• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا میت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا میت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے :

شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ


لنک


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا میت کے لیے قربانی کرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ

اصل کے اعتبارسے قربانی کی مشروعیت پرمسلمانوں کااجماع ہے ،

اورمیت کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذيل فرمان کا عموم ہے جس میں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب ابن آدم فوت ہوجاتا ہے توتین کے علاوہ اس کے سب اعمال منقطع ہوجاتے ہیں ، صدقہ جاریہ ، یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا رہے ، یا نیک اولاد جواس کے لیے دعا کرے ) صحیح مسلم ، سنن ابوداود ، سنن ترمذی ، سنن نسائي ، اورامام بخاری نے الادب المفرد میں ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔


اورمیت کی جانب سے قربانی کرنا صدقہ جاریہ ہے ، کیونکہ قربانی کرنے سے قربانی کرنے والے اورمیت وغیرہ کونفع حاصل ہوتا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ .

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا میں اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کرسکتاہوں ؟

الحمد للہ :

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اصل تویہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اورجوکچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئي اصل نہيں ۔

فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں :

پہلی قسم :

کہ زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے مثلا : کوئي شخص اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اوراس میں وہ زندہ اورفوت شدگان کی نیت کرلے ( تویہ جائز ہے ) ۔

اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جوانہوں نے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے تھی اوران کے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہوچکے تھے ۔

دوسری قسم :

یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرے ( اوریہ واجب ہے لیکن اگراس سےعاجز ہوتوپھر نہيں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ توجوکوئي بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تواس کا گناہ ان پر ہے جواسے تبدیل کرتے ہيں یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے } ۔

تیسری قسم :

زندہ لوگوں سے علیحدہ اورمستقل طور پرفوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے ( وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اوروالدہ کی جانب سے علیحدہ اورمستقل قربانی کرے ) تویہ جائز ہے ، فقھاء حنابلہ نے اس کوبیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کوپہنچے گا اوراسے اس سے فائدہ ونفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پرقیاس کیا ہے ۔

لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سےبالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئي قربانی نہیں کی ، نہ توانہوں نے اپنے چچا حمزہ رضي اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيزاقرباء میں سے تھے ۔

اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اورتین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی ، اورنہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سےپیاری تھیں ۔

اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔

اورہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جوآج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اوراسے ( حفرہ قربانی ) کا نام دیتے اوریہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کوشریک ہونا جائز نہيں ، یا پھروہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے ، یاان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے اوراپنی اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں ۔

اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئي شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اورفوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کونہ کریں ۔ .

دیکھیں : رسالۃ : احکام الاضحيۃ الذکاۃ

http://islamqa.info/ur/36596
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قربانی سے متعلق بعض مسائل

..........................................................

[۱] قربانی اصل میں زندوں کی طرف سے مشروع ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اپنی طرف سے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کرتے تھے لہذا بعض لوگوں کا اپنی طرف سے قربانی نہ کرکے مردوں کی طرف سے قربانی کرنا خلاف سنت ہے، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپنی قربانی کے اجر میں جس کو چاہے شریک کرے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہے

[۲] مردوں کی طرف سے مستقل قربانی کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟

اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، البتہ راجح قول یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کی نیت سے قربانی کی جاسکتی ہے ، امام ابن تیمیہ ، سعودیہ کے دائمی کمیٹی اور بہت سے علماء اہل حدیث کا یہی مسلک ہے ، کیونکہ قربانی مالی عبادت ہے اور مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

البتہ ضروری ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنے والا پہلے اپنی طرف سے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کرے پھر اگر چاہے تو میت کی طرف سے قربانی دے سکتا ہے ، البتہ اگر میت وصیت کرکے جارہا ہے اور اس کے لئے کوئی وقف چھوڑ کر جارہا ہے تو اس کی طرف سے قربانی واجب ہوگی ۔

[۳] بہت سے لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرتےہیں ، یہ عمل بھی بلا دلیل اور صحابہ و علماء کے خلاف ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع اور آپ پر کثرت درود وسلام ہی ہمارے لئے کافی ہے ۔

[۴]قربانی کے لئے نر جانور مادہ کے مقابلہ میں افضل ہے ،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نر جانور ہی کی قربانی کی ہے ، البتہ مادہ جانور کی قربانی بالاتفاق جائز ہے ۔

[۵] قربانی کا جانور دیکھنے میں جاذب نظر ، صحت میں اچھا اور رنگ میں عمدہ ہونا چاہئے، کیونکہ قربانی کا جانور بھی اللہ کے شعائر میں داخل ہے اور ارشاد باری تعالی ہے : ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (32)الحج۔ " جوا للہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے یہ اس کے دل کی پرہیز گاری کی علامت ہے " ۔

[۶] جو شخص ذبح کرنا جانتا ہے مرد ہو یا عورت اسے اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانور ذبح کرنا ہے ،کیونکہ قربانی کرنا عبادت اور تقرب الہی کا ذریعہ ہے ، امام بخاری نقل فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم دیتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ سے ذبح کریں ، البتہ جو شخص ذبح کرنا نہ جانتا ہو یا اچھی طرح سے ذبح نہ کرسکتا ہے وہ کسی بھی قابل اعتماد و مسلمان کی خدمت لے سکتا ہے ۔

[۷] ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے اور ذبیحہ حلال ہونے کے لئے شرط ہے کہ حتی کہ بہت سے علماء کا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص بھول کر بھی بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دے تب بھی اس کا ذبیحہ حلال نہ ہوگا ، البتہ حدیث میں مذکورہ دعا کا باقی حصہ سنت اور مستحب ہے ۔

[۸] قربانی ایک مستقل عبادت ہے اس میں کسی دوسری عبادت کو داخل کرنا بلا دلیل ہے ، جس طرح کہ بہت سے لوگ قربانی میں عقیقہ کو شامل کرلیتے ہیں ،کیونکہ راحج قول یہ ہے کہ قربانی کی طرح عقیقہ میں سات حصے نہیں ہوتے ۔

[۹] جس شخص کا عقیقہ نہ بھی ہوا ہو اگر وہ صاحب استطاعت ہے تو اس کے لئے قربانی مشروع اور سنت موکدہ ہے ، عقیقہ سے ا سکی مشروعیت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

[۱۰] ہر صاحب خانہ پر سال میں ایک قربانی مشروع اور یہی قربانی تمام اہل خانہ کو طرف سے کافی ہے ، البتہ یہ نظریہ کہ ایک سال گھر کے فلاں فرد کی طرف سے اور دوسرے سال فلاں کی طرف سے ، یہ غیر شرعی طریقہ ہے ۔

شیخ مقصود الحسن کے درس کا خلاصہ
 
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
‎السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرات علماء کرام سے الدکتور فضل الرحمن المدنی حفظہ اللہ کے اس فتوے اور جوابی تحریر پر علمی و تحقیقی تبصرے مطلوب ہیں۔


دكتور فضل الرحمن المدني‎
میت کی جانب سے قربانی کرنے کا حکم
سوال: میت کی طرف سے قربانی کر نا درست ہے یا نہیں؟
جواب: میت کی طرف سے قربانی کر نا جائز ہے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ہے،”عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِى سَوَادٍ وَيَبْرُكُ فِى سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِى سَوَادٍ فَأُتِىَ بِهِ لِيُضَحِّىَ بِهِ فَقَالَ لَهَا : يَا عَائِشَةُ هَلُمِّى الْمُدْيَةَ ِ، ثُمَّ قَالَ : اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ ، فَفَعَلَتْ ، ثُمَّ أَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ “ (رواہ مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ایک سینگ والا مینڈھا لایا جائے جس کے پاؤں ،سینہ ، منہ اور آنکھوں کے ارد گرد کا حصہ کالا ہو ، چنانچہ وہ لا یا گیا توآپ نے فر مایا: اے عائشہ ! چھری لاؤ اور اس کو پتھر سے تیز کر و،چنانچہ میں نے چھری لا کر تیز کیا، پھر آپ نے چھری لی اور دنبہ کو لٹایا اور ذبح کیا اور کہا :بسم اللہ، اے اللہ تو محمد اور امت محمد کی جانب سے قبول فر ما، پھر آپ نے اس کی قربانی کی ۔
اس حدیث کے بموجب آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی اپنی اور اپنی امت کی جانب سے کی ۔ظاہر ہے کہ لفظ” امت“امت سابقہ اور موجودہ (احیاء اور اموات ) سب کو شامل ہے ۔
بعض روایتوں میں: ”هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “ کے الفاظ ہیں، یعنی میری جانب سے اور میری امت کے ان لوگوں کی جانب سے جنھوں نے قربانی نہیں کی، اس میں آپ نے”لَمْ يُضَحِّ “ کاصیغہ استعمال کیا ہے،جس سے امت محمد یہ میں سے ان لوگوں کی طرف اشارہ ملتا ہے جو قربانی کر نے سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔
نیز میت کی جانب سے قربانی کر نا ایک مالی عبادت ہے ،اور مالی عبادت کے سلسلے میں اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کا ثواب میت تک پہونچتا ہے، مالی عبادت کے ذریعہ ایصال ثواب کے سلسلے میں صحیح بخاری وغیرہ کی ایک روایت ہے :
”عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ “ (رواہ البخاری: کتاب الجنائز، باب موت الفجأة: 3/254 )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺسے کہا: میری ماں اچانک انتقال کر گئی،اور میرا خیال ہے کہ اگروہ گفتگو کرتی تو کچھ صدقہ وخیرات کرتی ،توکیا اس کے لئے اجر وثواب ہوگا اگر میں اس کی جانب سے صدقہ کرو ں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ مالی عبادت کا ثواب میت تک پہنچے گا،اگرچہ اس نے وصیت نہ کی ہو ۔
اسی طرح میت کی جانب سے حج بدل کرنا اور قرض ادا کرنا وغیرہ جائز ہے، تو اس کی جانب سے قربانی کر نا بھی جائز ہو نا چاہئے ۔
رسول اللہ ﷺ کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قربانی کر نی والی روایت سے بھی اس کے لئے استیناس کیا جا سکتا ہے : عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ “ (سنن ابو داؤد:3/50 ]2792[ كتاب الضحايا باب الأضحية عن الميت)
حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبہ قربانی کرتے ہو ئے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺنے مجھے وصیت کی ہے کہ آپ کی جانب سے قربانی کرتا رہو ں ،چنانچہ آپ کی جانب سے قربانی کررہا ہوں۔
حنش کی روایت کے بارے میں اختلاف ہے ،علامہ مبارکپوری ، منذری اور ابن حبان وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے، جبکہ حاکم، ذہبی، احمد شاکر اور شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے اس کی تصحیح وتحسین کی ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے :”عَنْ عَاصِمِ بْنِ شُرَيْبٍ قَالَ : أُتِىَ عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ النَّحْرِ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ وَقَالَ : بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ مُحَمَّدٍ لَك ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَتُصُدِّقَ بِهِ ثُمَّ أُتِىَ بِكَبْشٍ آخَرَ فَذَبَحَهُ فَقَالَ : بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ عَلِىٍّ لَكَ ، قَالَ ثُمَّ قَالَ : ائْتِنِى بِطَابِقٍ مِنْهُ وَتَصَدَّقْ بِسَائِرِهِ “ (میزان الاعتدال للذھبی: 2/352 ، وعاصم بن شریک عن علی مجھول ،لسان المیزان لابن حجر : 3/219 ،عاصم بن شریک عن علی مجھول ،وذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال: انہ الزبیدی من اھل الکوفة)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس قربانی کے دن ایک دنبہ لایا گیا توآپ نے اس کو ذبح کیا اور کہا : ”بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ مُحَمَّدٍ لَك “پھر اس کو صدقہ کر نے کا حکم دیا ، اس کے بعد ایک دوسرا دنبہ لایا گیا ،اس کو بھی ذبح کیا اور کہا:”بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ عَلِىٍّ لَكَ “،راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس میں سے ایک کڑا ہی لاؤ اور باقی صدقہ کر دو ۔
اگر چہ یہ روایتیں راجح قول کے مطابق ضعیف ہیں مگر بطور استیناس ان کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں،اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایتوں سے بھی میت کی جانب سے قربانی کرنے کا جوازثابت ہوتا ہے اور اس کے قائل حنفیہ وغیرہ بھی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ میت کی جانب سے قربانی کا جواز راجح معلوم ہو تا ہے ۔ خاص طور سے زندوں کے ساتھ اشتراک کی صورت میں۔


میت کی طرف سے قربانی کے سلسلہ میں چند سوالات اور ان کے جوابات
سوال:مکرمی و محترمی جناب بھائی محمد حسن صاحب دامت برکاتہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا، آپ کا ارسال کردہ فتویٰ موصول ہوا ،لیکن دلی اطمینان نہ ہو سکا، مزید تلاش کرنے پر میں اس نتیجہ پر پہونچا کہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کا جواز نہیں ،اب رہے دلائل تو اس پر کچھ سرسری جائزہ پیش خدمت ہے ،امید کہ مزید تحقیق کرا کے مجھے اطلاع دیں گے۔
پہلی دلیل: حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی ۔(صحیح مسلم ،مشکاة المصابیح)
اعتراض:فتویٰ میں جس حدیث شریف کا ترجمہ کیا گیا ہے اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں:”عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ نِسَائِهِ “ (صحیح مسلم :4/345،کتاب الحج باب الاشتراك فى الهدى وإجزاء البقرة والبدنة كل منهما عن سبعة )
اس حدیث کو امام مسلم کتاب الحج ،باب جواز الاشتراک فی الھدی،یعنی قربانی کے ایک جانو ر میں کئی آدمی شریک ہوسکتے ہیں ، کے تحت یہ حدیث لاکر یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک جانور کو اپنی تمام بیویوں کی طرف سے قربان کیا، لیکن اس حدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی کریم ﷺنے اپنی وفات شدہ بیوی حضرت خدیجۃ رضی اللہ عنہا کو بھی اس میں شامل کیاتھا، جیسا کہ فتویٰ میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ۔یہ استدلال تو قیاس پر مبنی ہے ،اگر اس حدیث سے میت کی طرف سے قربانی کرنے پر استدلال کرتے ہیں یعنی کہ اس پر قیاس کر تے ہیں تو کیا ہم بھی اس حدیث سے یہ استدلال نہیں کر سکتے کہ آپ نے اپنی تمام ان بیویوں کی طرف سے قربانی کی جواس وقت زندہ تھیں؟ اس کے علاوہ اس حدیث کے ساتھ ہی ساتھ دوسری سطر میں یہ بھی ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کیا تھا۔”عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً فِى حَجَّتِهِ “ اور اسی صفحہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ایسی بھی ہے : ”عَنْ جَابِرٍ قَالَ ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً يَوْمَ النَّحْرِ “(صحیح مسلم :4/345،کتاب الحج باب الاشتراك فى الهدى وإجزاء البقرة والبدنة كل منهما عن سبعة) یعنی یوم النحرکو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے نبیﷺ نے ایک گائے کی قربانی کی ۔
اعتراض یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبیﷺنے تمام بیویوں کی طرف سے ایک قربانی دی تھی تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے الگ ایک گائے کی قربانی دینے کی کیا ضرورت تھی؟
مندرجہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نبیﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی ،اگرمیت کی طرف سے قربانی دینا جائز ہوتا تو آپ نے تمام زندہ بیویوں کی طرف سے ایک قربانی دے دی تھی، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی آگئی تھیں،تو پھر الگ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے قربانی دینے کی کیا ضرورت تھی؟کیا آپ اسی گائے کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بجائے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے نہیں دے سکتے تھے؟آپ نے ایسا نہیں کیا کیوں؟اس لئے کہ میت کو صرف تین چیزوں کے علاوہ کسی چوتھی چیز کا ثواب نہیں ملتا ہے،ملاحظہ ہو:” عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ “(مسلم بشرح النووی :4/355 ، کتاب الوصیۃ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته)
اس حدیث کی رو سے صرف تین چیزوں کا ثواب میت کو پہونچتا ہے:(١) صدقہ جاریہ (٢)وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں(٣) وہ نیک بخت لڑکا جو اس کے حق میں دعا کرے۔ان تینوں قسموں میں سے آپ میت کی طرف سے قربانی کرنے کو کس قسم میں شمار کرتے ہیں؟ آپ اس کو صدقہ میں شمار کرتے ہیں تو پھر قربانی کیونکر ہوئی؟اور قربانی کرنے کی نیت کرنا چہ معنی دارد؟
ولو بالفرض یہ مان لیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس میں شریک کرلیا تھا توکہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میت کی طرف سے الگ بھی ایک گائے دینی چاہئے۔
براہ کرم اس حدیث کے علاوہ کو ئی دوسری حدیث جس میں واضح طور پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے قر بانی کرنے کا ثبوت ہو تو ہمیں بھی اس سے مطلع فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔
دوسری دلیل:آپ کی دوسری دلیل حضرت حنش سے مروی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل ہے، حدیث مع سند ملاخطہ ہو:” حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ “ (سنن ابو داؤد:3/50 ]2792[ كتاب الضحايا باب الأضحية عن الميت)
یعنی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کی وصیت کے مطابق آپ کی وفات کے بعد آپ کی جانب سے بھی قربانی دیا کرتے تھے ،اس حدیث میں توواضح الفاظ موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی ،تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کی وصیت کو پورا کر رہے تھے۔
یہ بات تو مسلم ہے کہ جب کسی نے مرنے سے قبل وصیت کی کہ میری وفات کے بعد قربانی کرنا تو اس کی وصیت کی بنا پر اس کی لاج رکھ لی جائیگی ،اس پر تو اعتراض نہیں، اگر اعتراض ہے تو اس بات پر کہ بغیر وصیت کے قربانی کر نا درست ہے یا نہیں ؟
اگر آپ بغیر وصیت کے بھی قربانی جائز قرار دیتے ہیں تو پھر اس کی کوئی دلیل بھی ہو نی چاہئے، شاید میرے علم میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے ،اگر آپ کو معلوم ہو تو ازراہ کرم مطلع فرمائیں۔
ہاں! البتہ اگر کوئی بغیر وصیت کے بھی کرناچاہے تو کر سکتا ہے مگر قربانی نہیں، بلکہ ایصال ثواب کی نیت سے کیا جانا چاہئے ،اور یہ بھی مالی صدقہ پر قیاس کرتے ہوئے ممکن ہے ورنہ نہیں۔ اب ذرا اس حدیث کا جائزہ بھی لیتے چلئے: یہ حدیث بالکل ضعیف ہے دیکھئے: (مختصر ابی داؤد للمنذری :4/95، تحفۃ الاحوذی)اس لئے کہ اس حدیث کی سندمیں تین ایسے راوی ہیں جن پر ائمہ حدیث نے کلام کیا ہے (١) شریک القاضی (٢)ابوالحسناء (٣)حنش، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث کی سندمیں گذر چکا ہے ۔
شریک القاضی:جن کے متعلق حافظ ابن حجر ﷫کہتے ہیں ”صدوق يخطىء كثيرا تغير حفظه منذ ولي القضاء “(تقریب التہذیب: ص266) یعنی کہ صدوق تو ہیں ،لیکن غلطیاں زیادہ کرتے ہیں، اور جب سے یہ قاضی مقرر ہوئے تھے ان کی قوت حافظہ میں تغیر واقع ہو گیا تھا، یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی ہے کہ یہ روایت قاضی بننے سے قبل کی ہے ۔
ابوالحسناء: ان کے متعلق حضرت امام بخاری ﷫ فرماتے ہیں کہ میں نے علی بن المدینی سے ان کا نام دریافت کیا تو ان کو اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا ۔(سنن ترمذی) امام ذہبی میزان الاعتدال اور امام ہیثمی، اور حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں فر ما تے ہیں کہ یہ ایک مجہول آدمی ہیں ، مجہول آدمی کی روایت ناقابل قبول ہے ،اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
حنش: ان کے متعلق امام بخاری﷫ فرماتے ہیں کہ :”یتکلمون فی حدیثه“ (التا ریخ الکبیر:3/99)محدثین کو ان کی روایت پر کلام ہے ،امام ابوحاتم رازی (الجرح والتعدیل :3/291) میں فر ماتے ہیں :”لم أرهم یحتجون بحدیثه“ امام ابن حزم فرماتے ہیں :” ساقط مطرح“ یعنی گرے پڑے راوی ہیں ۔
امام ترمذی نے اس حدیث پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ،اور ہم شریک کی سند کے علاوہ کسی اور سند سے نہیں جانتے:”هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ “(ترمذی :1/باب الاضحیة بکبش)(صحیح یہ ہے : کتاب الاضاحی باب ما جاء في الأضحية عن الميت )
امام ترمذی کا حدیث کو غریب کہنا گویا اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سارے محدثین نے ان راویوں پر کلام کیا ہے، الغرض اگر ”حنش “ کے متعلق ابوداود کی توثیق مان لی جائے تو پھر دو راویوں ”شریک اور ابو الحسناء“کی کمزوری تو مانع صحت رہے گی ،معلوم ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،پھر ضعیف حدیث سے میت کی طرف سے قربانی کے جوازپر فتویٰ صادر فرمانا کیا مطلب ہے؟ جب کہ اہلحدیث کا مسلک صحیح احادیث کو اپنانا ہے ۔
تیسری دلیل:فتویٰ میں تیسری دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت پیش کی گئی ہے۔ حدیث طویل ہے جس کے آخری الفاظ ملاحظہ ہوں :”ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ “ ( مسلم بشرح النووی:5/باب اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے کا) اس روایت کو پیش کرکے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی تمام امت کی جانب سے قربانی کی، جس میں زندہ و مردہ سب شامل ہیں ۔
اعتراض:اس حدیث میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ آپ نے اپنی امت کے مردوں کی طرف سے قربانی کی ہے، یہ تو قیاس ہے ، جب آپ نے قیاس کی بناء پر میت کی جانب سے قر بانی کا جواز اس حدیث سے اخذکیا ہے تو کیوں نہ ہم یہ مراد لیں کہ آپ نے اپنی امت کے ان زندہ افراد کی طرف سے قربانی کی جن کو قربانی میسر نہ ہو سکی تھی ؟ اس کے علاوہ حدیث کا یہ اصول کہ بعض حدیث بعض حدیثوں کی تشریح کرتی ہے، اس کے مطابق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت اس روایت کی تشریح کررہی ہے۔ ملاحظہ ہو:
”ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْش ، أَحَدُهُمَا عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَالآخَرُ عَنْهُ وَعَنْ مَنْ لَمْ يُضَحيِّ مِنْ أُمَّتِهِ “(الطبرانی فی الاوسط) اس کے علاوہ احمد، ابوداود ، ترمذی ، ابن ماجہ، دارمی وغیرہ کی بھی روایت ہے جو اس طرح ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں : ”بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “(مشکاة ، انوار المصابیح :3/789 )یعنی کہ آپ نے اپنی جانب سے اور اپنی امت کے ان افراد کی جانب سے جنھوں نے قربانی نہیں کی تھی ایک قربانی کی، اور یہ ظاہر بات ہے کہ ”عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “کا لفظ زندوں کے لئے مستعمل ہے ۔ اگر آپ ”عن امتہ“ کے لفظ سے یہ مفہوم لیں کہ اس میں مردے بھی شامل ہیں تو پھر اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ نے زندہ اور مردہ امتیوں کی طرف سے بالاشتراک کیا تھا ۔ لیکن یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کی طرف سے مستقلا ایک جانور کی قربانی دینی چاہئے ؟لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر کوئی حدیث صراحۃً وارد نہیں ہے ۔ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب. اگر کوئی دلیل صراحۃً ہو تو بندہ کو بھی مطلع فرمائیں۔
سائل:مختار احمد تقی الدین جامعی۔عثمانیہ محمدیہ مسجد پیرمورے

جواب:سب سے پہلے یہ وضاحت کردینا مناسب ہے کہ میرے علم کی حد تک صرف میت کی جانب سے قربانی کے جواز کے لئے کوئی صریح و صحیح حدیث نہیں ہے، لیکن متعدد صحیح احادیث کے عموم وغیرہ سے استدلال کی گنجائش ہے ،اس واسطے میں اس سے منع تو نہیں کرتا لیکن میت کی طرف سے قربانی کرنے کی بہ نسبت اس کی جانب سے صدقہ و خیرات کو ترجیح دیتا ہوں ۔
اس کے بعد جواز کے قائلین کی دلیلوں پر آپ کے اعتراضات کے سلسلہ میں چند ملاحظات عرض کرتا ہوں۔
پہلی دلیل پر اعتراض سے متعلق چند گذارشات:
(١) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث : ” نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ نِسَائِهِ “سے جنھوں نے استدلال کیا ہے انھوں نے”نساء“میں جو عموم ہے اس سے استدلال کیا ہے، کیونکہ” نساء“ کے عموم میں آ پ کی زندہ ومردہ تمام ازواج مطہرات داخل ہیں، اگرآپ زندوں کے ساتھ اس کی تخصیص کے قائل ہیں تو اس کی دلیل دیجئے؟
آپ کا یہ قول درست نہیں کہ یہ استدلال قیاس پر مبنی ہے، کیونکہ قیاس میں ایک منصوص چیز کا حکم دوسری غیر منصوص چیز کو دونوں کے درمیان ایک علت جامعہ کی بناء پر دیا جاتا ہے ،جیسے ”خمر العنب “کاحکم ”تحریم“ تمرسے تیار کردہ شراب کو دیدیناایک علت جامعہ”اسکار“ کی بناء پر (علی رایٔ من یقول ان الخمر یطلق علی خمرالعنب فقط)اور یہاں یہ چیز نہیں ہے (اگر آپ کے نزدیک ہے تو مقیس ، مقیس علیہ اور علت کی توضیح کیجئے) بلکہ لفظ ”نساء“ کا عموم جو زندہ اور مردہ دونوں قسم کی عورتوں کو شامل ہے اس سے استدلال ہے۔
(٢)رہاآپ کا یہ اعتراض: کہ جب نبی ﷺ نے تمام بیویوں کی طرف سے ایک قربانی دی تھی تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے الگ ایک گائے کی قربانی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو یہ اعتراض جیسے مردوں کی جانب سے قربانی کرنے کے قائلین پر وارد ہوتاہے اسی طرح آپ پر بھی وارد ہوتاہے، اگر آپ کے بقول یہی تسلیم کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندہ ازواج مطہرات کی جانب سے ایک گائے ذبح کی تھی، توپھر سوال یہ ہے کہ جب آپ نے تمام زندہ ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے الگ ایک گائے ذبح کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دوسری ازواج پر کیوں ترجیح دی ؟ وما ھو جوابکم فھو جواب الآخرین.
(٣) میت کی جانب سے قربانی کو اگر اس کی وصیت یا نذر کی تنفیذ کے لئے نہیں ہے تو صدقہ میں شمار کیا جائے گا ۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی شریک کیا تھا تو کہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ الگ سے ایک گائے میت کی جانب سے قربانی کی جانی چاہئے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے نہ تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کی جانب سے الگ ایک گائے ذبح کرنا ضروری ہے ۔ اور نہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب میت کی جانب سے قربانی کریں تو اس میں زندوں کو بھی شریک کرنا ضروری ہے، بلکہ اس سے صرف میت کی جانب سے قربانی کے جواز کے لئے استدلال کی گنجائش ہے ،مگر ا س پر نص صریح نہیں ہے۔ (٤) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے قربانی کرنے کے بارے میں کوئی صریح حدیث میری نظر سے نہیں گذری۔
دوسری دلیل پر اعتراضات کے متعلق گذارشات:
(١) آپ فرماتے ہیں کہ” یہ بات تو مسلم ہے کہ جب کسی نے مرنے سے قبل وصیت کی کہ میری وفات کے بعد قربانی کرنا ،تو اس کی وصیت کی بناء پر اس کی لاج رکھ لی جائے گی ، اس پر تو اعتراض نہیں ، اعتراض ہے تو اس پر کہ کیا بغیر وصیت کے بھی قربانی کرنا درست ہے یا نہیں ؟ اگر آپ بغیر وصیت کے بھی جائز قرار دیتے ہیں تو پھر اس کی کوئی دلیل ہونی چاہئے، شاید میرے علم میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے اگر آپ کو معلوم ہوتو ازراہ کرم مطلع فرمائیں “۔
شاید نہیں ، بلکہ یقینا آپ کے علم میں اس کی دلیل نہیں ہے، مگر آپ یہ تو جانتے ہیں کہ نبی ﷺ کسی ناجائز فعل کی وصیت نہیں کریں گے ، اور صرف وصیت کرنے سے کوئی ناجائز چیز جائز نہیں ہو جاتی، اگر آپ یہ جانتے ہیں اور پھر آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اس کی وصیت کی ہے اور ایسی وصیت جائز ہے، تو پھر آپ کویہ بھی مان لینا چاہئے کہ میت کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے ، کیونکہ میت کی وصیت کی لاج جائز چیزوں میں ہی رکھی جائے گی ، ناجائز میں نہیں ،اسی لئے اگر کوئی ثلث مال سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو ایک ثلث سے زیادہ میں اس کی وصیت کی تنفیذ نہیں ہو گی ،، کیونکہ ثلث سے زیادہ کی وصیت اس کے لئے ورثہ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ، اسی طرح اگر وہ کسی وارث کے لئے وصیت کرے توحدیث : ” لا وصیةَ لوارثٍ“ کی مخالفت کی وجہ سے اس کی تنفیذ نہیں ہوگی ۔ ”قال ابن قدامة: لاتصح الوصیة بمعصية وفعل محرم“ ( المغنی :6/122 )
یعنی کسی معصیت یا فعل حرام کی وصیت صحیح نہیں۔
آگے آپ فرماتے ہیں:”اگر کوئی بغیر وصیت کے بھی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ،مگر قربانی نہیں بلکہ ایصال ثواب کی نیت سے کیا جانا چاہئے“۔
اب آپ نے تقریباً جواز کے قائلین کی رائے کو تسلیم کرلیا ہے، مگر آپ ایک غلط فہمی کا شکار ہیں ، وہ یہ کہ آپ سمجھتے ہیں کہ قربانی کی نیت اور ایصال ثواب کی نیت میں تضاد ہے ، دونوں کی نیت ایک ساتھ نہیں ہو سکتی، اس واسطے فرماتے ہیں کہ ” قربانی نہیں ایصال ثواب کی نیت سے کیا جانا چاہئے“ حالانکہ دونوں میں تضاد نہیں ہے۔
اگر آپ مسجد میں داخل ہوں تو دورکعت تحیۃالمسجد اور فجر کی سنت کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں، اگر کسی نے قربانی کی وصیت کی ہے تو ایک جانور کی قربانی اس کی وصیت کی تنفیذ اور ایصال ثواب دونوں کی نیت سے کرسکتے ہیں ،اگر کسی نے نذر مانی کہ ایک مسجد بنواؤں گا اور بنوانے سے قبل فوت ہو گیا تو اس کا وارث میت کی نذر کو پورا کرنے اور ایصال ثواب دونوں کی نیت سے مسجد بنوا سکتا ہے۔
اسی طرح وصیت نہ کرنے کی صورت میں بھی قربانی اور ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا جائز ہوگا۔
(٢)حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بہت سے علماء نے مذکورہ تینوں راویوں کی بناء پر تضعیف کی ہے، اور کچھ لوگوں نے اس کو صحیح کہا ہے ۔ امام حاکم فرماتے ہیں : ” ھذا حدیث صحیح السناد“ اور علامہ ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے ۔ ( المستدرک مع التلخیص للذھبی:4/229-230 ) اور احمد شاکر فرماتے ہیں :”إسناده صحيح، وقال بعد نقل كلام الترمذي: وفي طبعة بولاق (ج1 ص282-283) زيادة نصها "قال محمد: قال علي بن المديني: وقد رواه غير شريك. قلت له: أبوالحسناء ما اسمه فلم يعرفه. قال مسلم: اسمه الحسن"، وهذه الزيادة ثابتة في مخطوطتنا الصحيحة من الترمذي، وأبوالحسناء هذا مترجم له في التهذيب، فلم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً، وقال: اسمه الحسن، ويقال: الحسين، وترجمه الذهبي في الميزان فقال: لا يعرف، ولكن الحديث رواه الحاكم، وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبوالحسناء هذا هو الحسن بن الحكم النخعي، ووافقه الذهبي، والراجح عندي ما قاله الحاكم، والحسن بن الحكم النخعي الكوفي يكنى أباالحسن. ورجح الحافظ في التهذيب (ج2 ص271) أنه يكنى أباالحكم، فقد اختلف في كنيته، فالظاهر أن بعضهم كناه أيضاً أباالحسناء، وهو من شيوخ شريك أيضاً، وقد وثقه أحمد وابن معين، وترجمه البخاري في الكبير فلم يذكر فيه جرحاً - انتهى. “(مسند احمد مع تعلیق احمد شاکر: 2/152، مرعاة المفاتیح :5/94 )
اور اگر اس حدیث کو ضعیف بھی مان لیں تو ممانعت کی بھی کوئی صریح اور صحیح دلیل نہیں، اور دوسری حدیثوں سے جواز کی گنجائش نکلتی ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے غنیة الالمعی: ص ١٦٣، ١٧٦،المطبوع فی آخر المعجم الصغیر للطبرانی، المرعاة:5/93 ، ٩٥، محدث ستمبر :١٩٨٤ء) تیسری دلیل پر اعتراضات سے متعلق چند گذارشات:
(١)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے یہ الفاظ : ” ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ “ (رواہ مسلم) نقل کرنے کے بعد اس سے استدلال پر آپ اعتراض کرتے ہیں کہ ” اس حدیث میں کہیں اس کا ذکر نہیں ہے کہ آپ نے اپنی امت کے مردوں کی جانب سے بھی قربانی کی ہے ،یہ تو قیاس ہے“ ۔
یہاں آپ سے پھر وہی عموم اور قیاس میں عدم تمیز والی غلطی ہوئی ہے ۔ آپ غور کیجئے ” وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ “ کے عموم میں وہ مسلمان جو وفات پاگئے داخل ہیں یا نہیں؟ اگر داخل ہیں اور یقینا داخل ہیں تو یہ عموم اللفظ سے استدلال ہوا نہ کہ قیاس سے ، ہاں اگر یہاں ”ومن امةِ محمد الأحیاء“ ہوتا اور ان کے ساتھ مردوں کو بھی شامل کرتے تو قیاس ہوتا۔
(٢) آگے آپ لکھتے ہیں :” جب آپ نے قیاس کی بناء پر میت کی جانب سے قربانی کا جواز اس حدیث سے اخذ کیا ہے ،تو ہم کیوں نہ مراد لیں کہ آپ نے اپنی امت کے ان زندہ افراد کی طرف سے قربانی کی جن کو قربانی میسر نہ ہو سکی؟“۔
ابھی اس کی وضاحت ہو چکی ہے کہ یہ قیاس سے استدلال نہیں ہے بلکہ لفظ ” أُمَّةِ مُحَمَّدٍ “ کے عموم سے استدلال ہے ، رہا آپ کایہ سوال کہ کیوں نہ اس سے یہ مراد لیں کہ ان زندہ افراد کی طرف سے قربانی کی جن کو قربانی میسر نہ ہو سکی تھی ؟تو عرض ہے کہ ابو رافع کی حدیث : ”أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ ، فَإِذَا صَلَّى وَخَطَبَ النَّاسَ أَتَى بِأَحَدِهِمَا وَهُوَ قَائِمٌ فِي مُصَلاَّهُ فَذَبَحَهُ بِنَفْسِهِ بِالْمُدْيَةِ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُمَّ هَذَا عَنْ أُمَّتِي جَمِيعًا مِمَّنْ شَهِدَ لَكَ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لِي بِالْبَلاَغِ ، ثُمَّ يُؤْتَى بِالآخَرِ فَيَذْبَحُهُ بِنَفْسِهِ وَيَقُولُ : هَذَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ . . . الحديث“(رواہ احمد: 6/391 )
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہ حدیث: ”أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ ، اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ ، سَمِينَيْنِ ، أَقْرَنَيْنِ ، أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ ، فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ ، لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ ، وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلاَغِ ، وَذَبَحَ الآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ ، وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ “(سنن ابن ماجہ :2/1044 )
پہلی حدیث میں آپ نے ” عَنْ أُمَّتِي جَمِيعًا “یعنی میری تمام امت کی جانب سے فرمایا ہے ، پھر آپ اسے زندہ افراد کے ساتھ کیسے خاص کریں گے ؟کیا یہ ”عن امتی جمیعا “کے خلاف نہیں؟ پھر دونوں روایتوں میں ” شَهِدَ لَكَ بِالتَّوْحِيدِ “ یا” شَهِدَ لِلَّهِ ، بِالتَّوْحِيدِ “ الخ میں” شھد“ فعل ماضی ہے ۔ آپ اسے فی الحال زندہ افراد کے ساتھ کیسے خاص کریں گے ؟
آپ نے حد یث: ” ”ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ ، أَحَدُهُمَا عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَالآخَرُ عَنْهُ وَعَنْ مَنْ لَمْ يُضَحيِّ مِنْ أُمَّتِهِ “اورحدیث”بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “ذکر کی ہے، دونوں میں ”عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ “ہے یعنی جس نے قربانی نہیں کی پھر بھی آپ اسے زندوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں ، کیسے ؟
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ان امتیوں کی جانب سے ذبح کیا جنھو ں نے قربانی نہیں کی تھی ،لیکن میت کی جانب سے قربانی تو پھر بھی ثابت ہوگی ، البتہ جنھوں نے قربانی نہیں کی تھی ان کی جانب سے نصا ًاور جنھوں نے کی ہے ان کی جانب سے قیاساً ۔
آگے آپ فرماتے ہیں: ” اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ نے زندہ اور مردہ امتیوں کی طرف سے بالاشتراک کیا تھ، لیکن یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کی طرف سے مستقل ایک جانور کی قربانی دینی چاہئے“۔
اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے یہ مان لیا کہ اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے زندہ اور مردہ امتیوں کی طرف سے قربانی کی ہے، یعنی آپ نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ اسے زندوں کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں ۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ” یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کی طرف سے مستقلاًایک جانور کی قربانی دینی چاہئے ؟“
تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ اس سے یہ کہاں معلوم ہوتا ہے کہ میت کی جانب سے ایک جانور کی قربانی نہیں دے سکتے ہیں ؟ آپ نے اپنی طرف سے اور اپنے آل کی طرف سے ایک دنبے کی قربانی کی ہے، اگر کوئی ایسا کرے تو جائز ہے اور اگر کوئی ایک دنبہ اپنی جانب سے یا کسی ایک زندہ شخص کی جانب سے کرے تو بھی جائز ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی اشتراک و انفراد دونوں جائز ہے ۔ مردہ کی جانب سے مستقلاً ایک جانور کے وجوب کا میں قائل نہیں اس لئے یہ سوال ان سے پوچھئے جو اسے واجب کہتے ہیں۔
پھر آپ فرماتے ہیں :” لہٰذا یہ معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر کوئی حدیث صراحۃ ً وارد نہیں “۔
نص صریح صحیح تو یقینا نہیں ہے، مگر چند صحیح احادیث کے عموم سے جواز نکلتا ہے اور منع کے لئے بھی کوئی صریح حدیث نہیں ہے۔
مرعاة المفاتیح:(5/93 ) میں ہے : ”قال في غنية الألمعي ما محصله: إن قول من رخص في التضحية عن الميت مطابق للأدلة، ولا دليل لمن منعها “ اس واسطے اسے حرام مت کہئے ،البتہ یہ کہہ ہی کہ ان اختلافات و اعتراضات کے پیش نظر اگر کوئی میت کو ایصال ثواب کرنا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ اس کی جانب سے قربانی کرنے کے بجائے صدقہ و خیرات کردے۔ ھذا ماتبین لی فان کان صوابا فمن اللّٰہ، وان کان خطأًفمنی ومن الشیطان، وأستغفراللّٰہَ العلیَّ العظیمَ.
 
Top