- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
2212- حَدَّثَنَا( مُحَمَّدُ) بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ ﷺ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلا ثَلاثًا: ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى: قَوْلُهُ: {إِنِّي سَقِيمٌ}، وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا}، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلاً، فَأُتِيَ الْجَبَّارُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۳۹)، وقد أخرجہ: خ/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۷)، والنکاح ۱۲(۵۰۱۲)، م/الفضائل ۴۱ (۲۳۷۱)، ت/تفسیر سورۃ الأنبیاء (۳۱۶۵)، حم (۲/۴۰۳) (صحیح)
۲۲۱۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' ابرا ہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالی کی ذات کے لئے تھے ،پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمارہوں ۲؎ ، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا : بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے ، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پرانہوں نے قیام فرمایا تواس سرکش تک یہ بات پہنچی ،اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابرا ہیم علیہ السلام کو بلوایا اورعورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: ''یہ تو میری بہن ہے''، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا'' ،اور پھر پوری حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابو الزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔
وضاحت ۲؎ : یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: ''بڑے بت نے توڑا''، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔
سنن ابوداؤد
نشان زدہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت اور کوئی مرد یا عورت محرم و غیر محرم مسلمان ہوتے تو ابراھیم علیہ السلام کے دینی بھائی یا دینی بہن ہوتے۔ واللہ اعلم
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۳۹)، وقد أخرجہ: خ/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۷)، والنکاح ۱۲(۵۰۱۲)، م/الفضائل ۴۱ (۲۳۷۱)، ت/تفسیر سورۃ الأنبیاء (۳۱۶۵)، حم (۲/۴۰۳) (صحیح)
۲۲۱۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' ابرا ہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالی کی ذات کے لئے تھے ،پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمارہوں ۲؎ ، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا : بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے ، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پرانہوں نے قیام فرمایا تواس سرکش تک یہ بات پہنچی ،اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابرا ہیم علیہ السلام کو بلوایا اورعورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: ''یہ تو میری بہن ہے''، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا'' ،اور پھر پوری حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابو الزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔
وضاحت ۲؎ : یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: ''بڑے بت نے توڑا''، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔
سنن ابوداؤد
نشان زدہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت اور کوئی مرد یا عورت محرم و غیر محرم مسلمان ہوتے تو ابراھیم علیہ السلام کے دینی بھائی یا دینی بہن ہوتے۔ واللہ اعلم