• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا فرض، واجب وغیرہ اصطلاحات "بدعت" ہیں ؟؟

Rashid Yaqoob Salafi

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 12، 2011
پیغامات
140
ری ایکشن اسکور
509
پوائنٹ
114
السلام و علیکم و رحمۃاللہ !
گذشتہ دنوں ایک 'مقلد' دوست سے تقلید کے موضوع پر بات ہو رہی تھی. اس کا کہنا تھا کہ اہلحدیث کی نماز 'غیر مستند' ہے. اور اس سلسلے میں اس نے مجھ سے تین سوال پوچھے
١. کیا تکبیر کہنا فرض ہے ؟
2. کیا امام ہمیشہ بلند آواز میں تکبیر کہے گا ؟
٣. کیا مقتدی ہمیشہ آہستہ آواز میں تکبیر کہے گا ؟
ان سوالات کے جواب میں میں نے اسے کہا کہ
تکبیر کہنا فرض ہے، امام تکبیر بلند آواز میں ہی کہے گا الا یہ کہ وہ ایسا نہ کر سکتا ہو.نیز مقتدی تکبیر سراً کہے گا . ان کے دلائل میں میں نے ١. مسیئ الصلوۃ والی حدیث پیش کی، جس میں نبی علیہ السلام نے صحابی کو حکم دیا کہ جب تو نماز شروع کرے تو تکبیر کہہ. 2. دوسری وہ حدیث جس میں ہے کہ نبی علیہ السلام جب نماز شروع فرماتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے. ٣ . تیسرے سوال کے جواب میں صحیح بخاری کی وہ حدیث جس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مکبر بننے کا ذکر ہے، وہ پیش کی. میرا موقف یہ تھا کہ مکبر اسی لیے بنایا جاتا ہے تا کہ اس کی آواز سن کر باقی نمازی اپنی نماز صحیح ادا کر سکیں. اگر سب مقتدی ہی بلند آواز سے تکبیر کہتے تو مکبر بننانے کی کیا ضرورت تھی.
خیر، بات کافی لمبی ہو گئی، وہ دوست میرے جوابات سے مطمئن نہیں تھے، دراصل ان کی سوچ یہ تھی کہ نماز احادیث میں مکمل طور پر بیان نہیں ہوئی، اور آئمہ نے اپنی فقہ کے ذریعے اس کو مکمل کیا. بات آگے بڑھی تو انہوں نے کہا کہ "کس حدیث میں لکھا ہے کہ "تکبیر" کہنا فرض ہے وغیرہ. ان کے سوال کہ جواب میں میں نے کہا کہ جب نبی علیہ السلام کسی بات کا حکم دیں تو وہ فرض ہوتی ہے، اس پر انہوں نے کہا کہ یہ بات کسی حدیث سے ثابت کریں. آخر بات یہاں پہنچی کہ یہ اصطلاحات بھی تو فقہا کی "ایجادکردہ" ہیں. اور جب آپ ان کو مانتے ہیں تو یہ بھی تو ان کی تقلید ہے.

ابھی بات جاری ہے.
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
ابھی بات جاری ہے.
بات مکمل کیجئے تاکہ فرقہ اہل حدیث کے علماء جواب میں بتاسکیں فرض واجب سنت مستحب وغیرہ کسے کہتے ہیں اور کس دلیل سے ، بغیر تاویل !!!
شکریہ
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
اس بات کا انتظار کہ مقلدین یہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث دعویٰ کرتے ہیں کہ فرض واجب سنت مستحب مکروہ مباح بعد کی اصطلاحات ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دلیل دے دیں ۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
اس بات کا انتظار کہ مقلدین یہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث دعویٰ کرتے ہیں کہ فرض واجب سنت مستحب مکروہ مباح بعد کی اصطلاحات ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دلیل دے دیں ۔
جناب آفریدی صاحب! عام طور پر تھریڈ کہیں کا کہیں جا نکلتا ہے اس لیے اپنی معلومات میں اضافے کیلیے ایک سوال عرض ہے، فرصت کے اوقات میں جواب دے کر شکریہ کو موقع عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ

"فرض واجب سنت مستحب مکروہ مباح کی اصطلاحات" کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں رائج ہونے کی اگر کوئی دلیل ہو تو بتادیں؟
یا اگر لفظ بلفظ یہ اصطلاحات استعمال نہیں ہوتی تھیں تو ان کے مآخذ پر روشنی ڈال دیں؟

نوٹ: یہ سوال میں نے خالصتا اپنی معلومات میں اضافے کیلیے پوچھا ہے لہٰذا کوئی بھی دوست، جسے معلوم ہو، جواب دے سکتا ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اس بات کا انتظار کہ مقلدین یہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث دعویٰ کرتے ہیں کہ فرض واجب سنت مستحب مکروہ مباح بعد کی اصطلاحات ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دلیل دے دیں ۔
اہل حدیث پراعتراضات اورانكے جوابات
اعتراض نمبر1:"اہل حديث كے نزديک شرعى دليليں صرف دوہيں:
[1] قرآن كريم.[2] حديث مصطفى، تيسرى كوئى دليل نہيں ہے"
جواب: نبى كريم ﷺﷺ كاارشادہے:"الله ميرى امت كوكبھى گمراہى پرجمع نہيں كرے گا"[جامع الترمذي حديث نمبر:2093،المستدرك على الصحيحين375،المعجم الكبير للطبراني13458،حديث أبي نصر بن الشاه11،السنة لابن أبي عاصم 68،شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي135،370،حلية الأولياء لأبي نعيم3190، وسنده صحيح]
اس حديث سے اجماع امت كا ہونا ثابت ہے[ديكهئے ماہنامہ الحديث ص 14جون204].
حافظ عبدالله محدث غازيپورى فرماتے ہيں:
"اس سے كوئى يہ نہ سمجہے كہ اہل حديث كواجماع امت وقياس شرعى سے انكارہے كيونكہ جب يہ دونوں كتاب وسنت سے ثابت ہيں توكتاب وسنت كے ماننے ميں انكا ماننا آگيا"[ابراء اہل حديث والقرآن ص نمبر22].
معلوم ہواكہ اجماع امت اگرثابت ہوتواہل حديث كے نزديک اجماع شرعى حجت ہے.
اعتراض نمبر2:اہل حديث كے نزديک ہرشخص كواختيارہے كہ وه قرآن وحديث كوفہم سلف صالحين كے بجائے اپنے ذاتى فہم كے ساتہ سمجہنے كى كوشش كرے.
جواب: يہ اعتراض بلكل غلط ہے بلكہ اسكے برعكس ہے جيسے حافظ عبد اللہ روپڑى فرماتے ہيں:خلاصہ يہ كہ ہم توايک ہى بات جانتے ہيں وه يہ كہ سلف كے خلاف جائز نہيں"[فتاوى اہل حديث ج1ص نمبر111].
اس سے معلوم ہواكہه اہل حديث كے نزديک قرآن وحديث كوسلف صالحين كے فہم سے سمجہنا چاہئےاورسلف صالحين كے فہم كے مقابلے ميں ذاتى وانفرادى فہم كوديوارپرمارناچاہئے.
اعتراض نمبر3:اہل حديث كے نزديک صرف صحيح بخارى وصحيح مسلم ہى حجت ہے وه احاديث كى دوسرى كتابوں كوحجت نہيں مانتے.
جواب:يه اعتراض بہى باطل ہے كيونكہ اہل حديث كے نزديک احاديث صحيحہ حجت ہے چاہئے باقى كتب احاديث ميں ہی ہواسكے لئے اہل حديث علماء كى كتب وغيره كا مطالع كركے معلوم وجائے گا.
اعتراض نمبر4:اہل حديث تقليد نہيں كرتے.
جواب: آپكا كہنا بلكل صحيح ہے اہل حديث كسى كى تقليد نہيں كرتے ، كيونكہ تقليد كا جواز يا وجوب كا كوئى ثبوت قرآن، حديث اوراجماع ميں نہيں ہےاورنہ آثار سلف سے تقليد ثابت ہے بلكہ صحابہ كرام وغيره سلف صالحين سے تقليدكارد ثابت ہے:
1 ــ صحابى رسول حضرت معاذ بن جبل كا ارشاد ہے:"رہاعالم كى غلطى كا مسئلہ تواگروه ہدايت پربہى ہوتواپنے دين ميں اسكى تقليد نہ كرو"[المعجم الأوسط للطبراني حديث نمبر:8944،
فوائد تمام الرازي1471،شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي،159،تاريخ بغداد للخطيب البغدادي400،إعلام الموقعين ص 134 كتاب الزهد للإمام وكيع ج1ص 300وسنده حسن].
ظاہرسى بات ہے كہ كتاب وسنت پر عمل اور بدعت سے بچنے ميں ہى دونوں جہان كى كاميابى ہے.
2 ــ محمد بن سيرين نے کہا:
"ميں نے عبدالله بن عمر سے يہ فرما تے ہوئے سنا كہ لوگ ہمیشہ صحيح راستے پررہیں گے جب تک وه حديث كى پیروی كرتے رہيں گے"[المدخل ، السنن الكبرى للبيهقى ص197 ، رواه اللالكائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة].
3 ــ اہل سنت كے جليل القدر امام شافعى نے اپنى اور دوسروں كى تقليد سے منع فرمايا ہے.[كتاب الأم ، مختصر المزني ، ص 1 ،الرد على من أخلد إلى الأرض ، ص 142].
4 ــ حافظ ابن القيم فرماتے ہيں: "كہ يہ تقليد كى بدعت چوتہى صدى ہجرى ميں پيداہوئى ہے[اعلام الموقعين ج دوم ص نمبر208].
اب تقليدعلماء(احناف) ديوبندكى عدالت ميں:
1 ــ شاه ولى الله محدث دہلوى فرماتے ہیں:
"تقليدحرام ہے اوركسى كے لئے حلال نہیں كہ سوائے رسول الله صلى الله عليه وسلم كے كسى كے قول كوبلادليل اخذكرے"[عقدالجيد ص 39مطبوعہ صديقى لاہور].
2 ــ علامہ زمخشرى معتزلى حنفى فرماتے ہیں:
"اگرگمراہی کی کوئى ماں ہوتى توتقليد اس كى ماں ہے ،يقينا جاہل ہی تقليد كرتاہے".[اطواق الذهب ص،47،مطبوعہ مصر].
3 ــ امام محمد بن شيباني رحمة الله عليه بہي امام ابوحنيفہ كے خاص شاگردوں ميں سے ايک ہيں وه فرماتے ہيں:
لوجازالتقليد كان من مضى من قبل أبي حنيفة مثل الحسن البصري،وإبراهيم النخعي رحمهما الله أحرى أن يقلدوا.[ مبسوط سرخسي ص:12،28].
ترجمہ:اگر تقليد جائز ہوتي تو وه لوگ جو ابوحنيفہ سے پہلے گذرے وه تقليد كے زياده حقدار تہے ، مثلا: حسن بصري، ابراہيم نخعي وغيرهم( نخعي امام ابوحنيفہ كے استاذ تہے).
4 ــ ملا علي قاري حنفي جنہوں نے مشكوة كي شرح بہي لكہي ہے فرماتے ہيں:
"يه معلوم شده بات ہے كه الله تعالى نے كسي آدمي كو اس بات كا مكلف نهيں بنايا كه وه حنفي ، شافعي، مالكي ہو بلكہ ان كو تو اس بات كا مكلف بنايا ہے كہ وه كتاب وسنت پرعمل كرے اگرمعلوم نہ ہوتوكسي عالم سے پوچہ ليں".[معيارالحق ص 97].
5 ــ علامه ابن الهمام حنفي علماء ميں خاص مقام ركہتے ہيں آپ نے فتح القدير كے نام فقہ حنفي كي معتبركتاب ہدايہ كي شرح لكہي ہے آپ فرماتے ہيں:
"كسي بیي خاص مجتید كي تقليد پر كوئي شرعي دليل نہيں ہے.[ حقيقة الفقه:ص62].
6 ــ علاہ ابن الحاج حنفي فرماتے ہيں:
"الله تعالى اوراسكے رسول صلى الله عليه وسلم نے كسي بهي آدمي پركسي ايک مذهب كي تقليدواجب نهيں كي كه وه ايک معين امام كي تقليد كرے اورباقي كے اقوال كو ترک كردے.[طريق محمدي ص92].
7 ــ علامه عابد سندہي حنفي فرماتے ہيں:
" كسي بهي مجتهد مفتي كي تقليدپركوئي دليل نهيں هے نه شرعي لحاظ سے نه عقل كے لحاظ سے".[طريق محمدي ص93].
امام طحاوي حنفي رحمة الله عليه فرماتے هيں:
أوكلّ ماقال به أبوحنيفة رحمه الله أقول به وهل يقلد إلا عصبي أوغبيّ.[لسان الميزان 1/ص221].
"كيا جوكچہ ابوحنيفہ رحمه الله نے كہا ميں بہي وہي كہوں گا؟ نہيں نہيں ہرگزنہيں كيوںکہ تقليد تو متعصب اور كندذہن (نيم بے وقوف) كرتاہے.
8 ــ قاضي ثناء الله پاني پتي ديوبندى حنفي تقليد كا رد ان الفاظ ميں كرتے ہيں:
جوشخص يه خيال كرے كه رسول الله عليه وسلم كے علاوه فلاں امام كي تمام باتيں درست اور واجب الاتباع هيں وه گمراه اورجاهل هے. [بحواله: طريق محمدي 1/159].
9 ــ حافظ الأصول والفقه أخوندحبيب الله قندہاري حنفي نے بہي حنفي ہونے كے باوجود تقليد كي ترديد كي ہے چنانچہ مغتنم الحصول ميں فرماتے ہيں:
ترجمه:يعني تقليد كے واجب نه هونے پراجماع هے.
نوٹ: آج كل آل ديوبند بہائى حضرات كہتے رہتے ہیں کہ تقليد پراجماع ہے ليكن آل ديوبند كى يہ محترم شخصيت تواجماع كاانكاركرہى ہے اب كون صحيح ہے فيصلہ آپ حضرات خودكريں)
10 ــ مولانا أشرف علي تہانوي حنفي بہي حق لكہنے پر مجبورہوكرلكہتے ہيں:
كسي حديث كي تاويل كركے رد كرنا اورامام صاحب كے قول كو ترک نه كرنا ايسي تقليد حرام اورمصداق قوله تعالى:{ اتخذوا أحبارهم ورهبانا أربابا من دون الله...} الأية اور خلاف وصيت أئمہ مرحومين كے ہيں.[بحوالہ طريق محمدي ص 160]. اعتراض نمبر5:وحيدالزماں نے يی لكیا یے اورنواب صديق حسن خان ،بٹالوى نے وه لكہا یے نورالحسن وغيره وغيره.
جواب: وحيد الزماں صاحب ہويا كوئى اوران ميں سے كوئى بہى اہل حديث كے اكابرين ميں سے نہيں ہے اگرہوتے بہی تواہل حديث اكابرپرست نہيں ہیں.
وحيد الزماں تومتروک تہے [ماہنامہ الحديث حضرو33ص36 ــ40].
ماسٹرامين اوكاڑوى ديوبندى حنفى نے يہ تسليم كياہے كہ اہل علماء اور عوام بالاتفاق وحيد الزماں وغيره كى كتابوں كوغلط قرارديكرمستردكرچکے ہیں.[تحقيق مسئلہ تقليد ص 6].
نواب صديق حسن خان تقليدنہ كرنے والے حنفى تہے.[مآثرصديقى حصہ چہارم ص1،حديث اوراہل حديث ص 84].
نورالحسن مجہول الحال ہے اسكى طرف منسوب كتابيں اہل حديث كے نزديک غيرمعتبرہيں بلكہ يہ تمام كتابيں غيرمفتى بہا اورغيرمعمول بہا مسائل پر مشتمل ہونے كى وجه سے مردودہيں.[اہل حديث ايک صفاتى نام ص 46].
محمد حسين بٹالوى صاحب ايک اہل حديث عالم تہے ليكن اكابرين ميں سے نہيں تہے بلكہ ايک عام عالم تہے جنہوں نے سب سے پہلے مرزاءغلام احمد قاديانى پر كفر كافتوى لگايا،انكى كتاب"الاقتصاد"مردودكتابوں ميں سے ہےـ بٹالوى صاحب سے صديوں پہلے روئے زمين پراہل حديث موجودتہے.[ماہنامہ الحديث29ص13 ــ 33].
خلاصه يہ كہ ان علماء يا ديگر اصاغر كے حوالے اہل حديث كے خلاف پيش كرنا ظلم عظيم ہے اگركچہ پیش كرنا ہے تو اہل حديث كے خلاف قرآن مجيد، احاديث صحيحہ اجماع اورسلف صالحين مثلا صحابہ ثقه تابعين وثقه تبع تابعين وكبار محدثين كے حوالے پيش كريں، يہاٖں یہ بات يادرہے كہ اهل حديث كے نزديک قرآن وحديث اوراجماع كے صريح مخالف ہركسى كا قول مردود ہے چاہئے وه كتنا ہى عظيم المرتبہ كيوں نہ ہو.
اعتراض نمبر6: مفتى عبدالہادى ديوبندى نے لكہا ہے كہ يہ ايک تاريخى حقيقت ہے كہ غيرمقلدين(خودكواہل حديث كہتے ہيں)كا وجودانگريزكے دورسے پہلے نہ تہا.[نفس كے پجاری ص نمبر1].
جواب:دوقسم كے لوگوں كواہل حديث كہتے ہيں:
[1]صحيح العقيده ثقہ وصدوق محدثين كرام جو تقليد كے قائل نہ ہیں.
[2] محدثين كرام كے عوام جو صحيح العقيده ہيں اوربغير تقليد كے كتاب وسنت پرعمل كرتے ہيں ، يه دونوں گروہ خيرالقرون سے ليكر آج تک ہردورمیں موجودر ہیں.
دليل نمبر1:صحابه كرام سے تقليد شخصى وتقليد غير شخصى كاكوئى صريح ثبوت نہيں ہے بلكہ حضرت معاذ بن جبل رضى الله عنہ كا ارشاد ہے: :"رہا عالم كى غلطى كا مسئلہ تواگروه ہدايت پربہى ہوتواپنے دين ميں اسكى تقليد نہ كرو"[المعجم الأوسط للطبراني حديث نمبر:8944، فوائد تمام الرازي1471،شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي،159،تاريخ بغداد للخطيب البغدادي400،إعلام الموقعين ص 134 كتاب الزهد للإمام وكيع ج1ص 300وسنده حسن].
دليل نمبر2:حضرت ابن مسعود رضى الله عنه نے فرمايا:"اتباع كرواوربدعتيں مت نكالواورتم ميں سے كوئى اپنے دين ميں كسى عالم كى تقليد نہ كرے.[المعجم الكبير8770، شعب الإيمان 2216 طبرانى كبر،رجاله رجال الصحيح].
صحابه كرام ميں سے كوئى بہى انكا مخالف نہيں ہے لہذامعلوم ہواكہ صحابہ كرام كا اس پراجماع ہے كہ تقليد ممنوع ہے اوريہ بہى معلوم ہواكہ تمام صحابه اہل حديث تہےـ يہاں اس بات كويادركہيں کہ اس اجماع كے مخالفين ومنكرين جودلائل كرتے ہيں ان ميں لفظ تقليد موجودنہيں ہے.
دليل نمبر3:جليل القدرتابعى امام شعبى فرمايا:"يہ لوگ تجہے جورسول الله ﷺ كى حديث بتائيں اسے(مضبوطى) سے پکڑواورجوبات اپنی رائے سے (كتاب وسنت كےخلاف) كہيں اسے كوڑے کرکٹ(کے ڈہیرپر پہینک دے.[مسنددارمى1/67،ح 206وسنده صحيح، دين ميں تقليد كا مسئلہ ص37].
دليل نمبر4:ابراہيم نخعى کے سامنے كسى نے سعيد بن جبير كا قول پیش كياتوانہوں نے فرمايا:رسول الله ﷺ كى حديث كے مقابلے ميں تم سعيد كے قول كوكياكروگے؟. [الاحكام لابن حزم6/293،وسنده صحيح، دين ميں تقليد كا مسئلہ ص38].
تابعين ميں سے كسى ايک سے بہى تقليد كاجوازيا وجوب ثابت نہيں ہے اورديگراقوال سے بہى صاف ظاہرہوتاہے كہ تقليد كے ممنوع ہونے پرتابعين كابہى اجماع ہے اوريہ اس بات كى واضح دليل ہے كہ تمام ثقہ وصحيح العقيده اہل حديث تہے.
دليل نمبر5:تبع تابعى حكم بن عتيبہ فرماتے ہيں:آپ ميں سے ہركسى كى بات لے بہى سكتے ہيں اورردبہى كرسكتے ہيں سوائے نبى عليه السلام كے.[حوالہ سابق، وسنده صحيح].
تبع تابعين ميں سے كسى بہى ثقہ تبع تابعى سے تقليد شخصى وتقليد غيرشخصى كاكوئى ثبوت نہيں ہے لہذا اس پربہى اجماع ہے كہ تمام ثقہ وصحيح العقيد تبع تابعين اہل حديث تہے.
اتباع تبع تابعين ميں سے ايک جماعت نے تقليد سے منع كياہے:
مثلا امام ابوعبد الله محمد بن ادريس الشافعى نے اپنی اوردوسروں كى تقليد سے منع كياہے:
دليل نمبر6:امام شافعى نےفرمايا:اورميرى تقليدنہ كرو.[آداب الشافعى ومناقبه لابن ابى حاتم ص نمبر51، وسنده حسن، ومختصرالمزنى ص نمبر1].
دليل نمبر7:امام احمد نے فرمايا:اپنے دين ان ميں سے كسى ايک كى بہى تقليد نہ كرو.[ابو داود في مسائل الإمام أحمد ص 276].
دليل نمبر8:حديث صحيح ميں ہے کہ طائفہ منصوره(اہل حق كاسچا گروه) ہميشہ حق پرغالب رہے گا اس حديث كى تشريح كرتے ہوئے امام بخارى فرماتے ہيں:يعنى اس سے مراداہل حديث ہيں.[مسألة الاحتجاج بالشافعى للحطيب البغدادى،ص 47،وسنده صحيح].
آج كل اكثر آل ديوبند حضرات كہتے ہيں کہ اہل حديث سے مراد محدثين ہيں حالانكہ لفظ اہل حديث عام ہے يعنى ہروه شخص اہل حديث ہے جواپنی نسبت قرآن وحديث كى طرف كرے ،قرآن وحديث پرعمل كرے اہل حديث اصطلاح ، محدث اوراہل حديث دونوں كوبولاجاتا ہے بالفاظ ديگرہرمحدث اہل حديث ہے مگرہراہل حديث محدث نہيں ہوتا كيونكہ اہل حديث ميں محدثين اورعوام دونوں ہى شامل ہیں البتہ محدثين كى اصطلاح خاص ہے اسے صرف محدثين ہى مرادہيں.
دوسرى بات جو حديث ميں طائفہ منصوره كا ذكرہواہے اسے اہل حديث ہى مرادہيں كيونكہ اس ميں صرف ايک گروه كوطائفہ منصوره كہاگياہے اب اگرطائفہ منصوره حنفى كولياجائے تومدمقابل ميں شافعى ياباقى گروه بہى ہيں اوراسى طرح اس ميں يہ بہى اشاره موجودہے كہ اس جماعت كوكوئى نقصان پہنچانے والا انكونقصان نہيں پہنچا سکتا ہے اوراسى طرح اس جماعت كا وجود عهد صحابه سے ليكرآج تک ہے باقى جتنے بہى فرقے جماعتيں وجودميں آئيں يہ سب چوتہى ہجرى كے بعد ہى وجود ميں آئيں اورجتنے بہى فرقے اس وقت موجودہيں ہركوئى فرقہ كسى نہ كسى امام كى طرف نسبت كرتا ہے مگراہل حديث عهد صحابه سے ليكرآج تک صرف اپنى نسبت محمد ﷺ كى طرف كرتى آئى ہے اسكے علاوه جس بہى محدث، مجتهد،مفتى كا كوئى فتوى،رأئے قرآن وحديث ، اجماع صحابه سے ملتى ہوتواهل حديث قبول كرتے ہیں ورنہ ردكرديتے ہيں اوريہى طریقہ سلف صالحين كاتہا وه صرف كسى ايک اپنے معين امام كے ہى قول كوصحيح نہيں مانتے تہے بلكہ جس کسی امام ، مجتهد وغيره كا قول اقرب إلى الصواب ہوتا توقبول كرتے ورنہ جہاں صريح نص كے خلاف معلوم ہوجائے توردكرديتے تہے.
دليل نمبر9:حافظ ابن قيم ميں اپنے مشهور قصيدے(نونيہ) ميں لكہا ہے:! اے اہل حديث سے بغض ركہنے والے اورگالياں دينے والے!تجہے شيطان سے دوستى قائم كرنے كى بشارت ہو.[الكافية الشافية ص نمبر199].
اسى دليل كومد نظرركہرآج كل ہركوئى مشاہده كرسكتا ہے كہ كس طرح سے آل ديوبند اہل حديث كے خلاف مختلف پروپگنڈے، گالياں ، برے القاب، گندے گندے القاب، كفركے فتوے، قتل كى دہمکیاں،پتہراؤ وغيره ، اسى طرح ان احاديث كى توہين جنكو آل ديوبند (احناف)كے امام نے تسليم نہيں كيا ہے(مثلانمازميں رفع اليدين كرنا ملكہ وكٹوريہ كى سنت ہے وغيره العياذبالله) يہ تمام ہتگنڈے غيرمسلموں، باطل فرقوں نے ہردورميں اہل حق كے خلاف استعمال كئے ہيں ، حالاںکہ كوئى بہى عقل مند انسان سوچ سكتا یے كہ ايسى حركتيں توہميشہ اہل حق كے خلاف كى گئيں اب جو جماعت اپنے آپكو اہل سنت بہى كہے اورپہراس طرح كا رويہ اختياركرے يہ كونسى حق جماعت ہونے كى صفت ہے ہرنبى ، اسى طرح سے نبى ﷺ كے خلاف بہى يہى حربے استعمال كئے گئےاور انكا دعوى بہى يہى تہا كہ ہم دين ابرابراهيمى پرہيں توكيا انكے اس دعوے كوقبول كيا گيا؟
دليل نمبر10:حاجى امدادالله مكى ديوبندي كے خليفہ حجازمحمدانوارالله فاروقى "فضيلت جنگ" ميں لكہتے ہيں:"حالانكہ اہل حديث توكل صحابہ تہے"[حواله:حقيقة الفقہ حصہ دوم ص 228، مطبوعہ ادارة القرآن والعلوم الاسلاميه كراچى].
يہ شہادت تومشہورديوبندى عالم كى ہے کہ كل صحابہ اہل حديث تہے تواگر اہل حديث سے مراد صرف محدثين ہيں توكيا تمام صحابہ محدثين تہے؟
اب اہل حديث علماء ديوبند كى عدالت ميں
1 ــ مولانا رشيد احمد لدہيانوي حنفى ديوبندي فرماتے ہيں:"تقريبا دوسري صدي ہجري ميں اہل حق ميں فروعى اورجزئى مسائل كے حل كرنے ميں اختلاف انظاركے پيش نظرپانچ مكتب فكرقائم ہوگئے يعنى مذاہب اربعہ اوراہل حديث اس زمانے سے ليكرآج تک انہى پانچ طريقوں ميں حق كو منحصرسمجہاجاتارہاہے"[حواله ديكهئے:[احسن الفتاوى ج1ص/316، مودوى صاحب اورتخريب اسلام ص20].
مولانا رشيد صاحب نے ديوبندي حنفى ہونے كے باوجود اہل حديث كا قديم ہونا يعنى ہندوستان ميں انگريزى قبضے سے پہلے ہونا ثابت كرديا اورساتہ ميں اہل حديث كو اہل حق ميں شماركياہے.
2 ــ عبدالحق حقانى دہلوى نے فرماياہے:"اوراہل سنت شافعى حنبلى مالكى حنفى ہيں اوراہل حدیث ان ہى ميں داخل ہيں.[حقانى عقائدالاسلام ص 3].
3 ــ مفتى كفايت الله حنفى ديوبندى ايک سؤال كے جواب ميں فرماتے ہيں:ہاں اہل حديث مسلمان ہيں اوراہل سنت ميں داخل ہيں ان سے شادى بياه كا معاملہ كرنا درست ہے محض ترک تقليد سے اسلام ميں کوئى فرق نہيں پڑتا اورنہ اہل سنت والجماعت سے تارک تقليد سے باہرہوتاہے"[كفايت المفتى1/325،جواب نمبر370].
دورحاضرميں توآل ديوبند كہتے ہيں کہ تقليد جونہ كرے وه گمراہ ہے مگرمفتى كفايت ديوبندى نے توكہا كہ ترک تقليد سے كوئى اہل سنت سے باہرنہيں ہوتا اورنہ ترک تقليد سے كوئى فرق پڑتاہے.
مشهورديوبندى عالم اشرف على تہانوى فرماتے ہيں:
"مگرتقليد شخصى پر كبهى كوئى اجماع نہيں ہواہے.[تذكرة الرشيد1/131].
4 ــ تقليد شخصى كے بارے ميں محمد تقى عثمانى فرماتے ہيں:
"يہ كوئى شرعى حكم نهيں تهابلكه ايک انتظامى فتوى تها".[تقليدكى شرعى حيثيت ص 65].
اب آخرى قول علامہ ابن تيميہ رحمه الله كا كيا فرماتے ہيں:
"اورابوحنيفہ ، مالک، شافعىاوراحمدكى پيدائش سے پہلے اهل والجماعت ميں سے ايک قديم مذهب هے ، بے شک يہ مذهب صحابہ كاهے".[منهاج السنة 1/256، مطبوعہ بيروت].
باقى اوركبهى ان شاء الله ، الله سے دعاءہے كہ وه ہم سب كوحق كى ہدايت نصيب فرمائے.
كتبہ/حافظ ابوزهيرمحمديوسف بٹ
 
Top