یہ لوگ غیب کی دو تقسیم کرتے ہیں :١۔ علم غیب ذاتی ٢۔ علم غیب عطائی (یعنی اللہ تعالی ذاتی طور پر عالم الغیب ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عطائی طور پر عالم الغیب ہیں)
جواب : اولا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنا اس لئے غلط ہے کہ قرآ ن اور صحیح احادیث اس کی نفی کررہے ہیں(بوقت ضرورت تمام آیات واحادیث کو ان شاء اللہ پیش کیا جائے گا)
ثانیا: علم غیب کی یہ تقسیم نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور نہ ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کی بلکہ یہ تقسیم کفار مکہ کی ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے
''عن ابن عباس - رضی اللہ عنہما - قال: کان المشرکون یقولون لبیک لا شریک لک - قال - فیقول رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- ویلکم قد قد . فیقولون الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک. یقولون ہذا وہم یطوفون بالبیت'' (صحیح مسلم حدیث:٢٨٧٢) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مشرکین مکہ اس طرح تلبیہ پکارتے تھے اے اللہ ! ہم حاضرہیں تیرا کوئی شریک نہیں(تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے تمہارے لیے بربادی ہو بس کرو )پھر وہ کہتے: ہاں تیرا ایک شریک ہے جس کا تو مالک ہے وہ نہیں یہ کہ کر وہ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے ''
یعنی مشرکین مکہ کے بقول مالک کی دو قسمیں ہیں:١۔ مالک حقیقی (جو اللہ تعالی کی ذات جیسا کہ ان کا عقیدہ تھا)٣۔ مالک عطائی (جو اللہ کے شریک تھے اور وہ بذات خود مختار نہیں بلکہ ان کا بھی مالک اللہ ہی تھا مگر انہیں اللہ کی طرف سے کچھ طاقت وقوت ملی تھی )
ثالثا: کیا اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا پورا علم غیب دے دیا ہے تو اس کا جواب ہر مکتب فکر کے علماء نفی میں دیتے ہیں ' پھر اس بات کو تسلیم کیے کو ئی چارہ نہیں کہ بعض علم غیب کی وجہ سے کسی کو عالم الغیب نہیں کہ سکتے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ امت محمدیہ کا ہر فرد عالم الغیب ہو ارشاد باری تعالی ہے( تِلْکَ مِنْ أَنبَاء الْغَیْْبِ نُوحِیْہَا ِالَیْْکَ مَا کُنتَ تَعْلَمُہَا أَنتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِن قَبْلِ ہَذَا)''یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم''(سورئہ ہود :٤٩)
آیت کریمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ ان کی قوم کوبھی صاف لفظوں میں غیب سے باخبر کیا جارہا یے پھر امت محمدیہ کو کوئی عالم الغیب کیوں نہیں کہتا؟؟؟یہ دوغلی پالیسی اچھی نہیں۔
علم غیب کیا ہے؟