موت کے بعد بھی حیات ہے لیکن وہ برزخی ہے۔ اسے دنیاوی حیات پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ قبر میں حیات ہے تو جزا و سزا ہے لیکن یہ دنیاوی حیات نہیں ہے بلکہ برزخی ہے۔ ہاں اگر کوئی قبفر میں دنیاوی حیات کا قائل ہے تو سخت غلطی پر ہے۔ انسان کی حیات کئی قسم پر ہے، ہر ایک قسم کے اپنے احوال اور کیفیات ہیں۔
ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے محض روح کا وجود
ماں کے پیٹ میں حالت جنین میں انسان کا وجود و حیات
ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد دنیا میں دنیاوی حیات و وجود
روح نکل جانے کے بعد قبر میں برزخی حیات
صور پھونکے جانے کے بعد اخروی حیات و وجود
ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾
اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾
جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے
اسی طرح انبیاء کے بارے مروی ہے کہ وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن یہ حیات اور عمل برزخی ہے جیسا کہ شہداء کی ارواح کے بارے روایات میں مروی ہے کہ جنت میں چرتی چگتی پھرتی ہیں۔
10 - الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 621
خلاصة حكم المحدث: إسناده قوي
11 - الأنبياءُ أحياءٌ في قبورِهم يصلون .
الراوي: - المحدث: الألباني - المصدر: أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
12 - الأنبياءُ أحياءٌ في قبورِهِم يصلُّونَ
الراوي: - المحدث: الألباني - المصدر: التوسل - الصفحة أو الرقم: 59
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
13 - الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790
خلاصة حكم المحدث: صحيح