۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معنى كلمة "مولانا"
كلمة مولى من الأضداد ، أي تطلق على الشئ وضده ..
بمعنى أنها تطلق على "السيّد" وتطلق أيضاً على "العبد" ..
لفظ۔ مولی ۔ جس کی جمع ’’ مولانا ‘‘ آتی ہے یہ لفظ ،اضداد میں سے ہے ،یعنی ایسا لفظ ہے جس کے اندر باہم متضاد معنی پائے جاتے ہیں ۔مثلاً ۔مولی ۔مالک کوبھی کہتے ہیں اور غلام کو بھی ۔مولی ۔کہتے ہیں
صحیح البخاری ،باب كراهية التطاول على الرقيق وقوله عبدي أو أمتي:
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے
حدیث نمبر: 2552
حدثنا محمد حدثنا عبد الرزاق اخبرنا معمر عن همام بن منبه انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " لا يقل احدكم اطعم ربك وضئ ربك اسق ربك وليقل سيدي مولاي ولا يقل احدكم عبدي امتي وليقل فتاي وفتاتي وغلامي ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی شخص (کسی غلام یا کسی بھی شخص سے) یہ نہ کہے۔ اپنے رب (مراد آقا) کو کھانا کھلا، اپنے رب کو وضو کرا، اپنے رب کو پانی پلا“۔ بلکہ صرف میرے سردار، میرے آقا (میرے مولا ) کے الفاظ کہنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے۔ ”میرا بندہ، میری بندی، بلکہ یوں کہنا چاہئے میرا چھوکرا، میری چھوکری، میرا غلام۔“
اور اس کی شرح میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ إِطْلَاقِ مَوْلَايَ۔۔اس حدیث میں انسان کےلئے لفظ ’’مولی ‘‘ کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی کےلئے ’’ مولانا ‘‘ استعمال کیا ہے ؛
دیکھئے صحیح البخاری حدیث :2699
فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ: الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ، وَقَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَقَالَ لِزَيْدٍ: أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے، پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔
.......................................................
اورصحیح البخاری حدیث ۳۰۳۹
میں بدر والے دن کفار کے جواب رسول اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ: قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، قَالَ: إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالَ: قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ: قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَلَا مَوْلَى لَكُمْ".
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جواب کیوں نہیں دیتے، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کا جواب کیا دیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے اس کا استعمال انسانوں کیلئے بھی جائز ہے ، جیسا کہ اوپر کی پوسٹ میں مفتی عبید اللہ عفیف صاحب کے فتوی میں بتایا گیا ہے
انہوں نے لکھا ہے :
اور مولیٰ کا لفظ متعدد معانی کا حامل ہے ۔ جیسے مولیٰ یعنی مالک، آقا، سردار، آزادکرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا، وہ جس کو انعام دیا جائے ، محبت کرنے والا، ساتھی، حلیف، پڑوسی، مہمان، شریک،بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، داماد، رشتہ دار، ولی اور تابع۔ملاحظہ ہو کتب لغات قاموس، تحفۃ الاحوذی اور تنقیح الروات، مشکوۃ وغیرہ اور اس کا استعمال بلاشبہ درست اور صحیح ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت زیدبن حارثہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: انت اخونا ومولنا ؛؛