محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
مرد کے لیے کب شادی کرنا واجب ہے
کیا مردوں کےلیے شادی کرنا واجب ہے ؟
الحمد للہ
مردوں کے احوال ومعاملات مختلف ہونے کی وجہ سے شادی کا حکم بھی مختلف ہوگا ، جوشادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اوراسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہوتو ایسے شخص پر شادی کرنا واجب ہے ، کیونکہ نفس کو حرام سے بچانا اوراس کی عفت وعصمت واجب ہے جو کہ شادی کے بغیر ممکن نہیں ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
وہ شخص جو شادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اوربغیر شادی کے رہنے سے اسے اپنے نفس اوردین میں ضرر ونقصان کا اندیشہ ہو اوراس نقصان سے شادی کے بغیر بچنا ممکن نہ ہو تو ایسے شخص پر شادی کے وجوب میں کوئي بھی اختلاف نہیں ہے ۔
اورمرداوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " الانصاف " میں کہا ہے کہ :
جسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو اس کی حق میں نکاح کرنا واجب ہے اس میں ایک ہی قول ہے کوئي دوسرا قول نہیں ، اوریہاں پر عنت سے مراد زنا ہے اورصحیح بھی یہی ہے ، اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ زنا سے ہلاکت میں پڑنے کو العنت کہتےہیں ۔
دوم : اس سے مراد ہے کہ اسے اپنے آپ کو محظور غلط کام میں پڑنے کا خدشہ ہو ، جب اسے یہ علم ہویا اس کا گمان ہو کہ وہ اس میں پڑ جائے گا ۔ دیکھیں الانصاف ( 8 ) کتاب النکاح ، احکام النکاح ۔
اور اگر اس میں شادی کی قوت تو ہو لیکن بیوی پر خرچہ کرنے کی سکت نہیں تو پھر اسے اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان کافی ہے :
{ اورجو لوگ نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ عفت وعصمت اختیار کریں حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے } ۔
اوراسے چاہیے کہ وہ روزے بھی کثرت سے رکھے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اسے شادی کرنی چاہیے کیونکہ یہ آنکھوں کی نیچا کرتا ہے اورشرمگاہ کی حفاظت کا باعث ہے ، اورجو طاقت نہيں رکھتا اسے روزے رکھنے چاہيیں یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) ۔
عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے ابوالزوائد کو کہا تھا : یا توتجھ میں شادی کرنے کی طاقت ہی نہیں یا پھر فسق وفجور کی وجہ سے شادی نہیں کرتا ۔ دیکھیں فقہ السنۃ ( 2 / 15 - 18 ) ۔
اور شادی کے بغیر رہ کر نظر یا بوس وکنار کرکے معاصی کرنے والے پر بھی شادی کرنا واجب ہے ، جب مرد یا عورت کویہ علم ہو یا اس کا ظن غالب ہو کہ اگر وہ شادی نہیں کرے گا تو زنا کا مرتکب ہوگا یا پھر کسی اور غلط کام میں پڑے گا یا پھر ہاتھ سے غلط کاری کرے گا تو ایسے مرد وعورت پر بھی شادی کرنا واجب ہے ۔
اورایسےشخص سے بھی شادی کرنے کا وجوب ساقط نہیں ہوتا جسے یہ علم ہوکہ وہ شادی کر کے بھی ممنوع کام ترک نہيں کرے گا ، اس لیے کہ شادی کی حالت میں وہ حلال کام کے ساتھ ممنوع اورحرام کام سے مشغول رہے گا ،اگرچہ بعض اوقات اس کا ارتکاب ہوسکتا ہے لیکن غیر شادی شدہ تو ہر وقت معصیت وگناہ کے لیے فارغ ہوتا ہے ۔
اوراب موجودہ دورکے حالات اور جو کچھ اس دور میں فسق وفجور اورفحش کام پائے جاتے ہیں ان کو دیکھنے اورغوروفکر کرنے والا تو یقینی طور پر مطمئن ہوگا کہ ہمارے دورمیں باقی دوسرے ادوار کی بنسبت شادی کرنا زيادہ واجب ہے ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ ہمارے دلوں کو پاک صاف رکھے اورہمارے اورحرام کے درمیان جدائي اوردوری ڈال دے ، اورہمیں عفت وعصمت عطا فرمائے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے آمین یا رب العالمین ۔
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
کیا مردوں کےلیے شادی کرنا واجب ہے ؟
الحمد للہ
مردوں کے احوال ومعاملات مختلف ہونے کی وجہ سے شادی کا حکم بھی مختلف ہوگا ، جوشادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اوراسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہوتو ایسے شخص پر شادی کرنا واجب ہے ، کیونکہ نفس کو حرام سے بچانا اوراس کی عفت وعصمت واجب ہے جو کہ شادی کے بغیر ممکن نہیں ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
وہ شخص جو شادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اوربغیر شادی کے رہنے سے اسے اپنے نفس اوردین میں ضرر ونقصان کا اندیشہ ہو اوراس نقصان سے شادی کے بغیر بچنا ممکن نہ ہو تو ایسے شخص پر شادی کے وجوب میں کوئي بھی اختلاف نہیں ہے ۔
اورمرداوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " الانصاف " میں کہا ہے کہ :
جسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو اس کی حق میں نکاح کرنا واجب ہے اس میں ایک ہی قول ہے کوئي دوسرا قول نہیں ، اوریہاں پر عنت سے مراد زنا ہے اورصحیح بھی یہی ہے ، اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ زنا سے ہلاکت میں پڑنے کو العنت کہتےہیں ۔
دوم : اس سے مراد ہے کہ اسے اپنے آپ کو محظور غلط کام میں پڑنے کا خدشہ ہو ، جب اسے یہ علم ہویا اس کا گمان ہو کہ وہ اس میں پڑ جائے گا ۔ دیکھیں الانصاف ( 8 ) کتاب النکاح ، احکام النکاح ۔
اور اگر اس میں شادی کی قوت تو ہو لیکن بیوی پر خرچہ کرنے کی سکت نہیں تو پھر اسے اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان کافی ہے :
{ اورجو لوگ نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ عفت وعصمت اختیار کریں حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے } ۔
اوراسے چاہیے کہ وہ روزے بھی کثرت سے رکھے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اسے شادی کرنی چاہیے کیونکہ یہ آنکھوں کی نیچا کرتا ہے اورشرمگاہ کی حفاظت کا باعث ہے ، اورجو طاقت نہيں رکھتا اسے روزے رکھنے چاہيیں یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) ۔
عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے ابوالزوائد کو کہا تھا : یا توتجھ میں شادی کرنے کی طاقت ہی نہیں یا پھر فسق وفجور کی وجہ سے شادی نہیں کرتا ۔ دیکھیں فقہ السنۃ ( 2 / 15 - 18 ) ۔
اور شادی کے بغیر رہ کر نظر یا بوس وکنار کرکے معاصی کرنے والے پر بھی شادی کرنا واجب ہے ، جب مرد یا عورت کویہ علم ہو یا اس کا ظن غالب ہو کہ اگر وہ شادی نہیں کرے گا تو زنا کا مرتکب ہوگا یا پھر کسی اور غلط کام میں پڑے گا یا پھر ہاتھ سے غلط کاری کرے گا تو ایسے مرد وعورت پر بھی شادی کرنا واجب ہے ۔
اورایسےشخص سے بھی شادی کرنے کا وجوب ساقط نہیں ہوتا جسے یہ علم ہوکہ وہ شادی کر کے بھی ممنوع کام ترک نہيں کرے گا ، اس لیے کہ شادی کی حالت میں وہ حلال کام کے ساتھ ممنوع اورحرام کام سے مشغول رہے گا ،اگرچہ بعض اوقات اس کا ارتکاب ہوسکتا ہے لیکن غیر شادی شدہ تو ہر وقت معصیت وگناہ کے لیے فارغ ہوتا ہے ۔
اوراب موجودہ دورکے حالات اور جو کچھ اس دور میں فسق وفجور اورفحش کام پائے جاتے ہیں ان کو دیکھنے اورغوروفکر کرنے والا تو یقینی طور پر مطمئن ہوگا کہ ہمارے دورمیں باقی دوسرے ادوار کی بنسبت شادی کرنا زيادہ واجب ہے ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ ہمارے دلوں کو پاک صاف رکھے اورہمارے اورحرام کے درمیان جدائي اوردوری ڈال دے ، اورہمیں عفت وعصمت عطا فرمائے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے آمین یا رب العالمین ۔
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد