عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امام طبری رحمہ اللہ رافضی ہیں؟
امام طبری رحمہ اللہ اہل سنت کے عظیم امام گزرے ہیں، محدثین اہل سنت بالاتفاق ان کو اپنا بڑا مانتے اور ان کے نام سلام عقیدت پیش کرتے آئے ہیں، خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے آپ کو حافظ قرآن، ناسخ ومنسوخ کا عالم، فقیہ، اصول و فروع کا جامع اور اہل سنت کا امام قرار دیا ہے، خطیب کے بقول امام رحمہ اللہ نے اپنا کوئی نظریہ ایجاد نہیں کیا، بلکہ ہر ہر معاملے میں انہوں نے سلف ہی سے رہنمائی لی ہے۔(تاریخ بغداد :2/163)
امام محمدبن اسحاق رحمہ اللہ جیسے ذی شان بزرگ اپنے شاگردوں سے کہا کرتے تھے کہ بغداد جائیو تو طبری سے علم ضرور لیجیو گا، امام دارمی رحمہ اللہ کو حنابلہ نے طبری رحمہ اللہ کے پاس جانے سے روک دیا، تو ابن اسحاق فرمانے لگے :
آپ نے بہت سارا علم ضائع کردیا ہے۔
( تاریخ دمشق لابن عساکر :52/195،وسندہ صحیح)
جب تفسیر طبری لکھی گئی تو امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی پڑھنے کے لئے منگوائی، پھر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا :
میں اس کتاب کو از اول تا آخر پڑھ چکا ہوں، میں نے روئے زمین پر طبری سے بڑا عالم دیکھا ہی نہیں، حنابلہ نے ان پر ظلم ڈھایا۔
( تاریخ بغداد : 2/163،وسندہ صحیح )
امام طبری رحمہ اللہ ائمہ اہل سنت میں سے ہیں، آپ کا عقیدہ، منہج اور نظریات، سب اہل سنت والے ہیں، آپ بڑے بڑے ائمہ حدیث کے شاگرد رہے، کئیوں کے استاذ ہونے کا شرف پایا، بہت سوں کے معاصر رہے، سب کا بیک جنبش قلم یہی فیصلہ تھا کہ طبری طبری ہیں۔
حافظ سلیمانی رحمہ اللہ نے ایک دفعہ شیعہ ابن جریر کے دھوکے میں آپ رحمہ اللہ کو بھی رافضی قرار دے دیا تھا، لیکن بعد والے ائمہ نے اس کی وضاحت کردی، اس کی تفصیلات استاذ محترم شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کے مضمون میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
یعنی اسلامی تاریخ میں سلیمانی کی اس غلط فہمی کے سوا، کسی شخص کے منہ سے، حتی کہ آپ کے معاصر ائمہ رجال کے منہ سے بھی آپ کے لئے جرح کا کوئی کلمہ نہیں نکلا اور آپ کے عقیدے و منہج پر انگلی نہیں اٹھائی گئی۔
ہمارے ہاں کے تازہ کار محققین مگر آپ رحمہ اللہ کو رافضی باور کروانےکے در پے ہیں، گویا ان محققین کے ذاتی خیالات سے اختلاف رکھنے والا ہر شخص گمراہ قرار ہے، اور شومئی قسمت کہ امام رحمہ اللہ بھی اسی چھری سے ذبح کئے گئے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ دنیا جہان میں جو بھی شخص ہمارے مزعومہ خیالات کے خلاف کسی روایت کا ذکر کرے گا، تو اس سے سنی ہونے کا حق چھین لیا جائے گا۔
اس حق کو چھیننے کے لئے الزام تراشیاں کرنی پڑیں، کریں گے، جھوٹ موٹ کے دلائل بنانے پڑے، بنائیں گے، حتی سب کچھ کر گزریں گے، لیکن اپنے پاوں پر پانی نہیں آنے دیں گے۔
ان کے تراشیدہ دلائل میں سے زیادہ تر تو دھونسو قسم کے ہوتے ہیں، مثلا : وہ کہتے ہیں کہ امام رحمہ اللہ نے فلاں فلاں روایات اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں، اور وہ روایات صحابہ کی شان میں کمی لاتی ہیں، سو، ان روایات کے ذکر کر دینے ہی کے جرم میں ان کو مسلک اہل سنت سے خارج کیا جاتا ہے۔
حالاں کہ اگر تاریخ طبری کا مقدمہ ہی پڑھئے تو امام رحمہ اللہ کا منہج معلوم ہوجاتا ہے، امام نے تاکید کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ لوگو ! کتاب پڑھتے وقت اس بات کا دھیان رکھنا کہ میں نے جو چیز جیسے اور جہاں سے سنی ہے، اس کتاب میں درج کردی ہے، اس میں وہ وہ باتیں بھی ہیں، جن کو دلیل نہیں کہا جاسکتا، عقل کی کسوٹی پرپوری اتر نے سے قاصر ہیں، وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، ثابت نہیں ہیں، قاری ان سے بدک جائے گا، لیکن میں نے اپنی کتاب میں درج کردیں ہیں۔
( تاریخ الطبری :5/337)
اب قاری کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے کہ اس کتاب میں سچ جمع کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا، بلکہ سچ جھوٹ جو ملا،کتاب میں درج کردیا گیا، ساتھ سند ذکر کردی گئی، تاکہ آپ پریشان نہ ہوں اور آسانی کے ساتھ جھوٹے کو پہچان لیں۔
اکثر ائمہ سنت کا یہی طریق رہا ہے، وہ جھوٹی بات کو صرف اس لئے لکھ دیتے تھے کہ ڈیٹا محفوظ رہ سکے اور یاد رہ جائے کہ فلاں جھوٹی بات فلاں جھوٹے شخص نے گھڑی ہوئی ہے۔
چنانچہ بات یہ ہے کہ اگر جھوٹی روایت کو پہچان کروانے کے لئے درج کردینا بھی رافضیت ہے تو یہ رافضیت تمام اہل سنت ائمہ میں پائی جاتی ہے، کوئی بھی اس رافضیت سے محفوظ نہیں ہے۔
یوں تو امام رحمہ اللہ کو رافضیانے کا عمل ایک صدی سے جاری ہے، لیکن پچھلے دو تین سال سے چند لوگوں نے مستقل طور پر ان کو رافضی بنانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے، اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ایک جھوٹ جب بار بار بولا جائے تو اچھا بھلا شخص بھی پریشان ہوجاتا ہے، ہم نے بھی اسی کشمکش میں امام طبری رحمہ اللہ کی کتب کا مطالعہ شروع کیا،تاکہ ان کے اصل نظریات کو دیکھا جاسکے۔
جب ان کی کتب کا مطالعہ کیا تو منہ سے بے اختیار الحمد للہ نکل گیا، کہ بخدا ! اگر طبری رحمہ اللہ اہل سنت میں سے نہیں ہیں تو دنیا میں سنیت پائی ہی نہیں جاتی۔
آپ کو اس دعوی میں جذباتیت کا عنصر نظر آتا ہے تو آپ بھی ان کی کتابوں کا مطالعہ کر لیجئے، سب سے پہلے تفسیر الطبری کو اٹھائیں :
سورت فاتحہ تا سورۃ الناس، ہر ہر آیت کی تفسیر کے سلسلے میں صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال درج کئے ہیں، پھر انہیں کا کہا مان کر اپنی رائے دی ہے۔
کوئی تفسیر صحابہ کے خلاف ہوئی تو واضح لفظوں میں ٹھکرا دی، فرمایا :
فإنه قول خطأ فاسدٌ، لخروجه عن أقوال جميع الصحابة والتابعين
''یہ تفسیر فاسد تفسیر ہے، کیوں کہ تمام صحابہ و تابعین کی بیان کردہ تفاسیر کے مخالف ہے۔''
(تفسیر الطبری : 1/221)
سورہ بقرہ آیت 75 میں اللہ نے فرمایا کہ :
اہل ایمان ! کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم اہل کتاب تم پر ایمان لے آئیں گے؟
تو امام طبری رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اہل ایمان سے محمدرسول اللہ ﷺ کے صحابہ مراد ہیں۔( تفسیر الطبری :2/244)
فسیکفیکہم اللہ '' کی تفسیر کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
محمد ﷺ ! یہ لوگ جو تجھے اور تیرے صحابہ کو یہودی و نصرانی ہونے کا مشورہ دیتے ہیں،اگر یہ تیرے صحابہ کے جیسا ایما ن نہ لائے تو اللہ ان سے کافی ہوجائے گا، یہ آپس میں فرقے فرقے ہوجائیں گے، لڑیں گے،اور کئی طرح کے عذاب میں مبتلا کردئے جائیں گے، اور یہ کاہے ہوگا؟ کیوں کہ یہ لوگ میرے نبی محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ سے حسد اور بغض رکھتے ہیں ۔( تفسیر الطبری : 3/116)
اسی طرح فرمایا :
وهذا وعدٌ من الله جل ثناؤه أصحابَ رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنصر على أعدائهم
''یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنےنبی کے صحابہ کو ان کے دشمنوں پر غالب کئے رکھے گا۔''
(تفسیر الطبری : 7/484)
{مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ} [الفتح: 29]
کی تفسیر میں لکھا:
محمد اللہ کے رسول ہیں اور آپ کے صحابہ کفار پر سخت ہیں ۔۔۔ (تفسیر الطبری :22/261)
اللہ کے چنیدہ بندوں کی بحث چھڑی تو یوں گویا ہوئے :
الذين اجتباهم لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم، فجعلهم أصحابه ووزراءه على الدِّين
''ان کو اللہ نے اپنے نبی کے لئے چن لیا، ان کو آپ کے صحابہ اور دین میں آپ کے وزیر بنا دیا۔''
(تفسیر الطبری : 19/482)
اولیک ھم الرااشدون سے صحابہ کو مراد لیا اور بیان کیا کہ یہ لوگ راہ حق پر چلنے والے ہیں۔
(تفسیر الطبری : 22/290)
انصاف پسند قارئین ! آپ ہی فیصلہ دیجئے کہ کیا یہ تفاسیر ایک رافضی کی بیان کردہ ہوسکتی ہیں؟ کیا کوئی صحابہ کا دشمن، صحابہ کو کافر کہنے والا صحابہ کے ایمان کو دوسروں کے لئے معیار قرار دے سکتاہے؟ وہ ہر ہر معاملہ میں صحابہ کی سیرت کا تتبع کرسکتاہے؟ ہر گز نہیں،بخدا ! نہیں۔
یہ تو تفسیر الطبری ہوئی، آپ امام رحمہ اللہ کی دیگر کتب کا مطالعہ کیجئے تو جھوم جھوم جائیے !
التبصیر فی معالم الدین میں بحث کی ابتداء ہی مسئلہ خلافت وامامت سے کی ہے، اور مسئلہ امامت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
اس میں آپ مختلف لوگوں کے مسالک کا ذکر کرتے ہیں، شیعہ کا مذہب بھی بیان کرتے ہیں کہ دین تو ایک وصی کا محتاج ہے اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا، اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وكل هذه الأقوال عندنا ضلالٌ وخروجٌ من الملة
''یہ تمام نظریات گمراہی اور ملت سے خروج کا باعث ہیں۔''
(التبصير في معالم الدين للطبري: 165)
امام رحمہ اللہ عقیدہ امامت کو ملت سے خروج کا باعث سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ان کو امامی شیعہ بنانے کے درپے ہیں،حد ہے۔
صریح السنہ کا مطالعہ کیجئے،اس میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں،جس کا مضمون کچھ یوں ہے کہ اللہ کے نبی کے تمام صحابہ میں خیر ہے، یہ اللہ کے چنیدہ لوگ ہیں، جن کو اللہ نے تمام زمانوں میں سے چن لیا ہے، تو امام رحمہ اللہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
- وَكَذَلِكَ نَقُولُ: فَأَفْضَلُ أَصْحَابِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصِّدِّيقُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ الْفَارُوقُ بَعْدَهُ عُمَرُ، ثُمَّ ذُو النُّورَيْنِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، ثُمَّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَإِمَامُ الْمُتَّقِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ
''ہم بھی یہی کہتے ہیں، صدیق اکبر سب صحابہ سے افضل ،پھر سیدنا عمر افضل، پھر عثمان ذی النورین افضل اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا نمبر آتا ہے۔''
(صریح السنۃ : 24)
بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ
جو ابوبکر و عمر کو ائمہ ہدایت نہیں مانتا، وہ بدعتی اور واجب القتل ہے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 53/200،وسندہ صحیح)
اب جب کہ امام رحمہ اللہ کا مسلک و موقف اور منہج واضح ہوچکا ہے، ان کا صحابہ کے تئیں عقیدہ بیان ہوچکا ہے، تو ان کی کتاب تاریخ الطبری پر بھی چند ایک گزارشات کردی جائیں، تاریخ طبری کے متعلق امام رحمہ اللہ نے خود بیان کیا کہ میں نے اس میں جو کچھ ملا جمع کردیا، سچ اور جھوٹ کو الگ نہیں کیا گیا،بلکہ سند کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
میرا نہیں خیال کہ اس وضاحت کے بعد بھی کسی وضاحت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہوگی، کیوں کہ جب جھوٹ بھی اس تاریخ میں سند کے ساتھ موجود ہیں تو جیسی بھی روایت کا ذکر کریں گے، اس کی سند دیکھ کو اس روایت کو جھوٹ تو کہا جاسکتا ہے، امام رحمہ اللہ کو مگر دوش نہیں دیا جاسکتا اور اہل سنت ایسا ہی کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں کے ایک صاحب فرماتے تھے کہ امام رحمہ اللہ نے صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ کے متعلق ہی کیوں الٹی سیدھی روایتیں جمع کی ہیں، باقیوں کو کیوں چھوٹ مل گئی، تو ان سے عرض کیا کہ حضور والا ! آپ نے تاریخ طبری کا نام سنا ہے، پڑھی نہیں ہے، اگر پڑھی ہوتی تو معلوم ہوتا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے متعلق بھی عجیب و غریب قسم کی روایات درج کی گئی ہیں، اور ایسا نہیں کہ سیدنا معاویہ کے صرف مثالب ذکر کئے ہیں، آپ کی سیرت و کردار پر پورا باب باندھا ہے، اس میں آپ کے حلم، عادات و خصائل پر روایات لائے ہیں آخری قول ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر کئے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ شاہی کے لائق کسی کو دیکھا ہی نہیں ہے۔
(تاریخ الطبری :5/337)
تو ان امثلہ سے واضح ہوتا ہے کہ امام رحمہ اللہ اپنے کہے میں سچے تھے، کہ مجھے جس نے جو سنایا، میں نے اس کا نام لے کر آپ کو بتا دیا ہے کہ فلاں شخص نے مجھے فلاں بات بیان کی ہے، اب اگر وہ جھوٹا ہے تواس کا گریبان پکڑ لو،یا اس سے محتاط ہوجاو، خود بری ہوگئے۔
بعض لوگوں نے امام رحمہ اللہ پر الزام رکھا ہے کہ آپ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر نعوذ باللہ لعنت کی ہے،حالاں کہ آپ کی ایسی کوئی عبارت دنیا میں موجود نہیں،ایک عبارت تکملہ تاریخ طبری کی اور ایک منتخب کی پیش کی جاتی ہے، لیکن یہ دونوں کتابیں امام رحمہ اللہ کی نہیں ہیں، بلکہ بعد والے لوگوں کی ہیں، امام رحمہ اللہ کی اپنی ایک بھی عبارت ایسی موجود نہیں ہے، جو ان کی رافضیت پر دلالت کناں ہو،بلکہ ایسی عبارات بیسیوں موجود ہیں، جن کے مطابق رافضی عقائد پر اچھا خاصہ رد کیا گیا ہے۔
وللہ الحمد!
ابوالوفا محمدحماد اثری
شیخ واصل واسطی کا کمنٹ:
رافضیوں نے بھی اسے سنی قرار دیا ھے ۔دیکھیے معجم رجال الحدیث لابی القاسم الخوئی جلد نمر 16 ۔ بعض دیگر لوگوں نے مسح علی الرجلین کو اس کا مذھب قرار دیا ھے ۔ مگر حافظ ابن کثیر فرماتے ھیں ۔ کہ ان لوگوں نے اس کے مذھب کو سمجھا نہیں ھے ۔ وہ غسل الرجلین مع الدلک کے قائل ھیں ۔ الفاظ یہ ھیں ۔ ومن نقل عن ابی جعفر ابن جریر انہ اوجب غسلھما للاحادیث واوجب مسحھما للا یة فلم یحقق مذھبہ فی ذلک فان کلامہ فی تفسیرہ انما یدل علی انہ اراد انہ یجب دلک الرجلین من دون سائراعضاء الوضوء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ولکنہ عبر عن الدلک بالمسح ۔۔۔ تفسیر القرآن ص 448 ج 2 ۔ اور سندیلوی نے اظھارحقیقت میں معجم الادباء کے حوالے سے یہ بھی لکھا ھے ۔ کہ ابن جریر ۔امل ۔کے رھنے والے تھے ۔ اس گاؤں کے ساری ابادی شیعہ لوگوں پر مشتمل ھے ۔ مگر یہ بھی عدم مطالعہ کا نتیجہ ھے ۔طبقات الشافعیة الکبری وغیرہ کو دیکھ لیں ۔ تو بہت سارے امل کے رھنے والے سنی مل جائیں گے ۔ جیسے ابوطیب طبری وغیرہ ۔
امام طبری رحمہ اللہ رافضی ہیں؟
امام طبری رحمہ اللہ اہل سنت کے عظیم امام گزرے ہیں، محدثین اہل سنت بالاتفاق ان کو اپنا بڑا مانتے اور ان کے نام سلام عقیدت پیش کرتے آئے ہیں، خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے آپ کو حافظ قرآن، ناسخ ومنسوخ کا عالم، فقیہ، اصول و فروع کا جامع اور اہل سنت کا امام قرار دیا ہے، خطیب کے بقول امام رحمہ اللہ نے اپنا کوئی نظریہ ایجاد نہیں کیا، بلکہ ہر ہر معاملے میں انہوں نے سلف ہی سے رہنمائی لی ہے۔(تاریخ بغداد :2/163)
امام محمدبن اسحاق رحمہ اللہ جیسے ذی شان بزرگ اپنے شاگردوں سے کہا کرتے تھے کہ بغداد جائیو تو طبری سے علم ضرور لیجیو گا، امام دارمی رحمہ اللہ کو حنابلہ نے طبری رحمہ اللہ کے پاس جانے سے روک دیا، تو ابن اسحاق فرمانے لگے :
آپ نے بہت سارا علم ضائع کردیا ہے۔
( تاریخ دمشق لابن عساکر :52/195،وسندہ صحیح)
جب تفسیر طبری لکھی گئی تو امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی پڑھنے کے لئے منگوائی، پھر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا :
میں اس کتاب کو از اول تا آخر پڑھ چکا ہوں، میں نے روئے زمین پر طبری سے بڑا عالم دیکھا ہی نہیں، حنابلہ نے ان پر ظلم ڈھایا۔
( تاریخ بغداد : 2/163،وسندہ صحیح )
امام طبری رحمہ اللہ ائمہ اہل سنت میں سے ہیں، آپ کا عقیدہ، منہج اور نظریات، سب اہل سنت والے ہیں، آپ بڑے بڑے ائمہ حدیث کے شاگرد رہے، کئیوں کے استاذ ہونے کا شرف پایا، بہت سوں کے معاصر رہے، سب کا بیک جنبش قلم یہی فیصلہ تھا کہ طبری طبری ہیں۔
حافظ سلیمانی رحمہ اللہ نے ایک دفعہ شیعہ ابن جریر کے دھوکے میں آپ رحمہ اللہ کو بھی رافضی قرار دے دیا تھا، لیکن بعد والے ائمہ نے اس کی وضاحت کردی، اس کی تفصیلات استاذ محترم شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کے مضمون میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
یعنی اسلامی تاریخ میں سلیمانی کی اس غلط فہمی کے سوا، کسی شخص کے منہ سے، حتی کہ آپ کے معاصر ائمہ رجال کے منہ سے بھی آپ کے لئے جرح کا کوئی کلمہ نہیں نکلا اور آپ کے عقیدے و منہج پر انگلی نہیں اٹھائی گئی۔
ہمارے ہاں کے تازہ کار محققین مگر آپ رحمہ اللہ کو رافضی باور کروانےکے در پے ہیں، گویا ان محققین کے ذاتی خیالات سے اختلاف رکھنے والا ہر شخص گمراہ قرار ہے، اور شومئی قسمت کہ امام رحمہ اللہ بھی اسی چھری سے ذبح کئے گئے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ دنیا جہان میں جو بھی شخص ہمارے مزعومہ خیالات کے خلاف کسی روایت کا ذکر کرے گا، تو اس سے سنی ہونے کا حق چھین لیا جائے گا۔
اس حق کو چھیننے کے لئے الزام تراشیاں کرنی پڑیں، کریں گے، جھوٹ موٹ کے دلائل بنانے پڑے، بنائیں گے، حتی سب کچھ کر گزریں گے، لیکن اپنے پاوں پر پانی نہیں آنے دیں گے۔
ان کے تراشیدہ دلائل میں سے زیادہ تر تو دھونسو قسم کے ہوتے ہیں، مثلا : وہ کہتے ہیں کہ امام رحمہ اللہ نے فلاں فلاں روایات اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں، اور وہ روایات صحابہ کی شان میں کمی لاتی ہیں، سو، ان روایات کے ذکر کر دینے ہی کے جرم میں ان کو مسلک اہل سنت سے خارج کیا جاتا ہے۔
حالاں کہ اگر تاریخ طبری کا مقدمہ ہی پڑھئے تو امام رحمہ اللہ کا منہج معلوم ہوجاتا ہے، امام نے تاکید کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ لوگو ! کتاب پڑھتے وقت اس بات کا دھیان رکھنا کہ میں نے جو چیز جیسے اور جہاں سے سنی ہے، اس کتاب میں درج کردی ہے، اس میں وہ وہ باتیں بھی ہیں، جن کو دلیل نہیں کہا جاسکتا، عقل کی کسوٹی پرپوری اتر نے سے قاصر ہیں، وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، ثابت نہیں ہیں، قاری ان سے بدک جائے گا، لیکن میں نے اپنی کتاب میں درج کردیں ہیں۔
( تاریخ الطبری :5/337)
اب قاری کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے کہ اس کتاب میں سچ جمع کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا، بلکہ سچ جھوٹ جو ملا،کتاب میں درج کردیا گیا، ساتھ سند ذکر کردی گئی، تاکہ آپ پریشان نہ ہوں اور آسانی کے ساتھ جھوٹے کو پہچان لیں۔
اکثر ائمہ سنت کا یہی طریق رہا ہے، وہ جھوٹی بات کو صرف اس لئے لکھ دیتے تھے کہ ڈیٹا محفوظ رہ سکے اور یاد رہ جائے کہ فلاں جھوٹی بات فلاں جھوٹے شخص نے گھڑی ہوئی ہے۔
چنانچہ بات یہ ہے کہ اگر جھوٹی روایت کو پہچان کروانے کے لئے درج کردینا بھی رافضیت ہے تو یہ رافضیت تمام اہل سنت ائمہ میں پائی جاتی ہے، کوئی بھی اس رافضیت سے محفوظ نہیں ہے۔
یوں تو امام رحمہ اللہ کو رافضیانے کا عمل ایک صدی سے جاری ہے، لیکن پچھلے دو تین سال سے چند لوگوں نے مستقل طور پر ان کو رافضی بنانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے، اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ایک جھوٹ جب بار بار بولا جائے تو اچھا بھلا شخص بھی پریشان ہوجاتا ہے، ہم نے بھی اسی کشمکش میں امام طبری رحمہ اللہ کی کتب کا مطالعہ شروع کیا،تاکہ ان کے اصل نظریات کو دیکھا جاسکے۔
جب ان کی کتب کا مطالعہ کیا تو منہ سے بے اختیار الحمد للہ نکل گیا، کہ بخدا ! اگر طبری رحمہ اللہ اہل سنت میں سے نہیں ہیں تو دنیا میں سنیت پائی ہی نہیں جاتی۔
آپ کو اس دعوی میں جذباتیت کا عنصر نظر آتا ہے تو آپ بھی ان کی کتابوں کا مطالعہ کر لیجئے، سب سے پہلے تفسیر الطبری کو اٹھائیں :
سورت فاتحہ تا سورۃ الناس، ہر ہر آیت کی تفسیر کے سلسلے میں صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال درج کئے ہیں، پھر انہیں کا کہا مان کر اپنی رائے دی ہے۔
کوئی تفسیر صحابہ کے خلاف ہوئی تو واضح لفظوں میں ٹھکرا دی، فرمایا :
فإنه قول خطأ فاسدٌ، لخروجه عن أقوال جميع الصحابة والتابعين
''یہ تفسیر فاسد تفسیر ہے، کیوں کہ تمام صحابہ و تابعین کی بیان کردہ تفاسیر کے مخالف ہے۔''
(تفسیر الطبری : 1/221)
سورہ بقرہ آیت 75 میں اللہ نے فرمایا کہ :
اہل ایمان ! کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم اہل کتاب تم پر ایمان لے آئیں گے؟
تو امام طبری رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اہل ایمان سے محمدرسول اللہ ﷺ کے صحابہ مراد ہیں۔( تفسیر الطبری :2/244)
فسیکفیکہم اللہ '' کی تفسیر کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
محمد ﷺ ! یہ لوگ جو تجھے اور تیرے صحابہ کو یہودی و نصرانی ہونے کا مشورہ دیتے ہیں،اگر یہ تیرے صحابہ کے جیسا ایما ن نہ لائے تو اللہ ان سے کافی ہوجائے گا، یہ آپس میں فرقے فرقے ہوجائیں گے، لڑیں گے،اور کئی طرح کے عذاب میں مبتلا کردئے جائیں گے، اور یہ کاہے ہوگا؟ کیوں کہ یہ لوگ میرے نبی محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ سے حسد اور بغض رکھتے ہیں ۔( تفسیر الطبری : 3/116)
اسی طرح فرمایا :
وهذا وعدٌ من الله جل ثناؤه أصحابَ رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنصر على أعدائهم
''یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنےنبی کے صحابہ کو ان کے دشمنوں پر غالب کئے رکھے گا۔''
(تفسیر الطبری : 7/484)
{مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ} [الفتح: 29]
کی تفسیر میں لکھا:
محمد اللہ کے رسول ہیں اور آپ کے صحابہ کفار پر سخت ہیں ۔۔۔ (تفسیر الطبری :22/261)
اللہ کے چنیدہ بندوں کی بحث چھڑی تو یوں گویا ہوئے :
الذين اجتباهم لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم، فجعلهم أصحابه ووزراءه على الدِّين
''ان کو اللہ نے اپنے نبی کے لئے چن لیا، ان کو آپ کے صحابہ اور دین میں آپ کے وزیر بنا دیا۔''
(تفسیر الطبری : 19/482)
اولیک ھم الرااشدون سے صحابہ کو مراد لیا اور بیان کیا کہ یہ لوگ راہ حق پر چلنے والے ہیں۔
(تفسیر الطبری : 22/290)
انصاف پسند قارئین ! آپ ہی فیصلہ دیجئے کہ کیا یہ تفاسیر ایک رافضی کی بیان کردہ ہوسکتی ہیں؟ کیا کوئی صحابہ کا دشمن، صحابہ کو کافر کہنے والا صحابہ کے ایمان کو دوسروں کے لئے معیار قرار دے سکتاہے؟ وہ ہر ہر معاملہ میں صحابہ کی سیرت کا تتبع کرسکتاہے؟ ہر گز نہیں،بخدا ! نہیں۔
یہ تو تفسیر الطبری ہوئی، آپ امام رحمہ اللہ کی دیگر کتب کا مطالعہ کیجئے تو جھوم جھوم جائیے !
التبصیر فی معالم الدین میں بحث کی ابتداء ہی مسئلہ خلافت وامامت سے کی ہے، اور مسئلہ امامت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
اس میں آپ مختلف لوگوں کے مسالک کا ذکر کرتے ہیں، شیعہ کا مذہب بھی بیان کرتے ہیں کہ دین تو ایک وصی کا محتاج ہے اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا، اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وكل هذه الأقوال عندنا ضلالٌ وخروجٌ من الملة
''یہ تمام نظریات گمراہی اور ملت سے خروج کا باعث ہیں۔''
(التبصير في معالم الدين للطبري: 165)
امام رحمہ اللہ عقیدہ امامت کو ملت سے خروج کا باعث سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ان کو امامی شیعہ بنانے کے درپے ہیں،حد ہے۔
صریح السنہ کا مطالعہ کیجئے،اس میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں،جس کا مضمون کچھ یوں ہے کہ اللہ کے نبی کے تمام صحابہ میں خیر ہے، یہ اللہ کے چنیدہ لوگ ہیں، جن کو اللہ نے تمام زمانوں میں سے چن لیا ہے، تو امام رحمہ اللہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
- وَكَذَلِكَ نَقُولُ: فَأَفْضَلُ أَصْحَابِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصِّدِّيقُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ الْفَارُوقُ بَعْدَهُ عُمَرُ، ثُمَّ ذُو النُّورَيْنِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، ثُمَّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَإِمَامُ الْمُتَّقِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ
''ہم بھی یہی کہتے ہیں، صدیق اکبر سب صحابہ سے افضل ،پھر سیدنا عمر افضل، پھر عثمان ذی النورین افضل اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا نمبر آتا ہے۔''
(صریح السنۃ : 24)
بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ
جو ابوبکر و عمر کو ائمہ ہدایت نہیں مانتا، وہ بدعتی اور واجب القتل ہے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 53/200،وسندہ صحیح)
اب جب کہ امام رحمہ اللہ کا مسلک و موقف اور منہج واضح ہوچکا ہے، ان کا صحابہ کے تئیں عقیدہ بیان ہوچکا ہے، تو ان کی کتاب تاریخ الطبری پر بھی چند ایک گزارشات کردی جائیں، تاریخ طبری کے متعلق امام رحمہ اللہ نے خود بیان کیا کہ میں نے اس میں جو کچھ ملا جمع کردیا، سچ اور جھوٹ کو الگ نہیں کیا گیا،بلکہ سند کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
میرا نہیں خیال کہ اس وضاحت کے بعد بھی کسی وضاحت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہوگی، کیوں کہ جب جھوٹ بھی اس تاریخ میں سند کے ساتھ موجود ہیں تو جیسی بھی روایت کا ذکر کریں گے، اس کی سند دیکھ کو اس روایت کو جھوٹ تو کہا جاسکتا ہے، امام رحمہ اللہ کو مگر دوش نہیں دیا جاسکتا اور اہل سنت ایسا ہی کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں کے ایک صاحب فرماتے تھے کہ امام رحمہ اللہ نے صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ کے متعلق ہی کیوں الٹی سیدھی روایتیں جمع کی ہیں، باقیوں کو کیوں چھوٹ مل گئی، تو ان سے عرض کیا کہ حضور والا ! آپ نے تاریخ طبری کا نام سنا ہے، پڑھی نہیں ہے، اگر پڑھی ہوتی تو معلوم ہوتا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے متعلق بھی عجیب و غریب قسم کی روایات درج کی گئی ہیں، اور ایسا نہیں کہ سیدنا معاویہ کے صرف مثالب ذکر کئے ہیں، آپ کی سیرت و کردار پر پورا باب باندھا ہے، اس میں آپ کے حلم، عادات و خصائل پر روایات لائے ہیں آخری قول ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر کئے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ شاہی کے لائق کسی کو دیکھا ہی نہیں ہے۔
(تاریخ الطبری :5/337)
تو ان امثلہ سے واضح ہوتا ہے کہ امام رحمہ اللہ اپنے کہے میں سچے تھے، کہ مجھے جس نے جو سنایا، میں نے اس کا نام لے کر آپ کو بتا دیا ہے کہ فلاں شخص نے مجھے فلاں بات بیان کی ہے، اب اگر وہ جھوٹا ہے تواس کا گریبان پکڑ لو،یا اس سے محتاط ہوجاو، خود بری ہوگئے۔
بعض لوگوں نے امام رحمہ اللہ پر الزام رکھا ہے کہ آپ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر نعوذ باللہ لعنت کی ہے،حالاں کہ آپ کی ایسی کوئی عبارت دنیا میں موجود نہیں،ایک عبارت تکملہ تاریخ طبری کی اور ایک منتخب کی پیش کی جاتی ہے، لیکن یہ دونوں کتابیں امام رحمہ اللہ کی نہیں ہیں، بلکہ بعد والے لوگوں کی ہیں، امام رحمہ اللہ کی اپنی ایک بھی عبارت ایسی موجود نہیں ہے، جو ان کی رافضیت پر دلالت کناں ہو،بلکہ ایسی عبارات بیسیوں موجود ہیں، جن کے مطابق رافضی عقائد پر اچھا خاصہ رد کیا گیا ہے۔
وللہ الحمد!
ابوالوفا محمدحماد اثری
شیخ واصل واسطی کا کمنٹ:
رافضیوں نے بھی اسے سنی قرار دیا ھے ۔دیکھیے معجم رجال الحدیث لابی القاسم الخوئی جلد نمر 16 ۔ بعض دیگر لوگوں نے مسح علی الرجلین کو اس کا مذھب قرار دیا ھے ۔ مگر حافظ ابن کثیر فرماتے ھیں ۔ کہ ان لوگوں نے اس کے مذھب کو سمجھا نہیں ھے ۔ وہ غسل الرجلین مع الدلک کے قائل ھیں ۔ الفاظ یہ ھیں ۔ ومن نقل عن ابی جعفر ابن جریر انہ اوجب غسلھما للاحادیث واوجب مسحھما للا یة فلم یحقق مذھبہ فی ذلک فان کلامہ فی تفسیرہ انما یدل علی انہ اراد انہ یجب دلک الرجلین من دون سائراعضاء الوضوء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ولکنہ عبر عن الدلک بالمسح ۔۔۔ تفسیر القرآن ص 448 ج 2 ۔ اور سندیلوی نے اظھارحقیقت میں معجم الادباء کے حوالے سے یہ بھی لکھا ھے ۔ کہ ابن جریر ۔امل ۔کے رھنے والے تھے ۔ اس گاؤں کے ساری ابادی شیعہ لوگوں پر مشتمل ھے ۔ مگر یہ بھی عدم مطالعہ کا نتیجہ ھے ۔طبقات الشافعیة الکبری وغیرہ کو دیکھ لیں ۔ تو بہت سارے امل کے رھنے والے سنی مل جائیں گے ۔ جیسے ابوطیب طبری وغیرہ ۔
Last edited by a moderator: