• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ضعیف حدیث پر بھی اجماع ہوتا ہے؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے درخواست ہے کی مجھے اسکا جواب دیں یہ ایک حنفی کی پوسٹ سے کاپی کیا گیا ہے


امام ابن عبدالبررحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

وقد روی عن جابر بن عبداللہ باسناد لا یصح ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الدینار اربعۃ وعشرون قیراطاً و ھذا الحدیث وان لم یصح اسنادہ ففی قول جماعۃ العلماء بہ واجماع الناس علی معناہ ما یغنی عن الاسناد فیہ۔

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کی سند صحیح نہیں ، حدیث یہ ہے کہ ایک دینار چوبیس قیراط کا ہوتا ہے ۔اس حدیث کی سند اگرچہ صحیح نہیں لیکن علماء کی ایک جماعت کا یہی قول اختیار کرنا اورلوگوں( فقہا ء و محدثین) کا اس کے معنی پر اجماع کر لینا اس کی سند سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

التمہید جلد 20 ص 145

اگر محدیثین نے کسی حدیث یا روایت کے متن کو صحیح تسلیم کرلیا ھو تو اسناد کا ضعیف ھونا مضر نا ھوگا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
وعلیکم السلام ورحمہ اللہ و برکاتہ
اس سوال کا جواب تو اہل علم ہی دیں گے، میں محض اپنی رائے پیش کرتا ہوں:
ضعیف یا موضوع حدیث کا متن اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے، گو کہ اسے ”حدیث“ نہیں کہا جائے گا۔
مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ”نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: انٹر نیٹ کے ذریعہ تبلیغ دین کرنا جائز ہے “ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ”من گھڑت حدیث“ ہے ۔ گو کہ اس کا متن اپنی جگہ سو فیصد درست ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ مخصوص لوگوں نے مخصوص مقاصد کے تحت ”درست باتوں“ کو بطور حدیث پیش کیا ہو۔ لہٰذا صحیح اسناد کے بغیر کسی بھی بات کو حدیث قرار نہیں دیا جاسکتا، خواہ وہ بات اپنی جگہ درست ہی کیوں نہ ہو

واللہ اعلم بالصواب
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
وعلیکم السلام ورحمہ اللہ و برکاتہ
اس سوال کا جواب تو اہل علم ہی دیں گے، میں محض اپنی رائے پیش کرتا ہوں:
ضعیف یا موضوع حدیث کا متن اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے، گو کہ اسے ”حدیث“ نہیں کہا جائے گا۔
مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ”نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: انٹر نیٹ کے ذریعہ تبلیغ دین کرنا جائز ہے “ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ”من گھڑت حدیث“ ہے ۔ گو کہ اس کا متن اپنی جگہ سو فیصد درست ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ مخصوص لوگوں نے مخصوص مقاصد کے تحت ”درست باتوں“ کو بطور حدیث پیش کیا ہو۔ لہٰذا صحیح اسناد کے بغیر کسی بھی بات کو حدیث قرار نہیں دیا جاسکتا، خواہ وہ بات اپنی جگہ درست ہی کیوں نہ ہو

واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ خیر پیارے بھائ جان
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس سوال کا جواب تو اہل علم ہی دیں گے، میں محض اپنی رائے پیش کرتا ہوں:
ضعیف یا موضوع حدیث کا متن اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے، گو کہ اسے ”حدیث“ نہیں کہا جائے گا۔
مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ”نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: انٹر نیٹ کے ذریعہ تبلیغ دین کرنا جائز ہے “ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ”من گھڑت حدیث“ ہے ۔ گو کہ اس کا متن اپنی جگہ سو فیصد درست ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ مخصوص لوگوں نے مخصوص مقاصد کے تحت ”درست باتوں“ کو بطور حدیث پیش کیا ہو۔ لہٰذا صحیح اسناد کے بغیر کسی بھی بات کو حدیث قرار نہیں دیا جاسکتا، خواہ وہ بات اپنی جگہ درست ہی کیوں نہ ہو
یوسف ثانی بھائی کی بات ایک لحاظ سے درست ہے، ایک لحاظ سے مناسب نہیں!
ابھی مختصراً عرض کردیتا ہوں کہ کسی ضعیف سند کی حدیث، اگر اس کی تحقیق سے، یعنی بذریعہ قرائن ثابت ہو جائے، اور علمائے حدیث نے ان قرائن کی بنیاد پر اسے قبول کر لیا ہوم تو اسے تلقی بالقبول کہتے ہیں، ایسے قرائن کی بناء پر تقلی بالقبول حاصل کرنے والی حدیث کی سند گو کہ ضعیف ہوتی ہے، مگر چونکہ اس کی تحقیق بالقرائن اس بات کا صحیح ہونا ثابت کرتی ہے، تو وہ حدیث مقبول یعنی صحیح قرار پاتی ہے،
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿سورة الحجرات 06﴾
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔
یہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی خبر کی قبولیت کے لئے ایک اصول بتلایا ہے۔ اور فاسق کی خبر ضعیف ہوتی ہے، ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے، یعنی خبر ضعیف ہو ، تو اس کی تحقیق کر لیا کرو!
یہاں یہ بات سمجھنے والی ہے کہ تحقیق کے بہت سے طریقے ہیں! ایک یہ کہ وہ خبر دوسرا کوئی اور بھی لے آئے! لیکن اگر خبر لانے والا ایک ہی ہو تو، اللہ تعالیٰ نے یہاں نہ نہیں کہا کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو اس پر عمل نہ کرو جب تک کہ کوئی عادل خبر لے آئے! بلکہ اللہ تعالیٰ نے تحقیق کا حکم دیا!
اب ایک فاسق کوئی خبر لایا ہے، اس خبر کے متعلق قرائن اگر اس خبر کی تصدیق کر دیں، تو یہ تحقیق بھی قبول ہو گی! اور یہ ہی تلقی بالقبول کی بنیاد ہے!
اس تلقی بالقبول لے معاملہ میں بہت سے لوگوں نے بہت غلو سے کام بھی لیا ہے،
ایک تھریڈ میں اس عنوان ، یعنی تلقی بالقبول، ضعیف احادیث کا فضائل اعمال میں قبول کرنے، کسی ضعیف حدیث کا تعدد طرق کی بناء پر حسن ہونے نہ ہونے پر ایک تحریر لکھنا شروع کی ہے، ان شاء اللہ جلد شئیر کروں گا!
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یوسف ثانی بھائی کی بات ایک لحاظ سے درست ہے، ایک لحاظ سے مناسب نہیں!
ابھی مختصراً عرض کردیتا ہوں کہ کسی حدیث کی سند کا ضعف، اگر اس کی تحقیق سے، یعنی بذریعہ قرائن ثابت ہو جائے، اور علمائے حدیث نے ان قرائن کی بنیاد پر اسے قبول کر لیا ہوم تو اسے تلقی بالقبول کہتے ہیں، ایسے قرائن کی بناء پر تقلی بالقبول حاصل کرنے والی حدیث کی سند گو کہ ضعیف ہوتی ہے، مگر چونکہ اس کی تحقیق بالقرائن اس بات کا صحیح ہونا ثابت کرتی ہے، تو وہ حدیث مقبول یعنی صحیح قرار پاتی ہے،
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿سورة الحجرات 06﴾
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔
یہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی خبر کی قبولیت کے لئے ایک اصول بتلایا ہے۔ اور فاسق کی خبر ضعیف ہوتی ہے، ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے، یعنی خبر ضعیف ہو ، تو اس کی تحقیق کر لیا کرو!
یہاں یہ بات سمجھنے والی ہے کہ تحقیق کے بہت سے طریقے ہیں! ایک یہ کہ وہ خبر دوسرا کوئی اور بھی لے آئے! لیکن اگر خبر لانے والا ایک ہی ہو تو، اللہ تعالیٰ نے یہاں نہ نہیں کہا کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو اس پر عمل نہ کرو جب تک کہ کوئی عادل خبر لے آئے! بلکہ اللہ تعالیٰ نے تحقیق کا حکم دیا!
اب ایک فاسق کوئی خبر لایا ہے، اس خبر کے متعلق قرائن اگر اس خبر کی تصدیق کر دیں، تو یہ تحقیق بھی قبول ہو گی! اور یہ ہی تلقی بالقبول کی بنیاد ہے!
اس تلقی بالقبول لے معاملہ میں بہت سے لوگوں نے بہت غلو سے کام بھی لیا ہے،
ایک تھریڈ میں اس عنوان ، یعنی تلقی بالقبول، ضعیف احادیث کا فضائل اعمال میں قبول کرنے، کسی ضعیف حدیث کا تعدد طرق کی بناء پر حسن ہونے نہ ہونے پر ایک تحریر لکھنا شروع کی ہے، ان شاء اللہ جلد شئیر کروں گا!
بھائ جان بہت جلد اپلوڈ کریں اپنا پوسٹ
 
Top