محمدبن ابوبکر
مبتدی
- شمولیت
- اگست 19، 2011
- پیغامات
- 18
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 0
کیا مذہب تشیع کو ایرانیوں نے جعل کیا ہے؟
اسلامی معاشرہ میں شیعہ کی پیدائش کے لئے ایک دوسرا فرضیہ بیان کیا جاتا ہے جس کوخاور شناسان نےگھڑا ہے ،یہ لوگ بھی دوسرے محققین کی طرح معتقد ہیں کہ مذہب شیعہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد وجود میں آیا ہے ،جس کیوجہ سے وہ اس کی علت و اسباب کو تلاش کرنے میں لگ گئے ، پھر اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد ایران کی طرف پلٹتی ہے ۔
اس فرضیہ کو ”دوزی“ نے بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہب شیعہ کو ایران نے جنم دیا ہے کیونکہ عرب ، آزادی کے قائل تھے اور ایرانی بادشاہی اور وراثت کے قائل تھے ، یہ لوگ انتخاب کے معنی نہیں سمجھتے تھے لہذا جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا تو کہنے لگے کہ حضرت علی (علیہ السلام) خلافت کے لئے زیادہ سزاوار ہیں، کیونکہ آنحضرت (ص) کے کوئی اولاد نہیں تھی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایرانیوں اور شیعوں کا ہم فکر ہونا (یعنی خلافت کا موروثی ہونا) اس بات پر اہم دلیل ہے کہ شیعہ مذہب کو ایران نے جنم دیا ہے ۔
یہ فرضیہ ضعیف اور غلط ہونے کی وجہ سے عبداللہ بن سباء والے فرضیہ کی طرح ہے اور ایسا دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
مذہب شیعہ کے عربی ہونے کی دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں:
اول : جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ مذہب شیعہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کے زمانہ میں ظاہر ہوا ہے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے چاہنے والوں کو شیعہ کہا جاتا تھا اور یہ فرقہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ سے لیکر اس وقت بھی موجود تھا جب سلمان کے علاوہ کوئی اور ایرانی مسلمان نہیں ہوا تھا۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت علی (علیہ السلام) کے زمانہ میں مذہب شیعہ کی طرف سب سے پہلے قدم بڑھانے والے افراد ، عرب تھے اور سلمان فارسی کے علاوہ کوئی اور ایرانی ان کے درمیان نہیں تھا۔
دوم : حضرت علی (علیہ السلام) اپنی خلافت کے زمانہ میں تین جنگوں میں مشغول تھے : جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان۔ اور آپ کی پوری فوج خالص عربی عدنانی اور قحطانی تھی ۔ قریش کے دوسرے گروہ ، اوس و خزرج، قبائل مذحج، ہمدان، طی، کندہ، تمیم اور مضر آپ کی فوج میں ملحق ہوگئے تھے اور آپ کی فوج کے تمام کمانڈر بھی انہی قبیلوں کے سردار تھے ۔ اسی طرح ہاشم مرقال، مالک اشتر، صعصعة بن صوحان، ان کے بھائی زید، قیس بن سعد بن عبادہ، عبداللہ بن عباس، محمد بن ابی بکر ، حجربن عدی، عدی بن حاتم وغیرہ بھی عرب تھے ۔
حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے اسی فوج اور انہی سرداروں کے ذریعہ بصرہ کو فتح کیا ،قاسطین (معاویہ اور اس کی فوج) کے ساتھ صفین میں جنگ کی ، اور انہی کے ذریعہ مارقین کو قتل کیا ،لہذا اس فوج اور سرداروں میں ایرانی کہا ںہیں؟ جو یہ احتمال دیا جائے کہ یہ سب شیعہ ہیں؟ اس کے علاوہ صرف ایرانیوں نے اس مذہب کو قبول نہیں کیا بلکہ ترکیوں اور ہندوستانیوں نے بھی اس دین کو قبول کیا ہے ۔
اکثر مورخین اور محققین نے اس حقیقت کی گواہی دی ہے لہذا ہم یہاں پر صرف ایک مثال پر اکتفاء کریںگے :
”ولھاوزن“نے کہا ہے : عراق کے تمام لوگ خصوصا معاویہ کے زمانہ میں کوفہ کے تمام لوگ شیعہ تھے، یہ بات صرف افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ قبایل اور تمام سرداروں کو شامل ہے (۱) ۔
سوم : دوسری قوموں کی طرح ایران میں بھی اسلام پھیل رہا تھا اور ایران ، مذہب شیعہ کے نام سے مشہور نہیں تھا ، یہاں تک کہ اشعری شیعوں کے ایک گروہ نے قم اور کاشان کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر تشیع کو قائم کیا ، یہ پہلی صدی ہجری کے آخری برسوں کی بات ہے ، جب کہ خلیفہ دوم نے ایران کو ۱۷ ہجری میںفتح کیا اور تمام ایرانی مسلمان ہوئے ، اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ برسوں گذرنے کے بعد بھی ایران میں تشیع کا کوئی اثر موجود نہیں تھا۔
سید محسن امین کہتے ہیں : جس وقت ایرانی مسلمان ہوئے اس وقت چند لوگ شیعہ تھے اور اہل سنت کے اکثر و بیشتر علماء جیسے بخاری، ترمذی،نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نیشاپوری ایرانی تھے ۔
البتہ کبھی کبھی تشیع کے ایرانی ہونے پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ تشیع اور ایرانی ، خلافت کے موروثی ہونے میں ہم عقیدہ ہیں ، لیکن یہ بات صرف ساسانیوں کے زمانہ تک تھی جو کہ غلط ہے ،کیونکہ شیعوں کی نظر میں خلافت موروثی نہیں ہے بلکہ نص اور تعیین کے تابع ہے ، اگر چہ خداوند عالم نے امامت کے نور کو ایسے خاندان میں قرار دیا ہے کہ ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام کو معین کیا ہے ۔ خداوند عالم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں نبوت کو قرار دیا اور نبی نے اپنے سے پہلے والے نبی کی نبوت کو اور ہر وصی نے اپنے سے پہلے والے وصی کی وصایت کو میراث میں حاصل کیا ہے ، خداوندعالم فرماتا ہے : ” وَ لَقَدْ اٴَرْسَلْنا نُوحاً وَ إِبْراہیمَ وَ جَعَلْنا فی ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْکِتاب“ (۲) ۔ اور ہم نے نوح علیہ السّلام اور ابراہیم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کی اولاد میں کتاب اور نبوت قرار دی ۔
اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں نبوت موروثی ہوسکتی ہے تو پھر امامت موروثی کیوں نہیں ہوسکتی؟
چہارم : جو بھی ایران کی تاریخ اور ایران کے علماء کی سیرت کا مطالعہ کرے گا اس کو معلوم ہوجائےگا کہ دسویں صدی کے شروع تک ایران میں اہلسنت عروج پر تھے ، اس کے بعد صفویوں کے زمانہ میں شیعیت نے ایران پر غلبہ کرلیا۔
اگر چہ قم اور کاشان ،شیعوں کا مرکز تھا ، لیکن ایران کے دوسرے شہروں کے مقابلہ میں یہ شہر بہت چھوٹے تھے ۔
بروکلمان نے کہا ہے : شاہ اسماعیل صفوی نے ”الوند“ پر فتح حاصل کرنے کے بعد ”تبریز“ کی طرف رخ کیا تو تبریز میں علمائے شیعہ نے اس کو خبر دی کہ اس شہر کے رہنے والے دو تہائی افراد جن کی تعداد تین لاکھ ہے ،اہل سنت ہیں(۳) ۔
1 . الخوارج والشیعة : ص241 ـ 248.
2 . حدید : 26.
3-سیماى عقاید شیعه، ص43.
اسلامی معاشرہ میں شیعہ کی پیدائش کے لئے ایک دوسرا فرضیہ بیان کیا جاتا ہے جس کوخاور شناسان نےگھڑا ہے ،یہ لوگ بھی دوسرے محققین کی طرح معتقد ہیں کہ مذہب شیعہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد وجود میں آیا ہے ،جس کیوجہ سے وہ اس کی علت و اسباب کو تلاش کرنے میں لگ گئے ، پھر اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد ایران کی طرف پلٹتی ہے ۔
اس فرضیہ کو ”دوزی“ نے بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہب شیعہ کو ایران نے جنم دیا ہے کیونکہ عرب ، آزادی کے قائل تھے اور ایرانی بادشاہی اور وراثت کے قائل تھے ، یہ لوگ انتخاب کے معنی نہیں سمجھتے تھے لہذا جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا تو کہنے لگے کہ حضرت علی (علیہ السلام) خلافت کے لئے زیادہ سزاوار ہیں، کیونکہ آنحضرت (ص) کے کوئی اولاد نہیں تھی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایرانیوں اور شیعوں کا ہم فکر ہونا (یعنی خلافت کا موروثی ہونا) اس بات پر اہم دلیل ہے کہ شیعہ مذہب کو ایران نے جنم دیا ہے ۔
یہ فرضیہ ضعیف اور غلط ہونے کی وجہ سے عبداللہ بن سباء والے فرضیہ کی طرح ہے اور ایسا دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
مذہب شیعہ کے عربی ہونے کی دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں:
اول : جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ مذہب شیعہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کے زمانہ میں ظاہر ہوا ہے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے چاہنے والوں کو شیعہ کہا جاتا تھا اور یہ فرقہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ سے لیکر اس وقت بھی موجود تھا جب سلمان کے علاوہ کوئی اور ایرانی مسلمان نہیں ہوا تھا۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت علی (علیہ السلام) کے زمانہ میں مذہب شیعہ کی طرف سب سے پہلے قدم بڑھانے والے افراد ، عرب تھے اور سلمان فارسی کے علاوہ کوئی اور ایرانی ان کے درمیان نہیں تھا۔
دوم : حضرت علی (علیہ السلام) اپنی خلافت کے زمانہ میں تین جنگوں میں مشغول تھے : جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان۔ اور آپ کی پوری فوج خالص عربی عدنانی اور قحطانی تھی ۔ قریش کے دوسرے گروہ ، اوس و خزرج، قبائل مذحج، ہمدان، طی، کندہ، تمیم اور مضر آپ کی فوج میں ملحق ہوگئے تھے اور آپ کی فوج کے تمام کمانڈر بھی انہی قبیلوں کے سردار تھے ۔ اسی طرح ہاشم مرقال، مالک اشتر، صعصعة بن صوحان، ان کے بھائی زید، قیس بن سعد بن عبادہ، عبداللہ بن عباس، محمد بن ابی بکر ، حجربن عدی، عدی بن حاتم وغیرہ بھی عرب تھے ۔
حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے اسی فوج اور انہی سرداروں کے ذریعہ بصرہ کو فتح کیا ،قاسطین (معاویہ اور اس کی فوج) کے ساتھ صفین میں جنگ کی ، اور انہی کے ذریعہ مارقین کو قتل کیا ،لہذا اس فوج اور سرداروں میں ایرانی کہا ںہیں؟ جو یہ احتمال دیا جائے کہ یہ سب شیعہ ہیں؟ اس کے علاوہ صرف ایرانیوں نے اس مذہب کو قبول نہیں کیا بلکہ ترکیوں اور ہندوستانیوں نے بھی اس دین کو قبول کیا ہے ۔
اکثر مورخین اور محققین نے اس حقیقت کی گواہی دی ہے لہذا ہم یہاں پر صرف ایک مثال پر اکتفاء کریںگے :
”ولھاوزن“نے کہا ہے : عراق کے تمام لوگ خصوصا معاویہ کے زمانہ میں کوفہ کے تمام لوگ شیعہ تھے، یہ بات صرف افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ قبایل اور تمام سرداروں کو شامل ہے (۱) ۔
سوم : دوسری قوموں کی طرح ایران میں بھی اسلام پھیل رہا تھا اور ایران ، مذہب شیعہ کے نام سے مشہور نہیں تھا ، یہاں تک کہ اشعری شیعوں کے ایک گروہ نے قم اور کاشان کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر تشیع کو قائم کیا ، یہ پہلی صدی ہجری کے آخری برسوں کی بات ہے ، جب کہ خلیفہ دوم نے ایران کو ۱۷ ہجری میںفتح کیا اور تمام ایرانی مسلمان ہوئے ، اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ برسوں گذرنے کے بعد بھی ایران میں تشیع کا کوئی اثر موجود نہیں تھا۔
سید محسن امین کہتے ہیں : جس وقت ایرانی مسلمان ہوئے اس وقت چند لوگ شیعہ تھے اور اہل سنت کے اکثر و بیشتر علماء جیسے بخاری، ترمذی،نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نیشاپوری ایرانی تھے ۔
البتہ کبھی کبھی تشیع کے ایرانی ہونے پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ تشیع اور ایرانی ، خلافت کے موروثی ہونے میں ہم عقیدہ ہیں ، لیکن یہ بات صرف ساسانیوں کے زمانہ تک تھی جو کہ غلط ہے ،کیونکہ شیعوں کی نظر میں خلافت موروثی نہیں ہے بلکہ نص اور تعیین کے تابع ہے ، اگر چہ خداوند عالم نے امامت کے نور کو ایسے خاندان میں قرار دیا ہے کہ ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام کو معین کیا ہے ۔ خداوند عالم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں نبوت کو قرار دیا اور نبی نے اپنے سے پہلے والے نبی کی نبوت کو اور ہر وصی نے اپنے سے پہلے والے وصی کی وصایت کو میراث میں حاصل کیا ہے ، خداوندعالم فرماتا ہے : ” وَ لَقَدْ اٴَرْسَلْنا نُوحاً وَ إِبْراہیمَ وَ جَعَلْنا فی ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْکِتاب“ (۲) ۔ اور ہم نے نوح علیہ السّلام اور ابراہیم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کی اولاد میں کتاب اور نبوت قرار دی ۔
اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں نبوت موروثی ہوسکتی ہے تو پھر امامت موروثی کیوں نہیں ہوسکتی؟
چہارم : جو بھی ایران کی تاریخ اور ایران کے علماء کی سیرت کا مطالعہ کرے گا اس کو معلوم ہوجائےگا کہ دسویں صدی کے شروع تک ایران میں اہلسنت عروج پر تھے ، اس کے بعد صفویوں کے زمانہ میں شیعیت نے ایران پر غلبہ کرلیا۔
اگر چہ قم اور کاشان ،شیعوں کا مرکز تھا ، لیکن ایران کے دوسرے شہروں کے مقابلہ میں یہ شہر بہت چھوٹے تھے ۔
بروکلمان نے کہا ہے : شاہ اسماعیل صفوی نے ”الوند“ پر فتح حاصل کرنے کے بعد ”تبریز“ کی طرف رخ کیا تو تبریز میں علمائے شیعہ نے اس کو خبر دی کہ اس شہر کے رہنے والے دو تہائی افراد جن کی تعداد تین لاکھ ہے ،اہل سنت ہیں(۳) ۔
1 . الخوارج والشیعة : ص241 ـ 248.
2 . حدید : 26.
3-سیماى عقاید شیعه، ص43.