• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قران کے مطابق زمین گول نہیں بلکہ چپٹی سپاٹ ہے ۔؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اسلام کے وکلاء کے دلائل اور بددیانتی
آج کے فقہاء ٰinterpretation کے نام پر بہانے بازیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیےآج کے اس فیلڈ کے مشہور ترین سکالرز (ذاکر نائیک وغیرہ) اس حوالے سے "بددیانتی" کے مرتکب ہوئے جب انہوں نے جان بوجھ کر دعویٰ کر دیا کہ قران نے زمین کی ساخت کو شتر مرغ کے انڈے کی ساخت جیسا بیان کر رہا ہے۔ اسکے لیے انہوں نے آیت 79:30 استعمال کیا:

(قرآن 79:30) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
ترجمہ (محمد جونا گڑھی) : اور اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا۔

لفظ "دحاها" کا مطلب 1400 سالوں سے سب فقہاء "پھیلانا یا بچھانا کے کرتے آ رہے ہیں۔
مگر آجکے فقہاء نے اس کا بالکل نیا مطلب بیان کر دیا جو ہے "شتر مرغ کا انڈہ"۔

ذاکر نائیک صاحب لکھتے ہیں:۔
The Qur’an mentions the actual shape of the earth in the following verse:
“And we have made the earth egg shaped”. [Al-Qur’an 79:30]
The Arabic word Dahaha means egg shaped. It also means an expanse. Dahaha is derived from Duhiya which specifically refers to the egg of an ostrich which is geospherical in shape, exactly like the shape of the earth.
Thus the Qur’an and modern established science are in perfect harmony.
Reference: Zakir Naik Q & A

دنیا میں پچھلے 1400 سالوں سے کسی مسلمان فقہیہ یا مفسر نے "دحاھا" کا مطلب انڈہ" بیان نہیں کیا ۔
دنیا کی کسی لغت نے دحاھا کا مطلب اندہ بیان نہیں کیا ہ۔

تو پھر ذاکر نائیکل یہ انڈہ کہاں سے لے کر آ گیا؟
لسان العرب نامی لغت میں یہ ملتا ہے:
الأُدْحِيُّ و الإدْحِيُّ و الأُدْحِيَّة و الإدْحِيَّة و الأُدْحُوّة مَبِيض النعام في الرمل , وزنه أُفْعُول من ذلك , لأَن النعامة تَدْحُوه برِجْلها ثم تَبِيض فيه وليس للنعام عُشٌّ . و مَدْحَى النعام : موضع بيضها , و أُدْحِيُّها موضعها الذي تُفَرِّخ فيه .ِ
ترجمہ:
(یہ لفظ ریت کی اس "جگہ" کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جہاں شترمرغ اپنا انڈہ دیتا ہے۔ یہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ شترمرغ انڈہ دینے کے بعد اس جگہ کو اپنے پاؤں سے "پھیلا" کر ہموار کر دیتا ہے۔ شتر مرغ انڈہ دینے کے لیے گھونسلے کا استعمال نہیں کرتا۔​
چنانچہ لفظ دحاھا کا مطلب کبھی بھی کسی بھی لغت میں "انڈہ" نہیں تھا، بلکہ وہ "جگہ" تھی جسے "پھیلا" کر ہموار کیا گیا ہو۔

چنانچہ جس چیز کو آپ آجکے ماڈرن فقہا کی interpretation کہہ رہے ہیں، وہ میرے نزدیک انکی "بہانے بازیاں" ہیں جوکہ کچھ کیسز میں کھلی "بددیانتی" تک پہنچ چکی ہے۔

 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اسلام کے وکلاء کا لفظ 'لپیٹنا' سے لغو استدلال
اسلام وکلاء ذیل کی آیت استعمال کر کے دعویٰ کرتے ہیں کہ قران نے زمین کو گول قرار دیا ہے:
39:5 خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
ترجمہ: اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے، ہر ایک مقرّر وقت کی حد تک دوڑتا ہے، خبردار! وہی غالب، بڑا بخشنے والا ہے
اسلام وکلاء دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ "یکور" استعمال ہوا ہے، جسکا مطلب "گول چیز کو لپیٹنا" ہے، جیسے کہ ہم اون کو کرہ/گیند کی شکل میں لپیٹتے ہیں۔ چنانچہ قرآن جب کہتا ہے کہ اللہ دن کو رات اور رات کو دن پر لپیٹتا ہے تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب زمین کو کرہ/گیند کی مانند ہو۔
اسلام وکلاء کا یہ استدلال مگر لغو ہے اور ایک بہانے سے زیادہ اسکا کوئی وزن نہیں۔
یہ اسلام وکلاء کا لغو استدلال ہے۔ اس آیت میں "زمین" پر لپیٹنے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ دن کو رات اور رات کو دن پر لپیٹنے کا ذکر ہے۔ چنانچہ اگر اس بنیاد پر کسی چیز کو گول کہنا بھی ہے تو دن اور رات کو کرہ کی شکل کا کہینے، زمین کو نہیں۔
بلکہ اسلام کا نظریہ تو شروع سے یہ ہے کہ زمین چپٹی ہے جبکہ فلک گول شکل کا ہے۔ یہ تصویر اسلامی نظریے کو بیان کر رہی ہے:۔

پھر قرآن ہی نے آیت 31:29 میں لپیٹنے کی جگہ "داخل" ہونے کے الفاظ استعمال کر دیے ہیں۔

(قرآن31:29)
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
ترجمہ: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ الله رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور سورج اور چاند کو کام پر لگا رکھا ہے ہر ایک وقت مقرر تک چلتا رہے گا اور یہ کہ الله تمہارے کام سے خبردار ہے۔

اب یہ نہ کہیے گا کہ لپیٹنے کی طرح داخل ہونے کے لیے بھی لازمی ہے کہ وہ چیز کرہ کی شکل کی ہو۔
بلکہ ٹہریے، یہاں بھی اسلام وکلاء ایک اور بہانہ لے کر آ جاتے ہیں کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ دن کو رات اور رات کو دن میں 'آہستہ آہستہ' داخل کرتا ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب زمین کرہ کی شکل کی ہو۔
جواباً عرض ہے کہ قرآن میں کہیں بھی یہ 'آہستہ آہستہ' والی چیز موجود نہیں ہے، بلکہ یہ آپکی اپنی اختراع ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ دن کی رات، اور رات کی دن میں 'آہستہ آہستہ' تبدیلی اس وقت بھی ممکن ہے جب زمین کو سپاٹ سمجھا جائے۔ ایک تاریک کمرے میں اگر روشنی کو میز کی سطح کی ایک سمت سے آہستہ آہستہ اوپر اٹھایا جائے (سورج کے نمودار ہونے کی طرح) تو تاریکی آہستہ آہستہ اجالے سے چھٹنے لگے گی۔ چنانچہ اس آیت سے کہیں ایسا کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ زمین کرہ/گیند کی طرح ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ابن تیمیہ کا دعویٰ مسلمانوں اجماع ہے کہ زمین گول ہے
ابن تیمیہ اپنی کتاب مجموع الفتاویٰ کی چھٹی جلد میں لکھتا ہے (لنک):
''السموٰات مستدیرة عند علماء المسلمین وقد حکي إجماع المسلمین علی ذلك غیر واحد من العلماء أئمة الإسلام: مثل أبی الحسین أحمد بن جعفر بن المناوي أحد الأعیان الکبار من الطبقة الثانیة من أصحاب الإمام أحمد وله نحو أربع مائة مصنف وحکی الإجماع علی ذلك الإمام أبو محمد بن حزم وأبوالفرج بن الجوزي وروی العلماء ذلك بالأسانید المعروفة عن الصحابة والتابعین وذکروا ذلك من کتاب اﷲ وسنة رسوله وبسطوا القول في ذلك بالدلائل السمعیة وإن کان قد أقیم علی ذلك أیضا دلائل حسابیة... '' (مجموع الفتاویٰ، ج۶؍ص:۵۸۶)

ترجمہ:
''مسلمان اہل علم کا موقف یہ ہے کہ آسمان گول ہیں اور بہت سے کبار علماے مسلمین نے اس بات پرمسلمانوں کا اجماع و اتفاق نقل کیا ہے۔ مثلاً احمد بن جعفر بن المناوی جو امام احمد کے اصحاب میں سے طبقہ ثانیہ کے کبیرعالم خیال کئے جاتے ہیں اور وہ تقریبا ۴۰۰ کتب کے مصنف بھی ہیں، نے اسی طرح ابن حزم اور ابن جوزی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ اہل علم نے اس سلسلہ میں اپنی معروف اسناد کے ساتھ یہ بات صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بھی ثابت کی ہے اور کتاب و سنت سے بھی اس کے دلائل فراہم کئے ہیں۔ اس مسئلے پر اہل علم نے نہ صرف دلائل نقلیہ سے استشہاد کیاہے بلکہ دلائل عقلیہ سے بھی اسے ثابت کیاہے۔''

اس کے بعد ابن تیمیہ قرآن سے یہ آیت بطور دلیل پیش کرتا ہے

﴿وَهُوَ الَّذى خَلَقَ الَّيلَ وَالنَّهارَ‌ وَالشَّمسَ وَالقَمَرَ‌ ۖ كُلٌّ فى فَلَكٍ يَسبَحونَ ﴿٣٣﴾... سورة الانبياء

''اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کوپیدا کیا اور یہ سب اپنے اپنے فلک (مدار) میں محو ِگردش ہیں۔''

پھر ابن عباس کے متعلق ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ ابن عباس نے کہا:
''فلک چرخ کے کتلہ کے محور کی طرح گول ہوتاہے"
چنانچہ یہ (آسمان و زمین کے) گول ہونے کی صریح دلیل ہے اور ویسے بھی لغت میں ہر گول چیز کے لئے لفظ فلک استعمال کیا جاتاہے۔'' (مجموع فتاویٰ،ج۶، ص۵۸۷)​
جواب

پہلی بات:
اسلام کی آمد سے بہت قبل ہی یونانی وغیرہ اس بات کو جان چکے تھے کہ زمین چپٹی نہیں، بلکہ گیند کی مانند کرہ شکل کی ہے۔ مگر جب اسلام آیا تو اس وقت باقی دنیا کے مقابلے میں پھر بھی کافی حد تک جاہل معاشرہ تھا اور وہاں زمین کے چپٹے ہونے کا ہی نظریہ تھا۔

دوسری بات:
ابن تیمیہ خود اسلام کی آمد کے بعد تقریبا 700 سال کے بعد یہ کتابیں لکھ رہا ہے، اور جس شخص (احمد بن جعفر) کا حوالہ دے کر وہ اجماع کی بات کر رہا ہے، تو یہ احمد بن جعفر خود اسلام کی آمد کے تقریباً 300 سال بعد یہ کتابیں لکھ رہا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب اسلامی ریاست عرب سے نکل کر ہندوستان اور یونان اور یورپ کے دیگر علاقوں تک پھیل چکی ہیں اور وہاں کے علوم اسلامی ریاستوں میں پھیل چکے ہیں، جن میں سے ایک زمین کے گول گیند ہونے کا نظریہ بھی ہے۔
عباسی خلفاء نے ان یونانی اور دیگر کتب کے ترجمے عربی میں کروائے تھے (لنک)۔ صرف اسکے بعد مسلم دنیا میں شعور پیدا ہوا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گیند کی مانند کرہ شکل کی ہے۔

تیسری بات:
۔ چنانچہ احمد بن جعفر (اسلام کی آمد سے 300 سال بعد) سے پہلے ہمیں کوئی مسلم عالم فقیہ نہیں ملتا جو کہ زمین کو کرہ شکل کا بتاتا ہو۔
۔ اور احمد بن جعفر کسی قرآنی آیت سے زمین گول ہونا ثابت نہیں کر رہا۔
۔ اسی طرح احمد بن جعفر جناب رسولخدا سے براہ راست ایک بھی حدیث روایت نہی کر رہا جس میں زمین کے کرہ ہونے کی گواہی ہو۔
۔ اگرچہ کہ ابن تیمیہ بھی دعویٰ کر رہے کہ یہ قران اور حدیثِ رسول سے ثابت ہے، مگر اپنے اس دعوے کے باوجود ابن تیمیہ بھی براہ راست جناب رسولخدا سے ایسی کوئی ایک بھی روایت نقل کرنے میں ناکام ہے۔
۔ ابن تیمیہ پھر دعوی کر رہا ہے کہ صحابہ اور تابعین سے کئی روایات نقل ہوئی ہیں جنکی اسناد مشہور ہیں کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ کرہ شکل کی ہے (لنک
ابن تیمیہ کا یہ دعوی غلط ہے، اور اسلام وکلاء کو چیلنج ہے کہ وہ صحابہ اور تابعین سے یہ روایات صحیح اسناد کے ساتھ نقل کر کے دکھائیں۔ (یہ مسلمانوں کا ہی سٹینڈرڈ ہے کہ جبتک حدیث صحیح سند سے روایت نہ ہو، یہ اسے قبول نہیں کرتے۔ لیکن جب ابن تیمیہ اپنے مؤقف میں سرے سے بغیر کسی سند کی روایت نقل کیے فقط دعویٰ کر دے تو یہ اس پر ایمان لے آتے ہیں)۔
۔ ابن تیمیہ نے زیادہ سے زیادہ قرآن کی ایک آیت سے یہ کھینچ کھانچ کر زمین گول ہونے کے معنی نکالنے چاہے ہیں، مگر اس پر ہم پہلے ہی اوپر بحث کر چکے ہیں کہ اس آیت سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زمین کرہ شکل کی ہے۔
۔ اور ابن تیمیہ کا مسلمانوں کے اجماع والا دعویٰ بھی سراسر غلط ہے۔ طبری اور ابن کثیر اور سیوطی اور دیگر بے تحاشہ علماء نے زمین کے چپٹے ہونے کے متعلق روایات کو اپنی تفسیر اور دیگر کتب میں تحریر کیا ہے۔
حتی کہ اس صدی میں بھی سعودیہ کے مفتی اعظم شیخ بن باز اور دیگر مسلمان محققین ایسے موجود ہیں جو ابتک زمین کے چپٹے سپاٹ ہونے کا فتویٰ دے رہے ہیں۔

چوتھی بات:
اوپر عبارت میں ابن عباس سے ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ مگر وہ تو فقط "فلک" کے متعلق تھی اور یہ تھی کہ ابن عباس نے کہا: ''فلک چرخ کے کتلہ کے محور کی طرح گول ہوتاہے"َ۔
چنانچہ یہاں پر زبردستی خامخواہ میں ہی فلک کے ساتھ "زمین" کو بھی گھسیڑ دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین سے ایک بھی روایت سند کے ساتھ ایسی نہیں ہے جہاں انہوں نے زمین کو کرہ کہا ہو۔
تفسیر ابن کثیر:
ابن کثیر آیت 18:86 کی تفسیر میں لکھتا ہے (لنک):
۔۔۔ (دو قراتیں مشہور ہیں کہ سورج سیاہ رنگ کی مٹی میں غائب ہو جاتا ہے اور دوسری قرات یہ کہ سورج گرم پانی کے چشمے میں غروب ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں قراتیں مشہور ہیں اور دونوں ہی درست ہیں خواہ کوئی سے قرات پڑھے اور انکے معنی میں تفاوت نہیں کیونکہ (زمین کے مغربی کنارے سے) سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی گرم ہو اور وہاں کی مٹی کی سیاہ رنگت کی وجہ سے اس پانی کی کیچڑ اسی رنگت کی ہو۔​
اسی طرح ابن کثیر آیت 18:90 کی تفسیر میں سورج کے طلوع ہونے کے متعلق لکھتا ہے (لنک):
جب ذوالقرنین سورج نکلنے کی جگہ پر پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک بستی آباد ہے، ۔۔۔ لیکن (زمین کے مشرقی کنارے کی وجہ سے) سورج کی (انتہائی تیز) دھوپ سے پناہ دینے والی کوئی چیز وہاں انہیں نظر نہ آئی۔​
تفسیر جلالین:
یہ تفسیر جلالین 16 ویں صدی میں لکھی گئی، اور اس میں قرآن کے مطابق زمین کے چپٹے ہونے کا اقرار کیا گیا:
Tafsir Jalalain, "from Juza '20 to Juza '30" (Online Link):
"As for His (Allah's) words sutihat, ‘laid out flat’, this on a literal reading suggests that the earth is flat, which is the opinion of most of the scholars of the [revealed] Law.

نتیجہ:

قرآن کی انہی آیات کی وجہ سے سعودیہ کا مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز ابن باز فتویٰ دیتا ہے کہ زمین چپٹی سپاٹ ہے۔
اسی طرح آج بھی دیگر کچھ مسلم محققین ابھی تک دعوی کر رہے ہیں کہ زمین چپٹی ہے کیونکہ قران نے ایسا کہا ہے۔ ان میں فضل السعد بھی شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں یہ بات ٹی وی چینل پر کی۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ٹوٹ :
یہ تحریر ایک ملحد کی لکھی ہوئی ہے۔
 

kfnasim

مبتدی
شمولیت
اگست 26، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
صراحت کے ساتھ چپٹا یا گول ہونا قرآن کے کسی آیت میں نہیں ہے. دوسری بات یہ کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ تو ہدایت کی کتاب ہے. بحث اس پر ہو کہ زمین کا بنانے والا ہم سے کیا چاہتا ہے. سائنس تو اپنا مؤقف تو بدلتی رہتی ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مختصرا عرض ہے کہ:
اول: قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہدایت کی کتاب ہے. اس لیے قرآن نے اکثر چیزوں کو اسی طرح بیان کیا ہے جیسے وہ عمومی حالات میں نظر آتی ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر رہنمائی اور ہدایت حاصل کریں. قرآن کے اس انداز اور خصوصیت کو سمجھے بغیر اعتراض کرنا جہالت ہے.
دوم: زمین کے لیے "دحی" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی بچھانا یا پھیلانا ہے. اور مراد اس سے زمین کی سطح کا ہموار پھیلانا ہے. اگر اللہ پاک ایسا نہ کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اس کا ہر انچ اوپر نیچے ہوتا اور یہ چلنے اور زراعت وغیرہ کے لیے انتہائی ناموزوں ہوتی. صاحب کلام بجائے اس نعمت پر شکر ادا کرنے کے طعنہ زن ہے.
باقی زمین کا گول ہونا یا نہ ہونا قرآن پاک سے استدلال کر کے بیان کیا جا سکتا ہے لیکن صراحتا قرآن پاک نے اس کا ذکر نہیں کیا.
صاحب کلام سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس کی سائنس کی کتب میں لغت کی باریکیاں اور شیکسپئیر کے خیالات ذکر کیے جاتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسے قرآن میں سائنس کی صراحت کی تلاش کیوں ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا آپ اس کا جواب کہیں پوسٹ کرتے ہیں؟
 
Top