مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١٦٠﴾
اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں،
اور وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
قرآن، سورۃ آلِ عمران، آیت نمبر 160
اس آیت کے خطاب میں تمام اہلِ ایمان بشمول رسول اللہ ﷺ اورصحابہ کرام ؓ شامل ہیں ،لہذ ا اگر نبیﷺ
”عطائی “ طور پر مدد کر سکتے ہیں تو اللہ تعالٰی نے مندرجہ بالا آیت کیوں نازل فرمائی ؟
”مافوق الاسباب “ کو
” عطائی طور پر “ کے الفاظ کے لبادے میں لپیٹ کر اُمت ِ مسلمہ کے سامنے غیر اللہ سے مدد طلب کرنے کا یہ عقیدہ پیش کرنا تو فلسفہ پر بھی پورا نہیں اترتا چہ جائیکہ اسے
”اسلامی عقیدہ“ قرار دیا جائے !