کیا عورت ،گھر ،سواری میں نحوست ہوتی ہے؟
محمد اسحاق سلفی
کچھ لوگوں کا احادیث پر اعتراض کہ ہے بعض احادیث میں عورت اور گھر کو نحوست والا کہا گیا ہے۔
اس نقطۂ نظرکی تائید میں، مثال کے طور پر یہ روایت پیش کی جاتی ہے:
عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَالشُّؤْمُ فِي ثَلاَثٍ: فِي المَرْأَةِ، وَالدَّارِ، وَالدَّابَّةِ " صحیح بخاری 5753
(احمد، رقم ۶۴۰۵)
''ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اچھوت، برا شگون اور نحوست کسی چیز میں نہیں ہے، سوائے تین چیزوں کے: عورت، گھر اور جانور میں۔ ''
پہلے تو یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ کسی حدیث کو سمجھنے کے لیے اس کے تمام متون کا تجزیہ کیاجانا ضروری ہے۔ اگرتمام متون کو سامنے رکھے بغیر کسی حدیث کو سمجھاجائے گا تو بعض اوقات بالکل غلط نتیجے پر پہنچنے کا امکان ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث کے راوی بعض اوقات کچھ تفصیلات بیان نہیں کرتے اور بات کو اجزا میں بیان کرتے ہیں، اور کبھی ایک حدیث کئی اسانید سے منقول ہوتی ہے جس میں بعض اسناد سے مروی متن حدیث دوسری اسانید سے منقول متون سےزیادہ صحیح اور محفوظ ہوتا ہے ،
چنانچہ مکمل بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسانید سے مروی متون اور اس حدیث کےسارے اجزا کو سامنے رکھ کرنتیجہ نکالا جائے تاکہ ایک حدیث اپنے پورے سیاق وسباق اور پیش وعقب کے ساتھ ہمارے سامنے آجائے۔
اوپر مذکور صحیح بخاری کی سیدنا ابن عمر سے مروی حدیث کے بعد امام بخاریؒ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے ہیں :
عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن كان في شيء، ففي المرأة، والفرس، والمسكن»
اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں :
حدثنا مالك، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن كان، ففي المرأة والفرس والمسكن» - يعني الشؤم "
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی چیز میں (نحوست ہوتی ) تو عورت ، گھوڑے (یعنی) سواری اور گھر، میں ہوتی۔“
تو واضح ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اصل میں یوں تھی :
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ذَكَرُوا الشُّؤْمَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ فَفِي الدَّارِ، وَالمَرْأَةِ، وَالفَرَسِ»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نحوست کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھر، بیوی اور گھوڑے (یعنی) سواری میں ہوتی۔“
(صحیح البخاری ،5094 ) سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 799 )
اور یہ صریح متن والی حدیث صحیح مسلم (2225) کتاب السلام ،میں اس طرح مروی ہے :
عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ، يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنْ يَكُنْ مِنَ الشُّؤْمِ شَيْءٌ حَقٌّ، فَفِي الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالدَّارِ»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
اگر کسی چیز میں (نحوست ہوتی ) تو عورت ، گھوڑے (یعنی) سواری اور گھر، میں ہوتی۔"
ہی واضح ہے کہ کسی شئے میں فی نفسہ نحوست نہیں ہوتی ،ہاں اگر ہوتی تو ان مذکورہ تین چیزوں میں ہوتی ۔
اور نفس مسئلہ پراس ضمن میں امام احمد بن حنبل کی'' مسند'' میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بات کو واضح کرتی ہے:
عن أبي حسان، قال دخل رجلان من بني عامر على عائشة فأخبراها أن أبا هريرة يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " الطيرة في الدار، والمرأة، والفرس " فغضبت فطارت شقة منها في السماء، وشقة في الأرض، وقالت: والذي أنزل الفرقان على محمد ما قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم قط، إنما قال: " كان أهل الجاهلية يتطيرون من ذلك" ( مسند احمد بن حنبل رقم 26034)
علامہ شعیب ارناؤط نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ :
إسناده صحيح على شرط مسلم. أبو حسان - وهو الأعرج - من رجاله وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين.
وأخرجه الطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (786) ، و"شرح معاني الآثار" 4/314 وأخرجه الطبري في "تهذيب الآثار" (37) و (72) وأخرجه الطيالسي (1537)
''کبار صحابہ کے شاگرد تابعی جناب ابو حسان مسلم بن عبداللہ اعرجؒ سے روایت ہے کہ دو آدمی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اوران سے عرض کی کہ: جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نحوست تو صرف عورت، جانور اور گھر میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بہت غصہ آیا اور ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ :اس ذات کی قسم جس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز یہ نہیں فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا، وہ یہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ ” ان چیزوں (نحوست کے قائل ) اور ان سے برا شگون لیتے تھے۔“
(مسند احمد ، نیز دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 993 )
____________
عصر حاضر کے نامور محقق محدث علامہ ناصرالدین البانیؒ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرویات کی صحت و مفہوم بتاتے ہوئے کہتے ہیں :
باب معنى قوله - صلى الله عليه وآله وسلم -: «الشؤم في ثلاثة .. »
سؤال: بارك الله فيك يا شيخ حديث أبي هريرة الذي يقول فيه النبي - صلى الله عليه وآله وسلم -: «إنما الشؤم في ثلاث: المرأة والدار والفرس» يعني قال بعض العلماء فيما استدركته عائشة على الصحابة أنها قالت: رحم الله أبا هريرة إنما دخل على الشطر الأخير من هذا الحديث، فقول النبي - صلى الله عليه وآله وسلم -، فأول الحديث إنما يقول النبي - صلى الله عليه وآله وسلم -: «قاتل الله اليهود، تقول إنما الشؤم في ثلاث .. » ثم ذكرت تكملة الحديث، فما أدري ما صحة هذه الزيادة يا شيخ، وهل هذه هي مناسبة الحديث أم لا؟
الشيخ: تعني بالزيادة ما يتعلق بحديث عائشة؟
مداخلة: بحديث عائشة لما استدركته على أبي هريرة.
الشيخ: استدراك السيدة عائشة رضي الله عنها صحيح، لكن هذه الصحة لا تنفي أن يكون لحديث أبي هريرة أصل صحيح، ولكن بغير هذا اللفظ، وأنا عالجت هذه المشكلة لأن الحديث في الواقع روي في الصحاح، فضلاً عما دونها، بألفاظ ثلاثة، أحدها ما ذكرت عن أبي هريرة: «إنما الشؤم»، الثاني: «الشؤم». الثالث: وهو الصحيح: «لو كان الشؤم في شيء لكان في هذا»،
هذا اللفظ الأخير هو الصحيح من حيث اعتماد صاحبي الصحيحين عليه، ومجيء أيضاً هذا اللفظ من طرق كثيرة وعديدة ترجحه على اللفظين الأولين من حيث أولاً الرواية ثم من حيث الدراية؛ لأن الأحاديث متتابعة إن لم نقل متواترة عن النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - في إنكار التطير، فأن يقال الشؤم في ثلاثة، أو إنما الشؤم في ثلاثة، فهذا يتنافى مع نفي الشارع الحكيم في تلك الأحاديث الكثيرة المشار إليها: «لا طيرة» وفي لفظ: «لا طيرة في الإسلام» هذا يجعلنا نُقوِّي موقفنا من حيث الرواية أن اللفظ الثالث والأخير لو كان الشؤم في شيء لكان في ثلاثة، وبذلك نخلص من المشكلة التي تتبادر إلى الذهن من اللفظ الأول أو الثاني، ونقول هذا جاء من اختصار بعض الرواة وليس من الضروري أن يكون هذا الاختصار من بعض الرواة حادثاً فيما بعد، وإنما يمكن أن يكون وقع فيه بعض الرواة أيضاً الذي أوصلوا الحديث إلى السيدة عائشة، فهي روت ما سمعت، والرسول عليه السلام رد عليهم بلا شك، إنما الشؤم، هذه ليست عقيدة إسلامية.
إذاً: نحن نثبت الروايتين، رواية ودراية، نثبت رواية عائشة لأنه سند صحيح، ونثبت رواية عائشة على الترجيح وهي باللفظ الأخير الثالث .. ؟ وهذا أنا ذكرته في السلسلة الصحيحة، في أكثر من موضع. نعم.
"الهدى والنور" (668/ 03: 38: 00)
(موسوعة الألباني في العقيدة )3/1161
http://shamela.ws/browse.php/book-36190/page-1542#page-1542
علامہ ناصر الدین البانیؒ کے اس فتوی کا اردو میں خلاصہ کچھ یوں ہے کہ :
سائل نے شیخ البانی سے سوال کیا کہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نحوست تو صرف عورت، جانور اور گھر میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدنا ابو ہریرہ کی روایت پر استدراک کیا کہ اصل بات یوں نہیں بلکہ یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہود کہا کرتے تھے کہ : عورت، جانور اور گھر میں نحوست پائی جاتی ہے "
تو شیخ آپ سے سوال ہے کہ ان دونوں باتوں میں کون سی صحیح اور درست ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو شیخ البانیؒ نے جواب دیا کہ :
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو استدراک کیا وہ صحیح ہے ،لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ کی حدیث صحیح نہیں ، وہ بھی صحیح ہے لیکن ان الفاظ سے نہیں بلکہ دوسرے لفظوں سے ، اوران میں تطبیق یوں ہے کہ:
تین چیزوں میں نحوست کی حدیث تین قسم کے متون سے منقول ،مروی ہے ،
(1) ایک سیدنا ابوہریرہ سے جسے سوال میں ذکر کیا گیا کہ :
«إنما الشؤم في ثلاث: المرأة والدار والفرس»
ترجمہ : نحوست تو صرف عورت، جانور اور گھر میں پائی جاتی ہے "
(2) اور دوسرا صیغہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بخاری میں : «
الشؤم في الدار، والمرأة، والفرس»
ترجمہ : نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے عورت، جانور اور گھر میں پائی جاتی ہے "
(3) اور تیسرا صیغہ متن جو صحیح ہے وہ یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«
لو كان الشؤم في شيء لكان في هذا» اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو ان چیزوں میں ہوتی "
یہ آخری الفاظِ متن ہی صحیح اور محفوظ ہیں ،صحیحین کے مؤلفین امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ کا اسی متن پر اعتماد ہے ، ان الفاظ کے ساتھ منقول متن کے بہت سارے طرق (سندیں ) ہیں ، جس کی بنا پر یہ متن پہلے دو قسم کے متون پر ترجیح رکھتا ہے ، اور پھر "درایت " کے لحاظ سے بھی اس متن کو ترجیح ہے ، کیونکہ متواتر طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے "تطیر " یعنی بدشگونی کی نفی اور انکار مروی ہے ،
تو اگر ان تین چیزوں میں نحوست کی روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو جن احادیث میں "بد شگونی " کی نفی کی گئی ہے ان احادیث کی نفی ہوگی ، (جو احادیث میں باہم تضاد ثابت کرتا ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔