا بہتان:

ان تمام الزامات کا انکاراورسخت تردید کر کے نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے انہیں بالکل بے بنیاد قرار دیاہے ۔تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں ابقاء المنن بالقاء المحن یعنی خود نوشت،سوانح حیات نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ، صفحہ نمبر 200, 193, 191, 190)

اب آخر میں ایک فیصلہ کن دلیل عرض ہے جو تمام شکوک شبہات اور بے بنیاد الزامات کی جڑکاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ مگر اس سے پہلے عرض ہے کہ انسان کی ذات سے متعلق کسی مسئلہ میں خود اسی شخص کا بیان و اقرار ہی حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے اوراس شخص کے بارے میں دوسروں کی گواہی خصوصاً جب وہ اس متعلقہ شخص کے بیان کے خلاف ہو، ناقابل قبول اور ناقابل التفات ٹھہرتی ہے۔ جیسا کہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اپنی خود نوشت تحریر کرنے کی دو مقاصد میں سے ایک وجہ اورمقصدیہ بتاتے ہیں:
اپنے متعلق لوگوں کے بعض اوہام کا ازالہ مطلوب ہے۔ کیوں کہ ہر انسان کو اپنے متعلق جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یقینی ہوتا ہے اور جو کوئی دوسرا بیان کرتا ہے وہ ظنی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ()وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ (سورہ القیامۃ:۱۴)
بلکہ انسان کو اپنے آپ کا خوب پتا ہے اگرچہ کتنے عذر پیش کرتا رہے ۔
اور حدیث میں آیا ہے۔
پس انسان کو دوسر ے کے بار ے میں یہ کہنا چاہیے کہ میں اسے ایسا خیال یا گمان کرتا ہوں اور اسے اللہ کے ہاں کسی کی (یقینی) صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے۔وہ خود ہی زیادہ جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔متفق علیہ
(ابقاء المنن، صفحہ 16 تا 17)

صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا مسلک کیا تھا؟ کیا وہ ہمیشہ حنفی مذہب کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے جیسا کہ ان پر الزام ہے؟ چونکہ یہ ان کا زاتی معاملہ تھا لہذا اس معاملے میں خود نواب صاحب رحمہ اللہ کا اقرار اور گواہی ملاحظہ فرمائیں:
مجھے ان کی حرکات بے برکات پر تعجب ہے کہ یہ اپنی جہالت، خباثت اور شرک و بدعت میں کس موحد کو پھانسنا چاہتے ہیں۔ ان احمقوں نے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ میں تو مشہور اہل حدیث ہوں۔(ابقاء المنن، صفحہ 216)

الحمداللہ۔نواب صاحب رحمہ اللہ جب خود اپنے آپ کو اہل حدیث قرار دے رہے ہیں تو کسی غیر کی گواہی صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے حق میں کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے؟؟؟ اور خاص بات تو یہ ہے کہ خود صدیق حسن خان کی تحریر سے اس بات کا ثبوت تو دور کی بات ہے شائبہ تک نہیں ملتا کہ وہ متبع سنت کے بجائے حنفی تھے۔ پھر حنفی ہونے کا بہتان ان پر کیسے درست ہوسکتا ہے؟!

نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں: واللہ باللہ اگر میں اصطلاحی معنوں میں وہابی ہوتا تو کبھی بھی اسے نہ چھپاتا خواہ مجھ پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹو ٹ پڑتا لیکن جب میں خالص محمدی اور صرف سنی ہوں تو مجھے جھوٹ بولنا کب روا ہے! (ابقاء المنن، صفحہ 195)

اس عبارت سے واضح ہے کہ اگر نواب صاحب رحمہ اللہ حنفی ہوتے تو یقیناًاس کا کھل کر اظہار فرماتے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرتے۔ لیکن جب وہ حنفی تھے ہی نہیں تو اس کا اقرار چہ معنی دارد؟!

دوسرا الزام: نواب صدیق حسن خان حنفی طریقہ پر نماز پڑھتے تھے۔

اس الزام کی حیثیت بھی بہتان سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ نواب صاحب نے نما ز کے موضوع پر ایک کتاب بنام تعلیم الصلوٰۃ لکھی ہے جس میں نماز کا وہی طریقہ نقل کیا ہے جو احادیث سے ثابت شدہ ہے جس پر اہل حدیث عمل پیرا ہیں۔حتی کہ نواب صاحب رحمہ اللہ نے احناف اور اہل حدیث کے درمیان نماز کے اختلافی مسائل میں احناف کے شبہات کا جواب بھی دیا ہے۔ اس بڑھ کر اس بات کی کوئی اور دلیل کیا ہوگی کہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ حنفی طریقے پر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لئے مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ کا تحقیقی جواب نقل کردیا جائے۔ ملاحظہ فرمائیں:

اسی طرح نواب صاحب مر حوم کی کتابوں کی روشنی میں ہم اس بیان کو بھی ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں کہ والا جاہ مرحوم نماز پنجگانہ حنفی طریقہ پر پڑھتے تھے’’سیرت والا جاہی‘‘ کے حصہ چہارم کے آخر میں خود اسی کے مصنف نے نواب صاحب کی مولفہ کتابوں کی ایک طویل اور مفصل فہرست پیش کی ہے۔ یہ فہرست انھوں نے کتابو ں کے ناموں کے پہلے حرف کو ملحوظ رکھکر حروف تہجی کی ترتیب پر مرتب کی ہے اور اللہ کی شان ہے کہ ’’حرف الالف‘‘ سے لے کر ’’حروف الیاء المثناۃ‘‘ تک ہر حرف کے ذیل میں نواب صاحب کی تالیفات موجود ہیں۔ چناچہ ’’حرف التاء‘‘ کے ماتحت’’تعلیم الصلوٰۃ‘‘ کو بھی انھوں نے نواب صاحب کی تالیفات میں شمار کیا ہے جو اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے۔ تقریباًبیس صفحوں کا یہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جس میں طہارت اور نماز کے کچھ مسائل بالاختصار مذکور ہیں۔

مصنف’’سیرت والا جاہی‘‘ کے مذکورہ بالا بیان کو پیش نظر رکھکر جب ہم نے اس رسالہ کا مطالعہ کیا تو ہمیں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ اس با ب میں احناف اور اہلحدیث کے مابین جن جن مسائل میں اختلاف مشہور ہے ان سب میں نواب صاحب نے اہلحدیث ہی کے مسلک کو اختیار کیا ہے کسی ایک مسئلہ میں بھی انہوں نے حنفی مذہب کی موافقت نہیں کی ہے۔
(اھلحدیث اور سیاست، صفحہ 150)

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محمد علی حسن خان کے اپنے والد بزرگوار نواب صدیق حسن خان پر لگائے گئے دونوں الزامات دلائل سے جھوٹے ثابت ہوئے۔ ہمیں نہیں معلوم کے ایک جھوٹے شخص نواب محمد علی حسن خان کی گواہی جو اس نے اکابر اہل حدیث نواب صدیق حسن خان کے بارے میں دی محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے کس بنیاد اور دلیل کی بنا پر قبول کی؟؟؟ !!!

راقم الحروف کے نزدیک غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے نزدیک نواب محمد علی حسن خان اہل حدیث تھا کیونکہ دوران استفسار موبائل فون پرایک مرتبہ شیخ نے اس مسئلہ پرمجھے بتایا کہ مآثر صدیقی کا مصنف محمد علی حسن خان اہل حدیث ہے۔ لیکن تلاش بیسار کے باوجود بھی ہمیں نواب محمد علی حسن خان کے اہل حدیث ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملی البتہ اس کے برعکس دلیل ملی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد علی حسن خان غیر اہل حدیث تھا۔ دیکھئے:

نواب صاحب جب زیادہ بیمار پڑے تو آپ کی صاحبزادی نواب صفیہ جہاں بیگم نے ایک معتمد کالے خاں کو کچھ تحفے دے کر حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی کی خدمت میں دعائے صحت کے لیے بھیجا، حضرت مولانا نے براہ راست نواب صاحب کو ایک خط بھیجا، جس میں لکھا تھا کہ آپ ہر گز نہ گھبرائیں، آپ کے لئے قطعی جنت ہے۔ یہ خط نواب صاحب کو دکھایا نہیں گیا۔ نواب نورالحسن خاں صاحب نے اس خط کو پڑھا تو بجائے افسردہ ہونے کے ہنسے۔ کیوں کہ اس خط میں گویا نواب صاحب کے انجام بالخیر ہونے کی بشارت تھی۔نواب نورالحسن خاں صاحب اور نواب علی حسن خاں صاحب دونوں حضرت مولانا کے مرید ہوگئے تھے۔ اول الذکرپرفقر بہت غالب تھا......! (منقول از ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ ۱۲ ۔اکتوبر۱۹۵۰ء)

نواب صاحب رحمہ اللہ کو قطعی جنت کی خبر ( جس کا تعلق خاص علم غیب سے ہے )دینے والے فضل الرحمن گنج مراد آبادی وہی ہیں جن کے ایک معتقد اور مرید نواب وحیدالزماں بھی تھے۔ اور صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان
کے دونوں بیٹے نواب نورالحسن خان اور نواب علی حسن خان بھی اسی حنفی بزرگ کے مرید ہوگئے تھے۔

حیرت کا مقام ہے کہ ایک مشکوک غیر اہل حدیث نواب علی حسن خان کی گواہی اور بے دلیل دعویٰ ایک ایسے شخص (نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ) کے خلاف دلیل کیسے بن گیا جس کا اہل حدیث ہونا ناقابل تردید دلائل سے ثابت اور اپنوں اور غیروں کے درمیان غیر متنازعہ ہے!!!

نواب صاحب رحمہ اللہ کے ایک بیٹے نواب نورالحسن خان کو خود حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی غیر اہل حدیث اور اس کی کتابوں کو مردودقرار دے رکھا ہے۔دیکھئے:

۱۔ اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ وحیدالزماں و نورالحسن و نواب صدیق حسن خان کی کتابیں تمام اہل حدیث علماء و عوام کے نزدیک غلط و مسترد ہیں۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 58)

۲۔ وحیدالزماں حیدرآبادی ، نواب صدیق حسن خان، نورالحسن ،حافظ عنایت اللہ گجراتی اور فیض عالم صدیقی وغیرہم جیسے غیر اہل حدیث اشخاص کے حوالے اور بعض اہل حدیث علماء کے کچھ شاذوغیر مفتیٰ بہا اقوال پیش کرکے مسلک حق کے خلاف پرو پیگنڈا کیا ہے۔(ماہنامہ الحدیث،فروری 2010، شمارہ نمبر 69، صفحہ 16)

نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اور ان کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹا نواب نورالحسن خان تو غیر اہل حدیث اور ایک بیٹا نواب علی حسن خان اہل حدیث۔آخر کیوں؟؟؟!!!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قُلْ أَتُحَآجُّونَنَا فِى ٱللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَآ أَعْمَٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَٰلُكُمْ وَنَحْنُ لَهُۥ مُخْلِصُونَ﴿١٣٩﴾أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَٰهِمَ وَإِسْمَٰعِيلَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ وَٱلْأَسْبَاطَ كَانُوا۟ هُودًا أَوْ نَصَٰرَىٰ ۗ قُلْ ءَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ ٱللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَٰادَةً عِندَهُۥ مِنَ ٱللَّهِ ۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿١٤٠﴾تِلْكَ أُمَّةٌۭ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْلُونَ عَمَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿١٤١﴾
ترجمہ:کہہ دو کیا تم ہم سے الله کے بارے جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہی ہمارا اور تمہارا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں اور تمہاری لئے تمہارے عمل او رہم تو خا لص اسی کی عبادت کرتے ہیں یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا الله اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس الله کی طرف سے ہےاور الله بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لیے ان کے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لیے جو تم نے کمایا اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں سوال کیے جاو گے(سورۃ البقرہ،آیت ١٣٩تا١٤١)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
قُلْ أَتُحَآجُّونَنَا فِى ٱللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَآ أَعْمَٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَٰلُكُمْ وَنَحْنُ لَهُۥ مُخْلِصُونَ﴿١٣٩﴾أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَٰهِمَ وَإِسْمَٰعِيلَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ وَٱلْأَسْبَاطَ كَانُوا۟ هُودًا أَوْ نَصَٰرَىٰ ۗ قُلْ ءَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ ٱللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَٰادَةً عِندَهُۥ مِنَ ٱللَّهِ ۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿١٤٠﴾تِلْكَ أُمَّةٌۭ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْلُونَ عَمَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿١٤١﴾
ترجمہ:کہہ دو کیا تم ہم سے الله کے بارے جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہی ہمارا اور تمہارا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں اور تمہاری لئے تمہارے عمل او رہم تو خا لص اسی کی عبادت کرتے ہیں یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا الله اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس الله کی طرف سے ہےاور الله بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لیے ان کے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لیے جو تم نے کمایا اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں سوال کیے جاو گے(سورۃ البقرہ،آیت ١٣٩تا١٤١)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

میرے محترم بھائی آپ نے مذکورہ آیت بے محل اور بے موقع پیش کی ہے۔ کسی بھی چیز یا حکم کا اطلاق ہر جگہ نہیں ہوتا۔ آج جو ہم تک صحیح احادیث کا ذخیرہ پہنچا ہے وہ اسماء الرجال ہی کا مرہون منت ہے جس میں گزرے ہوئے اور اپنے زمانے کے روایوں کے محاسن اور ان کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں۔تاکہ معلوم ہو سکے کہ جس شخص سے حدیث قبول کی جارہی ہے وہ کیسا ہے؟ تاکہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ اس سے حدیث قبول کی جائے یا نہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے فضول ہی میں گزرے ہوئے لوگوں پر کلام کرکے اپنی زندگیاں برباد کی ہیں کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ کسی دوسرے کے اعمال کے بارے میں ان سے سوال نہیں کیا جائے گا؟
 
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ بلاشبہ اہل حدیث تھے صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے نواب صاحب کا شمار چودہویں صدی ہجری کے مجددین میں کیا ہے ۔
 
Top