السلام علیکم
یہ واقعی کیا صحیح ہے؟
اسکی سند مطلوب ہے اور اگر یہ صحیح نہیں تو پھر اس کو پیش کرنے والے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
اور اگر صحیح ہے تو کیا اسی طرح سے ہے؟ اور کیا یہ صرف علی رضی اللہ عنہ کے لئے ہوا؟
تفصیل بھی درکار ہے
جزاکم اللہ خیرا
حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی تربیت براہِ راست آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بچوں میں سب سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔
حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اور تقرب کا حال جاننے کے لئے یہ روایت ملاحظہ فرمائیے :
حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ غزوہء خیبر کے دوران قلعہ صہباء کے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سرِ انور رکھ کر اِستراحت فرما رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی نمازِ عصر ادا نہیں کی تھی۔ اگر معاذاللہ محبت وعشق سے بےبہرہ خشک اعمال پرست مسلمان ہوتے تو عرض کردیتے یارسول اللہ ! ذرا چند لمحے توقف فرمائیں میں عصر پڑھ لوں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن جہاں بحر محبت موجزن ہو وہاں عقل کا کیا کام ۔ اسی لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ’’عقل قرباں کن بہ پیشِ مصطفیٰ‘‘ کا مظہر بنتے ہوئے اپنی نماز محبوب کے آرام پر قربان کر دی، جس کے نتیجے میں اس کشتۂ آتشِ عشق اور پیکرِ وفا کو وہ نماز نصیب ہوئی جو کائناتِ انسانیت میں کسی دوسرے کا مقدر نہ بن سکی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اور قرب نصیب کا نادر موقع کیونکر ہاتھوں سے جانے دیتے۔ وہ تو سالارِ عاشقاں ہیں اس راز کو بخوبی جانتے تھے
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
چنانچہ انہوں نے موقع غنیمت جانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِانور کے لئے اپنی گود بچھا دی، جس پر محبوب کل جہاں انے اپنا مبارک سر انکی گود میں رکھا اور اِستراحت فرمانے لگے۔ اب نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور نہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ نماز عصر ادا ہوئی کہ نہیں؟
آفتابِ جہاں تاب اپنی منزلیں طے کرتا ہوا غروب ہوتاجارہا تھا۔ اور آٍفتابِ رسالت انکی گود میں جلوہ فرما تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سورج ڈوب چلا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدا ر ہوئے تو دیکھا کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پریشانی کے عالم میں محوِ گریہ ہیں۔
پوچھا : کیا بات ہوئی؟
عرض کیا : آقا! میری نمازِ عصر رہ گئی ہے۔
فرمایا : قضا پڑھ لو۔
سالارِ عاشقاں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ، گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ آقا !ٗنماز جائے آپ کی خدمت میں اور قضا پڑھوں؟
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ قضا نہیں بلکہ نماز ادا ہی کرنا چاہتا ہے تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، اللہ جل مجدہ کی بارگاہ میں دستِ اقدس دعا کے لئے بلند کر دیئے اور عرض کیا :
اللّٰهم! إنّ عليا فی طاعتک و طاعة رسولک، فاردد عليه الشمس.
’’اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا (کہ اس کی نماز قضا ہو گئی)، پس اس پر سورج کو پلٹا دے (تاکہ اس کی نماز ادا ہو)۔‘‘
غور طلب نکتہ :
نماز وقت پر ادا کرنا اللہ کی اطاعت ہے لیکن یہاں تو نماز قضا ہو گئی تھی اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قضا کو اﷲ کی اطاعت قرار دے رہے ہیں۔ آرام تو حضور علیہ السلام کا تھا، نیند بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند پر قربان ہو گئی۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ
’’اے اللہ! علی تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا‘‘ لیکن ایسا نہیں فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے اطاعت کا مفہوم بھی واضح ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت گری جیسی بھی ہو رب کی اطاعت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھے اس لئے ان کی نماز قضا ہو کر بھی اطاعتِ الٰہی قرار پائی۔
حدیثِ مبارک میں مذکور ہے کہ جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستِ اقدس دعا کے لئے بلند فرمائے تو ڈوبا ہوا سورج اس طرح واپس پلٹ آیا جیسے ڈوبا ہی نہ ہو۔ یہ تو ایسے تھا جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈوریاں ہوں جنہیں کھینچنے سے سورج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کھنچا آرہا ہو۔ یہاں تک کہ سورج عصر کے وقت پر آگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا کی۔
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 151، رقم : 2390
هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 3297
قاضي عياض، الشفا، 1 : 4400
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 583
سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 6137
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 103
مجمع الزوائد کا اصل نام مجمع الزوائد و منبع الفوائد ہے۔ یہ حدیث مبارکہ کی ایک کتاب ہے اور یہ علی ابن ابو بکر الہیتمی (735ہ - 807ہ) کی تصنیف ہے۔
یہ واقعی کیا صحیح ہے؟
اسکی سند مطلوب ہے اور اگر یہ صحیح نہیں تو پھر اس کو پیش کرنے والے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
اور اگر صحیح ہے تو کیا اسی طرح سے ہے؟ اور کیا یہ صرف علی رضی اللہ عنہ کے لئے ہوا؟
تفصیل بھی درکار ہے
جزاکم اللہ خیرا
حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی تربیت براہِ راست آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بچوں میں سب سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔
حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اور تقرب کا حال جاننے کے لئے یہ روایت ملاحظہ فرمائیے :
حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ غزوہء خیبر کے دوران قلعہ صہباء کے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سرِ انور رکھ کر اِستراحت فرما رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی نمازِ عصر ادا نہیں کی تھی۔ اگر معاذاللہ محبت وعشق سے بےبہرہ خشک اعمال پرست مسلمان ہوتے تو عرض کردیتے یارسول اللہ ! ذرا چند لمحے توقف فرمائیں میں عصر پڑھ لوں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن جہاں بحر محبت موجزن ہو وہاں عقل کا کیا کام ۔ اسی لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ’’عقل قرباں کن بہ پیشِ مصطفیٰ‘‘ کا مظہر بنتے ہوئے اپنی نماز محبوب کے آرام پر قربان کر دی، جس کے نتیجے میں اس کشتۂ آتشِ عشق اور پیکرِ وفا کو وہ نماز نصیب ہوئی جو کائناتِ انسانیت میں کسی دوسرے کا مقدر نہ بن سکی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اور قرب نصیب کا نادر موقع کیونکر ہاتھوں سے جانے دیتے۔ وہ تو سالارِ عاشقاں ہیں اس راز کو بخوبی جانتے تھے
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
چنانچہ انہوں نے موقع غنیمت جانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِانور کے لئے اپنی گود بچھا دی، جس پر محبوب کل جہاں انے اپنا مبارک سر انکی گود میں رکھا اور اِستراحت فرمانے لگے۔ اب نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور نہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ نماز عصر ادا ہوئی کہ نہیں؟
آفتابِ جہاں تاب اپنی منزلیں طے کرتا ہوا غروب ہوتاجارہا تھا۔ اور آٍفتابِ رسالت انکی گود میں جلوہ فرما تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سورج ڈوب چلا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدا ر ہوئے تو دیکھا کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پریشانی کے عالم میں محوِ گریہ ہیں۔
پوچھا : کیا بات ہوئی؟
عرض کیا : آقا! میری نمازِ عصر رہ گئی ہے۔
فرمایا : قضا پڑھ لو۔
سالارِ عاشقاں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ، گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ آقا !ٗنماز جائے آپ کی خدمت میں اور قضا پڑھوں؟
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ قضا نہیں بلکہ نماز ادا ہی کرنا چاہتا ہے تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، اللہ جل مجدہ کی بارگاہ میں دستِ اقدس دعا کے لئے بلند کر دیئے اور عرض کیا :
اللّٰهم! إنّ عليا فی طاعتک و طاعة رسولک، فاردد عليه الشمس.
’’اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا (کہ اس کی نماز قضا ہو گئی)، پس اس پر سورج کو پلٹا دے (تاکہ اس کی نماز ادا ہو)۔‘‘
غور طلب نکتہ :
نماز وقت پر ادا کرنا اللہ کی اطاعت ہے لیکن یہاں تو نماز قضا ہو گئی تھی اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قضا کو اﷲ کی اطاعت قرار دے رہے ہیں۔ آرام تو حضور علیہ السلام کا تھا، نیند بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند پر قربان ہو گئی۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ
’’اے اللہ! علی تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا‘‘ لیکن ایسا نہیں فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے اطاعت کا مفہوم بھی واضح ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت گری جیسی بھی ہو رب کی اطاعت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھے اس لئے ان کی نماز قضا ہو کر بھی اطاعتِ الٰہی قرار پائی۔
حدیثِ مبارک میں مذکور ہے کہ جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستِ اقدس دعا کے لئے بلند فرمائے تو ڈوبا ہوا سورج اس طرح واپس پلٹ آیا جیسے ڈوبا ہی نہ ہو۔ یہ تو ایسے تھا جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈوریاں ہوں جنہیں کھینچنے سے سورج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کھنچا آرہا ہو۔ یہاں تک کہ سورج عصر کے وقت پر آگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا کی۔
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 151، رقم : 2390
هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 3297
قاضي عياض، الشفا، 1 : 4400
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 583
سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 6137
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 103
مجمع الزوائد کا اصل نام مجمع الزوائد و منبع الفوائد ہے۔ یہ حدیث مبارکہ کی ایک کتاب ہے اور یہ علی ابن ابو بکر الہیتمی (735ہ - 807ہ) کی تصنیف ہے۔