• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا صرف شوہر کا چھوٹا بھائی ہی غیر محرم ہے؟

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
کیا صرف شوہر کا چھوٹا بھائی ہی غیر محرم ہے؟


سوال: بخاری کی روایت ہے جس میں الله کے نبی ﷺ نے فرمایا دیور تو موت ہے۔۔۔

مجھے پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں صرف چھوٹے بھائی کو ہی دیور کہا جاتا ہے تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ شوہر کا جو بڑا بھائی ہے وہ غیر محرم نہیں ہے؟

وضاحت مطلوب ہے ۔۔۔

الله آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کی صحت اور علم میں ترقی عطا فرمائے۔۔۔

جواب: سب سے پہلے حدیث دیکھ لیتے ہیں:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ: الْمَوْتُ
”عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں جانے سے بچتے رہو، اس پر قبیلہ انصار کے ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیور کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیور یا (جیٹھ) تو موت ہے۔“
(صحیح بخاری: 5232، صحیح مسلم: 2172)

اس حدیث میں موجود لفظ «الْحَمْوُ» كے متعلق اس حدیث كے راوی لیث بن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
الْحَمْوُ أَخُ الزَّوْجِ وَمَا أَشْبَهَهُ مِنْ أَقَارِبِ الزَّوْجِ ابْنُ الْعَمِّ وَنَحْوُهُ
”حمو «الْحَمْوُ» خاوند کا بھائی (دیور/جیٹھ) ہے یا خاوند كے رشتہ داروں میں اس جیسا رشتہ رکھنے والا، (مثال كے طور پر) اس کے چچا کا لڑکا وغیرہ۔“
(صحیح مسلم: 2172)

اور امام نووی رحمہ اللہ «الْحَمْوُ» کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اتَّفَقَ أَهْلُ اللُّغَةِ عَلَى أَنَّ الاحماء أقارب زوج المرأة كأبيه وعمه وأخيه وابن أخيه وابن عَمِّهِ وَنَحْوِهِمْ وَالْأُخْتَانِ أَقَارِبُ زَوْجَةِ الرَّجُلِ وَالْأَصْهَارُ يَقَعُ عَلَى النَّوْعَيْنِ
”اہل لغت اس پر متفق ہیں كے ”الاحماء“ شوہر كے عزیز واقارب کو کہا جاتا ہے مثال كے طور پر اس کا باپ، چچا، بھائی، بھتیجا، چچا کا لڑکا اور جو ان جیسے ہیں۔ اور ”اختان“ سے مراد بیوی كے عزیز واقارب ہیں، اور ”اصہار“ کا لفظ دونوں پر بولا جاتا ہے۔“

اس كے بعد «الْحَمْوُ: الْمَوْتُ» (دیور موت ہے) کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ فَمَعْنَاهُ ﺃَﻥَّ الْخَوْفَ مِنْهُ أَكْثَرُ مِنْ غَیْرِهِ وَالشَّرُّ یُتَوَقَّعُ مِنْهُ وَالْفِتْنَةُ أَكْثَرُ لِتَمَكُّنِهِ مِنَ الْوُصُولِ إِلَى الْمَرْأَةِ وَالْخَلْوَةِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُنْكَرَ عَلَیْهِ بِخِلَافِ الأجنبى
والمراد بالحمو هنا أَقَارِبُ الزَّوْجِ غَیْرُ آبَائِهِ وَأَبْنَائِهِ فَأَمَّا الْآبَاءُ والأبناء فمحارم لزوجته تجوزلهم الخلوة بها ولا یوصفون بالموت وانما المراد الأخ وابن الْأَخِ وَالْعَمُّ وَابْنُهُ وَنَحْوُهُمْ ﻣِﻤَّﻦْ ﻟَﻴْﺲَ بِمَحْرَمٍ
وَعَادَةُ النَّاسِ الْمُسَاهَلَةُ فِیهِ وَیَخْلُو بِامْرَأَةِ أَخِیهِ فَهَذَا هُوَ الْمَوْتُ وَهُوَ أَوْلَى بِالْمَنْعِ مِنَ الأجنبی لما ذكرناه فَهَذَا ﺍﻟَّﺬِﻱ ذَكَرْتُهُ هُوَ صَوَابُ مَعْنَى الْحَدِیثِ
”اور نبی ﷺ كے فرمان «الْحَمْوُ: الْمَوْتُ» (دیور موت ہے) کا مطلب یہ ہے كہ دوسروں کی بنسبت اس سے زیادہ خوف ہوتا ہے اور اس کی طرف سے شر کی توقع اور فتنہ زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ اس كے لیے بغیر کسی نکیر كے عورت تک پہنچنا اور اس سے خلوت کرنا ممکن ہوتا ہے، جبکہ اجنبی كے لیے ایسا ممکن نہیں۔ اور یہاں «الْحَمْوُ» سے مراد شوہر كے والد (سسر) اور بیٹوں كے علاوہ باقی عزیز واقارب مرد ہیں، جہاں تک شوہر كے آبا واجداد اور اس كے بیٹوں کا تعلق ہے تو وہ لوگ اس کی بیوی كے لیے محرم ہیں جن سے اس کی خلوت جائز ہے جنہیں موت كے ساتھ متصف نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہاں «الْحَمْوُ» سے مراد شوہر كے بھائی (دیور اور جیٹھ)، بھتیجا، چچا، اور چچا زاد وغیرہ ہیں جو كہ محرم نہیں ہیں۔ اور اس تعلق سے لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ اس میں سستی کرتے ہیں اور دیور بھابی سے خلوت کرتا ہے، اور یہی موت ہے جو اجنبی کی بنسبت بدرجہ اولی ممنوع ہے، اس کی وجہ ہم نے (اوپر) بیان کر دی ہے، جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے وہی حدیث کا صحیح مطلب ہے۔“

مزید آگے فرماتے ہیں:
وقال ابن الْأَعْرَابِیِّ هِیَ كَلِمَةٌ تَقُولُهَا الْعَرَبُ كَمَا یُقَالُ الْأَسَدُ الْمَوْتُ أَیْ لِقَاؤُهُ مِثْلُ الْمَوْتِ
وَقَالَ القاضی ﻣﻌﻨﺎﻩ الخلوة بالأحماء مؤدیة إِلَى الْفِتْنَةِ وَالْهَلَاكِ فِی الدِّینِ فَجَعَلَهُ كَهَلَاكِ الْمَوْتِ فَوَرَدَ الْكَلَامُ مَوْرِدَ التَّغْلِیظِ
”اور ابن الاعرابی کہتے ہیں کہ اس کلمہ کو عرب ویسے ہی بولتے ہیں جیسے یہ کہا جائے کہ شیر موت ہے، یعنی شیر سے ملنا ایسے ہی ہے جیسے موت سے ملنا۔
اور قاضی کہتے ہیں:
اس کا مطلب احماء (دیور، جیٹھ اور شوہر كے رشتہ دار مردوں) كے ساتھ خلوت اختیار کرنا ہے جو فتنہ اور دین کی تباہی کی طرف لے جانے والا ہو، نبی کریم ﷺ نے اسے موت کی ہلاکت کے مثل ہی قرار دیا ہے، تو یہ کلام سختی اور تغلیظ كے طور پر وارد ہوا ہے۔
(دیکھیں: شرح مسلم للنووی)

خلاصہ کلام یہ ہے كہ «الْحَمْوُ» کا لفظ صرف شوہر كے چھوٹے بھائی (دیور) كے لیے ہی نہیں بلکہ شوہر كے بڑے بھائی (جیٹھ) كے ساتھ ساتھ اسکے دوسرے رشتہ داروں كے لیے بھی مستعمل ہے۔ لہذا شوہر كے والد (سسر) اور بیٹوں كے علاوہ باقی رشتہ داروں سے پردہ کرنا واجب ہے، جیسا كے تفصیل گزر چکی ہے۔
(مزید تفصیل كے لیے موسوعہ فقہیہ کویتیہ دیکھ سکتے ہیں)
واللہ اعلم بالصواب!

وکتبہ عمر اثری سنابلی
 
Top