مظفر اختر
رکن
- شمولیت
- جون 13، 2018
- پیغامات
- 109
- ری ایکشن اسکور
- 12
- پوائنٹ
- 44
السلام علیکم
میرا ایک سوال ہے کہ کیا عقیدے کے مسائل میں اجتھاد ہو سکتا ہے؟؟
اور دوسرا یہ کہ دیو بندیوں کا عقیدہ ہے کہ نبیﷺ کی قبر مبارک کی مٹی کعبہ اور عرش سے افضل ہے اور اس بات پر وہ اجماع کا دعوی کر رہے ہیں۔۔۔۔
ان کی یہ بات کس حد تک درست ہے؟؟؟
ایک دیو بندی کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں
کچھ تمہیدی باتیں سمجھ لیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے انسان کے جمیع معاملات کے متعلق احکامات کی تشریحات منقول نہیں ہیں اس وقت جو صورت یا مسئلہ درپیش ھوا حضرت قرآن و حدیث سے اس کا جواب ارشاد فرما دیا کرتے تھے اور باضابطہ ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے شرعی مسائل کو اسی طرز پر یکجا جمع کیا مگر اس میں بھی اس وقت کے اعتبار اور انسانی ذہن کے نقص کی وجہ سے قیامت تک کے مسائل تفصیلی ذکر نہیں ہیں اور یہی حال قرآن اور حدیث کا ہے کہ ان میں بھی ہر ہر مسئلہ قیامت تک جو درپیش ھوگا تفصیلا بیان نہیں کیا گیا بلکہ کچھ ضوابط اور قواعد بیان کئے گئے جس سے آئندہ زندگی میں پیش آمدہ مسائل کی شرعی نوعیت متعین کی جاتی ہے اور حکم شرعی نافذ کیا جاتا ہے اب اگر باتیں سمجھ آگئی ھوں تو اگلی بات سمجھنا آسان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کائنات کی ہر ہر شئے سے بالاتفاق افضل ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس بھی چیز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات متعلق ھوئی یا اس چیز کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ھوئی وہ چیز افضل ھو گئی حتی کہ ان میں سے بعض اشیاء کی فضیلت اور ان کے ساتھ قسمیں خود اللہ رب العزت نے کھائیں ہیں جیسے سورہ بلد کی ابتدائی آیات میں لا اقسم بھذا البلد میں اس شہر کی قسم اس لئے کھائی کہ آپ اس شہر میں سکونت اختیار کئے ھوئے ہیں چنانچہ خود قرآن میں ہے و انت حل بھذا البلد ۔
اسی بات کو تفسیر روح المعانی میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ا اقسم بھٰذا ا لبلد وأنت حل بھذا البلد(۲) في روح المعانی والاعتراض لتشریفہ ﷺ بجعل حلولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام مناطالإ عظام البلد بالإقسام بہ وجعل بعض الاجلۃ الجملۃ علیٰ ھذ االوجہ حالا من ہذا البلد۔ اھ(روح المعاني، سورۃ البلد، تفسیرالأیۃ: ۲، مکتبۃ زکریا دیوبند ۱۶، ۲۴۱، جزء: ۳۰۔۔)
اور اسی قبیل سے ہے استدلال حضرت ابن عباسؓ کا تفضیل نبوی علی الملائکۃ اور اس پر درج ذیل روایت شائد ہے
جو دارمی اور مشکوہ میں ان لفظوں سے ہے
قا ل إن اللّٰہ تعالیٰ: فضل محمدا ﷺ علی الأنبیاء وعلیٰ أھل السماء۔ فقالوا: یا أبا عباس بم فضلہ اللّٰہ علی أھل السماء۔ قال ان اللّٰہ تعالیٰ: قال لأھل السماء ومن یقل منھم انی إلٰہ من دونہ فذلک نجزیہ جھنم کذلک نجزی الظٰلمین۔ وقال اللّٰہ تعالیٰ: لمحمدﷺ إنا فتحنا لک فتحَا مبینا لیغفر لک اللّٰہ تقدم من ذنبک وما تأخر الحدیث۔ کذالک في المشکوٰۃ عن الدارمي
مشکاۃ المصابیح، باب فضائل سیدالمرسلین، الفصل الثالث، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ص:۵۱۵۔
سنن الدارمي، المقدمۃ، باب ماأعطی النبي صلی اﷲ علیہ وسلم من الفضل، دارالمغني الریاض ۱/۱۹۳-۱۹۴، رقم: ۴۷۔
ان آیات اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جو بھی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ھوگی وہ کائنات کی ہر ہر مخلوق سے افضل ھوگی۔
اب آتے ہیں مسئولہ مسئلہ پر سائل کے علم میں یہ بات ھونی چاہیے کہ اس بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کوئی تفصیلی عبارت منقول نہیں ہے اسی وجہ سے مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ اس کے بعد لکھا کہ ہے کہ جیسا کے ہمارے فقہاء نے لکھا ہے اور مزید یہ کہ اس بات پر امت کا اجماع ہے اور اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک اجماع بھی قطعی دلیل ھوتا ہے اور ایک بات اور کہ یہ موقف صرف علماء احناف ہی کا نہیں بلکہ پوری امت کا ہے جیسا کہ قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ امام تاج الفاکھی حنبلی رحمہ اللہ اور علامہ سخاوی شافعی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔
مگر اعتراض صرف علماء احناف ہی پر کیوں۔؟
حوالہ اس بات پر
في الدرالمختار: اٰخرکتاب الحج، ومکۃ أفضل منھا (أي من المدینۃ) علی الراجح إلا ماضم أعضاء ہ علیہ الصلوٰۃ والسلام، فإنہ أفضل مطلقًا حتیٰ من الکعبۃ والعرشوالکرسي۔ اھ
و في ردالمحتار: بعد نقل بعض الخلاف مانصہ وقد نقل القاضي عیاض وغیرہ الإجماع علیٰ تفضیلہ (أي الضریح الشریف) حتی علی الکعبۃ و أن الخلاف فیہا ماعداہ ونقل عن ابن عقیل الحنبلي ان تلک البقعۃ أفضل من العرش وقد واففہ السادۃ البکریون علیٰ ذلک وقد صرح التاج الفاکھي بتفضیل الأرض علی السموٰات لحلولہ صلی اﷲ علیہ وسلم بہا، وحکاہ بعضھم علی الأکثرین لخلق الأنبیاء منھا ودفنھم فیھا،
الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب الہدی، مطلب في تفضیل مکۃ علی المدینۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۴/۵۲-۵۳، کراچي۲/۶۲۶۔
مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب المسجد ومواضع الصلاۃ، الفصل الأول، مکتبۃ زکریا دیوبند ۲/۳۷۰، تحت الحدیث : ۶۹۲، امدادیۃ ملتان ۲/۱۹۰)
مہربانی کر کے علماء رہنمائی فرمائیں
میرا ایک سوال ہے کہ کیا عقیدے کے مسائل میں اجتھاد ہو سکتا ہے؟؟
اور دوسرا یہ کہ دیو بندیوں کا عقیدہ ہے کہ نبیﷺ کی قبر مبارک کی مٹی کعبہ اور عرش سے افضل ہے اور اس بات پر وہ اجماع کا دعوی کر رہے ہیں۔۔۔۔
ان کی یہ بات کس حد تک درست ہے؟؟؟
ایک دیو بندی کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں
کچھ تمہیدی باتیں سمجھ لیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے انسان کے جمیع معاملات کے متعلق احکامات کی تشریحات منقول نہیں ہیں اس وقت جو صورت یا مسئلہ درپیش ھوا حضرت قرآن و حدیث سے اس کا جواب ارشاد فرما دیا کرتے تھے اور باضابطہ ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے شرعی مسائل کو اسی طرز پر یکجا جمع کیا مگر اس میں بھی اس وقت کے اعتبار اور انسانی ذہن کے نقص کی وجہ سے قیامت تک کے مسائل تفصیلی ذکر نہیں ہیں اور یہی حال قرآن اور حدیث کا ہے کہ ان میں بھی ہر ہر مسئلہ قیامت تک جو درپیش ھوگا تفصیلا بیان نہیں کیا گیا بلکہ کچھ ضوابط اور قواعد بیان کئے گئے جس سے آئندہ زندگی میں پیش آمدہ مسائل کی شرعی نوعیت متعین کی جاتی ہے اور حکم شرعی نافذ کیا جاتا ہے اب اگر باتیں سمجھ آگئی ھوں تو اگلی بات سمجھنا آسان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کائنات کی ہر ہر شئے سے بالاتفاق افضل ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس بھی چیز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات متعلق ھوئی یا اس چیز کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ھوئی وہ چیز افضل ھو گئی حتی کہ ان میں سے بعض اشیاء کی فضیلت اور ان کے ساتھ قسمیں خود اللہ رب العزت نے کھائیں ہیں جیسے سورہ بلد کی ابتدائی آیات میں لا اقسم بھذا البلد میں اس شہر کی قسم اس لئے کھائی کہ آپ اس شہر میں سکونت اختیار کئے ھوئے ہیں چنانچہ خود قرآن میں ہے و انت حل بھذا البلد ۔
اسی بات کو تفسیر روح المعانی میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ا اقسم بھٰذا ا لبلد وأنت حل بھذا البلد(۲) في روح المعانی والاعتراض لتشریفہ ﷺ بجعل حلولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام مناطالإ عظام البلد بالإقسام بہ وجعل بعض الاجلۃ الجملۃ علیٰ ھذ االوجہ حالا من ہذا البلد۔ اھ(روح المعاني، سورۃ البلد، تفسیرالأیۃ: ۲، مکتبۃ زکریا دیوبند ۱۶، ۲۴۱، جزء: ۳۰۔۔)
اور اسی قبیل سے ہے استدلال حضرت ابن عباسؓ کا تفضیل نبوی علی الملائکۃ اور اس پر درج ذیل روایت شائد ہے
جو دارمی اور مشکوہ میں ان لفظوں سے ہے
قا ل إن اللّٰہ تعالیٰ: فضل محمدا ﷺ علی الأنبیاء وعلیٰ أھل السماء۔ فقالوا: یا أبا عباس بم فضلہ اللّٰہ علی أھل السماء۔ قال ان اللّٰہ تعالیٰ: قال لأھل السماء ومن یقل منھم انی إلٰہ من دونہ فذلک نجزیہ جھنم کذلک نجزی الظٰلمین۔ وقال اللّٰہ تعالیٰ: لمحمدﷺ إنا فتحنا لک فتحَا مبینا لیغفر لک اللّٰہ تقدم من ذنبک وما تأخر الحدیث۔ کذالک في المشکوٰۃ عن الدارمي
مشکاۃ المصابیح، باب فضائل سیدالمرسلین، الفصل الثالث، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ص:۵۱۵۔
سنن الدارمي، المقدمۃ، باب ماأعطی النبي صلی اﷲ علیہ وسلم من الفضل، دارالمغني الریاض ۱/۱۹۳-۱۹۴، رقم: ۴۷۔
ان آیات اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جو بھی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ھوگی وہ کائنات کی ہر ہر مخلوق سے افضل ھوگی۔
اب آتے ہیں مسئولہ مسئلہ پر سائل کے علم میں یہ بات ھونی چاہیے کہ اس بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کوئی تفصیلی عبارت منقول نہیں ہے اسی وجہ سے مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ اس کے بعد لکھا کہ ہے کہ جیسا کے ہمارے فقہاء نے لکھا ہے اور مزید یہ کہ اس بات پر امت کا اجماع ہے اور اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک اجماع بھی قطعی دلیل ھوتا ہے اور ایک بات اور کہ یہ موقف صرف علماء احناف ہی کا نہیں بلکہ پوری امت کا ہے جیسا کہ قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ امام تاج الفاکھی حنبلی رحمہ اللہ اور علامہ سخاوی شافعی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔
مگر اعتراض صرف علماء احناف ہی پر کیوں۔؟
حوالہ اس بات پر
في الدرالمختار: اٰخرکتاب الحج، ومکۃ أفضل منھا (أي من المدینۃ) علی الراجح إلا ماضم أعضاء ہ علیہ الصلوٰۃ والسلام، فإنہ أفضل مطلقًا حتیٰ من الکعبۃ والعرشوالکرسي۔ اھ
و في ردالمحتار: بعد نقل بعض الخلاف مانصہ وقد نقل القاضي عیاض وغیرہ الإجماع علیٰ تفضیلہ (أي الضریح الشریف) حتی علی الکعبۃ و أن الخلاف فیہا ماعداہ ونقل عن ابن عقیل الحنبلي ان تلک البقعۃ أفضل من العرش وقد واففہ السادۃ البکریون علیٰ ذلک وقد صرح التاج الفاکھي بتفضیل الأرض علی السموٰات لحلولہ صلی اﷲ علیہ وسلم بہا، وحکاہ بعضھم علی الأکثرین لخلق الأنبیاء منھا ودفنھم فیھا،
الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب الہدی، مطلب في تفضیل مکۃ علی المدینۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۴/۵۲-۵۳، کراچي۲/۶۲۶۔
مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب المسجد ومواضع الصلاۃ، الفصل الأول، مکتبۃ زکریا دیوبند ۲/۳۷۰، تحت الحدیث : ۶۹۲، امدادیۃ ملتان ۲/۱۹۰)
مہربانی کر کے علماء رہنمائی فرمائیں