• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قبرستان میں نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

شمولیت
مارچ 11، 2016
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
58
ہمارے قبرستان کے اندر مسجد نما عمارت ہے وہاں پر لوگ جنازہ کی نماز پڑھتے ہے ۔ اگر قبرستان میں نماز کا وقت ہو جاے تو کیا وہاں فرض نماز پڑھ سکتے ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ہمارے قبرستان کے اندر مسجد نما عمارت ہے وہاں پر لوگ جنازہ کی نماز پڑھتے ہے ۔ اگر قبرستان میں نماز کا وقت ہو جاے تو کیا وہاں فرض نماز پڑھ سکتے ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ کا سوال دراصل تین سوالوں کو متضمن ہے
(1) کیا قبرستان میں مسجد بنانا جائز ہے ؟
(2) قبرستان میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
(3) قبر پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے یا منع ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پہلے سوال یعنی کیا قبرستان میں مسجد بنانا جائز ہے ؟
کا جواب یہ ہے کہ :

قبرستان میں مسجد بنانا بالکل جائز نہیں
حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پانچ روز قبل یہ ارشاد فرمایا:
حَدَّثَنِي جُنْدَبٌ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ، وَهُوَ يَقُولُ: « ---- أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ»
"لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلی اُمتوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنالیا تھا۔ خبردار! تم قبروں پر مسجدیں مت بنانا، میں تمہیں اس بات سے منع کرتا ہوں" (مسلم:۵۳۲)

(2) ام المومنین سیدہ اُمّ حبیبہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن عائشة، أن أم حبيبة، وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أولئك، إذا كان فيهم الرجل الصالح، فمات، بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة»
ترجمہ "ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجا کا ذکر کیا، جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں لگی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یقینا ان (عیسائیوں) میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصاویر آویزاں کرتے، یہی لوگ روزِ قیامت اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق شمار ہوں گے۔"
(بخاری :۴۳۳،مسلم:۵۲۸)

(3) جلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے ا للہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کا یہ ارشاد گرامی سنا کہ:
عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ، وَمَنْ يَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ "
"بلا شبہ بدتر ین لوگ وہ ہیں جن کی زندگی میں قیامت قائم ہوگی اور وہ ایسے لوگ ہوں گے جو قبروں کو مسجدیں بنائیں گے" (مسند احمد جلد 6 ص394 ،حدیث 3844 ، ابن حبان:۲۳۱۶، ابویعلی :۵۳۱۶، ابن خزیمہ:۷۸۹)

(4) اور صحیح حدیث ِنبوی ہے کہ :
عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا»
« یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :قبروں پرنہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف نماز پڑھو »
(مسلم ،کتاب الجنائز ،سنن ابوداؤد:۱/۷۱،نسائی:۱/۱۲۴، ترمذی:۱/۱۵۴)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کا فتویٰ

فهذه المساجد المبنية على قبور الأنبياء والصالحين، والملوك وغيرهم- يتعين إزالتها بهدم أو بغيره، هذا مما لا أعلم فيه خلافًا بين العلماء المعروفين،
"انبیا، صلحا اور بادشاہوں وغیرہ کی قبروں پر جومسجدیں بنائی گئیں ہیں انہیں گرانا اور ختم کرنا چاہئے۔ میرے علم کے مطابق معروف اہل علم کا اسمیں کوئی اختلاف نہیں" (اقتضاء الصراط 2/187 )

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا فیصلہ:
حافظ ابن قیمؒ زادالمعاد میں (۳/۲۲) فرماتے ہیں کہ :
" ومنها: تحريق أمكنة المعصية التي يعصى الله ورسوله فيها وهدمها، كما حرق رسول الله صلى الله عليه وسلم مسجد الضرار وأمر بهدمه، وهو مسجد يصلى فيه ويذكر اسم الله فيه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فيهدم المسجد إذا بني على قبر، كما ينبش الميت إذا دفن في المسجد، نص على ذلك الإمام أحمد وغيره، فلا يجتمع في دين الإسلام مسجد وقبر، بل أيهما طرأ على الآخر منع منه، وكان الحكم للسابق، فلو وضعا معا لم يجز، ولا يصح هذا الوقف، ولا يجوز، ولا تصح الصلاة في هذا المسجد ; لنهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك ولعنه من اتخذ القبر مسجدا أو أوقد عليه سراجا،
"ہر ایسی جگہ جہاں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو، اسے 'مسجد ِضرار'کی طرح جلا دینااور ختم کردیناضروری ہے ،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ضرار جلادی تھی اور اسے گرانے کا حکم جاری فرمایا تھا ، حالانکہ بظاہر وہ مسجد تھی جس میں نماز پڑھی جاتی تھی اور اللہ کا ذکر کیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اگر کسی قبر پرمسجد تعمیر کی گئی ہو تو اس مسجد کو منہدم کرنا ضروری ہے جس طرح مسجد میں اگر میت دفنائی جائے تو اس میت کو مسجد سے نکال لیا جاتاہے جیساکہ امام احمدؒ وغیرہ سے منقول ہے لہٰذا دین اسلام میں مسجد اور قبر جمع نہیں ہوسکتیں۔ مسجد یاقبر میں سے جسے بعد میں بنایا جائے گا اسے اُکھاڑنا ضروری ہے اور ایسی کسی مسجد میں نماز پڑھنا درست نہیں،کیونکہ اللہ کے رسول نے اس سے منع کیاہے اور ایسا کرنے والے پر لعنت کی ہے۔"
(زادالمعاد 3 /500 )
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سوال کی دوسری شق " قبر پر نماز پڑھنے کا شرعاً کیا حکم ہے ؟
سعودی عرب کے جید ،مستند علماء و مفتیان کرام کی کمیٹی " اللجنۃ الدائمۃ " سے سوال کیا گیا کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الصلاة على الميت في المقبرة
السؤال الرابع من الفتوى رقم (5133)
سؤال: إذا كنت لم تصل على أحد الموتى، وقد دفن وأنت لا تعرفه، فهل تصلي عليه في المقبرة، وهل هي مثل الصلاة عليه في المسجد، وعند زيارتك لأحد أقاربك من الموتى فما هو الدعاء المشروع له، وما هي كيفيته عند القبر؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب: يجوز للرجل أن يصلي صلاة الجنازة على من دفن حديثا من المسلمين إذا لم يكن صلى عليه قبل ذلك، ولو لم يعرفه؛ لما في الصحيحين عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: «انتهى رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قبر رطب، فصلى عليه وصفوا خلفه وكبر أربعا (1) » وتسن زيارة القبور للأقارب وغيرهم للاتعاظ وتذكر الآخرة، والدعاء للميت، ويقول ما رواه أحمد ومسلم وابن ماجه، عن بريدة رضي الله عنه قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمهم إذا خرجوا إلى المقابر أن يقول قائلهم: السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، نسأل الله لنا ولكم العافية (2) »
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عبد الله بن قعود(رکن ) ... عبد الله بن غديان(رکن ) ... عبد الرزاق عفيفي (نائب رئیس ) ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز (رئیس ،صدر )

__________
(1) أخرجه البخاري 2 / 192 (بنحوه) ، ومسلم 2 / 658 برقم (954) ، وأبو داود 3 / 536-537 برقم (3196) ، والبيهقي 4 / 45.
(2) أخرجه أحمد 5 / 353، 359-360، ومسلم 2 / 671 برقم (975) ، والنسائي 4 / 94 برقم (2040) ، وابن ماجه 1 / 494 برقم (1547) ، وابن حبان 7 / 446 برقم (3173) ، وابن أبي شيبة 3 / 340، وابن السني في عمل اليوم والليلة (ص / 278) برقم (589) ، والبيهقي 4 / 79، والبغوي 5 / 468 برقم (1555)

.
http://shamela.ws/browse.php/book-8381#page-6055
قبرستان میں میت پر نماز جنازہ پڑھنا
سوال :
" اگر کسی نے میت پر نماز جنازہ نہیں پڑها ہے، اور اس کو دفن بهی کر دیا گیا، تو کیا اس کی نماز جنازہ قبرستان میں ادا کر سكتے ہیں؟ اور کیا آپ کا قبرستان میں نماز جنازہ ادا کرنا مسجد میں ادا کرنے کے برابر ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: اگر کسی شخص نے ابهی قریب میں دفن کئے ہوئے شخص پر نماز جنازہ نہ پڑها ہے، تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قبرستان میں اس پر نماز جنازہ پڑھ لے، چاہے وہ اس کو نہ جانتا ہے، اس لئے کہ بخاری اور مسلم میں سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی الله عنهما سے مروی ہے کہ:
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گیلی قبر کے پاس تشریف لائے تو اس پر نماز پڑھ ليا، لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں اور آپ نے چار تکبیریں کہیں۔"
رشتہ دار وغیرہ لوگوں کے قبروں کی زیارت نصیحت، آخرت کی یاد اور میت کے لئے دعا کی غرض سے سنت ہے،
امام احمد، مسلم اور ابن ماجہ نے حضرت بریدہ رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تعلیم دیا کرتے ہيں کہ جب تم قبرستان کی طرف جاؤ تو کہنے والا یوں کہیں: اے مومنوں اور مسلمانوں کی بستی والو اسلام علیکم، اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ سے اپنے اور تمہارے لئے عافیت مانگتے ہیں۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
(فتاوى اللجنة الدائمة - المجموعة الأولى ،جلد 8 ص392)
http://shamela.ws/browse.php/book-8381#page-6055
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سوال کی تیسری شق " قبرستان میں نماز جنازہ کے علاوہ نماز جائز ہے یا ناجائز "؟
اس کا جواب یہ ہے کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
نص الجواب
الحمد لله
أولاً : مسألة الصلاة على القبور ..

الصلاة على القبور على قسمين :

القسم الأول : الصلاة لصاحب القبر ، وهذا شرك أكبر مخرج عن الملة لأن الصلاة عبادة والعبادة لا يجوز صرفها لغير الله قال تعالى : ( واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً ) النساء/36 ، وقال تعالى : ( إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد ضل ضلالاً بعيداً ) النساء/116 .

القسم الثاني : الصلاة لله في المقبرة ، وهذا القسم تحته مسائل :

1- صلاة الجنازة على القبر ، وهذه جائزة .

صورة المسألة : أن يموت شخص ولم تتمكن من الصلاة عليه في المسجد فيجوز لك أن تصلي عليه بعد دفنه .

دليل المسألة هو فعل النبي صلى الله عليه وسلم : فعن أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا أَسْوَدَ أَوْ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَ يَقُمُّ ( أي يُنظِّف ) الْمَسْجِدَ فَمَاتَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ فَقَالُوا مَاتَ قَالَ أَفَلا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي بِهِ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ أَوْ قَالَ قَبْرِهَا فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا " رواه البخاري واللفظ له (458) ومسلم (956) .

2- صلاة الجنازة في المقبرة ، وهذه جائزة .

صورة المسألة : أن يموت شخص ولم تتمكن من الصلاة عليه في المسجد ، وحضرت إلى المقبرة فصليت عليه قبل أن يُدفن .

قال الشيخ عبد العزيز ابن باز رحمه الله : " تجوز الصلاة على الجنازة داخل المقبرة كما تجوز الصلاة عليها بعد الدفن ؛ لما ثبت أن جارية كانت تقم المسجد ، فماتت فسأل النبي صلى الله عليه وسلم عنها فقالوا : ماتت ، فقال : " أفلا كنتم آذنتموني ؟ فدلوني على قبرها " فدلوه فصلى عليها ثم قال : " إن هذه القبور مملوءة ظلمة على أهلها ، وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم " رواه مسلم 956 انتهى من فتاوى اللجنة الدائمة 8/392

3- الصلاة في المقبرة – ما عدا صلاة الجنازة – وهذه الصلاة باطلة ولا تصح ، سواءً كانت فريضة أو نافلة .

الدليل : أولاً : قول النبي صلى الله عليه وسلم : " الأرض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام " رواه الترمذي (317) وابن ماجه (745) وصححه الألباني في صحيح ابن ماجه (606) .

ثانياً : قول النبي صلى الله عليه وسلم : " لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد " رواه البخاري (435) ومسلم (529) .

ثالثاً : (تعليل) وهو أن الصلاة في المقبرة قد تتخذ ذريعة إلى عبادة القبور ، أو إلى التشبه لمن يعبد القبور ، ولهذا لما كان الكفار يسجدون للشمس عند طلوعها وغروبها ، نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة عند طلوعها وغروبها لئلا يُتخذ ذريعة إلى أن تُعبد الشمس من دون الله ، أو إلى أن يتشبه بالكفار .

4- الصلاة إلى المقبرة ، وهذه محرمة - على الصحيح - .

صورة المسألة : أن تصلي وفي قبلتك مقبرة أو قبر ، ولكنك لا تصلي في أرض المقبرة ، بل في أرض أخرى قريبة من المقبرة ، وليس بينك وبين المقبرة سور أو حاجز .

الدليل على التحريم :

1-عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ وَلا تُصَلُّوا إِلَيْهَا " رواه مسلم (972) . فهذا يدل على تحريم الصلاة إلى المقبرة أو إلى القبور أو إلى القبر الواحد .

2-ولأن العلة من منع الصلاة في المقبرة موجودة في الصلاة إلى القبر فما دام الإنسان يتجه إلى القبر أو إلى المقبرة اتجاهاً يُقال إنه يُصلي إليها فإنه يدخل في النهي ، وإذا كان داخلاً في النهي فلا يصح لقوله : " لا تصلوا " فالنهي هنا عن الصلاة ، فإذا صلى إلى القبر فقد اجتمع في فعله هذا طاعة ومعصية ، وهذا لا يمكن أن يتقرب إلى الله تعالى به .

تنبيه : إذا كان بينك وبين المقابر جدار فاصل فلا بأس من الصلاة حينئذٍ ولا نهي ، كذلك إذا كان بينك وبينها شارع أو مسافة لا تصير بها مصلياً إلى المقابر فلا بأس . والله أعلم

انظر المغني (1/403) والشرح الممتع لابن عثيمين (2/232) رحم الله الجميع .

المصدر: الشيخ محمد صالح المنجد

https://islamqa.info/ur/answers/13490/
ترجمہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ:

اول: قبروں پر نماز پڑھنے کا مسئلہ

قبروں پر نماز پڑھنے کا مسئلہ دو قسموں میں منقسم ہے:

پہلی قسم: قبر میں مدفون شخص کیلئے نماز پڑھنا، تو یہ شرک اکبر ہے، جو کہ انسان کو اسلام سے خارج کر دے گا؛ کیونکہ نماز عبادت ہے، اور عبادت غیر اللہ کیلئے نہیں کی جاسکتی، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا
ترجمہ: اللہ کی عبادت کرو، اور اسکے ساتھ کسی کو بھی شریک مت بناؤ [النساء : 36]
ایسے ہی فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی شرک کو کبھی بھی معاف نہیں کریگا، اور اسکے علاوہ دیگر گناہ جس کیلئے چاہے گا معاف فرما دے گا، اور جو کوئی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو وہ دور کی گمراہی میں چلا گیا۔ [النساء : 116]
دوسری قسم: قبر پر اللہ کیلئے نماز پڑھنا، اس قسم کے تحت کچھ مسائل ہیں:

1- قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنا ، یہ جائز ہے۔
اس کیلئے صورتِ مسئلہ ایسے ہے کہ: ایک شخص فوت ہو جائے اور آپ کو مسجد میں اسکا جنازہ پڑھنے کا موقع نہ ملے تو آپ کیلئے اسکی قبر پر جا کر جنازہ پڑھنا جائز ہے۔

اس مسئلہ کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "ایک سیاہ فام عورت یا آدمی مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا ، تو وہ فوت گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو بتلایا گیا: وہ فوت ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم نے مجھے کیوں نہیں بتلایا؟ مجھے اسکی قبر کے بارے میں بتلاؤ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی قبر پر آ کر اسکا جنازہ پڑھا" بخاری: (458)، اور مسلم: (956) لفظ بخاری کے ہیں۔

2- قبرستان میں نماز جنازہ پڑھنا، یہ صورت بھی جائز ہے۔
اس کیلئے صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ: ایک شخص فوت ہو جائے اور مسجد میں اسکا جنازہ پڑھنے کا آپکو موقع نہ ملے تو قبرستان جا کر دفن کرنے سے پہلے اس کا جنازہ پڑھیں۔

اس کے بارے میں شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قبرستان کے اندر میت کا جنازہ پڑھنا جائز ہے، جیسے کہ دفن کرنے کے بعد جائز ہے؛ کیونکہ یہ ثابت ہے کہ ایک لڑکی مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی جب وہ فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا، تو صحابہ کرام نے بتلایا کہ : وہ فوت ہو گئی ہے، تو آپ نے فرمایا: (تو تم نے مجھے کیوں نہیں بتلایا؟ مجھے اسکی قبر کے بارے میں نشاندہی کرو) تو انہوں نے اسکی قبر کی نشاندہی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکا جنازہ پڑھا، اور پھر فرمایا: (یہ قبریں مدفون لوگوں کیلئے اندھیرے سے بھری ہوتی ہیں، اور بیشک اللہ تعالی مدفون لوگوں کیلئے میرے نماز جنازہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں منور فرما دیتا ہے)"مسلم: (956)۔ انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8/392)

3- قبرستان میں نماز جنازہ کے علاوہ کوئی اور نماز ادا کرنا، یہ نماز باطل ہے، درست نہیں ہے، چاہے نفل نماز ہو یا فرض نماز۔
اسکی پہلی دلیل : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (قبرستان اور حمام کے علاوہ ساری کی ساری زمین نماز ادا کرنے کی جگہ ہے)
ترمذی: (317) اور ابن ماجہ: (745) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ": (606) میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوسری دلیل: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اللہ تعالی یہود ونصاری پر لعنت فرمائے، انہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا)
بخاری: (435) مسلم: (529)

تیسری دلیل: (جو کہ وجہ حرمت ہے) کہ قبرستان میں نماز کو قبروں کی پوجا کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، یا کم از کم قبروں کے پجاریوں کیساتھ اس میں مشابہت ضرور ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع یا غروب ہونے کے وقت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا، کیونکہ سورج کے پجاری اس وقت سورج کی عبادت کرتے تھے، یہ ممانعت اس لئے فرمائی تا کہ نماز کو سورج کی پرستش کا ذریعہ نہ بنا لیا جائے، یا کم از کم کفار کی مشابہت سے بچا جائے۔

4- قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا، صحیح موقف کے مطابق اس طرح نماز پڑھنا حرام ہے۔
صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ: آپ قبر یا قبرستان کو قبلہ کی سمت رکھ کر کے نماز پڑھیں، آپ خود قبرستان سے باہر ہوں، اور نماز پڑھتے وقت آپکے اور قبرستان یا قبر کے درمیان میں کوئی اوٹ یا دیوار نہ ہو۔

اسکے حرام ہونے کے دلائل:

پہلی دلیل: ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قبروں پر مت بیٹھو، اور نہ ہی قبروں کی جانب متوجہ ہو کر نماز ادا کرو)مسلم: (972)
اس حدیث میں قبرستان، متعدد قبروں، یا ایک قبر کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنے کی حرمت بیان کی گئی ہے۔

دوسری دلیل: قبرستان میں نماز سے ممانعت کا سبب قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنے میں بھی موجود ہے، چنانچہ جب تک کسی انسان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ قبر یا قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھ رہا ہے تو وہ بھی اس ممانعت میں داخل ہوگا، اور اگر وہ اس ممانعت میں داخل ہے تو اسکی نماز درست نہیں ہوگی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں اسی انداز سے نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی ہے، اور اگر کوئی قبر کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھتا ہے تو اس میں نیکی اور گناہ دونوں جمع ہو جاتے ہیں، اور ایسا عمل جس میں نیکی اور گناہ دونوں جمع ہوں ، قربِ الہی کا باعث نہیں بن سکتا۔

تنبیہ: اگر آپ کے اور قبرستان کے درمیان دیوار کا فاصلہ ہو، تو ایسی صورت میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ ہی نماز سے ممانعت ہے، اسی طرح اگر آپ کے اور قبرستان کے درمیان سڑک ہو، یا اتنی مسافت ہو کہ کوئی آپکو "قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے والا "نہیں کہہ سکتا تو پھر بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم
"المغنی": (1/403) "الشرح الممتع "از: ابن عثیمین: (2/232) رحمہم اللہ جمیعاً

واللہ اعلم.
ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

قبرستان اور قبر میں فرق تو ہونا چاہئے، مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو قبر انور ہے، گراؤنڈ لیول پر نہیں بلکہ نیچے ہے۔


6 میٹر
28 میٹر
3 میٹر

والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
Top