• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مرض، سفر یا بارش کے سبب جمع بین الصلاتین کرنا جائز ھے؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تحقیق حدیث کے زمرہ میں محترم بھائی @عمر اثری نے درج ذیل سوال کیا ہے :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
ایک بھائ کا ایکسیڈنٹ ھو گیا اس بھائ نے مسئلہ پوچھا کہ کیا وہ جمع بین الصلاتین کر سکتا ھے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مقیم آدمی کا ضروری کام کی وجہ سے دو نمازوں کا جمع کرنا اور اسی طرح بیمار آدمی کا بھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مقیم آدمی کسی ضروری کام کی وجہ سے بعد والی نماز پہلے ادا کر سکتا ہے ؟ آدمی کو علم ہے کہ مجھے اس کام میں کافی وقت لگے گا اور نمازوں کو جمع کر لے۔
۲…کیا بیمار آدمی نماز کو جمع کر سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مقیم آدمی بسا اوقات جمع صوری کر سکتا ہے ۔ مقیم آدمی کے لیے جمع تقدیم و جمع تاخیر دونوں کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ ہاں مسافر کے لیے جمع تقدیم و جمع تاخیر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
۲…بیماری یا بارش کی وجہ سے جمع تقدیم اور جمع تاخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ رہی جمع صوری تو وہ بغیر عذر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے ظہر اور عصر(اسی طرح) مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کا مقصد کیا تھا تو انہوں نے فرمایا تاکہ آپ اُمت کو حرج اور تکلیف میں نہ ڈالیں۔ (مسلم،کتاب صلاة المسافرین و قصرھا ،باب جواز جمع بین الصلوٰتین فی الحضر ، ترمذی،کتاب الصلوٰة، باب ما جاء فی الجمع بین الصلوتین فی الحضر)
عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں عصر کے بعد ہمیں خطبہ دینا شروع کیا ، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے چمکنے لگے کسی نے کہا کہ نماز(مغرب) کا وقت ہو چکا ہے ، آپ نے فرمایا مجھے سنت نہ سکھاؤ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر اور عصر ، مغرب اور عشاء ملا کر پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔عبداللہؒ بن شقیق کہتے ہیں کہ مجھے شبہ پیدا ہوا ،میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے ان کی تصدیق کی۔
یعنی کہ نا گزیر قسم کے حالات میں حالت اقامت میں بھی دو نمازیں جمع کر کے پڑھی جا سکتی ہیں تاہم شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں ہے جیسے کاروباری لوگوں کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کر لیتے ہیں یہ صحیح نہیں۔ بلکہ سخت گناہ ہے ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی پڑھنا ضُروری ہے سوائے نا گزیر حالات کے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بارش کے موقع پر مؤذن کو فرماتے کہ وہ کہے«
اَلَا صَلُّوْا فِیْ رِحَالِکُمْ » ’’خبردار! گھروں میں نماز پڑھو۔‘‘ (ابو داؤد،کتاب الصلاة، باب التخلف عن الجماعة فی اللیلة الباردة)

 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حضر میں نمازیں جمع کرنے کی حدیث صحیح ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضر میں نمازیں جمع کرنے کی حدیث صحیح ہے؟ نیز اس جمع کا کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام ترمذی رحمہ اللہ کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنی جامع میں صرف معمول بہ روایات لائیں گے ، اگرچہ اہل علم کا مختصر گروہ ہی اس پر عمل کرتا ہو، البتہ دو احادیث اس شرط پر نہیں ہیں۔ ایک تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے مغرب و عشاء اور ظہر و عصر اکٹھی پڑھیں۔ دوسری حدیث اِذَا شَرِبَ الْخَمَرَفَا جْلِدُوْہُ فَاِنْ عَادَ فِی الرَّابِعَۃِ فَاقْتُلُوْہٗیعنیشراب پینے والے کو درے لگاؤ البتہ اگر وہ چوتھی مرتبہ اس جرم کا مرتکب ہو تو اسے قتل کردو۔
جہاں تک مؤخر الذکر حدیث کا تعلق ہے اس کا نسخ تو خود آنحضرتﷺ سے ثابت ہے۔ چنانچہ اس حدیث کے بعد ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول روایت کیا ہے کہ آپ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تھی آپﷺ نے اسے درّے لگوائے لیکن قتل نہیں کیا اسی طرح ابوداؤد اور ترمذی میں قبیصہ بن ذویب کی روایت میں ہے۔ ثُمَّ اُتی النَّبی ﷺ یَعْنِیْ فِی الرَّاِبعَۃِ یعنی آپ نے کوڑے لگوائے لیکن قتل نہیں کیا۔ مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یوں روایت کرتے ہیں۔ فَاُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بِسُکْراَنَ فِی الرَّابِعَۃِ فخلی سَبِیْلَہٗ یعنی آپ چوتھی مرتبہ شراب پینے والا لیا گیا آپﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔
اول الذکر حدیث بلا خوف ولا مطر کے الفاظ سے بھی مروی ہے۔ اور بلا خوف و لا سفر بھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ تینوں الفاظ اکٹھے کسی حدیث میں بھی نہیں آئے۔ مشہور یہی ہے۔ بلا خوف ولا سفر، اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا کہ اس طرح نمازیں جمع کرنے سے آپ کا کیا مقصد ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ آپ کی امت تنگی محسوس نہ کرے۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ روایت طبرانی اوسط کبیر میں اور ہیثمی مجمع الزوائد میں بایں الفاظ مروی ہے:
جَمَع رسول اللّٰہ ﷺ بین الظھروا لعصر والمغرب والعشاء فقیل لہ فی ذلک فقال صنعت ذالک لئلا تحرج امتی
یعنی آپ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھا تو لوگوں نے سبب پوچھا فرمایا امت پر وسعت امر ظاہر کرنے کے لیے۔ اس روایت کی سند میں ابن عبدالقدوس کو ضعیف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ ضعف قادح نہیں ہے اس لیے کہ اس لیے متعلق کہا جاتا ہے کہ ضعفاء سے روایت کرتا ہے یا یہ کہ شیعی تھا اور اس روایت میں اعمش سے روایت کرتا ہے کسی ضعیف سے نہیں جہاں تک تشیع کا تعلق ہے وہ اس وقت تک قادح نہیں ہے۔ جب تک ایسا خاص سے متجاوز نہ ہو، ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ بخاری رحمہ اللہ نے اسے صدوق قرار دیا اور ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے لاباس بہ فرمایا۔ الغرض یہ حدیث جب مسلم وغیرہ میں مروی ہے۔ تو اس کی صحت میں شک نہیں۔
جو لوگ اس حدیث سے جمع کو مطلقاً جائز سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے بشرطیکہ عادت نہ بنا لے۔ فتح الباری میں ہے کہ ابن سیرین رحمہ اللہ، ربیعہ، ابن منذر اور فقال الکبیر کا یہی مذہب تھا۔ خطابی رحمہ اللہ نے بعض اہل حدیث کی طرف منسوب کیا ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ بغیر کسی عزر کے جائز نہیں ہے۔ صاحبِ بحر ذخار نے بعض اہل علم کے حوالہ سے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ جمہور اس حدیث کے بہت سے جوابات دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بوجہ مرض ایسا کیا۔ نووی رحمہ اللہ نے اسے قوی قرار دیا ہے لیکن حافظ فرماتے ہیں۔ یہ جواب درست نہیں اس لیے کہ ایسی صورت میں صرف آنحضرتﷺ کو نماز ادا کرنی چاہیے تھی۔ حالاں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تصریح کی ہے کہ یہ نمازیں باجماعت ادا کی تھیں۔ یہ جواب بھی دیا گیا ہے کہ بادل چھائے ہوئے تھے ظہر کی نماز ادا کی، بادل ہٹا تو معلوم ہوا کہ عصر کا وقت ہوچکا ہے۔ تو عصر بھی ادا کی۔ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ احتمال ظہر و عصر میں تو ممکن ہے۔ لیکن مغرب و عشاء میں نہیں اس لیے یہ جواب بھی درست نہیں، حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مغرب کا وقت معتمد ہے اس لیے یہ احتمال وہاں بھی موجود ہے۔
تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ جمع صوری تھی۔ ظہر کو آخر وقت اور عصر کو اوّل وقت میں پڑھا۔ نووی رحمہ اللہ نے اسے بھی ضعیف اور باطل قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس جواب کو قرطبی نے پسند کیا ہے۔ امام الحرمین رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار دیا ابن ماجشون اور طحاوی نے بھی پسند کیا۔ ابن سید الناس فرماتے ہیں کہ یہی جواب صحیح ترین ہے اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والا ابو الشعشاء اس کا ناقل ہے۔ شوکانی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ بدر تمام شرح بلوغ المرام میں ہے کہ اس حدیث سے جواز جمع پر استدلال کرنا درست نہیں اس لیے کہ اس میں تقدیم یا تاخیر کا یقین نہیں، کسی احتمال کو راجح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لہٰذا مقررہ اوقات سے بغیر عذر کے عدوں ممکن نہیں۔ البتہ مسافر کا ان احکام سے استثناء ثابت ہے یہی جواب بہتر ہے۔
بعض آثار صحابہ و تابعین سے بھی بعض لوگوں نے جمع مطلق پر استدلال کیا ہے۔ لیکن ان آثار سے حجت نہیں پکڑنی چاہیے اس لیے کہ اس مسئلہ میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔
بعض لوگ اس جمع کو صوری کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت حدیث میں ہے۔ نسائی کی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے صراحۃً فرمایا:

صَلّیْتُ مَعَ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ بِالْمَدِیْنَۃِ ثَمَانِیًا جَمْعًا وَّسَبْعًا جَمْعًا اَخّرَا لظَّھَر وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَاَخّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجّلَ الْعِشَائَ۔

یعنی آپ کے ساتھ میں نے آٹھ رکعت بھی اکٹھی پڑھیں اور سات بھی وہ یوں کہ ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم اسی طرح مغرب کو ذرا دیر سے اور عشاء کو جلدی پڑھا۔
تعجب ہے کہ نووی رحمہ اللہ نے اس تاویل کو ضعیف قرار دیا حالاں کہ متن حدیث میں تصریح موجود ہے۔ ایک ہی قصہ میں اگر ایک روایت مطلق ہو اور دوسری مقید تو مطلق کو مقید بہ محمول کرنا چاہیے۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں بھی یہ مذکور نہیں کہ جمع کس وقت میں کی گئیں۔ اب یا تو اس کو مطلق رکھا جائے تو بغیر کسی عذر کے نماز کو اس کے وقت سے نکالنا لازم آتا ہے۔ یا اسے مقید و مخصوص سمجھا جائے اب یہ لازم نہیں ہے۔ لہٰذا احادیث میں تطبیق کی یہی صورت اولیٰ ہے کہ یہ جمع صوری تھی۔ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ جمع ہے کیوں کہ ہر نماز اصل میں اپنے وقت میں ہوئی، جیسے بخاری، امام مالک، نسائی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے۔
آپ نے مدینہ میں جو نمازیں جمع کرکے پڑھی ہیں تو اس راوی حدیث (ابن عباس رضی اللہ عنہ) کی تصریح بعض طرق میں موجود ہے کہ یہ جمع صوری تھی اس کی وضاحت ہم نے ایک مستقل رسالہ میں کی ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ بلا عذر نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں یا نہیں۔ البتہ صحیح احادیث سے نمازیں وقت پر پڑھنے کا حکم ثابت ہے اور دوسرے اوقات میں پڑھنے سے نہی بھی وارد ہے۔
نیل الاوطار میں ہے۔ جمع صوری کے مؤیدات میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی ہے جسے بخاری، امام مالک، نسائی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے:
مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ صَلّٰی صَلٰوۃً لِغَیْرِ مِیْقَاتِھَا اِلاَّ صَلٰوتَیْنِ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرب والْعِشَائِ بالمزدلفۃ وَصَلیَّ الْفَجْرَ یَوْمَئِذٍ قَبْلَ مِیْقَاتِھَا
آنحضرت ﷺ نے صرف دو نمازیں وقت کے بغیر پڑھیں ایک مزدلفہ میں کہ مغرب و عشاء کو جمع کیا اور دوسرے اسی دن نمازِ فجر کو وقت سے پہلے پڑھ لیا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی مدینہ میں جمع کرنے کی روایت کے راویوں میں سے ہیں۔ اور یہاں فرما رہے ہیں آپﷺ نے صرف مزدلفہ میں نمازیں جمع کیں۔ ظاہر ہے ۔ تعارض سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مدینہ والی روایات کو جمع صوری پر محمول کیا جاوے۔

ابن جریر کہتے ہیں جمع صوری کی تائید ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فکان یوخر الظھر ویعجل العصر فیجمع بینھما ویؤخر المغرب ویعجل العشاء فیجمع بینھما (مسند عبدالرزاق) یعنی آپ ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کر لیتے اسی طرح مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کرکے اکٹھی پڑھتے۔ ظاہر ہے یہ جمع صدی ہے۔ ان تمام روایات سے جمع صوری کے اقوال کو تقویت ملتی ہے۔ مزید برآں اصول کے مطابق لفظ جمع نمازوں کے اوقات کو شامل نہیں بلکہ اس سے مراد صرف ہیئت احتماعیہ ہے۔ چنانچہ اصول کی سب کتابوں مثلاً المنتہیٰ اور اس کی شرح الغایہ اور اس کی شرح میں ہے۔ اور یہ ہیئت اجتماعیہ ہر قسم کی جمع میں حاصل ہے۔ تقدیم ہو یا تاخیر اور خواہ صوری ہو۔ لیکن خیال رہے ان تین اقسام میں سے کوئی بھی باقی دو کو شامل نہ ہوگی۔ اس لیے ثابت شدہ اصول ہے کہ فعل مثبت میں عموم نہیں ہوتا۔ اب ہم ان تین صورتوں میں سے صرف ایک مراد لے سکتے ہیں۔ لیکن اس کی تعین دلیل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ جمع صوری ہونے کے دلائل و مویذات (جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں) موجود ہیں۔ لہٰذا یہاں صرف ہی مراد لی جاسکتی ہے۔
اس کے بعد شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث نقل کی ہے: مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الصلوٰتین مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَلّی بَابًا مِنْ اَبْوَابِیعنی جس نے بلا عذر نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ یہ حدیث صحیح نہیں جیسا کہ خود ترمذی نے کتاب العلل میں لکھا ہے۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ نماز وقت پر چاہیے اور عذر کے بغیر نماز جمع کرنا درست نہیں، پھر فرماتے ہیں ’’ واضح ہے یہ حدیث (جمع فی المدینہ) صحیح ہے جمہور کے اس پر عمل ترک کردینے سے اس کی صحت پر اثر نہیں آتا صرف استدلال ساقط ہے۔ اگرچہ ترمذی کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے بھی یہ مذہب اختیار نہیں کیا۔ لیکن کئی دوسروں نے بعض اہل علم کی طرف اس مذہب کو منسوب کیا ہے۔ اور مثبت کو ترجیح حاصل ہے۔ الغرض احادیث جمع میں صرف جمع صوری مراد ہے جسے تفصیل مطلوب ہو وہ ہمارا رسالہ ’’ تشنیف السمع بابطال اولۃ الجمع‘‘ پڑھے۔

امام علامہ ابو البرکات مجدالدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ حرنی ’’ منتقی‘‘ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں۔ یہ حدیث اپنے الفاظ سے دلالت کرتی ہے کہ بارش، خوف یا بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کے ظاہر (جمع بلا خوف ولا مطر) کے خلاف اجماع ہوچکا ہے۔ نیز اوقات کی احادیث بھی اس کے متعارض میں لہٰذا صرف مذکورۃ فی الصدر دلالت باقی رہ جاتی ہے۔ صحیح احادیث سے مستحاضہ کے لیے نماز جمع کرنا ثابت ہے۔ لیکن استحاضہ بیماری ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں روایت کیا ہے کہ نافع فرماتے ہیں جب اُمراء مغرب اور عشاء کو بارش میں جمع کرتے تو ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ جمع کرلیتے۔ اثرم نے اپنی سنن میں ابو سلمہ بن عبدالرحمن کا قول نقل کیا ہے کہ یہ سنت سے ہے کہ جب بارش ہو تو مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا جائے۔
الغرض تمام دلائل کو سامنے رکھ کر یہ واضح ہوا کہ حضر میں بلا عذر جمع بین الصلوتین جائز نہیں اور آپﷺ نے جو جمع کی وہ صوری تھی جو اس جمع کا قائل ہے وہ بھی اسے عادت بنا لینے کو جائز نہیں کہتا۔ ثابت ہوا کہ جمہور کے مذہب پر عمل ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب الدلیل الطالب علی ارجح المطالب ص ۳۴۶ تا ص ۳۵۰

فتاویٰ علمائے حدیث
(جلد 04 ص 218-222 )

محدث فتویٰ

 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
هل يجوز للمريض الجمع بين الصلوات ؟
تاريخ: 17/2/09۔۔رقم الفتوى: 145
کیا مریض کیلئے نمازیں جمع کرکے ادا کرنا جائز ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب :

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين وبعد :
يجوز الجمع بين الصلوات من أجل المرض , قال به المالكية والحنابلة وبعض الشافعية , وهذه بعض أقوالهم :
قال ابن قدامة في ( المغني 9 / 119 ) : " يجوز الجمع لأجل المرض وهو قول عطاء ومالك ..
" قال الإثرم : قيل لأبي عبد الله : المريض يجمع بين الصلاتين ؟ فقال : إني لأرجو له ذلك إذا ضعف وكان لا يقدر إلا على ذلك , لما روينا من حديث ابن عباس رضي الله عنهما قال : جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء من غير خوف ولا سفر , وفي رواية : من غير خوف ولا مطر . [ صحيح مسلم 1/490 ] .
قال الإمام أحمد بن حنبل : هذا عندي رخصة للمريض والمرضع . وقال ابن قدامة في ( الكافي 1/490 ) : قال أصحاب أحمد : أجمعنا أن الجمع لا يجوز لغير عذر فلم يبق إلا المرض .
قال ابن قدامة : والمرض المبيح للجمع هو ما يلحقه بتأدية كل صلاة في وقتها وفيها مشقة وضعف , والمريض مخير في التقديم والتأخير كالمسافر .
قال النووي في ( المجموع 4/383 ) : قال الرافعي : قال مالك وأحمد : يجوز الجمع بعذر المرض والوحل , وبه قال بعض أصحابنا منهم : أبو سليمان الخطابي والقاضي حسين واستحسنه الروياني في الحلية , وقلت : وهذا الوجه قوي جداً ويسند له بحديث ابن عباس , وحاجة المريض والخائف آكد من الممطور .
قال في ( المدونة 1/214 ) : رأى مالك في المريض أن يجمع بين الصلوات إنما ذلك لصاحب البطن وما شابهه من المرض أو صاحب العلة الشديدة التي تضر به أن يصلي في وقت كل صلاة ويكون هذا أرفق به أن يجمعها لشدة ذلك عليه .
وعلى ما تقدم فإنه يجوز للمريض الجمع بعذر المرض بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء وهو مخير في التقديم والتأخير , إذا كان يلحقه بتأدية كل صلاة في وقتها مشقة وضعف أو إغماء أو ألم شديد أو عجز عن أدائها في وقتها . قال تعالى : { وما جعل عليكم في الدين من حرج } .
والله تعالى أعلم


ترجمہ :
جواب :
اللہ تعالی کی حمد و ثناء اور پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے بعد :
واضح ہو کہ دو نمازوں کو مرض کے سبب جمع کرکے پڑھنا جائز ہے ،مالکیہ ، حنابلہ اور بعض شافعیہ کا یہی قول ہے ،ان میں بعض فقہاء کے اقوال پیش ہیں :
امام ابن قدامہ حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ مرض کے سبب دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے ،امام مالکؒ اور امام عطا کا یہی قول ہے "
اور علامہ اثرم ؒ نقل کرتے ہیں کہ امام ابو عبداللہ احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا گیا کہ کیا مریض دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھ سکتا ہے ؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ :میں سمجھتا ہوں کہ اگر مرض میں کمزوری کے سبب اگر ایسا کرے گا تو درست ہے ،جیسا کہ ہمیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنچی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع کرکے پڑھیں ،(صحیح مسلم )
امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں میرے نزدیک یہ رخصت مریض اور دودھ پلانے والی عورت کیلئے ہے ۔
اور امام ابن قدامہ کہتے ہیں :ہمرا اس بات پر اتفاق ہے کہ بغیر عذر (فرض ) نماز جمع نہیں ہوسکتی ،لیکن مرض (جمع کا سبب ) بنتا ہے ۔
ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ : وہ مرض جس کے سبب دو نمازیں جمع کرنا جائز ہے اس مرض سے ایسی بیماری ہے جس سے ہر فرض نماز کو اس کے مقررہ وقت میں ادا کرنے میں مشقت و کمزوری لاحق ہو ، اور اس صورت میں مریض کو اختیار ہے کہ جمع تقدیم و جمع تاخیر میں جسے چاہے اختیار کرلے ۔
اور امام نوویؒ "المجموع شرح المھذب " میں لکھتے ہیں کہ امام رافعیؒ کہتے ہیں کہ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کا قول و مذہب ہے کہ عذرِ مرض کے سبب دو نمازیں جمع کرنا جائز ہے ، اور بعض شافعی فقہاء کا بھی یہی مذہب ہے ان میں امام ابو سلیمان خطابیؒ اورقاضی حسینؒ شامل ہیں ،اور امام الرویانیؒ نے "الحلیہ " میں اسی قول کواچھا کہا ہے ، اور میں (نوویؒ ) کہتا ہوں کہ یہی بات (کہ مرض دو نمازوں کے جمع کا شرعی سبب بنتا ) ہی قوی ہے ، مریض کی ضرورت بارش والے سے زیادہ سخت ہے ،

المجلس الإسلامي للإفتاء – الداخل الفلسطيني
الناصرة – مركز بلال بن رباح
http://www.fatawah.net/Fatawah/145.aspx
 
Last edited:
شمولیت
فروری 05، 2019
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
30
السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته

کیا بارش میں جمع بین الصلاتین ہو سکتی ہے؟
براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته

کیا بارش میں جمع بین الصلاتین ہو سکتی ہے؟
براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ــــــــــــــــــــــ
کیا بارش میں دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھ سکتے ہیں ؟
تحریر : شیخ غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری
سوال : بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب: بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے، جیسا کہ :
◈ امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يختلف علماء الحجاز ان الجمع بين الصلاتين فى المطر جائز.
”علماءِ حجاز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بارش میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة 85/2 ]
◈ سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ تعلق کہتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا :
جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء بالمدينة، فى غير خوف، ولا مطر (وفي لفظ : ولا سفر)، قلت لابن عباس : لم فعل ذلك ؟ قال : كي لا يخرج أمته .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو بغیر کسی خوف اور بارش (ایک روایت میں بغیر کسی خوف اور سفر) کے جمع کیا۔ (سعید من جبیر کہتے ہیں : ) میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا : اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی امت پر کوئی مشقت نہ ہو۔ “ [صحيح مسلم : 54/705، 50]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے :
صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا، وسبعا جميعا، الظهر والعصر، والمغرب والعشاء .
”میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ظہر و عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشا کی سات رکعات جمع کر کے پڑھیں۔ “ [ صحيح البخاري : 543، 1174، صحيح مسلم : 55/705]
◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں :
والجمع الذى ذكره ابن عباس لم يكن بهذا ولا بهذا، وبهذا استدل أحمد به على الجمع لهذه الأمور بطريق الأولى، فإن هذا الكلام يدل على أن الجمع لهذه الأمور أولى، وهذا من باب التنبيه بالفعل، فانه اذا جمع ليرفع الحرج الحاصل بدون الخوف والمطر والسفر، فالخرج الحاصل بهذه أولى أن يرفع، والجمع لها أولى من الجمع لغيرها.
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جس جمع کا ذکر کیا ہے، وہ نہ خوف کی وجہ سے تھی، نہ بارش کی وجہ سے۔ اسی حدیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خوف اور بارش میں تو بالاولیٰ جمع ہو گی. اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں نمازوں کو جمع کرنا بالاولیٰ جائز ہے۔ یہ تنبیہ بالفعل کی قبیل سے ہے . جب خوف، بارش اور سفر کے بغیر جو مشقت ہوتی ہے، اس مشقت کو ختم کرنے کے لیے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، تو ان اسباب کی مشقت کو ختم کرنا تو بالاولیٰ جائز ہو گا، لہٰذا خوف، بارش اور سفر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا دیگر امور کی بنا پر جمع کی نسبت زیادہ جائز ہو گا۔ [مجموع الفتاوي: 76/24 ]
◈ محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول فى غير خوف ولا مطر کی شرح میں فرماتے ہیں :
فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدم صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل
”یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے ! اگر ایسا نہ ہوتا، تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔“ [ ارواءالغليل : 3 40 ]
◈ نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كانت أمراء نا إذا كانت ليلة مطيرة، أبطأوا بالمغرب وعجلوا بالعشاء قبل أن يغيب الشفق، فكان ابن عمر يصلي معهم، لا يرى بذلك بأسا، قال عبيد الله : ورأيت القاسم، وسالما يصليان معهم، فى مثل تلك الليلة.
”جب بارش والی رات ہوتی، تو ہمارے امرا مغرب کو تاخیر سے ادا کرتے اور شفق غروب ہونے سے پہلے عشا کے ساتھ جمع کر لیتے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان کے ساتھ ہی نماز پڑھتے تھے اور اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے . عبید اللہ بیان کرتے ہیں : میں نے قاسم اور سالم رحمها اللہ کو دیکھا کہ وہ دونوں ان کے ساتھ ایسی رات میں مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے .“ [المؤطأ للإمام مالك : 331، السننن الكبريٰ للبيهقي : 168/3، و سنده صحيح ]
◈ ہشام بن عروہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رأيت أبان بن عثمان يجمع بين الصلاتين فى الليلة المطيرة؛ المغرب والعشاء، فيصليهما معا، عروة بن الزبير، وسعيد بن المسيب، وأبو بكر بن عبدالرحمن، وأبو سلمة بن عبدالرحمن، لاينكرونه .
”میں نے ابان بن عثمان رحمہ اللہ کو بارش والی رات مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع کرتے دیکھا. عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمٰن، ابوسلمہ بن عبدالرحمن رحمہ اللہ اس پر کوئی اعترض نہیں کرتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 234/2، السنن الكبريٰ للبيهقي : 168/3، 169، و سنده صحيح ]
◈ عبدالرحمن بن حرملہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
رايت سعيد بن المسيب يصلي مع الائمة، حين يجمعون بين المغرب والعشاء، فى الليلة المطيرة.
”میں نے امام سعید بن مسیب کو ائمہ کے ساتھ بارش والی رات میں مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 234/2، و سنده حسن ]
◈ ابومودود، عبدالعزیز بن ابوسلیمان رحمہ اللہ کہتے ہیں :
صليت مع أبى بكر بن محمد المغرب والعشاء، فجمع بينهما فى الليلة المطيرة.
”میں نے ابوبکر بن محمد کے ساتھ مغرب و عشا کی نماز پڑھی، انہوں نے بارش والی رات میں دونوں نمازوں کو جمع کیا تھا۔ “ [مصنف ابن ابي شيبه : 234/2، و سنده حسن ]
◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں :
فهذه الآثار تدل على أن الجمع للمطر من الأمر القديم، المعمول به بالمدينة زمن الصحابة والتابعين، مع أنه لم ينقل أن أحدا من الصحابة والتابعين أنكر ذلك، فعلم أنه منقول عندهم بالتوائر جواز ذلك.
”ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنا قدیم معاملہ ہے، جس پر صحابہ و تابعین کرام کے عہد میں مدینہ منورہ میں بھی عمل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ایک بھی صحابی سے اس پر اعتراض کرنا بھی منقول نہیں۔ اس ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین سے بالتواتر اس کا جواز منقول ہے ـ“ [ مجموع الفتاوٰي : 83/24 ]
◈ جناب عبدالشکور لکھنوی، فاروقی، دیوبندی لکھتے ہیں :
”امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک سفر میں اور بارش میں بھی دو نمازوں کا ایک وقت میں پڑھ لینا جائز ہے اور ظاہر احادیث سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے، لہٰذا اگر کسی ضرورت سے کوئی حنفی بھی ایسا کرے، تو جائز ہے۔ “ [علم الفقه، حصه دوم، ص : 150 ]
↰ یاد رہے کہ بارش کی صورت میں جمع تقدیم و تاخیر، دونوں جائز ہیں۔ تقدیم میں زیادہ آسانی ہے، نیز جمع صوری کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا بیمار شخص دو نمازوں کو جمع کر سکتا ہے؟

سوال
ایک مریض کو معدے کا کینسر ہے، اس کے پیٹ میں ایک سوراخ رکھا گیا ہے جہاں سے فضلہ وغیرہ نکالا جاتا ہے، مریض کا سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لئے دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب

الحمد للہ:

جی ہاں ایسا مریض دو نمازوں کو جمع کر سکتا ہے، تو اس کے لیے وہ ظہر اور عصر کی نماز جمع کرے گا، اسی طرح مغرب اور عشا کی نماز جمع کر سکتا ہے، نیز اپنی سہولت کے مطابق جمع تقدیم یا جمع تاخیر دونوں کی اجازت ہے جس میں آسانی ہو وہی کر لے؛ کیونکہ بیماری کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات دو نمازوں کو جمع کرنے کے اسباب میں شامل ہیں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے استحاضہ والی عورت جسے ماہواری کے ایام میں بھی خون آتا رہتا ہے اسے اجازت دی تھی کہ وہ دو نمازوں کو جمع کر لے۔ اس حدیث کا ذکر سنن ابو داود: (287) اور جامع ترمذی: (128) میں ہے اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

اور استحاضہ بھی ایک بیماری ہے۔ امام احمد نے مریض شخص کے لئے دو نمازیں جمع کرنے کی دلیل یہ دی ہے کہ بیماری سفر سے زیادہ گراں ہوتی ہے، نیز انہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد سینگی لگوائی اور پھر مغرب و عشا کو جمع کر کے ادا کیا۔
کشاف القناع: (2/5)

نوٹ:

یہاں اس بات کو سمجھ لیں کہ جس مریض کے لئے دو نمازیں اکٹھی کرنا جائز ہو تو وہ دونوں نمازیں مکمل ادا کرے گا ، قصر نہیں کرے گا؛ کیونکہ قصر نماز صرف مسافر کے لئے جائز ہے، تو کچھ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بیماری کے باعث حالت اقامت میں نمازیں اکٹھی پڑھے تو وہ قصر بھی کرے گا ، ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قصر نماز کا ایک ہی مخصوص سبب ہے اور وہ ہے سفر، لہذا نماز سفر کے علاوہ قصر نہیں ہو گی، جبکہ ضرورت اور عذر کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، لہذا اگر لمبے یا مختصر سفر میں نماز جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہو، اسی طرح بارش وغیرہ ،بیماری وغیرہ اور دیگر اسباب کی بنا پر نمازیں جمع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ امت سے مشکلات کا خاتمہ ہو" ختم شد
مجموع الفتاوی: (22/293)

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرمائے، اور انہیں صبر کے ساتھ اطمینان بھی عطا کرے، انہیں اس کا بہترین صلہ بھی نوازے۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب
 
Top