• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عمر رضی اللہ عنہا کا نکاح بنت علی رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا؟؟؟؟؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آئیں اب کچھ جائزہ ہوجائے صحیح بخاری کی روایت کی سند کا پہلی دلیل میں جو روایت پیش کی گئی اس کی سند یہ ہے
حدثنا عبدان،‏‏‏‏ أخبرنا عبد الله،‏‏‏‏ أخبرنا يونس،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ قال ثعلبة بن أبي مالك
اس سند میں موجود دو راویوں کا جائزہ اہل سنت کے جرح و تعدیل کے اماموں کے اقوال کے مطابق لیتے ہیں
يونس
ابن شهاب
يونس بن يزيد بن أبي النجاد الأيلي
پہلے یہ دیکھا جائے کہ یہ یونس بن یزید کون تھا امام ابن حجر عسقلانی تهذيب التهذيبمیں فرماتے ہیں کہ یونس بن یزید معاویہ بن ابو سفیان کا غلام تھا یہی بات امام ابن حجر عسقلانی نے تقريب التهذيب میں دھرائی ہے اس کے علاوہ امام ذھبی نے بھی سير أعلام النبلاء میں بھی اس کو بیان کیا ہے
اب ایسے لوگوں جن کی دشمنی اہل بیت اطہار سے ڈھکی چھپی نہیں ان کے غلام اگر اس طرح کی روایت بیان کریں تو یہ کس بناء پر قابل قبول ہوسکتی ہے پھر بھی آپ کی خدمت میں اہل سنت کے جرح و تعدیل کے اماموں کی رائے یونس بن یزید کے بارے میں پیش کئے دیتا ہوں
وقال محمد بن عوف عن أحمد بن حنبل: قال وكيع: رأيت يونس بن يزيد الأيلي وكان سيء الحفظ.
وكيع کہتے ہیں: يونس بن يزيد ايلى کو دیکھا ہے وہ حفظ میں برا تھا
قال أبو عبد الله: ويونس يروي أحاديث من رأي الزهري يجعلها عن سعيد. قال أبو عبد الله: يونس كثير الخطأ عن الزهري وعقيل أقل خطأ منه.
ابوعبد الله نے کہا یونس زھر ی سے اسکی خطا بہت ہیں اور عقیل نے اس سے کم خطائیں کی ہیں ۔
وقال أبو الحسن الميموني: سئل أحمد بن حنبل: من أثبت في الزهري? قال: معمر قيل له: فيونس قال: روى أحاديث منكرة.
ابوالحسن ميمونى نے بھی کہا: احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ زھری سے روایات کرنے والا بہترین راوی کون ہے کہا : معمر ۔ پھر سوال کیا یونس کیسا ہے ؟ امام احمد نے کہا وہ منکرات روایات نقل کرتا ہے ۔
وقال أبو زرعة الدمشقي: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول: في حديث يونس بن يزيد منكرات عن الزهري
کہا ابو زرعہ دمشقی نے کہ میں نے سنا کہ ابا عبداللہ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یونس بن یزید کی زھری سے روایات منکرات ہیں
وقال محمد بن سعد: كان حلو الحديث كثيره وليس بحجة ربما جاء بالشيء المنكر.
محمد بن سعد نے کہا یونس کی روايات مزیدار ہوتی ہیں ؛ لیکن حجت نہیں رکھتی ہیں ؛ اس لئے کہ وہ منکرات کو نقل کرتا ہے
تهذيب الكمال في أسماء الرجال ،تأليف : المزي ، الصفحة : 3745
http://www.alwaraq.net/Core/AlwaraqSrv/bookpage?book=360&session=ABBBVFAGFGFHAAWER&fkey=2&page=1&option=1
اہل سنت کے جرح و تعدیل کے اماموں کے نزدیک یونس کی روایت ابن شہاب زھری سے منکرات روایات ہیں اور یہ روایت بھی یونس نے زھری سے روایت کی ہے اور ابن سعد کے بقول کہ یونس کی روایت مزیدار ہوتی ہیں جیسا کہ یہ روایت ہے لیکن کیا کریں کہ اس سے حجت نہیں لے سکتے
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ یونس کی زھری سے روایت میں قلیل وھم پایا جاتا ہے اور غیر زھری سے خطاء بہت ہیں
اب اس روایت میں بھی یونس بن یزید کو وھم ہوا کہ جو لڑکی حضرت عمر کے پاس کھڑی ہوئی تھی وہ ام کلثوم بنت علی تھیں اور یونس کے اس وھم کی بنیاد پر یہ سارا فسانہ گھڑ لیا گیا
یہ تھا صحیح بخاری کے ایک راوی کے بارے میں ایک جائزہ دوسرے راوی حدیث ابن شھاب زھری پر جائزہ اگلے مراسلے میں ان شاء اللہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آئیں اب صحیح بخاری کی پہلی دی گئی دلیل کے دوسرے راوی ابن شهاب الزهري‏‏ کا جائزہ لیتے ہیں
ابن شہاب زھری کا نام محمد بن مسلم بن عبيد الله بن عبد الله بن شهاب الزهري کنیت ابو بکر ہے آپ بنو امیہ کے حکمرانوں کے درباری تھے ان سے بہت انعام و اکرام پاتے تھے اور ایسی بناء پر فضائل آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھپاتے تھے ایسی لئے ابن عساکر اپنی کتاب تاریخ مدینہ دمشق میں فرماتے ہیں کہ
قال جعفر بن إبراهيم الجعفري: كنت عند الزهري أسمع منه، فإذا عجوز قد وقفت عليه فقالت: يا جعفري، لا تكتب عنه، فإنه مال إلى بني أمية، وأخذ جوائزهم، فقلت: من هذه? قال: أختي رقية، خرفت، قال: خرفت أنت؛ كتمت فضائل آل محمد.
جعفر بن ابراہيم جعفر ی کہتے ہیں میں زھری سے حدیث سننے میں مشغول تھا اتنے میں ایک بوڑھی عورت آکر کہتی ہے اس سے کوئی روایت نقل مت کرو کیوں کہ یہ بنی امیہ کی طرف مائل ہے اور ان سے تحائف اور انعام لیتا ہے ۔ میں نے کہا یہ کون ہے ؟ زھری نے کہا یہ میری بہن رقیہ ہے اس کا دماغ چل گیا ہے ۔
زھری کی بہن نے جواب دیا: بلکہ تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے اورتو آل محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کے فضائل کو چھپاتا ہے ۔
مختصر تاريخ دمشق، ابن منظور ، الصفحة : 2393
http://www.alwaraq.net/Core/AlwaraqSrv/bookpage?book=103&session=ABBBVFAGFGFHAAWER&fkey=2&page=1&option=1
ابن شہاب زہری بنو امیہ کے حکمرانوں کے درباری ہونے کی شہادت ابن حجر عسقلانی نے بھی دی ہے آپ اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں ترجمہ اعمش میں لکھتے ہیں کہ
الحاكم عن ابن معين :أنه قال : أجود الأسانيد : الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله فقال له إنسان : الأعمش مثل الزهري ? فقال : برئت من الأعمش أن يكون مثل أزهري الزهري يرى العرض والإجازة ويعمل لبني أمية والأعمش فقير صبور مجانب للسلطان ورع عالم بالقرآن
امام حاكم نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: بہترین سند یہ ہے" الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله " کسی نے کہا اعمش زھری کی طرح ہے؟ ابن معین نے کہا میں بیزار ہو اور برائت کرتا ہوں کہ اعمش ، زھری کی طرح ہو ۔ زھری مال دنیا اور انعام کے پیچھےہے اور بنی امیہ کے لئے کام کرتا تھا اور اعمش ایک فقیر درویش انسان اور حکمرانوں سے دوری اختیار کرتا تھا اور صاحب تقوی اور قرآن پر عمل کرنے والا تھا ۔
تهذيب التهذيب ، ابن حجر العسقلاني ، الصفحة : 563
http://www.alwaraq.net/Core/SearchServlet/searchone?docid=263&searchtext=2KjYsdim2Kog2YXZhiDYp9mE2KPYudmF2LQg2KPZhiDZitmD2YjZhiDZhdir2YQg2KfZhNiy2YfYsdmK&option=1&offset=1&WordForm=1&exactpage=563&totalpages=1&AllOffset=1
اب ایک ایسا راوی جو بنی امیہ کے لئے کام کرتا ہو اور پھر جو آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بھی چھپاتا ہو اور اس پر دربار بنی امیہ سے انعام و اکرام پاتا ہو وہ اگر اس طرح کی روایت بیان کرے تو اس میں تعجب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہوسکتا ہے اس روایت کو بیان کرنے پر بھی بہت مال و اسباب دربار بنی امیہ سے ایسے ملا ہو لیکن تعجب ان لوگوں پر ہوتا ہے جو یہ سب کچھ جانتے ہوئے ابن شہاب کی اس روایت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں
اور اسی طرح ذهبى نےسير اعلام النبلاء میں ابن شہاب زہری کے بارے میں لکھا ہے
محتشما جليلا بزي الأجناد له صورة كبيرة في دولة بني أمية
نبی امیہ کے حاکموں کے یہاں اس کی بڑی قدر ومنزلت تھی ۔
ابن عساکر اپنی تاریخ دمشق میں لکھتے ہیں کہ
قال عمر بن رديح: كنت أمشي مع ابن شهاب الزهري، فرآني عمرو بن عبيد، فلقيني بعد فقال: مالك ولمنديل الأمراء؛ يعني ابن شهاب.
مختصر تاريخ دمشق ، ابن منظور ، الصفحة : 3139
http://www.alwaraq.net/Core/SearchServlet/searchone?docid=103&searchtext=2YjZhNmF2YbYr9mK2YQg2KfZhNij2YXYsdin2KE=&option=1&offset=1&WordForm=1&exactpage=3139&totalpages=1&AllOffset=1
عمر بن رديح سے روایت ہوئی ہے ایک دن زھری کے ساتھ چل رہے تھے تو مجھے عمرو بن عیبد نے دیکھ لیا بعد میں مجھ سے ملاقات کر کے کہا تمہارا کیا واسطہ حکمرانوں کے رومال سے ؟ یعنی زھری حکمرانوں کے چمچہ سے تمہارا تعلق کیوں ہے ۔؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
دلیل دوئم
اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنھا کی بیوی تھیں۔ ان کا اور ان کے بیٹے زید کا جناہ اکٹھا رکھا گیا اور اس دن امام سعید بن عاص رضی اللہ عنہ تھے۔
اہل سنت کی کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے دو بیٹے زید نام کے تھے چھوٹے بیٹے کو زید اکبر اور بڑے بیٹے کو زید اصغر کہا جاتا تھا ہے نہ دلچسپ کہانی بڑے بیٹے زید اصغر کے بارے میں امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ
زيد بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي شقيق عبد الله بن عمر المصغر.
أمهما أم كلثوم بنت جرول كانت تحت عمر ففرق بينهما الإسلام لما نزلت: "ولاتمسكوا بعصم الكوافر" الممتحنة 10 فتزوجها أبو الجهم بن حذيفة وكان زوجها قبله عمرذكر ذلك الزبير وغيره فهذا يدل على أن زيداً ولد في عهد النبي صلى الله عليه وآله وسلم.

الإصابة في معرفة الصحابة ، تأليف : ابن حجر العسقلاني، الصفحة : 400 :401
http://www.alwaraq.net/Core/AlwaraqSrv/bookpage?book=264&session=ABBBVFAGFGFHAAWER&fkey=2&page=1&option=1
زيد بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، برادر عبد الله بن عمر اصغر؛ ان دونوں کی ماں ام کلثوم بنت جرودل ہے اور یہ عمر کی بیوی تھی جب یہ آیت «ولا تمسكوا بعصم الكوافر» نازل ہوئی تو اسلام نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی پھر اس سے ابو جھم نے شادی کی اور اس سے پہلے وہ عمر کی بیوی تھی اس بات کو زبیر اور دیگرلوگوں نے ذکر کیا ہے اور یہ بات یہ بتاتی ہے کہ زید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہوا ہے
ایس بات کو بلا سوچے سمجھے دیگر علماء اہلسنت نے بیان کیا کہ چھوٹے کو اکبر اور بڑے کو اصغر ان دونوں کا ذکر ابن جوزی نے حضرت عمر کی اولاد کے ضمن میں کچھ اس طرح کیا ہے
وزيد الأكبر، ورقية، وأمهم أم كلثوم بنت علي بت أبي طالب وأمها فاطمة بنت رِسول الله صلى الله عليه وسلم. وزيد الأصغر، وعبيد الله وأمهما أم كلثوم بنت جرول.وفرق الإسلام بين عمر وبين أم كلثوم أبنت جرول،،
المنتظم الصفحة ، تأليف : ابن الجوزي : : 460 : 459
http://www.alwaraq.net/Core/AlwaraqSrv/bookpage?book=43&session=ABBBVFAGFGFHAAWER&fkey=2&page=1&option=1
حضرت عمر کا بیٹا زید جو عہد نبی میں پیدا ہوا وہ اصغر اور جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد پیدا ہوا وہ زید اکبر یہ ایک معمہ ہے جو حل ہوکے نہیں دے رہا یہ تو ہوا حضرت عمر کے لڑکے زید کا مختصر تعارف اب آتے ہیں ان حوالوں جس دوسری اولاد کا ذکر ہے ام کلثوم سے یعنی رقیہ بنت عمر کا ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
وقال الزبير: زوج عمر بن الخطاب إبراهيم هذا ابنته.قلت: وعند البلاذري أنه كانت عنده رقية بنت عمر من أم كلثوم بنت علي.
الإصابة في معرفة الصحابة ، ابن حجر العسقلاني ، الصفحة : 61
زبير بن ابى بكر نے کہا كہ : عمر بن خطاب نے اس بیٹی کی شادی ابراہیم سے کی ؛ بلاذرى نے بھی کہا ابراہیم کی بیوی رقیہ بنت عمر و ام کلثوم بنت علی تھی۔

پہلے تو یہ ہوا کہ چھوٹے کو بڑا کردیا گیا اور بڑے کو چھوٹا اب ایک دو سال کی شیر خوار بچی کی شادی کا کروانا بھی حضرت عمر سے منسوب کیا جارہا ہے کیونکہ حضرت عمر کے بیٹے زید اکبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رقیہ سے بڑا تھا اگر اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ خلیفہ دوم کی شادی ام کلثوم سے ۱۷ یا ۱۸ ہجری میں ہونا کہا جاتا ہے اور عمر کی وفات ۲۳ ہجری میں ہوئی یعنی عمر نے ام کلثوم کے ساتھ ۶ سال گزارے ہیں ۔اور یہ بھی دیکھتے ہوئے زید ام کلثوم !!! کا بیٹا رقیہ سے بڑا تھا اور زید خود اپنے باپ کی زندگی کے آخری ایام میں پیدا ہوا پس کیسے قبول کر سکتے ہیں کہ رقیہ اس چھوٹی سی عمر یعنی ایک سال یا دو سال میں بیاہ دی گئی ہو ؟ اس افسانے میں اتنے تعارضات ہیں کہ جن کو سمٹنا ممکن نہیں
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

سوال: کیا اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عھنا سے ہوا تھا ؟ ائمہ اہل سنت اور اہل تشیح کی کتاب سے با دلائل ثابت کریں ؟

جواب: سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ سیدہ فاطمہ الزہراء بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں، بلا شبہ اُن کا نکاح حضرت عُمر بن خطاب رضی اللہ عنھا سے ہوا اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف فیریقین محدثین و مؤرخین کو بغیر کسی تردد کے ہے اور ہر دو مکتب فکر کی معرکہ آراء کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ پہلے اہل سنت کے محدثین و مؤرخین کی تصریحات نقل کی جاتی ہیں، پھر شیعی محدثین و مؤ رخین کے حوالہ جات درج کیے جاتے ہیں ۔
'' ثعلبہ بن ابی مالک کہتے ہیں کہ سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں تو ایک عمدہ چادر بچ گئی۔ اُن کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا' امیر المومنین! یہ چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دیجئے اُ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھا نے کہا اُم سلیط زیادہ حقدار ہے وہ انصاری عورت تھیں۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی ۔ سیدنا عمر رضی للہ عنہ نے کہا اُم سلیط جنگ اُحد کے دن ہمارے لئے مشکیں لاد لاد کر لاتی تھیں ۔''(صحیح بخاری باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو / کتاب الجھاد (۲۸۸۱) وباب ذکرام سلیط کتاب المغازی ۲/۵۸۶)
شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں؛
کہ سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہھا سیدنا عُمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں اور اُن کی ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھیں۔ اس لئے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا۔ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی پیدا ہوئی تھیں اور یہ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔
امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ و شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی اس تصریح سے واضح ہوا کہ سیدہ اُم بنت علی رضی اللہ عنھا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔
اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنھا کی بیوی تھیں۔ ان کا اور ان کے بیٹے زید کا جناہ اکٹھا رکھا گیا اور اس دن امام سعید بن عاص رضی اللہ عنہ تھے۔
امام ابنِ حزم حمھرۃ النساب العرب ۳۷' ۱۵۲ پر رقمطراز ہیں۔
اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں انِ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھا نے نکاح کیا اور سید نا عمر رضی اللہ عنھا کا ان سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی رُقیہ پیدا ہوئی۔
امام طبریٰ نے اپنی کتاب تاریخ الامم والملوک ۲ /۵۶۴ پر لکھا ہے کہ:
اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عھنا جن کی ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھیں سیدنا عمر رضی اللہ عنھا سے نکاح کیا ا س سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے۔
امام ابن عبدالبر نے الاستعیاب علی ھامش اصابہ ۴/۴۹۰ پر مذکورہ بالا عبارت کی طرح ہی لکھا ہے ۔ ائمہ اہل سنت کی ان تصریحات سے واضح ہوا کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا سیدنا عمر رضی اللہ عنھا سے نکاح ہوا اور اس سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے۔ اب شیعہ ائمہ کی تصریھات ملاحظہ کریں۔
سب سے پہلے ہم شیعہ کی معتبر کتاب کافی کی عبارت پیش کرتے ہیں جو ان کے ہاں بخاری شریف کے پایہ کی کتاب سمجھی جاتی ہے اور بعض شیعی محدثین کی تصریح کے مطابق یہ وہ کتاب ہے جو محمد بن یعقوب کلینی '' صاحب کافی '' نے لکھنے کے بعد امام مہدی کے پاس غار میں پیش کی تو انہوں نے کہا :
یہ کتاب ہمارے شیعوں کیلئے کافی ہے۔
شیعہ کا ثقہ الاسلام محمد بن یعقون کلینی فروع کافی باب تزویج ام کلثوم کتاب النکاح ۵ /۳۴۶ پر لکھتا ہے:

امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ آپ سے اُم کلثوم کے نکاح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا یہ ایک رشتہ تھا جو ہم سے چھین لیا گیا ۔
یہی مؤلف فروع کافی ۲ /۱۱۵ کتاب الطلاق میں راقم ہے۔
عبداللہ بن سنان امام صادق سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے مسئلہ دریافت کیا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے وہ عدت کہاں گزارے؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں مناسب خیال کرے وہاں بیٹھے؟ تو آپ نے جواب دیا جہاں چاہے عدت گزار لے کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنھا جب فوت ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنھا اپنی بیٹی اُم کلثوم ( بیوی عمر رضی اللہ عنھا)کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنے گھر لے گئے ۔
فروع کافی ۶ /۱۱۶ میں یہی روایت امام جعفر صادق سے روایت سلیمان بن خالد بھی رموعی ہے۔
شیعوں کے شٰک الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں فروع کافی سے اِن دونوں روایتوں کو اِ سی طرح نقل کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کتاب شیعوں کے ہاں صحیح مسلم کے پائے کی ہے۔
اسی طرح ابو جعفر محمد بن حسن طوسی نے اپنی دوسری کتاب الاستبصار ۳ /۳۵۲ (جو کہ شیعوں کی صحاب اربعہ میں شمار ہوتی ہے ) میں بھی اس روایت کو درج کیا ہے۔

امام جعفر صادق اپنے والد محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ اُم کلثوم بنت علی اور اس کا بیٹا زید بن عمر بن خطاب دونوں ماں بیٹا ایک ہی وقت میں فوت ہوئے اور یہ علم نہ ہو سکا کہ دونوں میں سے پہلے کون فوت ہوا اور ان دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کا وارث نہ بن سکا اور ان دونوں کی نمازِ جنازہ بھی اکھٹی پڑھی گئی ۔
شعیہ فقہ کی معتبر کتاب شرائع السلام کی شرح ایک شیعی عالم سلاک نے لکھی ہے وہ صاب شرائع کے اس قول یجوز نکاح العربیۃ بالعجمی والھاشمیۃ وبالعکس کے تحت لکھتا ہے:
عربی عورت کا عجمی مدر سے نکاح جائز ہے اور اسی طرح ہاشمیہ عورت ا غیر ہاشمی سے مرد ہے اور اِ س کے بالعکس بھی جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی بیٹی اُم کلثوم کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنھا سے کیا تھا ۔
http://www.islamicmsg.org/index.php/app-key-masail-aur-un-ka-hal/kitab-ul-aaqaid-wa-tareekh/28-binte-ali-ra-ka-nikha-umer-ra-sey


جزاک اللہ خیرا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
م کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنھا کی بیوی تھیں۔ ان کا اور ان کے بیٹے زید کا جناہ اکٹھا رکھا گیا اور اس دن امام سعید بن عاص رضی اللہ عنہ تھے۔
دوسری دلیل
اول تو اس روایت کو پورا پیش نہیں کیا گیا اس روایت کا پورا عربی متن یہ ہے
أنَّ ابنَ عمرَ صلَّى على تِسعِ جنائزَ جميعًا ، فجعلَ الرِّجالَ يلونَ الإمامَ ، والنِّساءَ يلينَ القبلةَ ، فصفَّهنَّ صفًّا واحدًا ، ووُضِعت جِنازةُ أمِّ كلثومِ بنتِ عليٍّ ، امرأةِ عمرَ بنِ الخطَّابِ ، وابنٍ لها يقالُ لهُ : زيدٌ ، وُضِعا جميعًا . والإمامُ يومئذٍ سعيدُ بنُ العاصِ ، وفي النَّاسِ ؛ ابنُ عمرَ ، وأبو هريرةَ ، وأبو سعيدٍ ، وأبو قتادةَ ، فوضعَ الغلامُ مِمَّا يلي الإمامَ . فقالَ رجلٌ : فأنكرتُ ذلكَ ، فنظَرتُ إلى ابنِ عبَّاسٍ ، وأبي هريرةَ ، وأبي سعيدٍ ، وأبي قتادةَ فقلتُ : ما هذا ؟ قالوا : هيَ السُّنَّةُ .

الراوي: نافع مولى ابن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1977
خلاصة حكم المحدث: صحيح

اس روایت میں کہا جارہا ہے کہ ام کلثوم اور زید کا جنازہ ابن عمر نے پڑھایا اور لوگوں میں دیگر اصحاب کے ساتھ ابو قتادہ بھی شامل تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب سعید بن عاص امیر مدینہ تھے یعنی یہ قصہ معاویہ بن ابی سفیان کی حکومت کے زمانے کا ہے
آئیں اب اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں
سب سے پہلے تو اس جنازے کا امام کون تھا اس میں تعارض ہے جیسا کہ اس روایت میں بیان ہوا کہ ابن عمر نے جنازہ پڑھایا لیکن دیگر روایتوں میں آیا ہےکہ جنازہ سعید بن عاص نے پڑھایا مثلا
أخبرنا وكيع بن الجراح عن حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم قال شهدتهم يومئذ وصلى عليهما سعيد بن العاص وكان أمير الناس يومئذ وخلفه ثمانون من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم
الطبقات الكبرى ابن سعد الصفحة : 1556
http://www.alwaraq.net/Core/SearchServlet/searchone?docid=24&searchtext=2KPZhdmR2ZAg2YPZhNir2YjZhdmQINmIINiy2YrYr9mM&option=1&offset=1&WordForm=1&exactpage=1556&totalpages=72&AllOffset=1
یہ تو ہوا پہلا تعارض دوسرا یہ کہ اس روایت میں بیان کیا گیا کہ ام کلثوم اور ان کے بیٹے زید معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں فوت ہوئے لیکن ابن سعد الطبقات الكبرى میں کہتے ہیں کہ ابن خطاب کے بعد ام کلثوم کی شادی اور بھی کئی لوگوں سے ہوئی جن میں ایک عبد الله بن جعفر بن أبی طالب بھی ہیں جن سے ام کلثوم کی شادی ان کی بہن زینب بنت علی کے بعد ہوئی ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها ثم خلف عليها أخوه محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها فخلف عليها أخوه عبد الله بن جعفر بن أبي طالب بعد أختها زينب بنت علي بن أبي طالب
اور زینب بنت علی یزید پلید کے دور میں واقعہ کربلا کے وقت کربلا میں موجود تھی اور ان کے شوہر عبد الله بن جعفر بن أبی طالب تھے پھر کس طرح دور معاویہ میں فوت ہونے والی ام کلثوم عبد الله بن جعفر بن أبی طالب کی بیوی ہوسکتی ہیں ؟؟؟؟
باقی اگلے مراسلے میں ان شاء اللہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیا کبھی آپ نے کسی بات کو تسلیم کرکے اپنے کسی غلط موقف سے رجوع کیا ہے ؟اگر کیا ہے تو بتاؤ اور اس کو سامنے لاؤپھر ان چیزوں جواب بھی آپ کو مل جائے گا،اس طرح تو فائدہ ہی کوئی نہیں ہے سوال پہ سوال کرتے جاؤ اور بس
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
دوسری دلیل
اول تو اس روایت کو پورا پیش نہیں کیا گیا اس روایت کا پورا عربی متن یہ ہے
أنَّ ابنَ عمرَ صلَّى على تِسعِ جنائزَ جميعًا ، فجعلَ الرِّجالَ يلونَ الإمامَ ، والنِّساءَ يلينَ القبلةَ ، فصفَّهنَّ صفًّا واحدًا ، ووُضِعت جِنازةُ أمِّ كلثومِ بنتِ عليٍّ ، امرأةِ عمرَ بنِ الخطَّابِ ، وابنٍ لها يقالُ لهُ : زيدٌ ، وُضِعا جميعًا . والإمامُ يومئذٍ سعيدُ بنُ العاصِ ، وفي النَّاسِ ؛ ابنُ عمرَ ، وأبو هريرةَ ، وأبو سعيدٍ ، وأبو قتادةَ ، فوضعَ الغلامُ مِمَّا يلي الإمامَ . فقالَ رجلٌ : فأنكرتُ ذلكَ ، فنظَرتُ إلى ابنِ عبَّاسٍ ، وأبي هريرةَ ، وأبي سعيدٍ ، وأبي قتادةَ فقلتُ : ما هذا ؟ قالوا : هيَ السُّنَّةُ .

الراوي: نافع مولى ابن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1977
خلاصة حكم المحدث: صحيح

اس روایت میں کہا جارہا ہے کہ ام کلثوم اور زید کا جنازہ ابن عمر نے پڑھایا اور لوگوں میں دیگر اصحاب کے ساتھ ابو قتادہ بھی شامل تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب سعید بن عاص امیر مدینہ تھے یعنی یہ قصہ معاویہ بن ابی سفیان کی حکومت کے زمانے کا ہے
آئیں اب اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں
سب سے پہلے تو اس جنازے کا امام کون تھا اس میں تعارض ہے جیسا کہ اس روایت میں بیان ہوا کہ ابن عمر نے جنازہ پڑھایا لیکن دیگر روایتوں میں آیا ہےکہ جنازہ سعید بن عاص نے پڑھایا مثلا
أخبرنا وكيع بن الجراح عن حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم قال شهدتهم يومئذ وصلى عليهما سعيد بن العاص وكان أمير الناس يومئذ وخلفه ثمانون من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم
الطبقات الكبرى ابن سعد الصفحة : 1556
http://www.alwaraq.net/Core/SearchServlet/searchone?docid=24&searchtext=2KPZhdmR2ZAg2YPZhNir2YjZhdmQINmIINiy2YrYr9mM&option=1&offset=1&WordForm=1&exactpage=1556&totalpages=72&AllOffset=1
یہ تو ہوا پہلا تعارض دوسرا یہ کہ اس روایت میں بیان کیا گیا کہ ام کلثوم اور ان کے بیٹے زید معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں فوت ہوئے لیکن ابن سعد الطبقات الكبرى میں کہتے ہیں کہ ابن خطاب کے بعد ام کلثوم کی شادی اور بھی کئی لوگوں سے ہوئی جن میں ایک عبد الله بن جعفر بن أبی طالب بھی ہیں جن سے ام کلثوم کی شادی ان کی بہن زینب بنت علی کے بعد ہوئی ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها ثم خلف عليها أخوه محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها فخلف عليها أخوه عبد الله بن جعفر بن أبي طالب بعد أختها زينب بنت علي بن أبي طالب
اور زینب بنت علی یزید پلید کے دور میں واقعہ کربلا کے وقت کربلا میں موجود تھی اور ان کے شوہر عبد الله بن جعفر بن أبی طالب تھے پھر کس طرح دور معاویہ میں فوت ہونے والی ام کلثوم عبد الله بن جعفر بن أبی طالب کی بیوی ہوسکتی ہیں ؟؟؟؟
باقی اگلے مراسلے میں ان شاء اللہ
ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها ثم خلف عليها أخوه محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها فخلف عليها أخوه عبد الله بن جعفر بن أبي طالب بعد أختها زينب بنت علي بن أبي طالب
اس کی سند کے بارے بھی کچھ پیش کر دو جنا ب
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
علی بہرام صاحب: تحقیقی جواب تو چل رہا ہے الزامی جواب حاضر ہے
انہیں کے مطلب کی کہ رہا ہوں زباں میری ہے بات اُن کی
انہیں کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات اُن کی
خلیفہء ثانی لا ثانی امام سیدنا عمر فاروق اعظم کا نکاح حضرت ام کلثوم سے
بحوالہ کتب معتبر حضرات شیعہ
1:- ملا محمد بن یعقوب الکلینی فروع کافی میں جو شیعوں کی اول درجہ کی کتاب حدیث ہے میں روایت کرتے ہیں کہ ۔
"حضرت امام جعفر صادق سے اس عورت کے متعلق جس کا خاوند فوت ہوجائے یہ مسئلہ پو چھا گیا کہ وہ اپنی عدّت کہاں گزارے اپنے گھر میں یا جہاں چاہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا جب عمر فوت ہوئے تو حضرت علی ام کلثوم کے پاس آئے تھے اور اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے تھے ۔(فروع کا فی جلا 2 ص 311)
2:- ملا ابو جعفر محمد بن حسن طوسی شیعہ محدثین کے نہایت بلند پایہ فاضل فروع کا فی کی اس روایت کو تہذیب الاحکام کتاب الطلاق باب عدۃ النساء جلد 2 ص 238 مطبوعہ ایران اور استبصار فیما اختلف من الاخبار جلد 3 ص 352 مطبو عہ نجف اشرف جلد 2 ص 185 مطبوعہ لکھنو میں بھی دو علیحدہ سندوں سے روایت کرتے ہیں ۔
3:- فخر المجتہدین شہید ثانی زین الدین بن احمد عائلی " شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام " کی شرح میں متن کی اس عبارت یجوز نکاح الحرۃ العبد و العربیۃ العجمی و الھاشمیۃ غیر الھاشمی وبالعکس کے تحت لکھتے ہیں ۔
حضور نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح حضرت عثمان سے کیا اور ایک بیٹی کا ابو العاص سے حالانکہ دونوں بنی ہاشم میں سے نہ تھے ۔ اسی طرح حضرت علی نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے کیا اور حضرت عثمان کے پوتے عبداللہ کا نکاح امام حسین کی بیٹی فاطمہ سے ہوا اور فاطمہ کی بہن سکینہ سے مصعب بن زبیر نے نکاح کیا اور یہ سب مرد بنی ہاشم میں سے نہ تھے ۔
(مسالک الافھام ۔کتاب النکاح جلد 1)
4:- شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی حضرت امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا ۔
"ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید بن عمر کی وفات ایک ہی ساعت میں واقع ہوئی یہ پتہ نہ چل سکا کہ پہلے فوت کون ہوا ۔ پس ان میں سے کوئی دوسرے کا وارث نہیں ہوا ۔ اور دونوں پر نماز جنازہ اکٹھی پڑھی گئی ۔
(تہذیب الاحکام جلد 2 کتاب المیراث ص 380)
5:- شیعہ شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری آنحضرت اور حضرت علی کے امور مشابہت شمار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں " اگر نبی دختر بہ عثمان داد ولی دختر بہ عمر فرستاد" یعنی اگر نبی نے بیٹی حضرت عثمان کو دی تو ولی نے بیٹی حضرت عمر کے نکاح میں دے دی ۔(مجالس المومنین جلد 1 ص 204)
6:- علامہ ابن شہر آشوب مازندرانی لکھتے ہیں ۔حضرت فاطمہ کی اولا د یہ تھی ۔الحسن والحسین و المحسن سقط ،زینب کبری اور ام کلثوم کبری جن سے حضرت عمر نے نکاح کیا تھا (مناقب آل ابی طالب جلد 3 ص 162 علامہ ابن شہر آشوب نے جلد نمبر 2 ص 144 ) علامہ ابن شہر آشوب نے جلد نمبر 2 ص 144 پر بھی اس نکاح کا تذکرہ کیا ہے ۔
7:- اہل تشیع کے بڑے مجتہد مرتضی علم الہدی تحریر کرتے ہیں " یہ کوئی امر ممنوع نہ تھا کہ حضرت علی اپنی بیٹی حضرت کے نکاح میں دے دیں ۔کیونکہ عمر بظاہر اسلام کے قائل اور شریعت پرعامل تھے ۔(کتاب الشافی ص 216)
8:- شیخ عباس قمی حضرت علی کی اولاد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " ام کلثوم کے حضرت عمر کے نکاح میں آنے کی حکایت کتابوں میں مسطور ہے (منتہی الآمال جلد 1 ص 135)
9:- علامہ محمد ہاشم خراسانی مشہدی تحریر کرتے ہیں کہ "ام کلثوم بنت فاطمہ اس مخدرہ کا اصلی نام رقیہ کبری تھا ۔جیسا کہ عمدۃ المطالب میں مذکور ہے وہ بہت جلالت شان رکھتی تھیں اور حضرت عمر کی بیوی تھیں " (منتخب التواریخ ص 94)
10:- شیعہ کے خاتم المحدثین ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں " ایسی احادیث وارد ہونے کے بعد اور جو روایات بالاسناد آگے آرہی ہیں کہ جب عمر فوت ہوئے تو حضرت علی ام کلثوم کے پاس آئے اور انھیں اپنے گھر لے گئے اور اس طرح کی اور روایات جنھیں میں نے بحا رالانوار میں درج کیا ہے اس نکاح کا انکار ایک امر عجیب ہے اور اصل جواب یہی ہے کہ یہ نکاح تقیہ اور حالت اضطرار میں ہوا اور ایسا ہونا کوئی امر مستبعد نہیں (مراۃ العقول فی شرح فروع الکافی جلد 3 ص 449)۔
علی بہرام صاحب :فیصلہ جناب پر چھوڑتا ہوں یا تو اس نکاح کو تسلیم کر لیں یا اپنے (دو مزعومہ امام) جناب جعفر صادق اور جناب محمد باقر اور دیگر مجتہدین کا جھوٹا ہونا مان لیں !
مزید حوالہ جات اور کتابوں کے سکین یہاں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں
http://islamic-forum.net/index.php?showtopic=18339
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها ثم خلف عليها أخوه محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها فخلف عليها أخوه عبد الله بن جعفر بن أبي طالب بعد أختها زينب بنت علي بن أبي طالب
اس کی سند کے بارے بھی کچھ پیش کر دو جنا ب
سند کیا میں نے تو پوری کتاب کا لنک جناب کی خدمت میں پیش کردیا ہے اب تھوڑی سی زحمت اٹھالیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
علی بہرام صاحب: تحقیقی جواب تو چل رہا ہے الزامی جواب حاضر ہے
جناب من ان الزامی جواب سے پہلے آپ اگر ان سوالات کے جوابات عنایت فرمادیں تو بڑی نوازش ہوگی کیونکہ بہت دن ہوئے ان سوالات کی جانب کو دیکھ ہی نہیں رہا
کچھ سوالات ہیں اس بارے میں اگر کوئی صاحب علم جواب عنایت کرے تو میں اس کا شکریہ ادا کروں گا
سوال۔1 ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ بنت رسول اللہ سے حضرت عمر کا پیغام نکاح رد کیا تھا اس کی وجہ کیا تھی ؟
سوال۔2۔ ام کلثوم کی شادی کس سن ھجری میں ہوئی ؟
سوال ۔ 3 ۔ حضرت عمر کی وفات کس سن ھجری میں ہوئی ؟
سوال ۔4۔ حضرت عمر کی ام کلثوم سے اولاد کی تعدادکتنی ہے ان کے نام بلترتیب کیا ہیں؟
سوال 5 ۔ ام کلثوم کا وصال کس سن ھجری میں ہوا ؟
سوال ۔6 ۔ ام کلثوم کی اولاد کی شادیاں کن کن لوگوں سے ہوئی ؟
سوال ۔7 ۔ ام کلثوم کی اولاد کا انتقال کس سن ھجری میں ہوا
 
Top