رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
کیا صفاتِ الٰہیہ میں ائمہ اربعہ 'مفوضہ' ہیں؟
برصغیر کے حنفی حضرات عقیدہ میں کس منہج سے تعلق رکھتے ہیں؟
برصغیر کے حنفی حضرات عقیدہ میں کس منہج سے تعلق رکھتے ہیں؟
حافظ محمدزبیر
توحید کی علماے کرام نے تین اقسام بیان کی ہیں:
(۱) توحید اُلوہیت
(۲) توحید ربوبیت
(۳) توحید اسماء وصفات
توحید اسماء و صفات کے بیان میں اہل سنت والجماعت یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور محدثینؒ کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت میں بیان شدہ اسماء وصفاتِ باری تعالیٰ کے حقیقی و اصلی معنی کا اثبات کرتے ہیں جبکہ اس کی کیفیت بیان نہیں کرتے مثلاً قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت ’ِید‘ کا اثبات ہے تو اہل سنت والجماعت اللہ کے لیے صفت ِ’ید‘ کے حقیقی لغوی و عرفی معنی کا اثبات کرتے ہیں اور اس کی کیفیت یا تشبیہ بیان کرنے کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔
اہل سنت والجماعت کےاس عقیدہ کے برعکس ایک اُسلوب اہل تاویل کا ہے جو صفاتِ ذاتیہ کے علاوہ دیگراَسماء وصفاتِ باری تعالیٰ کو بھی اُن کے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی پر محمول کرتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں ’ید‘ بمعنی ہاتھ ہے۔اہل سنت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں وغیرہ مانتے ہیں،لیکن اہلِ تاویل صفتِ ید کا مجازی معنی ’قدرت‘ بیان کر دیتے ہیں اور اس لفظ کے حقیقی معنیٰ ’ہاتھ‘کا اللہ کی ذات کے لیے اِثبات نہیں کرتے ہیں۔اہل تاویل جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کی تاویل کرتے ہیں اسی طرح صفاتِ لازمہ اور غیر لازمہ ناموں سے تقسیم کر کے ان کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کرتے ہیں اگرچہ اہل تاویل کے ہاں تعبیرات کے بعض باریک فرق پائے جاتے ہیں۔تاہم تاویل کرنے میں معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ سب شامل ہیں۔ معتزلہ اسماء و صفات دونوں کی حقیقت کے منکر ہیں جبکہ اشاعرہ اور ماتریدیہ ’ید‘ (ہاتھ) وغیرہ کے تو منکر ہیں ،لیکن اسما ء الٰہی کے قائل ہیں البتہ تین صفاتِ فعلیہ (غیر لازمہ)میں اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ ’حقیقت‘ کے بجائے ’مجاز‘ کو ہی تسلیم کیا جائے، مثلاً اہل تاویل کے ہاں اللہ تعالیٰ لفظی گفتگو پر قادر نہیں، لہٰذا قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی نفسی کلام ہے۔البتہ صفاتِ باری تعالیٰ میں سے چار صفاتِ لازمہ حیات، قدرت، علم اور ارادہ کے قائل ہیں جب کہ کلام، سمع اور بصر جوصفات غیر لازمہ کہلاتی ہیں۔اہل سنت اور اشاعرہ، ماتریدیہ کے ہاں یہی معرکۃ الآراء ہیں۔
اہل سنت والجماعت کے بالمقابل تاویل سے بچنے کا ایک دوسرا طریق کار اہل تفویض کا ہے جو اللہ تعالی ٰکی صفات کے لیے کوئی مجازی معنیٰ پیش کر کے تاویل تو نہیں کرتے،لیکن سرے سے عربی الفاظ کا مفہوم ہی تسلیم کرنے سے انکار کر جاتے ہیں اور ان صفات کو اللہ کے سپرد کر دینے کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کا کوئی لغوی معنی بھی بیان نہ کیا جائے ۔
مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا موقف
ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ملتان کے نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں وفاق المدارس العربية کے صدر اور شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کا ایک مضمون شائع ہواجس میں صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے بحث کی گئی ہے۔اس مقالہ میں مولانا نے سلفی حضرات کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے مسئلۂ صفاتِ باری تعالیٰ میں اُنہیں متشدد قرار دیا ہے۔ہمیں اس وقت سلفی حضرات کے تشدد اور عدمِ تشدد پر کوئی بحث نہیں کرنا بلکہ ائمہ اربعہ کے بارے میں مولانا کی اس مسئلے میں ایک بنیادی غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جس میں بہت سے معاصر حنفی علما شعوری یا لاشعوری طور پر مبتلا ہیں۔
مولانا سلیم اللہ خان نے توحیدِاسماء وصفات کےضمن میں اہل سنت کے تین مسالک بیان کیے ہیں اوراُن کے خیال میں جمہور اہل سنت یعنی صحابہ، تابعین اور ائمہ اربعہ کا موقف توحیدِاسماء وصفات کے بیان میں یہ ہے کہ وہ اللہ کی صفات کے بارے مطلقاً تفویض کے قائل ہیں یعنی وہ اللہ کی صفات کی کیفیت بیان کرنا تو کجا ان کے لغوی/عرفی معنی ہی کے قائل نہیں خواہ حقیقی ہوں یا مجازی ۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’ (1)پہلامسلک:جمہور علماے اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ یہ نصوص ان متشابہات میں سے ہیں جن کے معنی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور ہم ان کو ثابت تسلیم کرنے کے بعد، ان کے حقیقی یا مجازی معنی بیان و متعین نہیں کر سکتے۔ یہ متشابہ المعنی بھی ہیں اور متشابہ الکیفیہ بھی ہیں: وَ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ یعنی اس کی تفسیر صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، یہ مسلک ِتفویض ہے اور یہی جمہور متقدمین اہل سنت اور اَئمہ اربعہ کا مسلک ہے۔
نوٹ: یہ مضمون PDF فارمیٹ میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔