• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا غیر اللہ کو مولانا کہنا جائز ہے؟

شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
مولانا

کااستعمال غیراللہ کےلیےکہنا یا لکھنا جائز ہے؟؟؟
لفظ مولیٰ کثیر المعانی ہے، لیکن اس کا اکثر استعمال مالک کے معنوں میں ہوتا ہے اور کیونکہ ہمارا حقیقی مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے اس لفظ ( مولانا) کا استعمال جائز نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں :
تم میں سے کوئی شخص (کسی کو) ہر گز یہ نہ کہے، میرا بندہ، میری بندی، تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمہاری عورتیں سب اللہ کی بندیاں ہیں ، بلکہ یہ کہے، میرا لڑکا، میری لڑکی، میرا بچہ، میری بچی اور تم میں سےکوئی شخص (کسی کو) یہ نہ کہے، اپنے ربّ کو پانی پلا اور نہ تم میں سے کوئی شخص کسی کو یہ کہے، میرا ربّ، بلکہ یہ کہے، میرا سردار اور میرا مولیٰ ۔

صحیح مسلم کتاب الالفاظ من الادب عن ابی ہریرہ رضى االله تعالى عنه

اس حدیث میں کسی کو میرا بندہ یا میری بندی کہنے سے منع کیا اور غلاموں اور لونڈیوں کو اپنے مالک کو ربّ کہنے سے منع کردیا ۔ مولیٰ اور سردار کہنے کی اجازت دی لیکن بعد میں مولیٰ و مولانا کےلیے بھی بڑی وضاحت سے ممانعت کی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
کوئی غلام اپنے آقا کو میرا مولیٰ نہ کہے اس لیے کہ تم سب کا مولیٰ اللہ عزو جل ہے۔

( صحیح مسلم کتاب الالفاظ من الادب عن ابی ہریرہ رضى االله تعالى عنه)

ظاہر ہے کہ پابندیاں آہستہ آہستہ ہی لگائی گئیں ہیں ، لہٰذا اجازت کی حدیث پہلے کی ہے ، اور ممانعت کی بعد کی ، دوسری حدیث نے مولیٰ کے استعمال کی اجازت کو منسوخ کر دیا ۔ جہاں اجازت اور حرمت دونو ں کی دلیل ملتی ہو وہاں حرمت کو تر جیح ہوتی ہے ۔ مشکوک چیز کو چھوڑنے کاحکم دیا گیا ہے ۔


لہٰذا اس اصول کے مطابق بھی مولیٰ کا استعمال غیر اللہ کے لیئے جائز نہ ہو گا ۔

اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رہو ، وہی تمہارا مولا ہے تو وہ اچھا مولا ہے اور اچھا مدد گار ۔

سورۃ الحج ۷۸
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
یہاں قرآن میں غیر اللہ کے لئیے کیوں مولا کا لفظ آیا ۔ اس کی وضاحت درکار ہے
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر غیر اللہ کو مولی کہا ہے جیسا کہ سورہ النحل 76, سورہ النساء33, سورہ مریم: 5 .
اس کا جواب یہ ہے یہ اللہ کے لئے خاص ہے ۔ جس طرح اللہ نے قرآن مجید میں بیشتر مقامات میں غیر اللہ کی قسم اٹھائی ہے۔ جیسے
"والشمس ولضحاھا"
"سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی قسم" [الشمس 1
لیکن بندوں کے لئے غیر اللہ کی قسم اٹھانا حرام اور شرک ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: " جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھائی یقیناً اس نے شرک کیا"
(سنن ابو داؤد کتاب الایمان والنذور)
اسلام کے ابتدائی دور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی تھی۔
جیسا کہ روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دیہاتی کے متعلق فرمایا: "افلح وابیہ ان صدق" "اس کے باپ کی قسم! وہ کامیاب ہو گیا اگر اس نے سچ کہا" (سنن ابو داؤد کتاب الصلاة 392)
لیکن بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر اللہ کی قسم اٹھانے کو شرک کہا۔
بالکل اسی طرح اسلام کے ابتدائی دور میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر اللہ کے لئے مولی کا لفظ استعمال کیا لیکن بعد میں منع کیا۔ جہاں اجازت اور حرمت دونوں کی دلیل ملتی ہو وہاں حرمت کو ترجیح ہوتی ہے۔
بعض علماء نے غیر اللہ کو مولانا کہنے کے جواز پر اجماع امت نقل کیا ہے لیکن یہ درست نہیں کیوں کہ سلف میں کسی بھی عالم, فقیہ امام و محدث و مفسر نے اپنے نام سے پہلے مولانا کا لفظ استعمال نہیں کیا۔
بعض علماء نے صحیح مسلم کی ممانعت والی حدیث پر امام اعمش کی وجہ سے اختلاف ظاہر کیا ہے۔
امام اعمش کا حدیث میں کیا مقام ہے جا ننے کے لئے ہمارے اس مضمون کا مطالعہ کریں ۔ کیا عبید اللہ بن زیاد کے سر میں سانپ گھساتھا؟

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-عبید-اللہ-بن-زیاد-کے-سر-میں-سانپ-گھسا-

واللہ اعلم بالصواب۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
عنوان سے لگا کہ شاید آپ نے سوال پوچھا ہے ۔
لیکن مضمون دیکھ کر تو لگا کہ آپ نے تو جواب دیا ہے اور ایسا دیا ہے کہ کسی کے لئے گنجائش ہی نہیں چھوڑی کے وہ اس میں کچھ جواز نقل بھی کرے ۔
مثلاََ یہ اللہ کہ لئے خاص ہے ۔۔۔۔
وہ پہلے تھا پھر منسوخ ہوگیا۔۔۔۔
اب بندہ ادھر کیا کرے ۔
ویسے دلائل سے ہٹ کے ۔۔۔ادھر پاک و ہند میں یہ تمام مسالک میں بالاتفاق رائج ہے ۔ اور اس کا معیار عرف پر ہے ۔
عرف میں اس سے عام آدمی بھی ’’مولوی یا عالم‘‘ ہی لیتا ہے ۔
البتہ لفظ ’’مولا ‘‘اس کی اگر گنجائش ہو بھی تو چونکہ ہمارے ہاں عرف میں ۔۔۔اللہ تعالٰی کے لئے بولا جاتا ہے ۔ لہذا اس سے بچنا چاہیے ۔ جیسے ایک حدیث کی وجہ سے حضرت علی ؓ کے لئے بہت بولتے ہیں لوگ ۔
اس میں عوام فرق نہیں کرسکتی ۔ اس لئے بچنا چاہیے ۔واللہ اعلم
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
یا لفظ رب قرآن مجید میں والدین کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ اور میں نے بعض عوام کے منہ سے سنا بھی ہے ماں کے لئے ۔
لیکن عرف میں چونکہ ’’رب‘‘ سے اللہ تعالیٰ ہی مراد ہوتے ہیں ۔ اور عوام اس کو گڈمڈ کر دیتے ہیں ۔ اس لئے اس سے بھی بچنا چاہیے ۔
لفظ ’’مولانا ‘‘عوام میں بالکل مستعمل نہیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله
"فتاوی نور علی الدرب " میں فرماتے ہیں :
لا حرج في ذلك؛ لأن المولى كلمة مشتركة تطلق على الله سبحانه وتعالى، والسيد المالك، وتطلق على القريب يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا يعني قريب عن قريب، وتطلق على العتيق يقال له مولى، والمعتق يقال له مولى، فهي كلمة مشتركة، لكن الأولى والأفضل ِأن لا تطلق على الناس بمعنى الرئاسة بمعنى الكبير ونحو ذلك؛ لأنه جاء في حديث رواه مسلم في الصحيح أن النبي عليه الصلاة والسلام قال: (لا تقل مولاي فإن مولاكم الله) وجاء في حديث آخر أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال للعبد: (وليقل سيدي ومولاي) فأخذ منه العلماء أنه يجوز إطلاق لفظ المولى على السيد أو المالك، ويلحق به السلطان والأمير وشيخ القبيلة ونحو ذلك؛ لأنهم لهم رئاسة ولهم سيادة، ولكن ترك ذلك معهم أولى وأفضل إلا في حق السيد المالك فقط للحديث الذي ورد في ذلك، وليقل سيدي ومولاي، وبكل حال فالأمر فيه واسع إن شاء الله لأجل جوازه في حق السيد المالك،
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال رسول الله صلي الله عليه و سلم:
"ولا يقل العبد لسيده مولاي فان مولاكم الله عز و جل"
(صحيح مسلم كتاب الألفاظ من الادب عن ابي هريرة رضي الله عنه)
ترجمہ:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"کوئی غلام اپنے آقا کو میرا مولا نہ کہے اس لئے کہ تم سب کا مولا اللہ عز و جل ہے"
(صحیح مسلم کتاب الالفاظ من الادب عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
￿♦￿اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ کو ئی بھی غیر اللہ کو مولا نہ کہے کیوں کہ مولا اللہ عز و جل ہے۔
￿اعتراض1: لفظ مولا قرآن اور حدیث میں انسانوں کے لئے استعمال ہوا ہے لہذا ہمارے لئے بھی اس کا انسانوں کے لئے جائز ہے۔
جواب: قرآن میں لفظ رب بھی انسانوں کے لئے استعمال ہوا ہے مثلا:
￿وَقَالَ لِلَّذِى ظَنَّ أَنَّهُۥ نَاجٍۢ مِّنْهُمَا ٱذْكُرْنِى عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَىٰهُ ٱلشَّيْطَٰنُ ذِكْرَ رَبِّهِۦ فَلَبِثَ فِى ٱلسِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

اور یوسف نے ان دونوں میں سے جسے بچتا سمجھا اس سے کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس میرا ذکر کرنا تو شیطان نے اسے بھلا دیا کہ اپنے رب (بادشاہ) کے سامنے یوسف کا ذکر کرے تو یوسف کئی برس اور جیل خانہ میں رہا
(سورہ یوسف 42)
￿￿بتائے کیا اس آیت کی رو سے رب کا استعمال انسانوں کے لئے جائز ہے؟ ہرگز نہیں۔
￿اللہ فرماتا ہے:
وَأَنكِحُوا۟ ٱلْأَيَٰمَىٰ مِنكُمْ وَٱلصَّٰلِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَآئِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا۟ فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌۭ

اور نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انہیں غنی کردے گا اپنے فضل کے سبب اور اللہ وسعت والا علم والا ہے،
(سورہ نور 32)
￿اس آیت میں عبد کی اضافت انسانوں کی طرف ہے کیا ہم۔بھی کسی انسان کو دوسرے انسان کا عبد کہ سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں۔
احادیث میں بھی ایسے لفظوں کا استعمال "وما ينطق عن الهوي" کے بمصداق من جانب اللہ ہی ہے۔ اللہ تعالی کو اختیار ہے جو لفظ چاہے استعمال کرے۔ جس کو چاہے اپنے علاوہ سجدہ کرنیکا حکم دیدے۔ بندوں کو اختیار نہیں کہ وہ اللہ کے قول و فعل کی بنیاد پر ممنوعہ الفاظ استعمال کرے۔
￿َ وَٱعْتَصِمُوا۟ بِٱللَّهِ هُوَ مَوْلَىٰكُمْ ۖ فَنِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ

اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو وہ تمہارا مولیٰ ہے تو کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مددگار،

￿الغرض اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے کو مولا یا مولانا کہنا جائز نہیں

￿ أَنتَ مَوْلَىٰنَا فَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَٰفِرِينَ

"(اے اللہ) تو ہی ہمارا مولانا (مددگار) ہے۔ ہمیں کافر قوم پر غلبہ عطا فرما"
واللہ اعلم بالصواب
 

بینواء

مبتدی
شمولیت
ستمبر 01، 2017
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال رسول الله صلي الله عليه و سلم:
"ولا يقل العبد لسيده مولاي فان مولاكم الله عز و جل"
(صحيح مسلم كتاب الألفاظ من الادب عن ابي هريرة رضي الله عنه)
ترجمہ:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"کوئی غلام اپنے آقا کو میرا مولا نہ کہے اس لئے کہ تم سب کا مولا اللہ عز و جل ہے"
(صحیح مسلم کتاب الالفاظ من الادب عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
￿♦￿اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ کو ئی بھی غیر اللہ کو مولا نہ کہے کیوں کہ مولا اللہ عز و جل ہے۔
￿اعتراض1: لفظ مولا قرآن اور حدیث میں انسانوں کے لئے استعمال ہوا ہے لہذا ہمارے لئے بھی اس کا انسانوں کے لئے جائز ہے۔
جواب: قرآن میں لفظ رب بھی انسانوں کے لئے استعمال ہوا ہے مثلا:
￿وَقَالَ لِلَّذِى ظَنَّ أَنَّهُۥ نَاجٍۢ مِّنْهُمَا ٱذْكُرْنِى عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَىٰهُ ٱلشَّيْطَٰنُ ذِكْرَ رَبِّهِۦ فَلَبِثَ فِى ٱلسِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

اور یوسف نے ان دونوں میں سے جسے بچتا سمجھا اس سے کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس میرا ذکر کرنا تو شیطان نے اسے بھلا دیا کہ اپنے رب (بادشاہ) کے سامنے یوسف کا ذکر کرے تو یوسف کئی برس اور جیل خانہ میں رہا
(سورہ یوسف 42)
￿￿بتائے کیا اس آیت کی رو سے رب کا استعمال انسانوں کے لئے جائز ہے؟ ہرگز نہیں۔
￿اللہ فرماتا ہے:
وَأَنكِحُوا۟ ٱلْأَيَٰمَىٰ مِنكُمْ وَٱلصَّٰلِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَآئِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا۟ فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌۭ

اور نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انہیں غنی کردے گا اپنے فضل کے سبب اور اللہ وسعت والا علم والا ہے،
(سورہ نور 32)
￿اس آیت میں عبد کی اضافت انسانوں کی طرف ہے کیا ہم۔بھی کسی انسان کو دوسرے انسان کا عبد کہ سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں۔
احادیث میں بھی ایسے لفظوں کا استعمال "وما ينطق عن الهوي" کے بمصداق من جانب اللہ ہی ہے۔ اللہ تعالی کو اختیار ہے جو لفظ چاہے استعمال کرے۔ جس کو چاہے اپنے علاوہ سجدہ کرنیکا حکم دیدے۔ بندوں کو اختیار نہیں کہ وہ اللہ کے قول و فعل کی بنیاد پر ممنوعہ الفاظ استعمال کرے۔
￿َ وَٱعْتَصِمُوا۟ بِٱللَّهِ هُوَ مَوْلَىٰكُمْ ۖ فَنِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ

اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو وہ تمہارا مولیٰ ہے تو کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مددگار،

￿الغرض اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے کو مولا یا مولانا کہنا جائز نہیں

￿ أَنتَ مَوْلَىٰنَا فَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَٰفِرِينَ

"(اے اللہ) تو ہی ہمارا مولانا (مددگار) ہے۔ ہمیں کافر قوم پر غلبہ عطا فرما"
واللہ اعلم بالصواب
الجواب؛
بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ہر مسلمان کو مصیبت زدہ انسانوں کا مشکل کشا اور حاجت روا ہونا چاہیے بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا، بیمار کو دوا دینا، ننگے کو لباس دینا، بے گھر کو گھر مہیا کرنا، غریب کی ضرورت پوری کرنا، غریب، یتیم، مسکین، بچوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا، ان کی خوراک، پوشاک، تعلیم کا بندوبست کرنا، زخمی کو ہسپتال پہنچانا، حادثات، سیلاب، وباؤں، زلزلوں اور طوفانوں کے متاثرین کی مدد کرنا حسب توفیق ہر ایک پر فرض ہے۔ جب ہر مسلمان کو مشکل کشا اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشا کہنا کیونکر غلط ہوگیا؟ جب ہم کسی بھی دنیا دار سے کچھ طلب کرتے ہیں تو معترضین اسے غلط نہیں کہتے مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے۔

قرآن پاک کی روشنی میں :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ

التوبة 9 : 74

’’اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَo

التوبة 9 : 59

’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتاo)‘‘

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ

المائدة 5 : 2

’’نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘

یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

حدیث پاک سے :

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔

من قضی لأحد من أمتی حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر اﷲ ومن سر اﷲ أدخله اﷲ الجنة.

ديلمی، مسند الفردوس، 3 : 546، رقم : 5702

’’جس کسی نے میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کی اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘

حضرت انس ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أغاث ملهوفا کتب اﷲ له ثلاثا وسبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمه

بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670

’’جس نے کسی مظلوم و بے بس بیچارے کی فریادرسی کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے 73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے جن میں سے ایک کے عوض اس کے سارے معاملات درست ہوجائیں اور بہتر درجات اسے قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘

حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے۔

أنه إذا أتاه السائل أوصاحب الحاجة قال اشفعوا فلتؤجرو اوليقض اﷲ علی لسان رسوله ماشاء

بخاری، الصحيح، 5 : 2243، رقم : 5681

’’جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب کوئی منگتا یا حاجت مند آتا آپ فرماتے اس کی سفارش کرو اور ثواب حاصل کرو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر جو چاہے فیصلہ کرے۔‘‘

حضرت فراس بن غنم سے روایت ہے :

أسال يا رسول اﷲ، فقال النبی لا وإن کنت لا بد فسئل الصالحين

بيهقی، شعب الايمان، 3 : 270، رقم : 3512

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ میں کسی سے سوال کرو ں ؟ فرمایا نہیں۔ اگر مانگے بغیر چارہ نہ ہو تو نیک لوگوں سے مانگ۔

پس اسلام دوسروں کی مدد کا حکم دیتا ہے دوسروں کی حاجت روائی کرنا ہر مسلمان کا مشن بتاتا ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب دارین کا وعدہ بھی کرتا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے صحابہ کو نیک اور صالح افراد سے مانگنے کی ترغیب دیتے!!
واللہُ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہر مسلمان کو مصیبت زدہ انسانوں کا مشکل کشا اور حاجت روا ہونا چاہیے بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا، بیمار کو دوا دینا، ننگے کو لباس دینا، بے گھر کو گھر مہیا کرنا، غریب کی ضرورت پوری کرنا، غریب، یتیم، مسکین، بچوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا، ان کی خوراک، پوشاک، تعلیم کا بندوبست کرنا، زخمی کو ہسپتال پہنچانا، حادثات، سیلاب، وباؤں، زلزلوں اور طوفانوں کے متاثرین کی مدد کرنا حسب توفیق ہر ایک پر فرض ہے۔ جب ہر مسلمان کو مشکل کشا اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے
میں اگر آپ کو پانی پلادوں ، آپ مجھے مشکل کشا ، حاجت روا ،غوث اعظم تسلیم کرلیں گے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے ، تو ساری دنیا ہی مشکل کشا ، حاجت روا ، اور غوث اعظم ہے ، پھر صرف چند بزرگوں کو اس حیثیت سے تسلیم کرنا بے معنی ہے ۔
در حقیقت یہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہے ، جو کوئی بھی نیک یا بد دوسرے کے لیے کرسکتا ہے ، بلکہ صرف مسلمان ہی نہیں ، کافر بھی ایک دوسرے کے ساتھ اس حسن سلو ک کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
یہ سب ظاہری اسباب و ذرائع ہیں ، جو اللہ تعالی نے نظام زندگی کے لیے پیدا کیے ہیں ۔ اور اس پر شریعت میں ایک دوسرے کی مدد پر ابھارا گیا ہے ۔
آپ نے مثالیں ساری اس چیز کی دی ہیں ، جب اس پر نتیجہ کچھ اور نکال رہے ہیں :
جب ہر مسلمان کو مشکل کشا اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشا کہنا کیونکر غلط ہوگیا؟
کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، یا کوئی بھی غیر موجود بزرگ ہمارے لیے کوئی بھی کام کرنے کی اللہ کی طرف سے استطاعت نہیں رکھتے ، اور یہ بات خود ہمیں بھی تسلیم ہے ، ہم اپنے پاس موجود بہن یا بھائی ، یا بیٹے بیٹی کو تو کہتے ہیں ، کہ مجھے پانی لا دیں ، کھانے لادیں ، کبھی یہ بھی کہا کہ علی مشکل کشا ، مجھے کچن سے کھانا لاکر دے دیں ، دوکان سے سودا سلف لادیں ؟!
خود ہم نے اللہ تعالی سے بھی کبھی نہیں کہا ، کہ اے اللہ مجھے شہر سے بکرا خرید کر لادے ، اس کے لیے ہم ظاہری سبب وہی اختیار کرتے ہیں ، جو اللہ نے پیدا کیے ہیں ۔
ہاں البتہ جو چیز ظاہری اسباب سے ماورا ہیں ، ان کاموں کے لیے ہم توفیق اللہ سے مانگتے ہیں ، اور یہ صرف اللہ تعالی کا ہی خاصا ہے ، مخلوق میں سے کوئی اس کی طاقت یا استطاعت نہیں رکھتا ، مخلوق ظاہری اسباب بن سکتے ہیں ، لیکن ماورائی طور پر کچھ کرنے کی صلاحیت ان کے پاس نہیں ، ورنہ جس اللہ نے ہمیں ظاہری اسباب میں مخلوق سے مدد لینے کی تلقین کی ہے ، ماورائی اسباب میں بھی اس بات کی تلقین کرتے ہیں ، لیکن ایسا کہیں بھی موجود نہیں ، بلکہ اللہ نے کہا کہ اگر جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے ، تو وہ اللہ سے ہی مانگنا چاہیے ، کہ وہی اس کے لیے اسباب پیدا کرنے کی قدرت و طاقت رکھتا ہے ۔
کیونکہ انسان کے لیے مافوق الاسباب دوسرے کی مدد کرنا تو دور کی بات ، خود اپنے لیے کچھ نہیں کرسکتا ، اور اللہ نے اس بات کی نفی کی ہے :
والذین تدعون من دونہ لا یستطیعون نصرکم و لا أنفسہم ینصرون
جنہیں تم پکارتے ہو ، وہ نہ تمہاری مدد کی استطاعت رکھتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔
قرآن پاک کی روشنی میں :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ

التوبة 9 : 74

’’اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَo

التوبة 9 : 59

’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتاo)‘‘

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ

المائدة 5 : 2

’’نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘

یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

حدیث پاک سے :

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔

من قضی لأحد من أمتی حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر اﷲ ومن سر اﷲ أدخله اﷲ الجنة.

ديلمی، مسند الفردوس، 3 : 546، رقم : 5702

’’جس کسی نے میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کی اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘

حضرت انس ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أغاث ملهوفا کتب اﷲ له ثلاثا وسبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمه

بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670

’’جس نے کسی مظلوم و بے بس بیچارے کی فریادرسی کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے 73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے جن میں سے ایک کے عوض اس کے سارے معاملات درست ہوجائیں اور بہتر درجات اسے قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘

حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے۔

أنه إذا أتاه السائل أوصاحب الحاجة قال اشفعوا فلتؤجرو اوليقض اﷲ علی لسان رسوله ماشاء

بخاری، الصحيح، 5 : 2243، رقم : 5681

’’جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب کوئی منگتا یا حاجت مند آتا آپ فرماتے اس کی سفارش کرو اور ثواب حاصل کرو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر جو چاہے فیصلہ کرے۔‘‘

حضرت فراس بن غنم سے روایت ہے :

أسال يا رسول اﷲ، فقال النبی لا وإن کنت لا بد فسئل الصالحين

بيهقی، شعب الايمان، 3 : 270، رقم : 3512

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ میں کسی سے سوال کرو ں ؟ فرمایا نہیں۔ اگر مانگے بغیر چارہ نہ ہو تو نیک لوگوں سے مانگ۔

پس اسلام دوسروں کی مدد کا حکم دیتا ہے دوسروں کی حاجت روائی کرنا ہر مسلمان کا مشن بتاتا ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب دارین کا وعدہ بھی کرتا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے صحابہ کو نیک اور صالح افراد سے مانگنے کی ترغیب دیتے!!
واللہُ اعلم بالصواب
یہ سب دلیلیں بھی ظاہری اسباب کی ہیں ، جس کی شریعت نے ترغیب دلائی ہے ، اگر واقعتا مافوق الاسباب غیر اللہ سے مدد کی کوئی مثال ہوتی ، تو یقینا آپ اتنے غیر متعلقہ دلائل نقل کرنے کی بجائے ، مسئلہ سے متعلق کوئی نہ کوئی دلیل ضرور نقل کرتے ہیں ۔
مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے۔
یہ عقیدہ قرآن کا بیان کردہ ہے ۔ من دون اللہ ، اور غیر اللہ جیسے عام لفظ بول کر اللہ تعالی نے کسی سے بھی مدد طلب کرنے سے منع کیا ہے ، اگر مجاز اور حقیقت والی بات میں کوئی وزن ہوتا ، تو مشرکین کا اس قدر سخت رد نہ ہوتا ، کیونکہ خود بقول قرآن وہ اپنے معبودوں کو مستقلا نہیں ، بلکہ مجازا ماننے کے قائل تھے ، ما نعبدھم إلا لیقربونا إلی اللہ زلفی ۔
 
Top