• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا غیر نبی کے ساتھ علیہ السلام کا استعمال درست ہے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا غیر نبی کے ساتھ علیہ السلام کا استعمال درست ہے ؟

ابوبکر قدوسی :

اہل السنہ اور دیگر گروہوں میں اس معاملے میں اصولی اختلاف ہے - گو بہت سے ایسے افراد جو خود کو اہل السنہ سے جوڑتے ہیں وہ غیر نبی کے لیے اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں اور بہت سے عام لوگ بھی بنا مسلہ جانے محض دوسروں کی تتبع میں اس روش پر گامزن ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قران و سنت کی روشنی میں یہ درست ہے ؟
بلا شبہ اللہ نے قران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم دیا ، جس کی پاس داری ہر مسلمان پر فرض ہے - اسی طرح دوسرے انبیاء پر بھی قران میں سلام بھیجا گیا ہے - سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انبیاء پر درود سلام قران کا طریق اور اسلوب ہے -
اسی طرح احادیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم اور دوسرے انبیاء کے لیے صلوه و سلام کی راویات آتی ہیں -فتح الباری میں اور الشفا فی تعریف حقوق مصطفی از قاضی عیاض میں ہے :
اللہ کے نبیوں اور رسولوں پر صلوه (درود ) بھیجو ، اللہ نے ان کو بھی معبوث فرمایا ، ایسے ہی جیسا کہ مجھے "
اسی سبب فتح الباری میں امام ابن ہجر نے سیدنا عبد اللہ بن عباس کا یہ قول درج کیا ہے کہ صلاہ صرف نبی کریم کے لیے خاص ہے جب کہ دوسرے مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کی جائے گی -
عمر بن عبد العزیز نے جب سنا کہ بعض واعظین نے خوشامد کے واسطے امرائے حکومت کے لیے صلاہ کا استعمال کیا ہے تو آپ نے ایک تحریری حکم جاری کیا کہ یہ صرف انبیاء کا حق ہے ، دوسرے مسلمانوں اکے لیے صرف دعا کی جائے گی -
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں نے کبھی بھی سیدنا ابوبکر اور عمر و عثمان کے لیے یہ صلاہ و سلام استعمال نہیں کیا -بلکہ عشرہ مبشرہ و دیگر صحابہ بارے بھی یہ مروج نہیں رہا - صرف ایک گروہ نے سیدنا علی اور ان کی فاطمی اولاد کے لیے اس کو رواج دیا - ان کے اس عمل کے پیچھے محض عقیدت اور محبت نہیں تھی بلکہ ان کا عقیدہ تھا -
اور یہ عقیدہ "امامت " کا عقیدہ تھا - جس میں یہ آئمہ کرام انہی صفات سے متصف تھے کہ جو انبیاء کی ہوتی ہیں - اگر یہ کہا جائے کہ بسا اوقات منصب امامت انبیاء کے مقام اور اختیارات سے بھی بڑھ رہا ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا -جیسا کہ ملا باقر مجلسی اپنی کتاب جلا العیون میں لکھتے ہیں :
"انبیاء پر جب آفتیں آئیں تو انھوں نے رب علی کو پکارا، مصائب میں حضرت علی علیہ السلام کو پکارنا سنت انبیاء ہے" -
امامت کے بارے میں ان کی کتب میں بہت واضح اقوال درج ہیں ، کچھ ملاحظہ کیجئے :
آئمہ انبیاءعلیہ السلام سے زیادہ علم رکھتے ہیں (بحارالانوار)
مرتبہ امامت مثل مرتبہ نبوت کے ہیں۔ (حیات القلوب)
بحار الانوار میں تو کھل کے لکھا گیا :
قال رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم): ما تكاملت النبوة لنبي في الأظلة حتى عرضت عليه ولايتي وولاية أهل بيتي ومثلوا له فأقروا بطاعتهم وولايتهم.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عالم ارواح میں کسی نبی کو اس وقت تک نبوت نہیں ملی جب تک اس کے سامنے میری اور میرے اہل بیت کی ولایت پیش نہیں کی گئی اور یہ ائمہ ان کے سامنے پیش نہیں کئے گئے پس انہوں نے ان کی ولایت و اطاعت کا اقرار کیا تب ان کو نبوت ملی۔ ( بحار الانوار ص 281 جلد 26)۔
اس کے بعد اہل السنہ کے علاوہ دوسرے گروہ جب کسی غیر نبی کو "علیہ السلام " کہتے ہیں تو ان کے کہنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بھی ان کو بطور امتی ، بزرگ ، کے احتراما ایسا نہیں کہہ رہے ہوتے ، بلکہ وہ ان کو مامور من اللہ ، انبیاء سے افضل یا کم از کم برابر جان کے ایسا کہتے ہیں - سو ان کے اس عمل کی سمجھ آتی ہے اور اپنے "عقیدے کی بنا پر " وہ اس میں "حق بجانب " ہیں -
اب سوال تو ان اہل السنہ سے ہے کہ وہ اپنے اس عمل کا کیا جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ تو نوع انسانی میں صرف انبیاء کو مامور من اللہ سمجھتے ہیں ، انبیاء کے علاوہ کسی کو غیر معصوم نہیں سمجھتے ، انبیاء کے مقام سے بلند تو کیا برابر بھی کسی کو نہیں سمجھتے -
بعض افراد کا یہ کہنا کہ لغوی طور پر ایسا کہنے میں کچھ غلط نہیں ہے تو یہ موقف اس وجہ سے کمزور ہے کہ امت کا صدیوں کا تعامل اور اس کو بطور ایک اصطلاح کے استعمال کرنا ایسا غیر اہم نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے -
اللہ تعالی کے ساتھ عز و جل کا استعمال لغوی طور نہیں اصطلاحا کیا جاتا ہے - ورنہ لغوی طور تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے - کیونکہ آپ " عزیز " بھی ہیں اور " جلیل " بھی - لیکن چونکہ اب یہ محض الفاظ اور صفات نہیں بلکہ ایک اصطلاح بن چکی جو اللہ کے لیے خاص ہے سو یہی معامله صلاه و سلام کا ہے - کہ امت کا صدیوں سے معمول ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی کریم کے لیے ، " علیہ السلام " انبیاء کرام کے لیے ، رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے لیے اور رحمہ اللہ عام مسمانوں کے لیے ، بزرگوں کے لیے - سو اب یہ اصطلاحات ہیں نہ کہ محض لغوی مفھوم کے حامل بعض الفاظ کا مجموعہ -
بعض لوگ صحیح بخاری اور دیگر معتبر کتب میں اس استعمال کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں - تو صراحت ہے کہ یہ بات ثابت نہیں کی جا سکتی کہ ایسا مصنف نے خود کیا یا کسی کاتب کی اپنی ذاتی محبت کا نتیجہ ہے -
اہل السنہ میں ایک گروہ ہے جو ان الفاظ کا استعمال جایز سمجھتا ہے اور اس کے حق میں ان کے پاس بھی عمدہ اور مضبوط دلائل موجود ہیں کہ جن سے بظاہر صرف نظر نہیں کیا جا سکتا - بحث کو ترک کر کے اگر ان کی بات مان بھی لی جائے تو ان کا یہ عمل ایک خاص نقطۂ نظر کے تتبع میں کچھ مخصوص افراد کو ہی کیوں اس لفظ سے " عزت " دیتا ہے اور دعا -
کیا آپ نے کبھی کسی سے "امام ابوبکر علیہ السلام " سنا ؟
یا "سیدنا عمر علیه السلام " سنا ہو ؟
آپ ان دوستوں سے بھی کوئی ایسی نظیر پیش نہ کر سکیں گے - سبب اس کا یہی ہے کہ یہ دوست اس کو ایک گرروہ کی طرف سے دیے گئے رواج کے سبب استعمال کرتے ہیں نہ کہ ان دلائل کی بنا پر کہ جو اس کے جواز کے لیے پیش کیے جاتے ہیں - ان کے اس عمل کی توضیح صرف یہی کی جا سکتی ہے کہ جواز کے قائلین نے پہلے ایک عمل اختیار کیا اور پھر دلائل تلاش کیے گئے - دلائل یقینا موجود تھے لیکن
مرنے کے بعد بھی میری آنکھیں کھلی رہیں
عادت جو پڑ گئی تھی تیرے انتظار کی
سو عادت کا حصہ کبھی نہ بن سکا کہ دوسرے صحابہ کے ساتھ "علیہ السلام " کہا جائے -
ہمارے اس مضمون کا بنیادی نکتہ بھی یہی ہے کہ اس میں عرف کا اور صدیوں سے چلی آ رہی اصطلاح کا لحاظ کرنا ہی ہو گا ، جو اس کو انبیاء کے لیے خاص کرتی ہے -
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
nice sharing amazing one keep sharing thanks
 
Top