• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا طلاق یافتہ یا بیوہ کے دوسرے نکاح کے لئے بھی ولی کی اجازت ضروری ہے؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ڈاکٹر صاحب کراس لگانے کی بجائے دو لفظ لکھ دیا کریں اگر کراس لگانے والا کام کوئی انڈر میٹرک کرے تو سمجھ بھی آتا ھے۔

والسلام
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
السلام علیکم

اس فتوی کے تحت نکاح کے وقت دو گواہ لڑکی کی طرف سے ہوتے ہیں جب وہ نکاح نامہ پر دستخط کریں گے تو یہ اجازت ہی ھے جس پر وہ ولی کہلائیں گے۔

والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

محترم گواہ ولی کیسے ہو سکتا ہے؟؟ گواہ کا کام تو صرف نکاح کی گواہی دینا ہے نہ کہ اجازت۔ واللہ اعلم
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

محترم گواہ ولی کیسے ہو سکتا ہے؟؟ گواہ کا کام تو صرف نکاح کی گواہی دینا ہے نہ کہ اجازت۔ واللہ اعلم

السلام علیکم

سوال لانے والا سوال لایا ھے مگر پوری بات اس نے بھی سوال میں بیان نہیں کی کہ لڑکی لاوارث تھی یا والدین یا رشتہ میں اگر کوئی تھا تو اسے اس نکاح میں شامل نہیں کیا گیا اور لڑکی نکاح میں خود ہی بیٹھ گئی۔

دوران نکاح کیا باپ کو پوچھا جاتا ھے کہ آپ اس لڑکی کے باپ: ولی ہیں اور آپ اس نکاح پر اجازت دیتے ہیں؟

دوران نکاح گواہ کے لئے محلہ کے لوگ شامل نہیں کئے جاتے بلکہ یہ لڑکے کے تایا، چچا، ماموں، پھوپھا وغیرہ سے میں ہی کوئی دو ہوتے ہیں پھر دوران نکاح کیا گواہ اپنی مرضی سے نکاح نامہ پر دستخط کرتے ہیں؟ نہیں! ان کو لڑکی کا باپ اگر زندہ ھے تو وہی اس کی اجازت دیتا ھے۔ پھر اگر یہ گواہ ہی ہیں تو کیا ان سے گواہی لی جاتی ھے؟ نہیں! صرف دستخط کرنے تک ہی ان کا کام ھے۔ قانونی طور پر گھر کی گواہی نہیں مانی جاتی اس پر گواہ کوئی باہر کا ہی ہوتا ھے اور دوران نکاح گھر کے افراد کو ہی بطور گواہ دستخط لئے جاتے ہیں۔

یہ کام صرف دلہا سے ہی مکمل کروایا جاتا ھے، نکاح نامہ پر دستخط کے بعد باقائدہ اس سے قبولیت بھی کروائی جاتی ھے۔ اسی طرح دلہن سے بھی نکاح نامہ پر دستخط کروانے کے بعد بہت کم ہی نکاح خواں کو دلہن کے پاس قبولیت کے لئے بھیجا جاتا ھے اکثر گھر کا کوئی بڑا ہی دلہن کے پاس اس کام کے لئے جاتا ھے اور پھر کچھ سال پہلے تک تو دلہن کونسا ہاں میں اقرار کرتی تھیں گھر کی کوئی عورت ہی اس کے سر پر ہاتھ رکھ کے سر ہلاتی تھیں مگر اب سننے میں آیا ھے کہ دلہنوں نے خود ہی ہاں کرنی شروع کر دی ھے۔

والسلام
 
Top