سوال کی تیسری شق " قبرستان میں نماز جنازہ کے علاوہ نماز جائز ہے یا ناجائز "؟
اس کا جواب یہ ہے کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
نص الجواب
الحمد لله
أولاً : مسألة الصلاة على القبور ..
الصلاة على القبور على قسمين :
القسم الأول : الصلاة لصاحب القبر ، وهذا شرك أكبر مخرج عن الملة لأن الصلاة عبادة والعبادة لا يجوز صرفها لغير الله قال تعالى : ( واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً ) النساء/36 ، وقال تعالى : ( إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد ضل ضلالاً بعيداً ) النساء/116 .
القسم الثاني : الصلاة لله في المقبرة ، وهذا القسم تحته مسائل :
1- صلاة الجنازة على القبر ، وهذه جائزة .
صورة المسألة : أن يموت شخص ولم تتمكن من الصلاة عليه في المسجد فيجوز لك أن تصلي عليه بعد دفنه .
دليل المسألة هو فعل النبي صلى الله عليه وسلم : فعن أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا أَسْوَدَ أَوْ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَ يَقُمُّ ( أي يُنظِّف ) الْمَسْجِدَ فَمَاتَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ فَقَالُوا مَاتَ قَالَ أَفَلا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي بِهِ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ أَوْ قَالَ قَبْرِهَا فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا " رواه البخاري واللفظ له (458) ومسلم (956) .
2- صلاة الجنازة في المقبرة ، وهذه جائزة .
صورة المسألة : أن يموت شخص ولم تتمكن من الصلاة عليه في المسجد ، وحضرت إلى المقبرة فصليت عليه قبل أن يُدفن .
قال الشيخ عبد العزيز ابن باز رحمه الله : " تجوز الصلاة على الجنازة داخل المقبرة كما تجوز الصلاة عليها بعد الدفن ؛ لما ثبت أن جارية كانت تقم المسجد ، فماتت فسأل النبي صلى الله عليه وسلم عنها فقالوا : ماتت ، فقال : " أفلا كنتم آذنتموني ؟ فدلوني على قبرها " فدلوه فصلى عليها ثم قال : " إن هذه القبور مملوءة ظلمة على أهلها ، وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم " رواه مسلم 956 انتهى من فتاوى اللجنة الدائمة 8/392
3- الصلاة في المقبرة – ما عدا صلاة الجنازة – وهذه الصلاة باطلة ولا تصح ، سواءً كانت فريضة أو نافلة .
الدليل : أولاً : قول النبي صلى الله عليه وسلم : " الأرض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام " رواه الترمذي (317) وابن ماجه (745) وصححه الألباني في صحيح ابن ماجه (606) .
ثانياً : قول النبي صلى الله عليه وسلم : " لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد " رواه البخاري (435) ومسلم (529) .
ثالثاً : (تعليل) وهو أن الصلاة في المقبرة قد تتخذ ذريعة إلى عبادة القبور ، أو إلى التشبه لمن يعبد القبور ، ولهذا لما كان الكفار يسجدون للشمس عند طلوعها وغروبها ، نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة عند طلوعها وغروبها لئلا يُتخذ ذريعة إلى أن تُعبد الشمس من دون الله ، أو إلى أن يتشبه بالكفار .
4- الصلاة إلى المقبرة ، وهذه محرمة - على الصحيح - .
صورة المسألة : أن تصلي وفي قبلتك مقبرة أو قبر ، ولكنك لا تصلي في أرض المقبرة ، بل في أرض أخرى قريبة من المقبرة ، وليس بينك وبين المقبرة سور أو حاجز .
الدليل على التحريم :
1-عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ وَلا تُصَلُّوا إِلَيْهَا " رواه مسلم (972) . فهذا يدل على تحريم الصلاة إلى المقبرة أو إلى القبور أو إلى القبر الواحد .
2-ولأن العلة من منع الصلاة في المقبرة موجودة في الصلاة إلى القبر فما دام الإنسان يتجه إلى القبر أو إلى المقبرة اتجاهاً يُقال إنه يُصلي إليها فإنه يدخل في النهي ، وإذا كان داخلاً في النهي فلا يصح لقوله : " لا تصلوا " فالنهي هنا عن الصلاة ، فإذا صلى إلى القبر فقد اجتمع في فعله هذا طاعة ومعصية ، وهذا لا يمكن أن يتقرب إلى الله تعالى به .
تنبيه : إذا كان بينك وبين المقابر جدار فاصل فلا بأس من الصلاة حينئذٍ ولا نهي ، كذلك إذا كان بينك وبينها شارع أو مسافة لا تصير بها مصلياً إلى المقابر فلا بأس . والله أعلم
انظر المغني (1/403) والشرح الممتع لابن عثيمين (2/232) رحم الله الجميع .
المصدر: الشيخ محمد صالح المنجد
https://islamqa.info/ur/answers/13490/
ترجمہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ:
اول: قبروں پر نماز پڑھنے کا مسئلہ
قبروں پر نماز پڑھنے کا مسئلہ دو قسموں میں منقسم ہے:
پہلی قسم: قبر میں مدفون شخص کیلئے نماز پڑھنا، تو یہ شرک اکبر ہے، جو کہ انسان کو اسلام سے خارج کر دے گا؛ کیونکہ نماز عبادت ہے، اور عبادت غیر اللہ کیلئے نہیں کی جاسکتی، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا
ترجمہ: اللہ کی عبادت کرو، اور اسکے ساتھ کسی کو بھی شریک مت بناؤ [النساء : 36]
ایسے ہی فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی شرک کو کبھی بھی معاف نہیں کریگا، اور اسکے علاوہ دیگر گناہ جس کیلئے چاہے گا معاف فرما دے گا، اور جو کوئی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو وہ دور کی گمراہی میں چلا گیا۔ [النساء : 116]
دوسری قسم: قبر پر اللہ کیلئے نماز پڑھنا، اس قسم کے تحت کچھ مسائل ہیں:
1-
قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنا ، یہ جائز ہے۔
اس کیلئے صورتِ مسئلہ ایسے ہے کہ: ایک شخص فوت ہو جائے اور آپ کو مسجد میں اسکا جنازہ پڑھنے کا موقع نہ ملے تو آپ کیلئے اسکی قبر پر جا کر جنازہ پڑھنا جائز ہے۔
اس مسئلہ کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "ایک سیاہ فام عورت یا آدمی مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا ، تو وہ فوت گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو بتلایا گیا: وہ فوت ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم نے مجھے کیوں نہیں بتلایا؟ مجھے اسکی قبر کے بارے میں بتلاؤ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی قبر پر آ کر اسکا جنازہ پڑھا" بخاری: (458)، اور مسلم: (956) لفظ بخاری کے ہیں۔
2-
قبرستان میں نماز جنازہ پڑھنا، یہ صورت بھی جائز ہے۔
اس کیلئے صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ: ایک شخص فوت ہو جائے اور مسجد میں اسکا جنازہ پڑھنے کا آپکو موقع نہ ملے تو قبرستان جا کر دفن کرنے سے پہلے اس کا جنازہ پڑھیں۔
اس کے بارے میں شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قبرستان کے اندر میت کا جنازہ پڑھنا جائز ہے، جیسے کہ دفن کرنے کے بعد جائز ہے؛ کیونکہ یہ ثابت ہے کہ ایک لڑکی مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی جب وہ فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا، تو صحابہ کرام نے بتلایا کہ : وہ فوت ہو گئی ہے، تو آپ نے فرمایا: (تو تم نے مجھے کیوں نہیں بتلایا؟ مجھے اسکی قبر کے بارے میں نشاندہی کرو) تو انہوں نے اسکی قبر کی نشاندہی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکا جنازہ پڑھا، اور پھر فرمایا: (یہ قبریں مدفون لوگوں کیلئے اندھیرے سے بھری ہوتی ہیں، اور بیشک اللہ تعالی مدفون لوگوں کیلئے میرے نماز جنازہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں منور فرما دیتا ہے)"مسلم: (956)۔ انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8/392)
3- قبرستان میں نماز جنازہ کے علاوہ کوئی اور نماز ادا کرنا، یہ نماز باطل ہے، درست نہیں ہے، چاہے نفل نماز ہو یا فرض نماز۔
اسکی پہلی دلیل : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (قبرستان اور حمام کے علاوہ ساری کی ساری زمین نماز ادا کرنے کی جگہ ہے)
ترمذی: (317) اور ابن ماجہ: (745) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ": (606) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوسری دلیل: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اللہ تعالی یہود ونصاری پر لعنت فرمائے، انہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا)
بخاری: (435) مسلم: (529)
تیسری دلیل: (جو کہ وجہ حرمت ہے) کہ قبرستان میں نماز کو قبروں کی پوجا کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، یا کم از کم قبروں کے پجاریوں کیساتھ اس میں مشابہت ضرور ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع یا غروب ہونے کے وقت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا، کیونکہ سورج کے پجاری اس وقت سورج کی عبادت کرتے تھے، یہ ممانعت اس لئے فرمائی تا کہ نماز کو سورج کی پرستش کا ذریعہ نہ بنا لیا جائے، یا کم از کم کفار کی مشابہت سے بچا جائے۔
4- قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا، صحیح موقف کے مطابق اس طرح نماز پڑھنا حرام ہے۔
صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ: آپ قبر یا قبرستان کو قبلہ کی سمت رکھ کر کے نماز پڑھیں، آپ خود قبرستان سے باہر ہوں، اور نماز پڑھتے وقت آپکے اور قبرستان یا قبر کے درمیان میں کوئی اوٹ یا دیوار نہ ہو۔
اسکے حرام ہونے کے دلائل:
پہلی دلیل: ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قبروں پر مت بیٹھو، اور نہ ہی قبروں کی جانب متوجہ ہو کر نماز ادا کرو)مسلم: (972)
اس حدیث میں قبرستان، متعدد قبروں، یا ایک قبر کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنے کی حرمت بیان کی گئی ہے۔
دوسری دلیل: قبرستان میں نماز سے ممانعت کا سبب قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنے میں بھی موجود ہے، چنانچہ جب تک کسی انسان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ قبر یا قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھ رہا ہے تو وہ بھی اس ممانعت میں داخل ہوگا، اور اگر وہ اس ممانعت میں داخل ہے تو اسکی نماز درست نہیں ہوگی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں اسی انداز سے نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی ہے، اور اگر کوئی قبر کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھتا ہے تو اس میں نیکی اور گناہ دونوں جمع ہو جاتے ہیں، اور ایسا عمل جس میں نیکی اور گناہ دونوں جمع ہوں ، قربِ الہی کا باعث نہیں بن سکتا۔
تنبیہ: اگر آپ کے اور قبرستان کے درمیان دیوار کا فاصلہ ہو، تو ایسی صورت میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ ہی نماز سے ممانعت ہے، اسی طرح اگر آپ کے اور قبرستان کے درمیان سڑک ہو، یا اتنی مسافت ہو کہ کوئی آپکو "قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے والا "نہیں کہہ سکتا تو پھر بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم
"المغنی": (1/403) "الشرح الممتع "از: ابن عثیمین: (2/232) رحمہم اللہ جمیعاً
واللہ اعلم.
ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ