سوال:ـ سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اﷲسے سوال کیا گیا: کیا عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت مشروع (شریعت سے ثابت شدہ امر )ہے؟
جواب:ـ ابن عباس ،ابوہریرہ اور حسان بن ثابت انصا ری رضی اﷲ عنہم اجمعین کی حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔اور ان حدیثوں کی روشنی میں علماء نے عورتوں کے لئے زیارت حرام قرار دی ہے،کیونکہ لعنت صرف حرام کام پر کی جاتی ہے ۔بلکہ اس کے کبیرہ گناہ ہونے پردلالت کرتی ہے،علماء نے ذکر فرمایاہے کہ جس گناہ پرلعنت یا وعید آئی ہووہ کبائر میں شمار ہوتا ہے۔لہٰذا صحیح یہ ہے کہ عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت کرنا حرام ہے ،صرف مکروہ نہیں ،اور اس کا سبب واﷲاعلم یہ ہے کہ عام طور پر عورتیں بہت کم صبر کرپاتی ہیں ممکن ہے کہ کبھی ان کا ندب ونیاحت اور اس جیسی دوسری حرکت جو واجب صبر کے منا فی ہے ،صادر ہوجائے ،نیز عورتیں فتنہ کا ذریعہ ہیں ،لہٰذا ممکن ہے کہ ان کاقبروں کی زیارت کرنا اور جنازوں کے پیچھے جانامردوں کو فتنہ میں مبتلا کردے اورکبھی وہ خود مردوں سے فتنہ میں پڑجائیں ۔شریعت اسلامیہ جو ایک مکمل شریعت ہے ،فتنہ و فساد کے تمام ذرائع کو ختم کر نے کے لئے آئی ہے اور یہ اﷲتعالیٰ کی بندوں پررحمت ومہربانی ہے۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے ،آپ نے فرمایا:’’ماترکت بعدي فتنۃ أضر علی الرجال من النساء‘‘ ’’یعنی میں نے اپنے بعدمردوں کے لئے عورتوں سے بڑاکوئی فتنہ نہیں چھوڑا‘‘
اس حدیث کی صحت پر بخاری ومسلم نے اتفاق کیا ہے ،اس وجہ سے مذکورہ فتنہ کا سدّباب واجب ہوا،عورتوں کو فتنوں سے بچانے ہی کے لئے شریعت مطہرہ نے ان کی بے پردگی ،مردوں کے ساتھ نرم لہجے میں گفتگو ،غیر محرم کے ساتھ ان کی خلوت نشینی اوربلا محرم سفر کرنے کو حرام قراردیا ہے ،اور یہ تمام چیزیں ’’سد الذریعہ‘‘کے طور پر حرام کی گئی ہیں ،تاکہ ان سے کوئی فتنہ میں نہ پڑے ،بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ قبر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور قبر صاحبین(ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما)کی زیارت ،حرمت کے حکم سے مستثنیٰ ہے ،بلا دلیل ہے ،صحیح یہی ہے کہ منع کا حکم تمام عورتوں اورتمام قبروں کے لئے ہے،حتیٰ کہ قبر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی قبروں کے لئے بھی ہے ،دلیلوں کی روشنی میں یہی قول قابل اعتماد ہے۔
البتہ مردوں کے لئے قبروں کی زیارت اورقبر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور صاحبین رضی اﷲ عنہما کی قبروں کی زیارت مستحب ہے ،لیکن زیارت قبور کی نیت سے باضابطہ سفر کرنا درست نہیں ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا؛’’زوروالقبورفانھا تذکرکم الآخرۃ‘‘(مسلم)’’قبروں کی زیارت کرو وہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی ‘‘لیکن اس کے لئے بطور خاص سفر کرنا جائز نہیں ہے ،سفر تین مخصوص مساجد کے لئے مشرع ہے ،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’لاتشد الرحال الا ثلاثۃ مساجد : المسجد الحرام ومسجد ھٰذا والمسجد الاقصٰی‘‘(متفق علیہ)’’کجاوہ نہ کساجائے (کنایہ ہے سفر سے )مگر تین مساجد کی زیارت کے لئے ،مسجد حرام اورمیری یہ مسجد (مسجد نبوی مدینہ طیبہ )اور مسجداقصٰی (بیت المقدس)"
لیکن مسلمان جب مسجد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کرے تو اس زیارت میں من حیث التبع(ضمناً)آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قبر کی زیارت ،آپ کے صاحبین ،شہداءِ احد اور اہل بقیع کی قبروں اورمسجد قبا کی زیارتیں داخل ہوں گی ،لیکن یہ تمام زیارتیں سفر مخصوص کے بغیر ہوں گی ،لہٰذا کوئی صرف قبروں کی زیارت کے ارادے سے سفر نہ کرے ۔جب مدینہ میں موجود ہوتو اس کے لئے قبر النبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور صاحبین کی قبروں ،اہل بقیع اور شہداءِ احدکی قبروں کی زیارت اور مسجد قبا کی زیارت مشروع ہو گی ،لیکن صرف مذکورہ قبور کی زیار ت کے لئے دور دراز سے سفر کرنا علماء کے دواقوال میں سے صحیح قول پرجائز نہیں ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کافرمان ہے:’’لاتشد الرحال الا الیٰ ثلاثۃ مساجد‘‘ ’’کجاوہ نہ کساجائے مگر تین مساجد کی زیار ت کے لئے‘‘۔
ا لبتہ جب مسجد نبوی کی زیارت کے لئے سفر کرے توقبر شریف اور دیگر قبروںکی زیارت اس کے تابع ہوگی ،پس جب آدمی مسجد نبوی میں پہنچے اور جتنی نمازیں میسر ہوں اداکرچکے تو پھر اس کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر اور صاحبین کی قبروں کی زیارت کرے اور آپ صلی ا ﷲعلیہ وسلم پر درود وسلام بھیجے اور آپ کے لئے دعا کرے ،پھر صدیق رضی اﷲعنہ پرسلام بھیجے اور ان کے لئے دعا کرے ،پھر فاروق رضی اﷲ عنہ پرسلام بھیجے اور دعاکرے۔اسی طرح کرنا سنت ہے ،اور یہی دیگر قبروں کا معاملہ ہی،مثلاً اگر کوئی شخص دمشق یا قاہرہ یا ریاض یا کسی اور شہر کا سفر کرے تو اس کے لئے ایسی قبروں کی زیارت جس کے مکیں مسلمان ہوں،اپنی موعظت اور میت کے لئے دعاء رحمت ومغفرت کی خاطر مستحب ہے ،جیساکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’زوروا القبور فانھا تذکرکم الآخرۃ‘‘ ’’تم لوگ قبروں کی زیارت کرو،وہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی ‘‘، زیارت قبور کا یہی طریقہ بغیر شدّ رحال کے مسنون ہے۔
لیکن زیارت کرنے والے اﷲ کے سوا ان اصحاب القبور سے مانگنے اور سوال کرنے کے لئے ان کی قبروں کی ہرگز زیارت نہ کریں ،کیونکہ یہ اﷲتعالیٰ کے ساتھ شرک اور غیر اﷲ کی عبادت ہے ، جسے اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں پر حرام کیا ہے ۔
اﷲ کا ارشاد ہے:’’وَاَنَّ المَسَاجِدَ فَلَا تَدعُوا مَعَ اﷲِاَحَدًا‘‘ (الجن:۸۱) ’’اوربلاشبہ مسجدیں صرف اﷲہی کے لئے خاص ہیں پس اﷲکے سوا کسی اور کونہ پکارو‘‘
اور اﷲتعالیٰ نے فرمایا:» ذٰلِکُمُ اﷲُ رَبُّکُم لَہُ المُلکُ وَالَّذِینَ تَدعُونَ مِن دُونِہِ مَا یَملِکُونَ مِن قِطمِیرٍ اِن تَدعُوھُم لَا یَسمَعُوا دُعَائَ کُم وَلَو سَمِعُوا مَا استَجَابُوا لَکُم وَیَومَ القِیَامَۃِ یَکفُرُونَ بِشِرکِکُم وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثلُ خَبِیرٍ« (الفاطر:۳۱،۴۱)
’’ وہی ہے اﷲتم سب کا پالنے والا،اسی کی سلطنت ہے ،جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی پرپڑی ہوئی جھلی اور چھلکے کے بھی مالک نہیں،اگر تم انہیں پکاروتو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض)سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کرسکتے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کریں گے ،اور آپ کو بھی اﷲتعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا‘‘۔
اﷲسبحانہ وتعالیٰ نے فرمایادیا کہ بندوں کامُردوں کو پکارنا اور ان سے سوال کرنا ،اﷲعزّوجل کے ساتھ شرک اور غیر اﷲکی عبادت ہے ،لہٰذا مسلمان پر واجب ہے کہ اس سے پرہیز کرے اور علماء پرواجب ہے کہ ان امور کو لوگوں سے بیان کریں تاکہ وہ اﷲ کے ساتھ شرک کرنے سے بچ سکیں ،کیونکہ عامۃ الناس میں سے بہت سے لوگ جب ایسے لوگوں کی قبروں سے گذرتے ہیں جن کی وہ تعظیم کرتے ہیں تو ان سے فریاد کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں’’اے فلاں !المدد،اے فلاں !ہماری فریاد رسی کیجئے ،ہماری مدد کیجئے اور ہمارے مریض کو شفا دیجئے ‘‘حالانکہ یہ شرک ِ اکبر ہے ۔والعیاذ باﷲ۔یہ تمام چیزیں اﷲعزوجل سے طلب کرنی چاہئیں ،نہ کہ مُردوں سے اور ان کے علاوہ کسی دوسری مخلوق سی۔البتہ زندہ شخص سے صرف ایسی چیز طلب کی جاسکتی ہے جس پر وہ قادر ہو،جبکہ وہ آپ کے موجود ہو اور آپ کی بات بھی سن رہا ہو،یا آپ خط یا ٹیلیفون یا دوسرے کسی ذریعہ سے اس کو اپنی حاجت سے آگاہ کریں ،ساتھ ہی آپ کی حاجت کا تعلق ظاہری اور حسّی امور سے ہوجس کی تکمیل پر وہ قدرت رکھتا ہو،آپ اسے ٹیلی گرام بھیجیں یا خط لکھیں یا ٹیلیفون سے بات کریں وہ آپ کے مکان کی تعمیر میں مددکرے یا کھیتی باڑی کی اصلاح میں معاون بنے ،کیونکہ آپ کے اور اس شخص کے درمیان جس سے آپ مدد کے طالب ہیں،کسی قدر جان پہچان یارشتہ تعاون پہلے سے قائم ہے ،اور ایساکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جیساکہ اﷲتعالیٰ نے فرمایاہے:»فَاستغَاثَہُ الَّذِي مِن شِیعَتِہِ عَلَی الَّذِي مِن عَدُوِّہِ«(القصص:۵۱)’’پس اس سے (موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام)سے ایک ایسے شخص نے جو اس کے رفیقوں میں سے تھا ایک ایسے شخص کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا فریا دکی ‘‘
لیکن آپ کسی میت یا شخص غائب یا جمادات مثلاً بتوں سے کسی مریض کے لئے صحت یابی دشمنوں کے خلاف مدد یا ایسی ہی دوسری چیزیں طلب کریں تو یہ شرک اکبر ہوگا،اسی طرح آپ کا کسی زندہ اورموجودہ شخص سے ایسی چیز طلب کرنا جس پر اﷲسبحانہ وتعالیٰ کے سواکوئی قادر نہیں ،اﷲکے ساتھ شرک کرنا سمجھاجائے گا ،کیونکہ شخص غائب کوبغیر حسّی آلات کے پکارنے کا مطلب یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ وہ غیب جانتا ہے یا آ پ کی پکار کودورسے سنتا ہے اورریہ اعتقاد باطل ہے جو اس قسم کے اعتقاد رکھنے والے کے کفر کو ظاہر کرتا ہے
اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:»قُل لَا یَعلَمُ مَن فِي السَّمَوَاتِ وَالاَرضِ الغَیبَ اِلَّا اﷲُ«(النمل:۵۶)
’’آپ کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے اورزمین والوں میں سے سوائے اﷲکے کوئی غیب نہیں جانتا‘‘۔
یا آپ جس کوپکارتے ہیں اس کے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کو کوئی بھید حاصل ہے جس کے ذریعے وہ کائنات میں تصرف کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عطاکرتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کردیتا ہے جیساکہ بعض جہلاایسے کچھ لوگوں کے متعلق جن کو وہ اولیاء کہتے ہیں،اعتقاد رکھتے ہیں،حالانکہ یہ اﷲتعالیٰ کی ربوبیت میں شرک ہے جو بتوں کی عبادت کے شرک سے زیادہ اوربڑاعظیم ہے۔خلاصہ یہ کہ اموات شرعی زیارتِ احسان وترحم اور آٓخرت کی یاد اور اس کی تیاری کے لئے ہے،آپ زیارت قبور کے وقت یاد کریں کہ آپ بھی مرنے والے ہیں جس طرح کہ یہ حضرات فوت کرگئے،تاکہ آخرت کی تیاری کرسکیں اور اپنے مسلمان مردہ بھائیوں کے لئے دعائیں اور ان کے لئے اﷲسے رحمت ومغفرت کا سوال کریں ،یہی وہ حکمت ہے جو زیارتِ قبر کی مشروعیت میں پوشیدہ ہے۔(مجموع الفتاوی ومقالات متنوعہ للشیخ ابن باز۵/۵۰۱)
جواب:ـ ابن عباس ،ابوہریرہ اور حسان بن ثابت انصا ری رضی اﷲ عنہم اجمعین کی حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔اور ان حدیثوں کی روشنی میں علماء نے عورتوں کے لئے زیارت حرام قرار دی ہے،کیونکہ لعنت صرف حرام کام پر کی جاتی ہے ۔بلکہ اس کے کبیرہ گناہ ہونے پردلالت کرتی ہے،علماء نے ذکر فرمایاہے کہ جس گناہ پرلعنت یا وعید آئی ہووہ کبائر میں شمار ہوتا ہے۔لہٰذا صحیح یہ ہے کہ عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت کرنا حرام ہے ،صرف مکروہ نہیں ،اور اس کا سبب واﷲاعلم یہ ہے کہ عام طور پر عورتیں بہت کم صبر کرپاتی ہیں ممکن ہے کہ کبھی ان کا ندب ونیاحت اور اس جیسی دوسری حرکت جو واجب صبر کے منا فی ہے ،صادر ہوجائے ،نیز عورتیں فتنہ کا ذریعہ ہیں ،لہٰذا ممکن ہے کہ ان کاقبروں کی زیارت کرنا اور جنازوں کے پیچھے جانامردوں کو فتنہ میں مبتلا کردے اورکبھی وہ خود مردوں سے فتنہ میں پڑجائیں ۔شریعت اسلامیہ جو ایک مکمل شریعت ہے ،فتنہ و فساد کے تمام ذرائع کو ختم کر نے کے لئے آئی ہے اور یہ اﷲتعالیٰ کی بندوں پررحمت ومہربانی ہے۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے ،آپ نے فرمایا:’’ماترکت بعدي فتنۃ أضر علی الرجال من النساء‘‘ ’’یعنی میں نے اپنے بعدمردوں کے لئے عورتوں سے بڑاکوئی فتنہ نہیں چھوڑا‘‘
اس حدیث کی صحت پر بخاری ومسلم نے اتفاق کیا ہے ،اس وجہ سے مذکورہ فتنہ کا سدّباب واجب ہوا،عورتوں کو فتنوں سے بچانے ہی کے لئے شریعت مطہرہ نے ان کی بے پردگی ،مردوں کے ساتھ نرم لہجے میں گفتگو ،غیر محرم کے ساتھ ان کی خلوت نشینی اوربلا محرم سفر کرنے کو حرام قراردیا ہے ،اور یہ تمام چیزیں ’’سد الذریعہ‘‘کے طور پر حرام کی گئی ہیں ،تاکہ ان سے کوئی فتنہ میں نہ پڑے ،بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ قبر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور قبر صاحبین(ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما)کی زیارت ،حرمت کے حکم سے مستثنیٰ ہے ،بلا دلیل ہے ،صحیح یہی ہے کہ منع کا حکم تمام عورتوں اورتمام قبروں کے لئے ہے،حتیٰ کہ قبر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی قبروں کے لئے بھی ہے ،دلیلوں کی روشنی میں یہی قول قابل اعتماد ہے۔
البتہ مردوں کے لئے قبروں کی زیارت اورقبر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور صاحبین رضی اﷲ عنہما کی قبروں کی زیارت مستحب ہے ،لیکن زیارت قبور کی نیت سے باضابطہ سفر کرنا درست نہیں ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا؛’’زوروالقبورفانھا تذکرکم الآخرۃ‘‘(مسلم)’’قبروں کی زیارت کرو وہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی ‘‘لیکن اس کے لئے بطور خاص سفر کرنا جائز نہیں ہے ،سفر تین مخصوص مساجد کے لئے مشرع ہے ،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’لاتشد الرحال الا ثلاثۃ مساجد : المسجد الحرام ومسجد ھٰذا والمسجد الاقصٰی‘‘(متفق علیہ)’’کجاوہ نہ کساجائے (کنایہ ہے سفر سے )مگر تین مساجد کی زیارت کے لئے ،مسجد حرام اورمیری یہ مسجد (مسجد نبوی مدینہ طیبہ )اور مسجداقصٰی (بیت المقدس)"
لیکن مسلمان جب مسجد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کرے تو اس زیارت میں من حیث التبع(ضمناً)آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قبر کی زیارت ،آپ کے صاحبین ،شہداءِ احد اور اہل بقیع کی قبروں اورمسجد قبا کی زیارتیں داخل ہوں گی ،لیکن یہ تمام زیارتیں سفر مخصوص کے بغیر ہوں گی ،لہٰذا کوئی صرف قبروں کی زیارت کے ارادے سے سفر نہ کرے ۔جب مدینہ میں موجود ہوتو اس کے لئے قبر النبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور صاحبین کی قبروں ،اہل بقیع اور شہداءِ احدکی قبروں کی زیارت اور مسجد قبا کی زیارت مشروع ہو گی ،لیکن صرف مذکورہ قبور کی زیار ت کے لئے دور دراز سے سفر کرنا علماء کے دواقوال میں سے صحیح قول پرجائز نہیں ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کافرمان ہے:’’لاتشد الرحال الا الیٰ ثلاثۃ مساجد‘‘ ’’کجاوہ نہ کساجائے مگر تین مساجد کی زیار ت کے لئے‘‘۔
ا لبتہ جب مسجد نبوی کی زیارت کے لئے سفر کرے توقبر شریف اور دیگر قبروںکی زیارت اس کے تابع ہوگی ،پس جب آدمی مسجد نبوی میں پہنچے اور جتنی نمازیں میسر ہوں اداکرچکے تو پھر اس کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر اور صاحبین کی قبروں کی زیارت کرے اور آپ صلی ا ﷲعلیہ وسلم پر درود وسلام بھیجے اور آپ کے لئے دعا کرے ،پھر صدیق رضی اﷲعنہ پرسلام بھیجے اور ان کے لئے دعا کرے ،پھر فاروق رضی اﷲ عنہ پرسلام بھیجے اور دعاکرے۔اسی طرح کرنا سنت ہے ،اور یہی دیگر قبروں کا معاملہ ہی،مثلاً اگر کوئی شخص دمشق یا قاہرہ یا ریاض یا کسی اور شہر کا سفر کرے تو اس کے لئے ایسی قبروں کی زیارت جس کے مکیں مسلمان ہوں،اپنی موعظت اور میت کے لئے دعاء رحمت ومغفرت کی خاطر مستحب ہے ،جیساکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’زوروا القبور فانھا تذکرکم الآخرۃ‘‘ ’’تم لوگ قبروں کی زیارت کرو،وہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی ‘‘، زیارت قبور کا یہی طریقہ بغیر شدّ رحال کے مسنون ہے۔
لیکن زیارت کرنے والے اﷲ کے سوا ان اصحاب القبور سے مانگنے اور سوال کرنے کے لئے ان کی قبروں کی ہرگز زیارت نہ کریں ،کیونکہ یہ اﷲتعالیٰ کے ساتھ شرک اور غیر اﷲ کی عبادت ہے ، جسے اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں پر حرام کیا ہے ۔
اﷲ کا ارشاد ہے:’’وَاَنَّ المَسَاجِدَ فَلَا تَدعُوا مَعَ اﷲِاَحَدًا‘‘ (الجن:۸۱) ’’اوربلاشبہ مسجدیں صرف اﷲہی کے لئے خاص ہیں پس اﷲکے سوا کسی اور کونہ پکارو‘‘
اور اﷲتعالیٰ نے فرمایا:» ذٰلِکُمُ اﷲُ رَبُّکُم لَہُ المُلکُ وَالَّذِینَ تَدعُونَ مِن دُونِہِ مَا یَملِکُونَ مِن قِطمِیرٍ اِن تَدعُوھُم لَا یَسمَعُوا دُعَائَ کُم وَلَو سَمِعُوا مَا استَجَابُوا لَکُم وَیَومَ القِیَامَۃِ یَکفُرُونَ بِشِرکِکُم وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثلُ خَبِیرٍ« (الفاطر:۳۱،۴۱)
’’ وہی ہے اﷲتم سب کا پالنے والا،اسی کی سلطنت ہے ،جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی پرپڑی ہوئی جھلی اور چھلکے کے بھی مالک نہیں،اگر تم انہیں پکاروتو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض)سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کرسکتے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کریں گے ،اور آپ کو بھی اﷲتعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا‘‘۔
اﷲسبحانہ وتعالیٰ نے فرمایادیا کہ بندوں کامُردوں کو پکارنا اور ان سے سوال کرنا ،اﷲعزّوجل کے ساتھ شرک اور غیر اﷲکی عبادت ہے ،لہٰذا مسلمان پر واجب ہے کہ اس سے پرہیز کرے اور علماء پرواجب ہے کہ ان امور کو لوگوں سے بیان کریں تاکہ وہ اﷲ کے ساتھ شرک کرنے سے بچ سکیں ،کیونکہ عامۃ الناس میں سے بہت سے لوگ جب ایسے لوگوں کی قبروں سے گذرتے ہیں جن کی وہ تعظیم کرتے ہیں تو ان سے فریاد کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں’’اے فلاں !المدد،اے فلاں !ہماری فریاد رسی کیجئے ،ہماری مدد کیجئے اور ہمارے مریض کو شفا دیجئے ‘‘حالانکہ یہ شرک ِ اکبر ہے ۔والعیاذ باﷲ۔یہ تمام چیزیں اﷲعزوجل سے طلب کرنی چاہئیں ،نہ کہ مُردوں سے اور ان کے علاوہ کسی دوسری مخلوق سی۔البتہ زندہ شخص سے صرف ایسی چیز طلب کی جاسکتی ہے جس پر وہ قادر ہو،جبکہ وہ آپ کے موجود ہو اور آپ کی بات بھی سن رہا ہو،یا آپ خط یا ٹیلیفون یا دوسرے کسی ذریعہ سے اس کو اپنی حاجت سے آگاہ کریں ،ساتھ ہی آپ کی حاجت کا تعلق ظاہری اور حسّی امور سے ہوجس کی تکمیل پر وہ قدرت رکھتا ہو،آپ اسے ٹیلی گرام بھیجیں یا خط لکھیں یا ٹیلیفون سے بات کریں وہ آپ کے مکان کی تعمیر میں مددکرے یا کھیتی باڑی کی اصلاح میں معاون بنے ،کیونکہ آپ کے اور اس شخص کے درمیان جس سے آپ مدد کے طالب ہیں،کسی قدر جان پہچان یارشتہ تعاون پہلے سے قائم ہے ،اور ایساکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جیساکہ اﷲتعالیٰ نے فرمایاہے:»فَاستغَاثَہُ الَّذِي مِن شِیعَتِہِ عَلَی الَّذِي مِن عَدُوِّہِ«(القصص:۵۱)’’پس اس سے (موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام)سے ایک ایسے شخص نے جو اس کے رفیقوں میں سے تھا ایک ایسے شخص کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا فریا دکی ‘‘
لیکن آپ کسی میت یا شخص غائب یا جمادات مثلاً بتوں سے کسی مریض کے لئے صحت یابی دشمنوں کے خلاف مدد یا ایسی ہی دوسری چیزیں طلب کریں تو یہ شرک اکبر ہوگا،اسی طرح آپ کا کسی زندہ اورموجودہ شخص سے ایسی چیز طلب کرنا جس پر اﷲسبحانہ وتعالیٰ کے سواکوئی قادر نہیں ،اﷲکے ساتھ شرک کرنا سمجھاجائے گا ،کیونکہ شخص غائب کوبغیر حسّی آلات کے پکارنے کا مطلب یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ وہ غیب جانتا ہے یا آ پ کی پکار کودورسے سنتا ہے اورریہ اعتقاد باطل ہے جو اس قسم کے اعتقاد رکھنے والے کے کفر کو ظاہر کرتا ہے
اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:»قُل لَا یَعلَمُ مَن فِي السَّمَوَاتِ وَالاَرضِ الغَیبَ اِلَّا اﷲُ«(النمل:۵۶)
’’آپ کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے اورزمین والوں میں سے سوائے اﷲکے کوئی غیب نہیں جانتا‘‘۔
یا آپ جس کوپکارتے ہیں اس کے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کو کوئی بھید حاصل ہے جس کے ذریعے وہ کائنات میں تصرف کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عطاکرتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کردیتا ہے جیساکہ بعض جہلاایسے کچھ لوگوں کے متعلق جن کو وہ اولیاء کہتے ہیں،اعتقاد رکھتے ہیں،حالانکہ یہ اﷲتعالیٰ کی ربوبیت میں شرک ہے جو بتوں کی عبادت کے شرک سے زیادہ اوربڑاعظیم ہے۔خلاصہ یہ کہ اموات شرعی زیارتِ احسان وترحم اور آٓخرت کی یاد اور اس کی تیاری کے لئے ہے،آپ زیارت قبور کے وقت یاد کریں کہ آپ بھی مرنے والے ہیں جس طرح کہ یہ حضرات فوت کرگئے،تاکہ آخرت کی تیاری کرسکیں اور اپنے مسلمان مردہ بھائیوں کے لئے دعائیں اور ان کے لئے اﷲسے رحمت ومغفرت کا سوال کریں ،یہی وہ حکمت ہے جو زیارتِ قبر کی مشروعیت میں پوشیدہ ہے۔(مجموع الفتاوی ومقالات متنوعہ للشیخ ابن باز۵/۵۰۱)