• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا میت کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے؟

شمولیت
اکتوبر 26، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
225
پوائنٹ
31
کیا میت کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے؟
کیا نبی اکرمﷺ کی طرف سے ایک مسلمان قربانی کر سکتا ہے؟
میت کی طرف سے قربانی کرنے یا نبی اکر م ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے کے حوالے سے علماء کی دو آراء سامنے آ رہی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ قربانی کی جا سکتی ہے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ قربانی نہیں کی جا سکتی اور اس ضمن میں جو روایات نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں تو وہ عمل آپؐ کے لیے خاص ہے یا پھر یہ کہ دیگر روایت ضعیف ہیں۔
۰ قربانی ایک عبادت ہے اور عبادات کے بارے میں ایک مسلمہ اصول ہے کہ یہ توقیفی ہیں اور ان کے بارے میں کوئی قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
۰ دین کی بنیاد قرآن اور سنت ہے۔ کسی بھی فرد کی رائے یا فتوی نہیں۔ ہم یہاں ہر دو طرح کے فتووں کو ایک طرف رکھ کر صرف قرآن مجید اور صحیح احادیث کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کریں گے ۔
۰ قربانی وہ عبادت ہے جس کو نبی اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کے ہر سال میں کیا اس لیے یہ ایک سنت ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی سنت ہونے کے علاوہ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت رہی اور دیگر انبیاء کو دی گئی شریعتوں میں بھی کسی نہ کسی شکل میں نافذ رہی۔حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں کی قربانی کا ذکر قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔
۰ قربانی وہ مالی عبادت ہے جس کے بارے میں واضح احکامات اور اجروثواب احادیث رسول ﷺ سے ثابت ہیں ۔ان واضح احکامات و احادیث کی موجودگی میں کسی کی رائے یا فتوی قابل قبول نہیں ہو سکتا خاص طور پر اس وقت جب ہمارا منہج صحیح حدیث پر عمل کرنا ہے ۔
۰ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کا جواز جس روایت سے ملتا ہے وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خاص ہے تو اس کے خاص ہونے کی کوئی واضح دلیل ہونی چاہیئے ورنہ ہر حکم عام ہے اور پوری امت کے لیے اسوہ ہے مثلا نبی اکرم ﷺ کے لیے چار سے زیادہ نکاح کرنا خاص تھا تو اس کے لیے واضح نص قرآن میں موجود ہے۔ ایک طرف آپ ؐ کو سورۃ الاحزاب میں بعض خواتین کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دی گئی تو دوسری طرف سورۃ النساء میں امت کو واضح ہدایت کے ذریعے چار تک محدود کر دیا۔ تہجد کی نماز کو آپ ؐ کے لیے فرض کیا گیا تو نافلۃ لک کے الفاظ استعمال کیے۔آپ ؐکے بعد کسی نبی کے نہ آنے کی خبر خاتم النبین کے واضح الفاظ کے ساتھ دی گئی۔ اسی طرح کوئی بھی حکم جو آپ ؐ کے لیے خاص تھا اس کاذکر قرآن مجید یا احادیث مبارکہ میں کر دیا گیااور ان کے آپؐ کے لیے خاص ہونے میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔اب وہ احکام جن کو نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر اپنی زندگی کے کئی سالوں میں کیا اور کہیں کسی بھی طرح ایسا کوئی حکم موجود نہیں جس سے پتہ چلے کہ یہ امت کا کوئی اور فرد نہیں کر سکتا تو اس عمل کو آپؐ تک محدود کیسے کیا جا سکتا ہے اور اس پر کوئی اجماع بھی نہیں ہے۔ امت کا ایک زمانے سے ا س پرتعامل رہا ہے اور آج تک ہے۔ علماء کی دو آراء ہمیشہ سے موجود رہی ہیں جو خود اس بات کی علامت ہیں کہ اس کے نبی ﷺ کے لیے خاص ہونے کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔
۰ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھی یہ ایک مشترکہ عبادت ہے جو خاندان کے سربراہ کی طرف سے ادا کی جائے تو سب گھر والوں کی طرف سے ادا ہو جاتی ہے۔ ۔ جو عبادت اپنی اصل نوعیت ہی کے اعتبار سے مشترک حیثیت رکھتی ہے اور اس میں ایک گھرانے کے تمام زندہ افراد شریک ہیں تو اس میں مردہ افراد کی شرکت سے کیا چیز مانع ہے ؟دیگر مالی عبادات جیسے صدقہ و خیرات میں بھی یہ معاملہ ہے کہ وہ زندہ افراد کے ساتھ ساتھ مردہ افراد کی طرف سے بھی یکساں انداز میں ادا کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
صحیح روایات
روایات جن سے دیگر افراد خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنے کی صراحت ملتی ہے۔
۰ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :’’ بیشک رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والا ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کے ہاتھ پاؤں،پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں چنانچہ وہ آپؐ کے سامنے لایا گیا تاکہ آپؐ اس کی قربانی کریں ۔پھر آپؐ نے ان سے فرمایا: اے عائشہ! چھری لاؤ۔پھر آپؐ نے فرمایا: اس کو پتھر پر تیز کرو۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی،پھر آپؐ نے چھری کو تھاما اور مینڈھے کوذبح کرنے کے لیے لٹا دیا۔پھر آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ!اے اللہ!محمد،آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما۔پھر آپؐ نے جانور کو ذبح کیا۔‘‘(صحیح مسلم۔کتاب الاضاحی)
۰ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہﷺ کے پاس دو سینگوں والے، چتکبرے،بڑے بڑے،خصی مینڈھے لائے گئے۔آپؐ نے ان دونوں میں سے ایک کو پچھاڑا اور فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اللہ سب سے بڑا ہے،محمد کی طرف سے اور ان کی امت میں ہر اس شخص کی طرف سے جس نے تیری توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام پہنچانے کی شہادت دی۔‘‘ (مجمع الزوائد،کتاب الاضاحی،حسن(
۰ حضرت ابو رافعؓ سے روایت ہے :’’جب رسول اللہ ﷺ قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو فربہ سینگوں والے ،چت کبرے مینڈھے خریدتے۔جب آپؐ نماز اور خطبہ سے فارغ ہو جاتے تو عید گاہ ہی میں ان دو میں سے ایک مینڈھا لایا جاتا۔آپ ؐ اس کوذبح کرتے اور فرماتے: اے اللہ! یہ میری امت کے ان سب لوگوں کی طرف سے ہے جنہوں نے آپ کی توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام پہنچانے کی شہادت دی۔پھر دوسرے کو لایا جاتا اور آپؐ اس کو ذبح کرتے اور فرماتے: اے اللہ یہ محمد اور آل محمد کی طرف سے ہے اور آپؐ ان دونوں مینڈھوں کے گوشت سے مسکینوں کو کھلاتے ،خود بھی اس سے تناول فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتے۔)مجمع الزوائد،کتاب الاضاحی،حسن)
۰ حضرت حنش ؒ سے روایت ہے :’’ حضرت علیؓ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی ۔ایک مینڈھا نبی کریم ﷺ کی طرف سے اور ایک مینڈھا پنی طرف سے اور فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں لہذا میں ہمیشہ قربانی کرتا رہوں گا۔‘‘ (مسند احمد،سنن ابی داؤد،جامع الترمذی،مستدرک علی الصحیحین)
بعض علماء نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے البتہ امام حاکم،ذہبی،شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
یہ روایت سنداً اگر ضعیف ہو تب بھی نبی اکرم ﷺ کا اپنی امت اور آل کی طرف سے قربانی کرنے والی روایات سندا بالکل صحیح ہیں۔ امت اور آل دونوں میں زندہ اور فوت شدگان سب شامل تھے۔
۰ امام ابن تیمیہؒ اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جس طرح میت کی طرف سے حج اور صدقہ کرنا جائز ہے،اسی طرح اس کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔میت کی طرف سے قربانی گھر میں کی جائے گی۔اس کی قبر پر نہ تو قربانی کا جانور ذبح کرنا جائز ہے اور نہ ہی کوئی اور جانور۔‘‘
۰ کتب احادیث میں کثرت سے ایسی روایات بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کرتے تھے۔ گھر والوں میں وہ افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں جو زندہ نہ ہوں جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کی نیت کے الفاظ ملتے ہیں جو عام ہیں اور ان میں زندہ،مردہ سب شامل ہیں۔
۰ حضرت عطاء بن یسارؒ سے روایت ہے کہ ’’ میں نے حضرت ابو ایوبؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں لوگ قربانیاں کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی دیا کرتا تھا اور اس سے وہ کھاتے بھی تھے اور کھلاتے بھی تھے۔‘‘ (المؤطا امام مالک،صحیح)
واللہ اعلم بالصواب
زبیدہ عزیز
 

رحیق

رکن
شمولیت
مئی 06، 2011
پیغامات
141
ری ایکشن اسکور
532
پوائنٹ
90
جزاک اللہ خیرا۔۔۔بہناں بہت اچھے طریقے سے وضاحت کی۔۔اگر کوئی مزید وضاحت کردے تو بہت بہتر ہوگا ۔
میں مزید ایک حدیث کا اضافہ کردیتا ہوں۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"اللھم ھذا عنی وعمن لم یضح من امتی"
ْ(مسند احمد،سنن ابی داؤد وسنن ترمذی)
"اے اللہ! یہ میری اور میری امت کے ان افراد کی طرف سے ہے،جنہوں نے(عدم استطاعت کی) بنیاد پر قربانی نہیں کی۔"
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کیا ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں؟
کیا میں اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کرسکتاہوں ؟

الحمد للہ
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے : اصل تویہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اورجوکچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئي اصل نہيں ۔
فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں :
پہلی قسم :

کہ زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے مثلا : کوئي شخص اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اوراس میں وہ زندہ اورفوت شدگان کی نیت کرلے ( تویہ جائز ہے ) ۔
اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جوانہوں نے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے تھی اوران کے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہوچکے تھے ۔
دوسری قسم :

یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرے ( اوریہ واجب ہے لیکن اگراس سےعاجز ہوتوپھر نہيں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ توجوکوئي بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تواس کا گناہ ان پر ہے جواسے تبدیل کرتے ہيں یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے } ۔
تیسری قسم :

زندہ لوگوں سے علیحدہ اورمستقل طور پرفوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے ( وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اوروالدہ کی جانب سے علیحدہ اورمستقل قربانی کرے ) تویہ جائز ہے ، فقھاء حنابلہ نے اس کوبیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کوپہنچے گا اوراسے اس سے فائدہ ونفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پرقیاس کیا ہے ۔
لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سےبالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئي قربانی نہیں کی ، نہ توانہوں نے اپنے چچا حمزہ رضي اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيزاقرباء میں سے تھے ۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اورتین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی ، اورنہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سےپیاری تھیں ۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔
اورہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جوآج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اوراسے ( حفرہ قربانی ) کا نام دیتے اوریہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کوشریک ہونا جائز نہيں ، یا پھروہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے ، یاان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے اوراپنی اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں ۔
اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئي شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اورفوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کونہ کریں ۔ .


دیکھیں : رسالۃ : احکام الاضحيۃ الذکاۃ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عامر بھائی،اس کا مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
ارسلان بھائی سب سے پہلے تو معافی چاہتا ہوں میں آپ کو کوٹ نہیں کرنا چاہتا تھا، میں نے غلطی سے آپ کی پوسٹ سے اقتباسات لے لیا، جبکہ میں بہن کی پوسٹ کو ساتھ جوڑ کر ایک اور فتویٰ جوڑ رہا تھا، لیکن کیا کرے آپ غلطی سے بیچ میں آ گئے. اب کیا کرے ؟؟!!

میرے خیال سے جتنا مجھے علم ہے آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سےبھی قربانی کی جا سکتی ہے لیکن یہ قربانی نفل ہوگی. علماء بہتر بتا سکتے ہیں.
 
Top