- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
بعض باتیں اتنی بے تکی ہوتی ہیں کہ ان کا ذکر کرنا بھی بے وقوفی لگتی ہے مگر بسا اوقات یہ بے وقوفی کرنا پڑتی ہے۔
ارفع کریم کی بیماری کے دوران ایک پیغام یہ گردش میں تھا کہ یہ سب امریکا کا کیا دھرا ہے… اسے امریکا بلایا گیا اور بل گیٹس نے اس سے ملاقات کی اور اسے احساس ہوا کہ اس بچی کے پاس تو بہت ارفع دماغ ہے، سو کسی بہانے سے اس کے دماغ میں کوئی ایسی چیز داخل کی گئی جس نے اس کے دماغ کو متاثر کیا اور یوں وہ بیمار ہو کر چل بسی۔ اس بات پر اگر کوئی یقین رکھتا ہو تو شاید اس سے بڑھ کر کوئی بے وقوفی نہیں ہو سکتی۔
ا ب حال ہی میں ہونے والا ایک نیا واقعہ… جس نے ہماری حب رسول ﷺ کو سلا کر ہمیں ملالہ کی ایسی فکر میں مبتلاکر دیا ہے کہ ہماری بلا سے اس فلم کا کیا ہوتا ہے، ساری توپوں کا رخ طالبان کی طرف مڑ گیا ہے۔
کوئی اس واقعے کو امریکا کی ایک نئی ’’ گیم ‘‘ قرار دے رہا ہے کوئی ڈرامہ۔ جو بھی ہے اور جس کسی نے بھی یہ گیم، سازش یا ڈرامہ تیار کیا ہے اس کا ایک مقصد تو ہماری توجہ اس فلم سے ہٹانا تھی جس کا مواد توہین رسالتﷺ پر مبنی ہے اور شاید اب اس کی نمائش جاری ہو گی۔ اس وقت ہر شخص کا دھیان اور ارتکاز ملالہ کی طرف ہے، کوشش جاری ہے کہ اسے دختر پاکستان کا لقب دیا جائے۔ دختر مشرق کا لقب تو لیا جا چکا، واقعی یہ لقب خالی پڑا ہے اور ا س کی سب سے بہتر مستحق غالباً ملالہ یوسف زئی ہی ہے۔
ایک اور مکتبہ فکر ہے، جنہوں نے کچھ مذہبی رہنماؤں سے منسوب کردہ بیانات کے ساتھ ایک مکمل تصویری کہانی تیار کی ہے اور راقم کو بھی اس کی ایک کاپی موصول ہوئی ہے۔ ان تصاویر کو مرتب کر کے بتایا گیا ہے کہ میڈیا میں بتایا گیا کہ ملالہ کو گردن میں گولی لگی ہے مگر اسپتال سے منتقلی کے دوران کی اس کی ایک تصویر دکھائی گئی ہے جس میں اس کے سر پر پٹی بندھی ہے جب کہ گردن پر کوئی خراش تک نہیں… اگلی تصویر ملالہ کی لندن منتقلی کے دوران کی ہے جس میں یہ شک ظاہر کیا گیا ہے کہ ایمبولینس میں منتقل کی جانے والی ملالہ نہیں بلکہ خالی چادریں ہیں اور اسی تصویر میں جہاز میں سوار ہونے والوں میں ایک مرد ہے جو کہ ایک لڑکی کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے۔ اس تصویر کو کلوز کر کے اس پر کیپشن لگایا گیا ہے کہ وہ لڑکی ملالہ ہے۔
اول تو اگر ملالہ بالکل ٹھیک ہے، اتنی ٹھیک کہ وہ چل کر اس جہاز میں سوار ہو رہی ہے جس میں بظاہر اس کو بے ہوشی کی حالت میں لے جایا جا رہا ہے تو کیا لکھنے والوں نے اتنا بودا ڈرامہ لکھا کہ اسے اسی جہاز میں سوار کروا کے ملک سے باہر بھجوانا تھا؟ ویسے تو بڑی طاقتیں سارے ڈرامے ایسے ہی بودے لکھتی ہیں، اسامہ بن لادن کے قلع قمع جیسے … اور ہمیں ان پر من و عن یقین کرنا ہوتا ہے کیونکہ ہماری کیا تاب کہ ہم ان کے کہے پر شک کریں۔ مگر مجھے اس تصویری ای میل کے مندرجات پر کافی شک ہے اور ذرا سا شعور رکھنے والے کسی بھی شخص کو ہو گا۔ کمپیوٹر پر کیا ممکن نہیں، کسی کا سر … کسی کا دھڑ۔ آپ مکمل لباس میں اپنی تصویر ڈالیں تو کمپیوٹر آپ کو ایسا نیم یا مکمل عریاں دکھا دے گا کہ آپ خود بھی یقین نہ کر سکیں گے، ہمارے کئی مزاحیہ پروگراموں میںایسے ملغوبے تیار کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔
اس ای میل بھیجنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ اس لیے تیار کیا گیا ہے کہ ملا لہ پر امریکا خود حملہ کروا کر ہم لوگوں کو ڈرون حملوں کا جواز دینا چاہتا ہے… واہ بھئی واہ، داد دینا پڑتی ہے اتنی محنت کر کے یہ کہانی تیار کرنیوالوں کے اذہان کو بھی۔ بھئی امریکا ڈرون حملے کر رہا ہے تو اسے کون منع کر رہا ہے اور اس کے لیے اسے نہ کسی جواز کی ضرورت ہے نہ کسی اجازت کی اور نہ ہی ہمارے اذہان تیار کرنے کی۔ آج تک جو حملے ہو چکے ہیں ہم نے ان کے خلاف کیا کیا ہے؟ کیا ہمارا کوئی احتجاج اس قدر موثر تھا کہ انھیں ڈرون حملے بند کرنا پڑے ہوں۔ حکومت نے انھیں کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جہاں چاہے اور جیسے چاہیں ہمارے معاملات میں دخل اندازی کریں اور امریکا کو تو اس حکومت کو خاص طور پر داد دینا چاہیے کہ انھیں کسی قسم کی ہلکی سی رکاوٹ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا اور موجودہ حکومت ڈکٹیشن لینے میں اتنی اچھی ہے کہ انھیں پورا لفظ بھی نہیں بولنا پڑتا (گمان غالب ہے کہ حکومت کے اس شاندار تعاون کے انعام کے طور پر امریکا آیندہ پانچ سال کے عرصہ کے لیے بھی ، ہمارے ووٹوں کی مدد سے اسی حکومت کو دوبارہ موقع دے گا)۔
ملالہ پر حملہ کر کے وزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز پیدا کرنا یا ڈرون حملوں کو عین ضروری قرار دینا … دو ایسی چیزیں ہیں جنھیں ہم خواہ مخواہ ’’ لنک ‘‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ملالہ اتنی اہم ہے کہ اس پر حملہ ہونے کے ’’ بعد‘‘ ہم طالبان کا قلع قمع کریں؟ کیا اس سے ملالہ ہوش میں آ جائے گی؟ کیا وزیرستان پر حملہ یا ڈرون حملوں کے لیے جواز پیدا کر کے ملالہ کی جان بچائی جا سکتی ہے؟ کیا اس ملک میں ایک ملالہ ہی سب سے قیمتی جان ہے؟ کیا ہر روز اس ملک میں کتنی ملالائیں اور کتنے ہی ماؤں کے لال ہر روز اپنی جان سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھتے؟ کیا کراچی کے حالات اس بات کا جواز پیدا کرتے ہیں کہ اب کراچی پر بھی ڈرون حملے شروع کر دیے جائیں؟
سب سے زیادہ تو مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب غلط ملط خبروں کو بلا تحقیق ترسیل کر دیا جاتا ہے، ٹیلی وژن پر پیغامات، ای میل اور فیس بک کے ذریعے ناقص معلومات ہمیں لمحوں میں ایک نئی اور منفی سوچ دے دیتی ہیں، ہم ذہن سے نہیں بلکہ میڈیا سے سوچتے ہیں…
ہمیں جو کچھ سوچنے کو کہا جاتا ہے ہم وہی سوچتے ہیں، جو کچھ کہنے کو کہا جاتا ہے وہی کہتے ہیں، ملالہ کے لیے کہیں اس کی تصویر کے سامنے شمعیں جلائی جا رہی ہیں، کہیں اس کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جا رہی ہے… اس میں بھی ہم نے غیروں کی تقلید کرنا شروع کر دی ہے۔ ہمارے اپنے طور طریقے ہیں، دعا مانگنا ان میں سب سے اہم ہے مگر ہم نے مغرب کی تقلید میں لب سی کر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے، تصاویر کے سامنے موم بتیاں جلا کر اپنے دکھ اور ہمدردی کے اظہار کی رسم بھی ایک ادا ٹھہری۔ جانے کس طرح یہ غلط اطوار خاموشی سے ہمارے معاشرے میں در کر آئی ہیں اور ہماری خوبصورت دعاؤں کی جگہ لے چکی ہیں۔
وہ دعائیں جو ہماری مائیں ہمارے لیے زاد راہ کے طور پر ہمارے ہمراہ کرتی تھیں تو گھر لوٹنے تک ہمیں اپنے حصار میں لیے رکھتی تھیں اور ہمیں دل سے یقین ہوتا تھا۔ اب دعاؤں کی جگہ خاموشیوں نے لے لی ہے… خبروں کی جگہ افواہوں کا سکہ چلتا ہے اور یقین کی جگہ بد گمانیاں ہمارا سرمایہ رہ گئی ہیں۔ سب کو اپنے اپنے فرض کا احساس کرنے کی ضرورت ہے، ادھوری بات کو خود سے مکمل کر کے… خود یقین ہو نہ ہو ، دوسروں تک پہنچانا اور پھر بالخصوص تاکید کر کے کہنا، ’’ بس تمہیں بتا رہے ہیں، بات یہیں تک رہے… ‘‘ تجسس کے غبارے میں اور بھی ہو ا بھر دیتا ہے اور جانے کتنے ہی لوگ اس خبر کو اسی تاکید کے ساتھ اپنے ہرجاننے والے کو بتاتے ہیں۔
خدارا!!! اب بھی وقت ہے اور کچھ تو نہیں بدلا جا سکتا مگر ایک چیز بدلی جا سکتی ہے… اپنا آپ۔ کم از کم یہ کام تو آپ کر سکتے ہیں، خود کو بدلیں ، اپنی سوچ کو بدلیں ، اپنے بات کرنے کے انداز کو بدلیں، افواہوں کو پھیلانے کی روش کو بدلیں، مغرب کی تقلید میں اپنی پیاری پیاری رسومات کو چھوڑنا … کہاں کی عقل مندی ہے۔ ا س ایک چیز کو بدل کر دیکھیں ، آپ کو اپنے ارد گرد سب کچھ بدلا ہوا نظر آئے گا!!!
ارفع کریم کی بیماری کے دوران ایک پیغام یہ گردش میں تھا کہ یہ سب امریکا کا کیا دھرا ہے… اسے امریکا بلایا گیا اور بل گیٹس نے اس سے ملاقات کی اور اسے احساس ہوا کہ اس بچی کے پاس تو بہت ارفع دماغ ہے، سو کسی بہانے سے اس کے دماغ میں کوئی ایسی چیز داخل کی گئی جس نے اس کے دماغ کو متاثر کیا اور یوں وہ بیمار ہو کر چل بسی۔ اس بات پر اگر کوئی یقین رکھتا ہو تو شاید اس سے بڑھ کر کوئی بے وقوفی نہیں ہو سکتی۔
ا ب حال ہی میں ہونے والا ایک نیا واقعہ… جس نے ہماری حب رسول ﷺ کو سلا کر ہمیں ملالہ کی ایسی فکر میں مبتلاکر دیا ہے کہ ہماری بلا سے اس فلم کا کیا ہوتا ہے، ساری توپوں کا رخ طالبان کی طرف مڑ گیا ہے۔
کوئی اس واقعے کو امریکا کی ایک نئی ’’ گیم ‘‘ قرار دے رہا ہے کوئی ڈرامہ۔ جو بھی ہے اور جس کسی نے بھی یہ گیم، سازش یا ڈرامہ تیار کیا ہے اس کا ایک مقصد تو ہماری توجہ اس فلم سے ہٹانا تھی جس کا مواد توہین رسالتﷺ پر مبنی ہے اور شاید اب اس کی نمائش جاری ہو گی۔ اس وقت ہر شخص کا دھیان اور ارتکاز ملالہ کی طرف ہے، کوشش جاری ہے کہ اسے دختر پاکستان کا لقب دیا جائے۔ دختر مشرق کا لقب تو لیا جا چکا، واقعی یہ لقب خالی پڑا ہے اور ا س کی سب سے بہتر مستحق غالباً ملالہ یوسف زئی ہی ہے۔
ایک اور مکتبہ فکر ہے، جنہوں نے کچھ مذہبی رہنماؤں سے منسوب کردہ بیانات کے ساتھ ایک مکمل تصویری کہانی تیار کی ہے اور راقم کو بھی اس کی ایک کاپی موصول ہوئی ہے۔ ان تصاویر کو مرتب کر کے بتایا گیا ہے کہ میڈیا میں بتایا گیا کہ ملالہ کو گردن میں گولی لگی ہے مگر اسپتال سے منتقلی کے دوران کی اس کی ایک تصویر دکھائی گئی ہے جس میں اس کے سر پر پٹی بندھی ہے جب کہ گردن پر کوئی خراش تک نہیں… اگلی تصویر ملالہ کی لندن منتقلی کے دوران کی ہے جس میں یہ شک ظاہر کیا گیا ہے کہ ایمبولینس میں منتقل کی جانے والی ملالہ نہیں بلکہ خالی چادریں ہیں اور اسی تصویر میں جہاز میں سوار ہونے والوں میں ایک مرد ہے جو کہ ایک لڑکی کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے۔ اس تصویر کو کلوز کر کے اس پر کیپشن لگایا گیا ہے کہ وہ لڑکی ملالہ ہے۔
اول تو اگر ملالہ بالکل ٹھیک ہے، اتنی ٹھیک کہ وہ چل کر اس جہاز میں سوار ہو رہی ہے جس میں بظاہر اس کو بے ہوشی کی حالت میں لے جایا جا رہا ہے تو کیا لکھنے والوں نے اتنا بودا ڈرامہ لکھا کہ اسے اسی جہاز میں سوار کروا کے ملک سے باہر بھجوانا تھا؟ ویسے تو بڑی طاقتیں سارے ڈرامے ایسے ہی بودے لکھتی ہیں، اسامہ بن لادن کے قلع قمع جیسے … اور ہمیں ان پر من و عن یقین کرنا ہوتا ہے کیونکہ ہماری کیا تاب کہ ہم ان کے کہے پر شک کریں۔ مگر مجھے اس تصویری ای میل کے مندرجات پر کافی شک ہے اور ذرا سا شعور رکھنے والے کسی بھی شخص کو ہو گا۔ کمپیوٹر پر کیا ممکن نہیں، کسی کا سر … کسی کا دھڑ۔ آپ مکمل لباس میں اپنی تصویر ڈالیں تو کمپیوٹر آپ کو ایسا نیم یا مکمل عریاں دکھا دے گا کہ آپ خود بھی یقین نہ کر سکیں گے، ہمارے کئی مزاحیہ پروگراموں میںایسے ملغوبے تیار کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔
اس ای میل بھیجنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ اس لیے تیار کیا گیا ہے کہ ملا لہ پر امریکا خود حملہ کروا کر ہم لوگوں کو ڈرون حملوں کا جواز دینا چاہتا ہے… واہ بھئی واہ، داد دینا پڑتی ہے اتنی محنت کر کے یہ کہانی تیار کرنیوالوں کے اذہان کو بھی۔ بھئی امریکا ڈرون حملے کر رہا ہے تو اسے کون منع کر رہا ہے اور اس کے لیے اسے نہ کسی جواز کی ضرورت ہے نہ کسی اجازت کی اور نہ ہی ہمارے اذہان تیار کرنے کی۔ آج تک جو حملے ہو چکے ہیں ہم نے ان کے خلاف کیا کیا ہے؟ کیا ہمارا کوئی احتجاج اس قدر موثر تھا کہ انھیں ڈرون حملے بند کرنا پڑے ہوں۔ حکومت نے انھیں کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جہاں چاہے اور جیسے چاہیں ہمارے معاملات میں دخل اندازی کریں اور امریکا کو تو اس حکومت کو خاص طور پر داد دینا چاہیے کہ انھیں کسی قسم کی ہلکی سی رکاوٹ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا اور موجودہ حکومت ڈکٹیشن لینے میں اتنی اچھی ہے کہ انھیں پورا لفظ بھی نہیں بولنا پڑتا (گمان غالب ہے کہ حکومت کے اس شاندار تعاون کے انعام کے طور پر امریکا آیندہ پانچ سال کے عرصہ کے لیے بھی ، ہمارے ووٹوں کی مدد سے اسی حکومت کو دوبارہ موقع دے گا)۔
ملالہ پر حملہ کر کے وزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز پیدا کرنا یا ڈرون حملوں کو عین ضروری قرار دینا … دو ایسی چیزیں ہیں جنھیں ہم خواہ مخواہ ’’ لنک ‘‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ملالہ اتنی اہم ہے کہ اس پر حملہ ہونے کے ’’ بعد‘‘ ہم طالبان کا قلع قمع کریں؟ کیا اس سے ملالہ ہوش میں آ جائے گی؟ کیا وزیرستان پر حملہ یا ڈرون حملوں کے لیے جواز پیدا کر کے ملالہ کی جان بچائی جا سکتی ہے؟ کیا اس ملک میں ایک ملالہ ہی سب سے قیمتی جان ہے؟ کیا ہر روز اس ملک میں کتنی ملالائیں اور کتنے ہی ماؤں کے لال ہر روز اپنی جان سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھتے؟ کیا کراچی کے حالات اس بات کا جواز پیدا کرتے ہیں کہ اب کراچی پر بھی ڈرون حملے شروع کر دیے جائیں؟
سب سے زیادہ تو مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب غلط ملط خبروں کو بلا تحقیق ترسیل کر دیا جاتا ہے، ٹیلی وژن پر پیغامات، ای میل اور فیس بک کے ذریعے ناقص معلومات ہمیں لمحوں میں ایک نئی اور منفی سوچ دے دیتی ہیں، ہم ذہن سے نہیں بلکہ میڈیا سے سوچتے ہیں…
ہمیں جو کچھ سوچنے کو کہا جاتا ہے ہم وہی سوچتے ہیں، جو کچھ کہنے کو کہا جاتا ہے وہی کہتے ہیں، ملالہ کے لیے کہیں اس کی تصویر کے سامنے شمعیں جلائی جا رہی ہیں، کہیں اس کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جا رہی ہے… اس میں بھی ہم نے غیروں کی تقلید کرنا شروع کر دی ہے۔ ہمارے اپنے طور طریقے ہیں، دعا مانگنا ان میں سب سے اہم ہے مگر ہم نے مغرب کی تقلید میں لب سی کر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے، تصاویر کے سامنے موم بتیاں جلا کر اپنے دکھ اور ہمدردی کے اظہار کی رسم بھی ایک ادا ٹھہری۔ جانے کس طرح یہ غلط اطوار خاموشی سے ہمارے معاشرے میں در کر آئی ہیں اور ہماری خوبصورت دعاؤں کی جگہ لے چکی ہیں۔
وہ دعائیں جو ہماری مائیں ہمارے لیے زاد راہ کے طور پر ہمارے ہمراہ کرتی تھیں تو گھر لوٹنے تک ہمیں اپنے حصار میں لیے رکھتی تھیں اور ہمیں دل سے یقین ہوتا تھا۔ اب دعاؤں کی جگہ خاموشیوں نے لے لی ہے… خبروں کی جگہ افواہوں کا سکہ چلتا ہے اور یقین کی جگہ بد گمانیاں ہمارا سرمایہ رہ گئی ہیں۔ سب کو اپنے اپنے فرض کا احساس کرنے کی ضرورت ہے، ادھوری بات کو خود سے مکمل کر کے… خود یقین ہو نہ ہو ، دوسروں تک پہنچانا اور پھر بالخصوص تاکید کر کے کہنا، ’’ بس تمہیں بتا رہے ہیں، بات یہیں تک رہے… ‘‘ تجسس کے غبارے میں اور بھی ہو ا بھر دیتا ہے اور جانے کتنے ہی لوگ اس خبر کو اسی تاکید کے ساتھ اپنے ہرجاننے والے کو بتاتے ہیں۔
خدارا!!! اب بھی وقت ہے اور کچھ تو نہیں بدلا جا سکتا مگر ایک چیز بدلی جا سکتی ہے… اپنا آپ۔ کم از کم یہ کام تو آپ کر سکتے ہیں، خود کو بدلیں ، اپنی سوچ کو بدلیں ، اپنے بات کرنے کے انداز کو بدلیں، افواہوں کو پھیلانے کی روش کو بدلیں، مغرب کی تقلید میں اپنی پیاری پیاری رسومات کو چھوڑنا … کہاں کی عقل مندی ہے۔ ا س ایک چیز کو بدل کر دیکھیں ، آپ کو اپنے ارد گرد سب کچھ بدلا ہوا نظر آئے گا!!!