جانی اعوان
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2012
- پیغامات
- 128
- ری ایکشن اسکور
- 257
- پوائنٹ
- 90
اعتراض:
اس شبہ میں بخاری شریف ’’ کتاب الصلاة‘‘ سے حوالہ دیا جاتا ہے کہ نمازی کے آگے سے اگر کتا، گدھا، عورت اور یہودی گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
جواب:
جناب یہی آپ کی سب سے بڑی خامی ہے کہ بغیر مطالعہ کے آپ اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ یقیناً جب آپ حوالوں میں غلطی کر سکتے ہیں تو حدیث کے مفہوم سمجھنے میں کیونکر غلطی نہیں کر سکتے۔ حسب عادت یہاں بھی ہوا میں تیر چلایا ہے، جس حدیث کا منکرین حدیث نے حوالہ دہے یہ حدیث صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے بلکہ ان الفاظوں کے ساتھ سنن ابی داؤد میں موجود ہے۔ جس کو منکرین حدیث نے صحیح بخاری بنا دیا۔ اس کے علاوہ یہودی اور مجوسی کے الفاظ کے بغیر یہ حدیث ان کتابوں میں موجود ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الصلوة، باب قدر ما یسر المصلی ، رقم الحدیث ۱۱۳۹، سنن ابی داؤد فی کتاب اقامة الصلوة، رقم الحدیث ۹۵۰، واخرجہ الامام احمد فی مسند ۴۲۵/۲، اخرجہ الترمذی فی کتاب الصلوة باب ماجاء انہ لا یقطع للصلاة رقم الحدیث ۷۴۹، اخرجہ النسائی فی کتاب القبلة رقم الحدیث ۷۴۹۔
ان کتب کے علاوہ امام الطحاوی نے معانی الآثار میں بھی ان احادیث کو ذکر فرمایا ہے۔ لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو ذکر نہیں فرمایا۔
امام شوکانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں (رواہ الجماعة الا البخاری) ’’اس حدیث کو جماعت نے نقل فرمایا سوائے بخاری کے۔‘‘ (نیل الاوطار، ج۳، ص۱۶)
امام ابو دؤد نے اپنی سنن میں مجوسی اور یہودی کے الفاظ کے ساتھ روایت کو پیش کیا ہے۔ جسے منکرین حدیث بخاری کی روایت کہہ گئے۔ غالباً دیگر کتب احادیث کا نام بھی ان کے گوش گزار نہیں ہوا۔
’’عن ابن عباس قال أحسبہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: اذا صلی احدکم الی غیر سترة فانہ یقطع صلاتہ الکلب والخنزیر والیھودی والمجوسی والمراٴة، ویجزی عنہ اذا مروا بین یدیہ علی قذفة بحجر‘‘ (ابو داؤد مع عون، رقم۷۰۰)
ترجمہ: ’’ابن عباس سے روایت ہے کہ عکرمہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہوگا ، جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے بغیر سترہ کے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ کتے اور گدھے ، سور، یہودی، پارسی اور عورت کے سامنے نکل جانے سے البتہ اگر یہ چیزیں ایک ڈھیلے کی مار سے پرے ہو کر نکلیں تو نماز ہو جائے گی۔‘‘
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابو داؤد فرماتے ہیں:
’’قال ابو داؤد: فی نفسی من ھذا الحدیث شئ کنت ذاکرتہ ابراہیم وغیرہ فلم اراحدا اجابہ عن ھشام ولا یعرفہ ولم ار احدا یحدث بہ عن ھشام واحسب الوھم من ابن ابی سمینة والمنکر فیہ ذکر المجوسی وفیہ علی قذفة بحجر وذکر الخنزیر وفیہ نکارة‘‘ (عون المعبود، ج۲، ص۲۳۵، بذل المجہود، ج ۳، ص۶۶۱)
امام ابو داؤد رحمت اللہ علیہ اس حدیث کے ذکر کرنے کے بعد اس کی ضعف پر بحث کرتے ہیں اور مجوسی، خنزیر اور قذفة بحجر کے الفاظ کو وہم اور منکر قرار دیتے ہیں۔
ابو عبدالرحمن عظیم آبادی فرماتے ہیں:
’’حاصلہ ان ذکر المجوسی فی ھذا الحدیث، وکذا ذکر علی قذفة بحجر وکذا ذکر الخنزیر منکر‘‘ (عون المعبود، ج۲، ص۲۳۶)
حاصل کلام یہ ہے کہ اس حدیث میں مجوسی، قذفة بحجر اور خنزیر کا جو ذکر ہے وہ منکر ہے۔ اسی وجہ سے اس وقت کے عظیم محدث ناصر الدین البانی رحمت اللہ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف ابو داؤد میں ذکر فرمایا ہے۔ (دیکھیے ضعیف ابو داؤد، ص۶۵، ضعیف الجامع الصغیر ۸۰)
علی بن ادم الاٴیتوبی اپنی کتاب ذخیرة العقبیٰ میں رقمطراز ہیں:
’’والحاصل ان بطلان الصلاة بمرور الکلب الاسود، ولامراة الحائض، الحمار ھو الراجح لصحة دلیلة‘‘ (شرح سنن نسائی جلد ۹، ص۱۹۵)
ترجمہ: ’’حاصل یہ ہے کہ نماز کا باطل ہونا (خشوع و خضوع میں) کالے کتے کا گزرنا، حائضہ عورت کا اور گدھے کا یہی راجح ہے اس کی حجت اور دلیل کی وجہ سے (اس کے علاوہ خنزیر مجوسی اور یہودی کا گزرنا راجح نہیں ہے۔)‘‘
لہٰذا یہ حدیث سنداً ضعیف ہے اور اس سے استدلال کرنا باطل ہے۔ اب رہا مسئلہ ان احادیث کو کہ سنداً صحیح ہیں جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ عورت ، کتا اور گدھا وغیرہ نماز کو توڑ دیتے ہیں۔ ان احادیث سے مراد کیا ہے؟ فقہائے کرام نے ان سے کیا مراد لیا ہے؟ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے لیے یا اس کی معلومات فراہم کرنے کے لیے اس کا پس منظر ضروری ہے۔ کاش کہ آپ ان احادیث کے پس منظر پر غور کر لیتے تو آج یہ غلط فہمی کبھی جنم نہ لیتی۔
احادیث میں جو عورت، گدھا اور کالے کتے کاذکر ہے یہ وہ اشیا ہیں جو انسان کی نماز کی بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں۔ کیونکہ نماز کے آگے سے ان اشیا کا گزرنا خشوع اور خضوع کو مٹانے کے مترادف ہے۔ یہی حدیث کا مقصود ہے۔
امام نووی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’وتاٴول ھولاء حدیث ابی ذر رضی اللہ عنہعلی ان المراد بالقطع نقص الصلاة لشغل القلب بھذہ الاشیاء ولیس المراد ابطالھا‘‘(شرح مسلم، ج۴، ص۲۳۰)
ترجمہ: ’’یعنی جو حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہکی ہے اس سے مراد نماز میں کمی ہونے کے ہیں (کیونکہ ان اشیا کا گزرنا) شغل قلب کا باعث ہے، اور اس سے مراد نماز کا باطل ہونا نہیں ہے (بلکہ خشوع و خضوع میں فرق آنا ہے)۔‘‘
امام شوکانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’قال العراقی: واحادیث الباب تدل علی ان الکلب والمراة والحمار تقطع الصلاة، والمراد بقطع الصلاة ابطالھا، وقد ذھب الی ذالک جماعة من الصحابة منھم ابو ہریرة، وانس، وابن عباس رضی اللہ عنہم‘‘ (نیل الاوطار، ج۳، ص۱۷)
ترجمہ: ’’ علاقہ عراقی فرماتے ہیں کہ جو احادیث اس باب پر دلالت کرتی ہیں کہ کتاب، عورت اور گدھا نماز کو قطع کر دیتے ہیں تو اس سے مراد نماز کا قطع ہونا (خشوع و خضوع میں) باطل ہونا ہے اور اسی طرف صحابہ کرام کی ایک جماعت گئی جن میں ابو ہریرہ ، انس اور ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔‘‘
اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ نمازی کے آگے مندرجہ بالا اشیا کا گزرنا نماز کو فاسد کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ ان اشیا کا ذکر کیوں کیا گیا ہے تو واقعی میں یہ اشیا نماز کو فاسد کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً
اگر آپ نماز ادا کر رہے ہیں اور کتا وہ بھی کالا آپ کے سامنے بھونکنا شروع کر دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی نماز سے خشوع و خضوع جاتا رہے گا۔ اسی طریقے سے اگر آپ نماز کی حالت میں ہیں اور ایک عورت آپ کے سامنے سے گزر جائے تب بھی آپ کی نماز میں خلل واقع ہو سکتا ہے اور بعینہ یہی حالت گدھے کی ہے جب وہ اپنی بد صورت آواز سے ہنکے گا تو یقیناً نماز میں خلل اور خرابی واقع ہوگی۔
صفی الرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں:
’’واّما تخصیص المراة والکلب والحمار بالذکر فلیس معناہ ان غیرھا لا یقطع برکة الصلاة، والا لم یکن لتاثیم الرجل لاجل مرورہ بین یدی المصلی معنی ، بل لان ھذہ الثلاث مظان لوجود الشیطان وفتنتہ ، فیکون القطع من اجلھا ابلغ واشد وافظع، فقد روی الترمذی عن ابن مسعود مرفوعاً (ان المراة عورة فاذا خرجت استشرفھا الشیطان) وروی مسلم عن جابر مرفوعا ان المراة تقبل فی صورة شیطان وتدبر فی صورة شیطان وورد فی نھیق الحمار: انہ ینھق حین یری الشیطان۔ اما الکلب فقد ورد فی ھذا الحدیث نفسہ ان الکلب الاسود شیطان، وقف علم خبث مطلق الکلب بان الملائکة لا تدخل بیتا فیہ کلب، وان من اقتنی کلبا۔ فیما لم یاذن فیہ الشرع۔ انتقص من اجرہ کل یوم قیراطان۔ اما وصف الکلب الاسود بانہ شیطان فلکثرة خبثہ وشدة سوء منظرہ وفظاعتہ۔‘‘ (منة المنعم شرح مسلم، ج۱، ص۳۲۸)
ترجمہ: ’’اور جو ذکر میں تخصیص کی گئی ہے کہ عورت ، کتّا اور گدھا (نماز کو باطل کر دیتے ہیں) تو پس اس کا معنی یہ نہیں کہ ان تینوں اشیا کے علاوہ کوئی اور چیز نماز کی برکت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ حکمتیں نہ ہوتیں (یعنی عورت، کتا اور گدھا کے گزرنے کی) تو مرد کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ بلکہ یہ تینوں چیزیں شیطان کے وجود اور فتنہ کی جگہیں ہیں۔ تاکہ (نماز) ختم ہو جائے اور شیطان کی وجہ سے سخت پریشان ہو جائے۔ ترمذی نے ابن مسعود سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ عورت یقیناً پردے کی جگہ ہے اور جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ، اور مسلم میں جابر بن عبداللہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ یقیناً عورت جب آتی اور جاتی ہے شیطان کی صورت میں، اور گدھے کے ہینگنے کے بارے میں بھی موجود ہے کہ وہ شیطان کو دیکھ کر اپنی آواز نکالتا ہے (ہینگتا ہے) اور جہاں تک کتے کے بارے میں ہے تو حدیث میں کالے کتے کے ساتھ یہ مخصوص ہے ۔ کیونکہ کالے کتے کو شیطان کہا گیا ہے۔ یقیناً کتے کا مطلب خبث ہونا موجود ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتے ہوں یا جس نے کتے کو پالا ہو اس کے بارے میں شریعت نے اجازت مرحمت فرمائی ۔ (بلاوجہ کتا پالنا شریعت میں اس کی رخصت نہیں)‘‘
شبیر احمد عثمانی ’’فتح الملھم‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’المراة بالقطع فی حدیث الباب قطع الوصلة بین العبد وبین الرب جل جلالہ لا ابطال الصلاة نفسھا‘‘ (فتح الملھم شرح صحیح مسلم، ج۳، ص۳۳۴)
ترجمہ: ’’یعنی نماز ختم کرنے کا جو یہاں مقصد ہے اس حدیث کے باب میں تو قطع سے مراد بندے اور رب کے درمیان رابطہ کا انقطاع ہے اور نماز کا اپنی ذات کے اعتبار سے باطل ہونا مراد نہیں۔‘‘
امام قرطبی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یقطع الصلاة المراة والحمار، فان ذالک مبالغہ فی الخوف علی قطعھا وافسادھا بالشغل بھذہ المزکورات، وذالک ان المراة تفتن ، والحمار ینھق، والکلب یروع فیتشوش المتفکر فی ذالک حتی تنقطع علیہ الصلاة وتفسد‘‘
(المفھم شرح مسلم ، ج۲، ص۱۰۹)
ترجمہ: ’’یعنی نماز کا قطع ہونا عورت اور گدھے کی وجہ سے تو یہ مبالغہ ہے اس سبب کہ نماز کا قطع ہونا اور اس کی بنیاد کی وجہ سے ان اشیا کے شغل کے سبب ، کیونکہ عورت فتنہ میں ڈالتی ہے اور گدھے کا ہینگنا (وہ بھی خرابی کا باعث بنتا ہے) اور کتا ڈراتا ہے نمازی کو یہاں تک کہ اسے تشویش میں ڈالتا ہے حتی کہ اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے یا (خشوع و خضوع میں )بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘
جلال الدین سیوطی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’وان المراد بالقطع فی الحدیث نقص الصلاة یشغل القلب بھذہ الاشیاء‘‘
(الدیباج، ج۱، ص۶۴۰)
ترجمہ: ’’یہ کہ نماز کا قطع سے مراد یہاں حدیث میں نماز کی کمی ہے کیونکہ دل ان اشیا کی وجہ سے شغل میں پڑ جاتا ہے۔‘‘
الحمدللہ بات عیاں ہوئی کہ ان تین اشیا کا جو ذکر احادیث صحیحہ میں موجود ہے آخر اس میں کیا حکمت ہے۔ اس کی حکمتین دوسری احادیث نے مترشح کر دیں کہ ان کا اصل سبب (نماز کا خراب ہونا) شیطان کے عمل دخل کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ جب بندہ صلاة کو ادا کرتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اور شیطان کا کام ہی بندہ کا تعلق رحمٰن سے توڑنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان بندے کی نماز کو ان اشیا کے ذریعے باطل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس موضوع کی تمام احادیث صحیح سند کے ساتھ کتب احادیث میں موجود ہیں جس کو منکرین حدیث اپنی کم علمی کے نتیجے میں افسانہ گردانتے ہیں۔ منکرین حدیث کا یہ شوشہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو حدیث سمجھ میں نہ آئے اسے بناوٹی تصور کیا جائے۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ اگر قرآن کی کوئی آیت آپ کو سمجھ میں نہ آئے تو کیا اسے بھی آپ بناوٹی قرار دیں گے؟؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ’’یقطع الصلاة المراة والحمار والکلب‘‘ کئی کتب حدیث میں موجود ہے۔ دیکھیے۔
صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۱۴۰، مصنف عبدالرزاق ۲۶/۲، مسند احمد۳۴۷/۱، سنن ابی داؤد ۱۸۰/۱، ابن ماجہ ۳۰۵/۱، والطحاوی۴۵۸/۱، ابن خزیمہ ۲۲/۲، ابن حبان ۵۳/۴، والبیھقی ۲۷۴/۲
ان کتب احادیث کے علاوہ کئی اور کتب میں بھی صحیح اسناد کے ساتھ ان احادیث کا ذکر موجود ہے۔ اب ان صحیح احادیث کا انکار صرف جہل اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہوگا، وگرنہ کسی صاحب ایمان کا یہ کام نہیں کہ جب فرمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آجائے تو وہ اپنی مرضی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے آگے پیش کرے کسی نے خوب کہا تھا:
ہوتے ہوئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
اس شبہ میں بخاری شریف ’’ کتاب الصلاة‘‘ سے حوالہ دیا جاتا ہے کہ نمازی کے آگے سے اگر کتا، گدھا، عورت اور یہودی گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
جواب:
جناب یہی آپ کی سب سے بڑی خامی ہے کہ بغیر مطالعہ کے آپ اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ یقیناً جب آپ حوالوں میں غلطی کر سکتے ہیں تو حدیث کے مفہوم سمجھنے میں کیونکر غلطی نہیں کر سکتے۔ حسب عادت یہاں بھی ہوا میں تیر چلایا ہے، جس حدیث کا منکرین حدیث نے حوالہ دہے یہ حدیث صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے بلکہ ان الفاظوں کے ساتھ سنن ابی داؤد میں موجود ہے۔ جس کو منکرین حدیث نے صحیح بخاری بنا دیا۔ اس کے علاوہ یہودی اور مجوسی کے الفاظ کے بغیر یہ حدیث ان کتابوں میں موجود ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الصلوة، باب قدر ما یسر المصلی ، رقم الحدیث ۱۱۳۹، سنن ابی داؤد فی کتاب اقامة الصلوة، رقم الحدیث ۹۵۰، واخرجہ الامام احمد فی مسند ۴۲۵/۲، اخرجہ الترمذی فی کتاب الصلوة باب ماجاء انہ لا یقطع للصلاة رقم الحدیث ۷۴۹، اخرجہ النسائی فی کتاب القبلة رقم الحدیث ۷۴۹۔
ان کتب کے علاوہ امام الطحاوی نے معانی الآثار میں بھی ان احادیث کو ذکر فرمایا ہے۔ لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو ذکر نہیں فرمایا۔
امام شوکانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں (رواہ الجماعة الا البخاری) ’’اس حدیث کو جماعت نے نقل فرمایا سوائے بخاری کے۔‘‘ (نیل الاوطار، ج۳، ص۱۶)
امام ابو دؤد نے اپنی سنن میں مجوسی اور یہودی کے الفاظ کے ساتھ روایت کو پیش کیا ہے۔ جسے منکرین حدیث بخاری کی روایت کہہ گئے۔ غالباً دیگر کتب احادیث کا نام بھی ان کے گوش گزار نہیں ہوا۔
’’عن ابن عباس قال أحسبہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: اذا صلی احدکم الی غیر سترة فانہ یقطع صلاتہ الکلب والخنزیر والیھودی والمجوسی والمراٴة، ویجزی عنہ اذا مروا بین یدیہ علی قذفة بحجر‘‘ (ابو داؤد مع عون، رقم۷۰۰)
ترجمہ: ’’ابن عباس سے روایت ہے کہ عکرمہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہوگا ، جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے بغیر سترہ کے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ کتے اور گدھے ، سور، یہودی، پارسی اور عورت کے سامنے نکل جانے سے البتہ اگر یہ چیزیں ایک ڈھیلے کی مار سے پرے ہو کر نکلیں تو نماز ہو جائے گی۔‘‘
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابو داؤد فرماتے ہیں:
’’قال ابو داؤد: فی نفسی من ھذا الحدیث شئ کنت ذاکرتہ ابراہیم وغیرہ فلم اراحدا اجابہ عن ھشام ولا یعرفہ ولم ار احدا یحدث بہ عن ھشام واحسب الوھم من ابن ابی سمینة والمنکر فیہ ذکر المجوسی وفیہ علی قذفة بحجر وذکر الخنزیر وفیہ نکارة‘‘ (عون المعبود، ج۲، ص۲۳۵، بذل المجہود، ج ۳، ص۶۶۱)
امام ابو داؤد رحمت اللہ علیہ اس حدیث کے ذکر کرنے کے بعد اس کی ضعف پر بحث کرتے ہیں اور مجوسی، خنزیر اور قذفة بحجر کے الفاظ کو وہم اور منکر قرار دیتے ہیں۔
ابو عبدالرحمن عظیم آبادی فرماتے ہیں:
’’حاصلہ ان ذکر المجوسی فی ھذا الحدیث، وکذا ذکر علی قذفة بحجر وکذا ذکر الخنزیر منکر‘‘ (عون المعبود، ج۲، ص۲۳۶)
حاصل کلام یہ ہے کہ اس حدیث میں مجوسی، قذفة بحجر اور خنزیر کا جو ذکر ہے وہ منکر ہے۔ اسی وجہ سے اس وقت کے عظیم محدث ناصر الدین البانی رحمت اللہ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف ابو داؤد میں ذکر فرمایا ہے۔ (دیکھیے ضعیف ابو داؤد، ص۶۵، ضعیف الجامع الصغیر ۸۰)
علی بن ادم الاٴیتوبی اپنی کتاب ذخیرة العقبیٰ میں رقمطراز ہیں:
’’والحاصل ان بطلان الصلاة بمرور الکلب الاسود، ولامراة الحائض، الحمار ھو الراجح لصحة دلیلة‘‘ (شرح سنن نسائی جلد ۹، ص۱۹۵)
ترجمہ: ’’حاصل یہ ہے کہ نماز کا باطل ہونا (خشوع و خضوع میں) کالے کتے کا گزرنا، حائضہ عورت کا اور گدھے کا یہی راجح ہے اس کی حجت اور دلیل کی وجہ سے (اس کے علاوہ خنزیر مجوسی اور یہودی کا گزرنا راجح نہیں ہے۔)‘‘
لہٰذا یہ حدیث سنداً ضعیف ہے اور اس سے استدلال کرنا باطل ہے۔ اب رہا مسئلہ ان احادیث کو کہ سنداً صحیح ہیں جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ عورت ، کتا اور گدھا وغیرہ نماز کو توڑ دیتے ہیں۔ ان احادیث سے مراد کیا ہے؟ فقہائے کرام نے ان سے کیا مراد لیا ہے؟ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے لیے یا اس کی معلومات فراہم کرنے کے لیے اس کا پس منظر ضروری ہے۔ کاش کہ آپ ان احادیث کے پس منظر پر غور کر لیتے تو آج یہ غلط فہمی کبھی جنم نہ لیتی۔
احادیث میں جو عورت، گدھا اور کالے کتے کاذکر ہے یہ وہ اشیا ہیں جو انسان کی نماز کی بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں۔ کیونکہ نماز کے آگے سے ان اشیا کا گزرنا خشوع اور خضوع کو مٹانے کے مترادف ہے۔ یہی حدیث کا مقصود ہے۔
امام نووی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’وتاٴول ھولاء حدیث ابی ذر رضی اللہ عنہعلی ان المراد بالقطع نقص الصلاة لشغل القلب بھذہ الاشیاء ولیس المراد ابطالھا‘‘(شرح مسلم، ج۴، ص۲۳۰)
ترجمہ: ’’یعنی جو حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہکی ہے اس سے مراد نماز میں کمی ہونے کے ہیں (کیونکہ ان اشیا کا گزرنا) شغل قلب کا باعث ہے، اور اس سے مراد نماز کا باطل ہونا نہیں ہے (بلکہ خشوع و خضوع میں فرق آنا ہے)۔‘‘
امام شوکانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’قال العراقی: واحادیث الباب تدل علی ان الکلب والمراة والحمار تقطع الصلاة، والمراد بقطع الصلاة ابطالھا، وقد ذھب الی ذالک جماعة من الصحابة منھم ابو ہریرة، وانس، وابن عباس رضی اللہ عنہم‘‘ (نیل الاوطار، ج۳، ص۱۷)
ترجمہ: ’’ علاقہ عراقی فرماتے ہیں کہ جو احادیث اس باب پر دلالت کرتی ہیں کہ کتاب، عورت اور گدھا نماز کو قطع کر دیتے ہیں تو اس سے مراد نماز کا قطع ہونا (خشوع و خضوع میں) باطل ہونا ہے اور اسی طرف صحابہ کرام کی ایک جماعت گئی جن میں ابو ہریرہ ، انس اور ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔‘‘
اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ نمازی کے آگے مندرجہ بالا اشیا کا گزرنا نماز کو فاسد کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ ان اشیا کا ذکر کیوں کیا گیا ہے تو واقعی میں یہ اشیا نماز کو فاسد کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً
اگر آپ نماز ادا کر رہے ہیں اور کتا وہ بھی کالا آپ کے سامنے بھونکنا شروع کر دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی نماز سے خشوع و خضوع جاتا رہے گا۔ اسی طریقے سے اگر آپ نماز کی حالت میں ہیں اور ایک عورت آپ کے سامنے سے گزر جائے تب بھی آپ کی نماز میں خلل واقع ہو سکتا ہے اور بعینہ یہی حالت گدھے کی ہے جب وہ اپنی بد صورت آواز سے ہنکے گا تو یقیناً نماز میں خلل اور خرابی واقع ہوگی۔
صفی الرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں:
’’واّما تخصیص المراة والکلب والحمار بالذکر فلیس معناہ ان غیرھا لا یقطع برکة الصلاة، والا لم یکن لتاثیم الرجل لاجل مرورہ بین یدی المصلی معنی ، بل لان ھذہ الثلاث مظان لوجود الشیطان وفتنتہ ، فیکون القطع من اجلھا ابلغ واشد وافظع، فقد روی الترمذی عن ابن مسعود مرفوعاً (ان المراة عورة فاذا خرجت استشرفھا الشیطان) وروی مسلم عن جابر مرفوعا ان المراة تقبل فی صورة شیطان وتدبر فی صورة شیطان وورد فی نھیق الحمار: انہ ینھق حین یری الشیطان۔ اما الکلب فقد ورد فی ھذا الحدیث نفسہ ان الکلب الاسود شیطان، وقف علم خبث مطلق الکلب بان الملائکة لا تدخل بیتا فیہ کلب، وان من اقتنی کلبا۔ فیما لم یاذن فیہ الشرع۔ انتقص من اجرہ کل یوم قیراطان۔ اما وصف الکلب الاسود بانہ شیطان فلکثرة خبثہ وشدة سوء منظرہ وفظاعتہ۔‘‘ (منة المنعم شرح مسلم، ج۱، ص۳۲۸)
ترجمہ: ’’اور جو ذکر میں تخصیص کی گئی ہے کہ عورت ، کتّا اور گدھا (نماز کو باطل کر دیتے ہیں) تو پس اس کا معنی یہ نہیں کہ ان تینوں اشیا کے علاوہ کوئی اور چیز نماز کی برکت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ حکمتیں نہ ہوتیں (یعنی عورت، کتا اور گدھا کے گزرنے کی) تو مرد کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ بلکہ یہ تینوں چیزیں شیطان کے وجود اور فتنہ کی جگہیں ہیں۔ تاکہ (نماز) ختم ہو جائے اور شیطان کی وجہ سے سخت پریشان ہو جائے۔ ترمذی نے ابن مسعود سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ عورت یقیناً پردے کی جگہ ہے اور جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ، اور مسلم میں جابر بن عبداللہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ یقیناً عورت جب آتی اور جاتی ہے شیطان کی صورت میں، اور گدھے کے ہینگنے کے بارے میں بھی موجود ہے کہ وہ شیطان کو دیکھ کر اپنی آواز نکالتا ہے (ہینگتا ہے) اور جہاں تک کتے کے بارے میں ہے تو حدیث میں کالے کتے کے ساتھ یہ مخصوص ہے ۔ کیونکہ کالے کتے کو شیطان کہا گیا ہے۔ یقیناً کتے کا مطلب خبث ہونا موجود ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتے ہوں یا جس نے کتے کو پالا ہو اس کے بارے میں شریعت نے اجازت مرحمت فرمائی ۔ (بلاوجہ کتا پالنا شریعت میں اس کی رخصت نہیں)‘‘
شبیر احمد عثمانی ’’فتح الملھم‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’المراة بالقطع فی حدیث الباب قطع الوصلة بین العبد وبین الرب جل جلالہ لا ابطال الصلاة نفسھا‘‘ (فتح الملھم شرح صحیح مسلم، ج۳، ص۳۳۴)
ترجمہ: ’’یعنی نماز ختم کرنے کا جو یہاں مقصد ہے اس حدیث کے باب میں تو قطع سے مراد بندے اور رب کے درمیان رابطہ کا انقطاع ہے اور نماز کا اپنی ذات کے اعتبار سے باطل ہونا مراد نہیں۔‘‘
امام قرطبی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یقطع الصلاة المراة والحمار، فان ذالک مبالغہ فی الخوف علی قطعھا وافسادھا بالشغل بھذہ المزکورات، وذالک ان المراة تفتن ، والحمار ینھق، والکلب یروع فیتشوش المتفکر فی ذالک حتی تنقطع علیہ الصلاة وتفسد‘‘
(المفھم شرح مسلم ، ج۲، ص۱۰۹)
ترجمہ: ’’یعنی نماز کا قطع ہونا عورت اور گدھے کی وجہ سے تو یہ مبالغہ ہے اس سبب کہ نماز کا قطع ہونا اور اس کی بنیاد کی وجہ سے ان اشیا کے شغل کے سبب ، کیونکہ عورت فتنہ میں ڈالتی ہے اور گدھے کا ہینگنا (وہ بھی خرابی کا باعث بنتا ہے) اور کتا ڈراتا ہے نمازی کو یہاں تک کہ اسے تشویش میں ڈالتا ہے حتی کہ اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے یا (خشوع و خضوع میں )بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘
جلال الدین سیوطی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’وان المراد بالقطع فی الحدیث نقص الصلاة یشغل القلب بھذہ الاشیاء‘‘
(الدیباج، ج۱، ص۶۴۰)
ترجمہ: ’’یہ کہ نماز کا قطع سے مراد یہاں حدیث میں نماز کی کمی ہے کیونکہ دل ان اشیا کی وجہ سے شغل میں پڑ جاتا ہے۔‘‘
الحمدللہ بات عیاں ہوئی کہ ان تین اشیا کا جو ذکر احادیث صحیحہ میں موجود ہے آخر اس میں کیا حکمت ہے۔ اس کی حکمتین دوسری احادیث نے مترشح کر دیں کہ ان کا اصل سبب (نماز کا خراب ہونا) شیطان کے عمل دخل کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ جب بندہ صلاة کو ادا کرتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اور شیطان کا کام ہی بندہ کا تعلق رحمٰن سے توڑنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان بندے کی نماز کو ان اشیا کے ذریعے باطل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس موضوع کی تمام احادیث صحیح سند کے ساتھ کتب احادیث میں موجود ہیں جس کو منکرین حدیث اپنی کم علمی کے نتیجے میں افسانہ گردانتے ہیں۔ منکرین حدیث کا یہ شوشہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو حدیث سمجھ میں نہ آئے اسے بناوٹی تصور کیا جائے۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ اگر قرآن کی کوئی آیت آپ کو سمجھ میں نہ آئے تو کیا اسے بھی آپ بناوٹی قرار دیں گے؟؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ’’یقطع الصلاة المراة والحمار والکلب‘‘ کئی کتب حدیث میں موجود ہے۔ دیکھیے۔
صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۱۴۰، مصنف عبدالرزاق ۲۶/۲، مسند احمد۳۴۷/۱، سنن ابی داؤد ۱۸۰/۱، ابن ماجہ ۳۰۵/۱، والطحاوی۴۵۸/۱، ابن خزیمہ ۲۲/۲، ابن حبان ۵۳/۴، والبیھقی ۲۷۴/۲
ان کتب احادیث کے علاوہ کئی اور کتب میں بھی صحیح اسناد کے ساتھ ان احادیث کا ذکر موجود ہے۔ اب ان صحیح احادیث کا انکار صرف جہل اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہوگا، وگرنہ کسی صاحب ایمان کا یہ کام نہیں کہ جب فرمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آجائے تو وہ اپنی مرضی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے آگے پیش کرے کسی نے خوب کہا تھا:
ہوتے ہوئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
شیخ محمد حسین میمن
کتاب : تفہیم حدیث
ہوم - اسلامک میسج آرگنائیزیشن