• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا میت کے پاؤں کے پاس سورہ ٔ البقرہ کا پہلا اور آخری رکوع پڑھا جا سکتا ہے ؟

شمولیت
جنوری 23، 2018
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
52
کیا میت کے پاؤں کے پاس سورہ ٔ البقرہ کا پہلا اور آخری رکوع پڑھا جا سکتا ہے ؟

از قلم:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی​

الحمد للہ رب العالمین,و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد

یوں تو عقیدے کے معاملے میں ارباب ِ بدعات و خرافات ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور نت نئی پھسپھسی دلائل کے ساتھ سیدھے سادے عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے بلکہ انہیں گم گشتۂ راہ کرنے کے ہمیشہ در پئے آزار رہتے ہیں اور جہنم میں دھکیلنے کی خوب خوب سعی نا مسعود کرتے ہیں,ابھی حال ہی میں ایک مولوی ایک حدیث پیش کرکے جملہ غیر مقلدین کو چیلنج کرتا ہے اور بے بنیاد باتیں اور دلائل سے یہ ثابت کرنے کی ناروا کوشش کرتا ہے کہ اس باب میں وارد احادیث نہ صرف صحیح ہیں ,بلکہ قابل احتجاج اور لائق عمل ہیں اور اس کی طرف بڑے طمطراق انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ حوالے کے لئے گلہ پھاڑ پھاڑ کر یہ کہتا ہے کہ حافظ ابن حجر جیسے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے,میرے ایک دوست نے ایک ویڈیو بھیج کر اس کا جواب طلب کیا ہے,لہذا میں نے مناسب سمجھا کہ اس کی پوری تحقیق اور محققین کے نقولات عوام و خواص میں پیش کر دئے جائیں تاکہ مطلع یکلخت صاف ہوجائے اور عوام گمراہ نہ ہونے پائے

تو آئیے ملاحظہ کرتے ہیں:

(۱)پہلی حدیث :

سب سے پہلے آئیے پوری حدیث مع سند ملاحظہ کرتے ہیں امام طبرانی کہتے ہیں:( حَدَّثَنَا أَبُو شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَابْلُتِّيُّ ، ثنا أَيُّوبُ بْنُ نَهِيكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَلَا تَحْبِسُوهُ، وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ، وَلْيُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ فِي قَبْرِهِ)(ترجمہ:………………….. حضرت عبد ﷲ بن عمر رضي ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷲ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے روک نہ رکھو بلکہ اسے قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور اس کی قبر پر اس کے سر کی جانب سورہ فاتحہ اور اس کے پاؤں کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں)

ثانیا:حدیث کی تخریج

اس حدیث کو امام طبرانی نے اپنی کتاب (المعجم الکبیر حدیث نمبر:۱۳۶۱۳ میں,امام بیہقی نے اپنی کتاب شعب الإیمان حدیث نمبر:۸۸۵۴ میں اور امام دیلمی نے اپنی کتاب الفردوس حدیث نمبر:۱۱۱۵ میں بروایت ابن عمر ۔رضی اللہ عنہ۔سے روایت کیا ہے

ثالثا:حدیث کی سند

اب آئیے اس حدیث کی سند کو ملاحظہ کرتے ہیں اور اس کی استنادی حیثیت معلوم کرتے ہیں

(الف) البابلتی :امام طبرانی نے یحیی بن عبد اللہ بن ضحاک البابلتی سے روایت کیا ہے اور یحیی البابلتی کے بارے میں امام جرح و تعدیل ابن ابی حاتم فرماتے ہیں (يأتي عن الثقات بأشياء معضلة ، يهم فيها ، فهو ساقط الاحتجاج فيما انفرد به)امام جرح و تعدیل امام ابن عدی فرماتے ہیں:( أثر الضعف على حديثه بيّن)(دیکھئے:تہذیب التہذیب از حافظ حجر عسقلانی:۱۱؍۲۱۱)(بابلتی کی حدیث میں ضعف کا اثر واضح ہے )

ذرا اندازہ کیجئے کہ امام جرح و تعدیل بابلتی کو ساقط الاعتبار,واہم اور منفرد قرار دے رہے ہیں,تو بھلا ایسے شخص کی روایت کیوں کر قابل قبول ہوسکتی ہے ؟

امام جرح و تعدیل ابو زرعہ رازی وغیرہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے(دیکھئےالجرح و التعدیل:۹؍۱۶۴)

(ب)ایوب بن نہیک :البابلتی نے ایوب بن نہیک سے روایت کی ہے,اور ابن نہیک کے بارے میں امام ازدی فرماتے ہیں(متروک)(یعنی وہ متروک ہے)(دیکھئے:میزان الاعتدال از ذہبی:۱؍۲۹۴)

ابو حاتم بن حبان بستی فرماتے ہیں:( يخطئ)(یعنی وہ غلطیاں کرتا ہے)(دیکھئے: لسان المیزان از ابن حجر نمبر:۱؍۴۹۰)

امام جرح و تعدیل ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں:(منکر الحدیث )(وہ منکر الحدیث ہے)(دیکھئے:لسان المیزان از ابن حجر نمبر:۱؍۴۹۰)

نیز فرماتے ہیں:( لا أحدث عن أيوب بن نهيك. ولم يقرأ علينا حديثه وقال: هو منكر الحديث)(الجرح و التعدیل از رازی :۲؍۲۵۹؛نیز دیکھئے:لسان المیزان از ابن حجر نمبر:۱؍۴۹۰)(میں ایوب بن نہیک سے حدیثیں بیان نہیں کرتا ,اس کی حدیثیں میرے پاس پڑھی نہیں گئیں؛نیز فرمایا:وہ منکر الحدیث ہے)

اسی لئے علامہ البانی ۔رحمہ اللہ۔ نے اس حدیث کو ضعیف جدا کہا ہے (دیکھئے:سلسلہ ضعیفہ حدیث نمبر:۴۱۴۰)نیز علامہ ہیثمی فرماتے ہیں(وفيه يحيى بن عبد الله البابلتي وهو ضعيف)(دیکھئےمجمع

الزوائد و منبع الفوائد:۳؍۴۴)(اس حدیث کی سند میں یحیی بن عبد اللہ بابلتی ہے اور وہ ضعیف ہے )

اسی لئے مملکت ِ سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:( قراءة القرآن عند القبور لا أصل لها بل هي من البدع ، القبور تزار للذكرى والعظة والدعاء للأموات بالمغفرة والرحمة ، أما القراءة عند قبورهم فما تفيدهم ، انقطعت أعمالهم ، يفيد الدعاء لهم والصدقة عنهم ، والحج عنه والعمرة عنهم ، وقضاء ديونهم هذا الذي ينفعهم ، أما القراءة عند قبورهم فلا تشرع بل هي بدعة " .(انتهى ملخصا من "فتاوى نور على الدرب" (14/ 217-218) .)(ترجمہ:قبروں کے پاس قرآن پڑھنے کی کوئی اصل نہیں ہے ,بلکہ وہ بدعات میں سے ہے ,قبروں کی زیارت نصیحت,عبرت,اور مردوں کے لئے دعائے مغفرت و رحمت کے لئے کی جاتی ہے )

ابو بکر الخلال فرماتے ہیں:( أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ الوراق ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الْحَدَّادُ، وَكَانَ صَدُوقًا، وَكَانَ ابْنُ حَمَّادٍ الْمُقْرِيءُ يُرْشِدُ إِلَيْهِ ، فَأَخْبَرَنِي قَالَ: " كُنْتُ مَعَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ قُدَامَةَ الْجَوْهَرِيِّ فِي جَنَازَةٍ ، فَلَمَّا دُفِنَ الْمَيِّتُ جَلَسَ رَجُلٌ ضَرِيرٌ يَقْرَأُ عِنْدَ الْقَبْرِ، فَقَالَ لَهُ أَحْمَدُ: يَا هَذَا إِنَّ الْقِرَاءَةَ عِنْدَ الْقَبْرِ بِدْعَةٌ ، فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنَ الْمَقَابِرِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ، مَا تَقُولُ فِي مُبَشِّرٍ الْحَلَبِيِّ ؟ ، قَالَ: ثِقَةٌ ، قَالَ: كَتَبْت عَنْهُ شَيْئًا؟ قُلْتُ: نَعَمْ ، قَالَ: فَأَخْبَرَنِي مُبَشِّرٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَوْصَى إِذَا دُفِنَ أَنْ يُقْرَأَ عِنْدَ رَأْسِهِ بِفَاتِحَةِ الْبَقَرَةِ ، وَخَاتِمَتِهَا، وَقَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُوصِي بِذَلِكَ ، فَقَالَ أَحْمَدُ: ارْجِعْ فَقُلْ لِلرَّجُلِ يَقْرَأُ)(دیکھئے:الأمر بالعرُوف و النہی عن المنکرص؍ ۸۸)(ترجمہ:حسن بن احمد وراق نے مجھے بتایا ,انہوں نے کہا کہ علی بن موسی حداد نے مجھ سے حدیث بیان کی,اور وہ صدوق تھا,اور قاری ابن حماد اس کی طرف رہنمائی کرتے تھے,چنانچہ انہوں نے مجھے بتایا :میں احمد بن حنبل اور محمد بن قدامہ جوہری کے ساتھ ایک جنازۃ میں تھا ,چنانچہ جب میت کو دفن کیا گیا ایک نابینا شخص قبر کے پاس بیٹھا اور قرآن پرھنے لگا چنانچہ امام احمد نے اس سے فرمایا:ارے بھائی قبر کے پاس قرآن پڑھنا بدعت ہے ,ہم لوگ جب قرستان سے نکلے تو محمد بن قدامہ نے امام احمد سے کہا :ابو عبد اللہ!مبشر حلبی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟فرمانے لگے:وہ تو ثقہ آدمی ہے,انہوں نے کہا :کیا آپ نے ان سے کچھ لکھا بھی ہے ؟فرمایا:ہاں(لکھا تو ہے)فرمایا:مبشر بن عبد الرحمن بن علاء بن لجلاج سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے وقیت فرمائی تھی کہ جب دفن کیا جائے تو اس کے سر کے پاس سورہ ٔ البقرہ کی شروع آیات اور آخری آیات پڑھی جائیں ,اور فرمایا:میں نے ابن عمر۔رضی اللہ عنہما۔کو اس بات کی وصیت کرتے ہوئے سنا ہے ,امام احمد فرمانے لگے:جاؤ اور اس آدمی سے پڑھنے کے لئے کہہ دو )

اس واقعہ بھی استدلال کیا جاتا ہے حالانکہ یہ واقعہ قطعی طور پر امام اہل سنت و الجماعت پر بہتان تراشی اور افترا پردازی ہے ,چنانچہ :

(۱)علامہ البانی فرماتے ہیں :( في ثبوت هذه القصة عن أحمد نظر، لأن شيخ الخلال الحسن بن أحمد الوراق لم أجد له ترجمة فيما عندي الآن من كتب الرجال، وكذلك شيخه علي بن موسى الحداد لم أعرفه، وإن قيل في هذا السند إنه كان صدوقا، فإن الظاهر أن القائل هو الوراق هذا، وقد عرفت حاله)(احکام الجنائز:۱۹۲)(اس واقعہ کا ثبوت امام احمد سے محل نظر ہے کیوں کہ جو کتابیں میرے پاس موجود ہیں ان میں خلال کے استاد حسن بن احمد وراق کے بارے میں ان کی کوئی سوانح حیات نہیں مل سکی ,اسی طرح ان کے استاد علی بن موسی حداد غیر معروف ہیں,گو کہ اس میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ وہ ثقہ ہے کیوں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کا کہنے والا وراق ہے اور وراق کا تو حال معلوم ہوگیا

(۲)امام احمد ۔رحمہ اللہ۔ کے کبار تلامذہ آں رحمہ اللہ کے قبروں کے پاس کچھ پڑھنے کے متعلق فرماتے ہیں:( سمعت أحمد، سئل عن القراءة عند القبر؟ فقال: لا ")(دیکھئے:مسائل ابو داؤد ص:۲۲۴)

(۳)اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( نَقَلَ الْجَمَاعَةُ عَنْ أَحْمَدَ كَرَاهَةَ الْقُرْآنِ عَلَى الْقُبُورِ. وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ وَعَلَيْهَا قُدَمَاءُ أَصْحَابِهِ)(مجموع فتاوی ۵؍۳۶۲)(ترجمہ:ایک جماعت نے امام احمد سے یہ نقل فرمایا ہے کہ آں رحمہ اللہ قبروں کے پاس قرآن پڑھنا مکروہ گردانتے تھے ,یہی جمہور سلف کا قول ہے اور اسی پر آں رحمہ اللہ کے قدیم اصحاب گامزن ہیں )

(۲)دوسری روایت :یہ روایت ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیں:(حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ - قَالُوا : ثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ لِي أَبِي: " يَا بُنَيَّ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَلْحِدْنِي، فَإِذَا وَضَعْتَنِي فِي لَحْدِي فَقُلْ: بِسْمِ اللهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللهِ، ثُمَّ سُنَّ عَلَيَّ الثَّرَى سَنًّا، ثُمَّ اقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِي بِفَاتِحَةِ الْبَقَرَةِ وَخَاتِمَتِهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ)(ترجمہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ العلاء بن اللجلاج نے اپنے بیٹوں سے کہا جب تم مجھے میری قبر میں داخل کرنے لگو تو مجھے لحد میں رکھو اور کہو: " باسم الله وعلى سنة رسول الله ﷺ " اور میرے اوپر مٹی ڈالو۔ اور میرے سر کے نزدیک سورۃ البقرۃ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھو میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اسے مستحب سمجھتے تھے)

تخریج:اب اس حدیث کی تخریج بھی ملاحظہ فرما لیجئے :

المعجم الکبیر از طبرانی حدیث نمبر:۴۹۱,شعب الإیمان از بیہقی حدیث نمبر:۷۰۶۸,الأمر بالمعروف و النہی عن المنکر از ابو الخلال ص ۸۷,المجالسہ از دینوری (۷۵۷),تاریخ دوری از عباس دوری:۲؍۳۷۹(۵۴۱۳)

معجم طبرانی کی سند مع حدیث کچھ یوں ہے:(حدثنا أبو أسامة عبد الله بن محمد بن أبي أسامة الحلبي ، ثنا أبي ، ح وحدثنا إبراهيم بن دحيم الدمشقي ، ثنا أبي ، ح وحدثنا الحسين بن إسحاق التستري ، ثنا علي بن بحر ، قالوا : ثنا مبشر بن إسماعيل ، حدثني عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج ، عن أبيه ، قال : قال لي أبي : " يا بني إذا أنا مت فألحدني ، فإذا وضعتني في لحدي فقل : بسم الله وعلى ملة رسول الله ، ثم سن علي الثرى سنا ، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة وخاتمتها ، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك ")

طبرانی نے اپنی کتاب (الدعاء حدیث نمبر:۱۱۱۱)میں اسے یوں ذکر فرمایا ہے(حدثنا محمد بن يحيى القزاز ، ثنا حفص بن عمر الحوضي ، ثنا شعبة ، عن قتادة ، عن أبي الصديق الناجي ، عن ابن عمر ، رضي الله عنه قال : " إذا وضعتم الميت في قبره فقولوا : " بسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم )

شعب الإیمان(۸۹۵۹) کی حدیث مع سند کچھ یوں ہے(أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان أنا أحمد بن عبيد الصفار نا أبو شعيب الحراني نا يحيى بن عبد الله البابلتي نا أيوب بن نهيك الحلبي مولى آل سعد بن أبي وقاص قال سمعت عطاء بن أبي رباح سمعت عبد الله بن عمر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول : " إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة الكتاب وعند رجليه بخاتمة البقرة)

ابو بکر خلال کی کتاب (الأمر بالمعروف (۲۴۳)میں کچھ یوں مذکور ہے(أخبرنا الشيخ الإمام شرف الدين أبو عبد الرحمن عيسى قال : أنا الوالد الإمام محيي الدين عبد القادر بن أبي صالح قال : أنا أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار الصيرفي قال : أنا أبو إسحاق البرمكي قال : أنا أبو بكر عبد العزيز بن جعفر الفقيه قال : أنا أبو بكر أحمد بن محمد الخلال قال : أنا العباس بن محمد الدوري ، قال : حدثنا يحيى بن مغيرة ، قال : حدثنا مبشر الحلبي ، قال : حدثني عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج ، عن أبيه ، قال : قال أبي : " إذا أنا مت ، فضعني في اللحد ، وقل : بسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وسن علي التراب سنا ، واقرأ عند رأسي بفاتحة الكتاب ، وأول البقرة ، وخاتمتها ، فإني سمعت عبد الله بن عمر يقول هذا)

ابو بکر خلال کی کتاب (القراءۃ عند القبور )(حدیث نمبر:۱)میں کچھ یوں مذکور ہے( أخبرنا الشيخ الإمام شرف الدين أبو عبد الرحمن عيسى قال : أخبرنا الوالد الإمام محيي الدين أبو محمد عبد القادر بن أبي صالح قال : أخبرنا أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار الصيرفي قال : أخبرنا أبو إسحاق البرمكي قال : أخبرنا أبو بكر عبد العزيز بن جعفر الفقيه قال : أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد الخلال قال : أخبرنا العباس بن محمد الدوري ، قال : حدثنا يحيى بن معين ، قال : حدثنا مبشر الحلبي ، قال : حدثني عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج ، عن أبيه ، قال : " إني إذا أنا مت ، فضعني في اللحد ، وقل : بسم الله ، وعلى سنة رسول الله ، وسن علي التراب سنا ، واقرأ عند رأسي بفاتحة الكتاب وأول البقرة وخاتمتها)

اس حدیث کی سند کا بھی حال ملاحظہ فرما لیں :

(الف)یہ روایت حضرت عبد اللہ بن عمر ۔رضی اللہ عنہما۔پر موقوف ہے,امام بیہقی فرماتے ہیں: " لم يكتب إلا بهذا الأسناد فيما أعلم و قد روينا القراءة المذكورة فيه عن ابن عمر موقوفا عليه ( دیکھئے شعیب الایمان حدیث۹۲۹۴)یعنی یہ مر فوع روایت میرے علم کے مطابق صرف اسی سند میں آتی ہے اور اس میں مذکور (سورہ بقرة کی آیات کی ) قرأت ہمیں عبداللہ بن عمر سے موقوفاً روایت کی گئی ہے

(ب) عبد الرحمن بن علاء بن لجلاج جو اس اثر کا مرکزی راوی ہے,مجہول راوی ہے,امام ذہبی فرماتے ہیں(ما روى عنه سوى مبشر بن إسماعيل)(میزان الاعتدال ۲؍۵۷۹)(اس اثر کو مبشر بن اسماعیل کے علاوہ کسی نے بھی روایت نہیں کیا ہے)

(ج)بعض لوگوں کو ابن حبان۔رحمہ اللہ۔ کی توثیق سے دھوکہ ہوا ہے,کیوں کہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ابن حبان توثیق میں متساہل واقع ہوئے ہیں,حتی کہ آں امام نے ثقات میں اسے ذکر فرما دیا ہے,حافظ ابن حجر ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( "مقبول" يعني عند المتابعة ، وإلا فهو لين الحديث)(دیکھئے تقریب التہذیب ص ۳۴۸)

(د) حافظ ابن حجر عسقلانی نے تقریب (3975) میں اسے مقبول لکھا ہے اور دکتور بشار عواد اور شیخ شعیب ارناؤط نے مجہول کہا ہے(دیکھئے: تقریب التہذیب 2/342) اس سے روایت کرنے میں مبشر بن اسماعیل الحلبی متفرد ہے۔ شیخ البانی میں رقمطراز ہیں۔" والموقوف لا يصح اسناده فيه عبدالرحمن بن العلاء بن اللجلاج وهو مجهول "(دیکھئے: مشکوٰۃ 2/223 تحقیق ثانی)

موقوف کی سند بھی صحیح نہیں اس میں عبدالرحمٰن بن العلاء بن اللجلاج مجہول ہے۔

(د)حضرت عبد اللہ بن عمر۔رضی اللہ عنہما۔سے جو صحیح روایت مروی ہے وہ یہ ہے (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أُدْخِلَ المَيِّتُ القَبْرَ، قَالَ: (بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ)(ترمذی حدیث نمبر:۱۰۴۶,علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)اتنا ہی حصہ نبی ٔ کریمﷺ سے ثابت اور منقول ہے,باقی حصہ آپﷺ سے قطعی ثابت نہیں ہے

امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:( هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الوَجْهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ أَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا أَيْضًا)

(ھ)علامہ البانی۔رحمہ اللہ۔ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:( أن السند بهذا الاثر لا يصح عن ابن عمر، ولو فرض ثبوته عن أحمد، وذلك لان عبد الرحمن ابن العلاء بن اللجلاج معدود في المجهولين، كما يشعر بذلك قول الذهبي في ترجمته من (الميزان): (ما روي عنه سوى مبشر هذا)، ومن طريقة رواه ابن عساكر (13 / 399 / 2) وأما توثيق ابن حيان إياه فمما لا يعتد به لما اشهر به من التساهل في التوثيق، ولذلك لم يعرج عليه الحافظ في (التقريب) حين قال في المترجم: (مقبول) يعني عند المتابعة وإلا فلين الحديث كما نص عليه في المقدمة، ومما يؤيد ما ذكرنا أن الترمذي مع تساهله في التحسين لما أخرج له حديثا آخر (2 / 128) وليس له عنده سكت عليه ولم يحسنه!(سمعت أحمد سئل عن القراءة عند القبر؟ فقال: لا))(احکام الجنائز:۱۹۲)

(و)نیز علامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:( أنه لو ثبت سنده كل عن ابن عمر، فهو موقوف لم يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فلا حجة فيه أصلا.,ومثل هذا الأثر ما ذكره ابن القيم أيضا (ص 14): (وذكر الخلال عن الشعبي قال: كانت الأنصار إذا مات لهم الميت اختلفوا إلى قبره يقرؤون القرآن).

فنحن في شك من ثبوت ذلك عن الشعبي بهذا اللفظ خاصة، فقد رأيت السيوطي قد أورده في (شرح الصدور) (ص 15) بلفظ: (كانت الانصار يقرؤون عند الميت سورة البقرة).

قال:(رواه ابن أبي شيبة والمروزي) أورده في (باب ما يقول الانسان في مرض الموت، وما يقرأ عنده).ثم رأيته في (المصنف) لابن أبى شيبة (4 / 74) وترجم له بقوله: (باب ما يقال عند المريض إذا حضر) ",فتبين أن في سنده مجالدا وهو ابن سعيد قال الحافظ في (التقريب): (ليس بالقوي، وقد تغيير في آخر عمره)؛فظهر بهذا أن الاثر ليس في القراءة عند القبر بل عند الاحتضار، ثم هو على ذلك ضعيف الإسناد.)(احکام الجنائز :۱۹۲)نیز فرماتے ہیں:( وأما الأثر الذي أشار إليه البيهقي رحمه الله؛ فهو مع كونه موقوفاً ففيه عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج؛ وهو مجهول؛ كما حققته في "أحكام الجنائز" (ص 192) ، وقول الهيثمي في "المجمع" (3/ 44) :"رواه الطبراني في "الكبير"، ورجاله موثقون".فهو مما لا ينافيه، بل هو يشير إلى جهالته؛ لأن "موثقون" غير "ثقات" عند من يفهم الهيثمي واصطلاحه، وهو يعني أن بعض رواته توثيقه لين، وهو يقول هذا في الغالب فيما تفرد بتوثيقه ابن حبان، ولا يكون روى عنه إلا راو واحد، وهذا هو الواقع في عبد الرحمن هذا كما هو مبين هناك)(سلسلہ ضعیفہ ۹؍۱۵۳)

بعض جن لوگوں نے اس اثر کو (حسن)قرار دینے کی ناجائز کوشش کی ہے,علامہ البانی کی ان کے بارے میں بھی رائے ملاحظہ فرما لیجئے,فرماتے ہیں:( وقد جهل هذه الحقيقة بعض أهل الأهواء؛ فقال الشيخ عبد الله الغماري في رسالته: "إتقان الصنعة" (ص 110) معقباً على قول الهيثمي "موثقون" ومعتمداً عليه:"قلت: فإسناده حسن"!)(دیکھئے:سلسلہ ضعیفہ ۹؍۱۵۳)

(۳)تیسری دلیل :قبر کے پاس سورہ ٔ البقرہ پڑھنے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے جو اصحاب ِ بدع انتہائی طمطراق سے پیش کرتے ہیں؛سب سے پہلے آئیے پوری سند دیکھتے ہیں,پھر اس پر نقد و تبصرہ

((أَخْبَرَنِي أَبُو يَحْيَى النَّاقِدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: «§كَانَتِ الْأَنْصَارُ إِذَا مَاتَ لَهُمُ الْمَيِّتُ اخْتَلَفُوا إِلَى قَبْرِهِ يَقْرَءُونَ عِنْدَهُ الْقُرْآنَ»))بعض الفاظ میں یہ اثر کچھ یوں مروی ہے(كانت الأنصار يقرؤون سورة البقرة عند الميت )(مصنف ابن أبي شيبة حدیث نمبر:۱۰۶۶۸)

اب آئیے اس اثر کی استنادی حیثیت اس میدان ِ علم و فن کے ماہرین سے معلوم کرتے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے ؛اور کسی قسم کا کوئی شبہ نہ رہے ,چنانچہ علامہ البانی اس اثر کے متعلق رقم طراز ہیں:(فنحن في شك من ثبوت ذلك عن الشعبي بهذا اللفظ خاصة، فقد رأيت السيوطي قد أورده في (شرح الصدور) (ص ١٥) بلفظ:(كانت الأنصار يقرؤون عند الميت سورة البقرة). قال:(رواه ابن أبي شيبة والمروزي) أورده في (باب ما يقول الانسان في مرض الموت، وما يقرأ عنده).ثم رأيته في (المصنف) لابن أبي شيبة (٤ / ٧٤) وترجم له بقوله:(باب ما يقال عند المريض إذا حضر) ".فتبين أن في سنده مجالدا وهو ابن سعيد قال الحافظ في (التقريب):(ليس بالقوي، وقد تغيير في آخر عمره))(احکام الجنائز :۱۹۲)(اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ اثر امام شعبی سے ثابت نہیں ہے کیوں کہ حافظ ابن حجر نے تقریب میں اس اثر میں وارد ایک راوی کے بارے میں اپنی مایہ ٔ ناز کتاب (تقریب)میں فرمایا ہے کہ مجالد بن سعید قوی نہیں ہیں اور آخری عمر میں آپ کا حافظہ بدل گیا تھا)لہذا یہ روایت ضعیف ٹھہری

(۴)چوتھی روایت:اس باب میں ایک روایت مزید ذکر کی جاتی ہے ,جسے اس مولوی نے نبھی اپنی ویڈیو میں ذکر کی ہے,سب سے پہلے آئیے وہ دلیل مع سند ملاحظہ کرتے ہیں:

(حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاذَانَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، مُوسَى عَنْ أَبِيهِ، جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «مَنْ مَرَّ عَلَى الْمَقَابِرِ وَقَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ إِحْدَى عَشْرَةَ مَرَّةً، ثُمَّ وَهْبَ أَجْرَهُ لِلْأَمْوَاتِ أُعْطِيَ مِنَ الْأَجْرِ بِعَدَدِ الْأَمْوَاتِ»)(فضائل سورۃ الإخلاص از ابو محمد حسن بن محمد الخلال حدیث نمبر:۵۴)

علامہ البانی۔رحمہ اللہ۔ اس اثر کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:( وأما حديث (من مر بالمقابر فقرأ (قل هو الله أحد) إحدى عشر مرة ثم وهب أجره للاموأت أعطي من الاجر بعدد الاموات).فهو حديث باطل موضوع، رواه أبو محمد الحلال في (القراءة على القبور) (ق 201 / 2) والديلمي عن نسخة عبد الله بن أحمد بن عامر عن أبيه عن علي الرضا عن آبائه، وهي نسخة موضوعة باطلة لا تنفك عن وضع عبد الله هذا أو وضع أبيه، كما قال الذهبي في (الميزان) وتبعه الحافظ ابن حجر في (اللسان) ثم السيوطي في (ذيل الاحاديث الموضوعة)، وذكر له هذا الحديث وتبعه ابن عراق في (تنزيه الشريعة المرفوعة، عن الاحاديث الشيعة الموضوعة)،ثم ذهل السيوطي عن ذلك فأورد الحديث في (شرح الصدور) (ص 130) برواية أبي محمد السمرقندي في (1 فضائل قل هو الله أحد) وسكت عليه! نعم قد أشار قبل ذلك إلى ضعفه، ولكن هذا لا، يكفي فإن الحديث، موضوع باعترافه فلا يجزي الاقتصار على تضعيفه كما لا يجوز السكوت عنه، كما صنع الشيخ إسماعيل العجلوني في (كشف الخفاء) (2 - 382) فإنه عزاه للرافعي في تاريخه وسكت عليه! مع أنه وضع كتابه المذكرر للكشف (عما اشتهر من الاحاديث على ألسنة الناس)! ثم إن سكوت أهل الاختصاص عن الحديث قد يوهم من لا علم عنده به أن الحديث مما يصلح للاحتجاج به أو العمل به في فضائل الاعمال كما يقولون، وهذا ما وقع لهذا الحديث، فقد رأيت بعض الحنيفة قد احتج بهذا الحديث للقراءة عند القبور وهو الشيخ الطهطاوي على (مراقي الفلاح) (ص 117)! وقد عزاه هذا إلى الدار قطني، وأظنة وهما، فإني لم أجد غيره عزاه إليه، ثم إن المعروف عندالمشتغلين بهذا العلم أن العزو إلى الدار قطني مطلقا يراد به كتابه (السنن)، وهذا الحديث لم أره فيه)(احکام الجنائز:۱۹۲)معلوم ہوا کہ یہ حدیث من گھڑت اور خانہ ساز ہے

علامہ ابن باز ۔رحمہ اللہ۔ سے جب اس حدیث کے متعلق سوال کیا گیا تو آں رحمہ اللہ نے فرمایا:( هذا الحديث لا أصل له عند أهل العلم ، وهو من الأحاديث الموضوعة المكذوبة التي ليس لها سند صحيح ، وليس من السنة أن يقرأ عند القبور ولا بين القبور ، إنما السنة إذا زار القبور أن يقول : ( السلام عليكم دار قوم مؤمنين ) أو : ( السلام عليكم أهل الديار من المسلمين والمؤمنين ، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ، يرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين ، نسأل الله لنا ولكم العافية ) ، ويدعو لهم بالمغفرة والرحمة ، هذا هو السنة ، أما أن يقرأ عليهم القرآن ، أو بينهم القرآن ، فهذا لا أصل له)(دیکھئےفتاوی نور علی الدرب:۱؍۱۹۶)

اگر ہم جائزہ لینے جائیں اور تمام احادیث ملاحظہ کریں تو ارباب ِ بدعت کے یہاں دلائل کی بھر مار ہے مگر ان کی حیثیت پر کاہ کی بھی نہیں ہے کیوں کہ میزان جرح و تعدیل میں وہ دلائل کھری نہیں اترتیں اور وہ سب تار ِ عنکبوت سے بھی کمزور ہیں ,یہاں اسی لئے ان دلائل سے صرف ِ نظر کر لیا گیا ہے,کیوں کہ ان کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں کہ انہیں وزنی قرار دیا جائے ؛یہاں صرف انہیں دلائل کو ذکر کیا گیا ہے جو اس مولوی نے اپنی تقریر یا تردیدی بیان میں ذکر فرمائی ہیں

اب کچھ علمائے انام کے اقوال ِ عظام بھی ملاحظہ فرمالیں

(۱)سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( أما ما يتعلق بأقوال أفراد الصحابة فهي تعرض على الكتاب والسنة، والعبادات توقيفية، لا يجوز منها إلا ما أجازه الشرع، ولم يثبت عن رسول الله -عليه الصلاة والسلام-، ولا عن خلفائه الراشدين أنهم كانوا يقرؤون عند القبور، ولا يصلون عند القبور.أما ما فعله ابن عمر هذا اجتهاد منه ، وهكذا من فعله بعده من بعض السلف من باب الاجتهاد، والاجتهاد يخطئ ويصيب، والواجب هو عرض ما تنازع فيه الناس على كتاب الله، وعلى سنة رسوله -عليه الصلاة والسلام-، وعلى ما أجمع عليه أهل العلم.

ومعلوم أن القراءة محلها البيوت والمساجد، وليس محلها المقابر، المقابر إنما تزار، ويدعى لأهلها، وهكذا الصلاة ليس محلها المقابر، وإنما محلها المساجد والبيوت، فكما أنه لا يصلى عند القبور، كذلك لا تتخذ محلًا للقراءة، لا عند الدفن، ولا بعد الدفن، لقول النبي ﷺ لعن الله اليهود و النصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد وقوله ﷺ: اجعلوا من صلاتكم في بيوتكم، ولا تتخذوها قبورًا.

فدل ذلك على أن القبور ليست محلًا للصلاة، قال: لا تتخذوها قبورًا يعني: بترك الصلاة فيها، قال: صلوا في بيوتكم وهكذا قوله ﷺ: لا تصلوا إلى القبور، ولا تجلسوا عليها وكلها أحاديث صحيحة ثابتة عن رسول الله -عليه الصلاة والسلام-، وقال -عليه الصلاة والسلام- في الحديث الآخر: اجعلوا من صلاتكم في بيوتكم، فإن الشيطان يفر من البيت الذي تقرأ فيه سورة البقرة.

فالمقصود؛ أن المساجد والبيوت هي محل القراءة، وهي محل الصلاة، وليست المقابر محل صلاة، ولا محل قراءة، وإنما تزار للدعاء لأهلها؛ ولتذكر الآخرة، والزهد في الدنيا، وتذكر الموت، وكان -عليه الصلاة والسلام- إذا زار القبور يدعو لأهلها، يسلم عليهم، ويدعو لهم، وكان يعلم أصحابه إذا زاروا القبور أن يقولوا: السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، نسأل الله لنا ولكم العافية ولم يعلمهم أن يقرؤوا عندها القرآن.

وقالت عائشة -رضي الله عنها-: كان -عليه الصلاة والسلام- إذا زار القبور يقول: السلام عليكم دار قوم المؤمنين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، يرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين، اللهم اغفر لأهل بقيع الغرقد.

فلم يكن -عليه الصلاة والسلام- يقرأ عند القبور، ولم يكن يصلي عند القبور -عليه الصلاة والسلام-، والخير كله في اتباعه والسير على منهاجه -عليه الصلاة والسلام-، ولهذا قال -جل وعلا- في كتابه العظيم: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [الأحزاب:21] ولم يكن خلفاؤه الراشدون يفعلون ذلك، وقد قال -عليه الصلاة والسلام-: عليكم بسنتي، وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي، تمسكوا بها، وعضوا عليها بالنواجذ.

وابن عمر له اجتهادات خالف فيها السنة، فمن ذلك: أنه كان يغسل داخل عينيه، وهذا خلاف السنة، وهذا من اجتهاده ، ومن ذلك: أنه كان إذا حج أو اعتمر يأخذ من لحيته ما زاد على القبضة، وهذا خلاف السنة، فقد قال -عليه الصلاة والسلام-: قصوا الشوارب، ووفروا اللحى، خالفوا المشركين خرجه البخاري في صحيحه، وقال -عليه الصلاة والسلام-: قصوا الشوارب، وأعفوا اللحى، خالفوا المشركين متفق على صحته، وكان يأخذ ماءً لأذنيه، والسنة أن تمسح الأذنان بماء الرأس.

فالحاصل: أنه له اجتهادات ، لا يوافق عليها من جهة السنة، فهكذا ما يروى عنه من القراءة عند القبر، وقت الدفن، هذا شيء اجتهد فيه ، والسنة بخلافه.

والإمام أحمد -رحمه الله- لما بلغه ذلك كان لاجتهاده -رضي الله عنه ورحمه- رأى أن يوافق ابن عمر، وأن يقر الكفيف على قراءته بعدما قال له: إنها بدعة، فقوله الأول هو الصواب، قول أحمد الأول هو الصواب، وهو الذي يوافق الأدلة الصحيحة الكثيرة عن رسول الله -عليه الصلاة والسلام-؛ ولأن القراءة عندها، والصلاة عندها وسيلة إلى عبادتها من دون الله، فالناس قد يظنون أن القراءة عندها لها مزية، ولها ثواب زائد، وهكذا الصلاة عندها، فيجرهم هذا إلى اتخاذها مساجد، وإلى دعاء أهلها، والاستغاثة بأهلها، والتوسل بأهلها، فيقع الشرك، ولا حول ولا قوة إلا بالله)(دیکھئے: https://binbaz.org.sa/index.php/fatwas/17869)

(۲)دار العلوم دیوبند کا ایک فتوی نقل کرنا یہاں مناسب سمجھتا ہوں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ قبرستان میں قرآن پڑھنا مکروہ ہے ,پورا استفتاء و فتوی ملاحظہ فرما لیں :

((کیا ہم قبرستان میں جا کر قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرسکتے ہیں؟ اور قرآن پاک یا سپارہ قبرستان میں لے کر جاسکتے ہیں پڑھنے کے لیے؟))

جواب نمبر: 56909

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 124-121/N=2/1436-U (۱) مختار قول کے مطابق قبرستان میں قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت بلاکسی کراہت جائز ہے، ولا یکرہ الجلوس للقراء ة علے القبر فی المختار (نور الایضاح مع المراقی وحاشیة الطحطاوی ص: ۱۱۱، ۱۲۳)، وأخذ من ذلک جواز القراء ة علی القبر والمسألة ذات خلاف، قال الإمام: تکرہ لأن أہلہا جیفة ولم یصح فیہا شیء عندہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال محمد: تستحب الورود الآثار وہو المذہب المختار کما صرحوا بہ في کتاب الاستحسان (حاشیة الطحطاوی علی المراقي ص: ۶۲۱ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، نیز شامی (۳: ۱۵۶، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) دیکھیں۔ (۲) قرآن پاک یا سیپارہ قبرستان میں لے جاکر تلاوت کرنا بھی جائز ہے، البتہ ایصالِ ثواب کے لیے کسی خاص طریقہ کو لازم وضروری نہ سمجھا جائے۔ اور اگر کسی علاقہ میں ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ لازم وضروری سمجھا جاتا ہو تو وہاں اس سے احتراز کیا جائے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند

(دیکھئے: https://darulifta-deoband.com/home/ur/innovations-customs/56909)

اس فتوی پر نظر دوڑائیے اور غور فرمائیے کہ امام صاحب تو فرما رہے ہیں (تکرہ لأن أہلہا جیفة ولم یصح فیہا شیء عندہ صلی اللہ علیہ وسلم)(قبروں کے پاس قرآن پڑھنا مکروہ ہے کیوں کہ قبر والے مردار ہیں اور وہاں کچھ بھی پڑھنا نبی ٔ کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے,مگر مختار قول یہ ذکر کیا جا رہا ہے کہ ((قبرستان میں قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت بلاکسی کراہت جائز ہے))

(۳)اسلام سوال و جواب کے نگران ِ اعلی سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے,سوال کچھ یوں ہے :( ہمارے گاؤں ميں بعض لوگ قراء كرام كى ايك جماعت كو اكٹھا كر كے قرآن مجيد كى تلاوت كرواتے اور كہتے ہيں كہ ايسا كرنا ميت كے ليے فائدہ مند اور اس پر رحمت كا باعث ہے.

اور بعض دوسرے لوگ ايك يا دو قاريوں كو بلا كر قبر كے اوپر قرآن مجيد كى تلاوت كرواتے ہيں، اور بعض دوسرے لوگ بہت بڑى محفل كا اہتمام كرتے ہيں جس ميں مشہور و معروف قارى كو دعوت دى جاتى ہے، اور لاوڈ سپيكروں كا انتظام ہوتا ہے تا كہ وہ اپنے فوت شدہ كى برسى مناسكيں، ايسے كام كا دين اسلام ميں كيا حكم ہے؟

اور كيا قبر وغيرہ پر قرآن مجيد كى تلاوت سے ميت كو فائدہ ہوتا ہے؟ اور ميت كو نفع اور فائدہ دينے كے ليے شرعى اور بہتر طريقہ كيا ہے ؟

برائے مہربانى ہميں فتوى ديكر عند اللہ ماجور ہوں، ہمارى طرف سے آپ كا شكريہ)

شیخ محمد بن صالح المنجد نے جواب جواب عنایت فرمایا وہ کچھ اس طرح ہے

(يہ عمل بدعت اور ناجائز ہے كيونكہ رسول كريمﷺ كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس معاملہ ( دين ) ميں ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے"

اس حديث كے صحيح ہونے پر اتفاق ہے.



اور ايك حديث ميں نبى كريم ﷺ كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل مردود ہے"

اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اس موضوع كے متعلق بہت احاديث وارد ہيں.

اور پھر نہ تو نبى كريمﷺ كا طريقہ تھا اور نہ ہى آپ كے خلفاء راشدين كا طريقہ تھا كہ قبروں پر قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے، يا پھر فوت شدگان كے ليے محفليں اور جشن منائےجائيں اور ان كى برسياں منائى جائيں.

اور پھر خير و بھلائى تو رسول كريم ﷺ كى اتباع و پيروى اور خلفاء راشدين اور ان كے راستے پر چلنے والوں كے راستہ پر چلنے ميں ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو مہاجرين اور انصار سابق اورمقدم ہيں اور جتنے لوگ اخلاص كے ساتھ ان كے پيروى كرنے والے ہيں اللہ ان سب سے راضى ہوا اور وہ سب اس سے راضى ہوئے، اور اللہ تعالى نے ان كے ليے ايسے باغات تيار كر ركھے ہيں جن كے نيچے سے نہريں جارى ہونگى اس ميں وہ ہميشہ رہينگے، يہ بہت بڑى كاميابى ہے التوبۃ ( 100 )

اور رسول كريم ﷺ نے فرمايا:

" ميرى اور ميرے بعد ميرے خلفاء راشدين المھديين كى سنت كو لازم پكڑو، اسے دانتوں كے ساتھ مظبوطى سے پكڑے ركھو، اور نئے نئے كاموں سے بچو كيونكہ ہر نئى چيز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے"

اور رسول كريم ﷺ سے صحيح طور پر ثابت ہے كہ وہ خطبہ جمعہ ميں فرمايا كرتے تھے:

" اما بعد: يقينا سب سے بہتر بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برا كام اس ميں نئے كام ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے"

اس موضوع اور معنى كى اور بھى بہت سى احاديث ہيں.

اور نبى كريم ﷺ نے صحيح احاديث ميں مسلمان كو فوت ہونے كے بعد فائدہ دينے والى اشياء بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" جب انسان فوت ہو جاتا ہے، تو اس كے سارے عمل منقطع ہو جاتے ہيں، صرف تين قسم كے عمل منقطع نہيں ہوتے، صدقہ جاريہ، يا نفع مند علم، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرتى رہے"

اسے مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اور رسول كريم ﷺ سے ايك شخص نے دريافت كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول ﷺ كيا ميرے والدين كى موت كے بعد مجھ پر كوئى چيز باقى ہے جسے كر كے ميں ان كے ساتھ نيكى و احسان كر سكتا ہوں؟

تو رسول كريم ﷺ نے فرمايا:

" جى ہاں؛ ان كى نماز جنازہ ادا كرنا اور ان كے ليے دعائےاستغفار كرنا، اور ان كے بعد ان كے عہد پورے كرنا، اور ان كے دوست و احباب كى عزت و تكريم كرنا، اور ان كى وجہ سے قائم رشتہ داروں سے صلہ رحمى كرنا "

عہد سے مراد ان كى وصيت ہے جو مرتے وقت كى جاتى ہے، اگر تو وہ وصيت شريعت كے مطابق ہے تو اسے پورى كرنا ميت كے ساتھ نيكى و احسان ہے، اور والدين كے ساتھ احسان اور نيكى ميں يہ بھى شامل ہے كہ ان كى جانب سے صدقہ و خيرات كيا جائے، اور ان كے ليے دعا اورحج اور عمرہ كيا جائے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.)(دیکھئے: https://islamqa.info/ur/answers)

مذکورہ بالا نصوص و توضیحات ,نقولات و بیانات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر ہوگئی کہ قبروں پر یا میت کے پاس سورہ ٔ البقرہ کی بعض آیات کے پڑھنے کے تعلق سے جو دلائل دئے جاتے ہیں وہ یکسر بے بنیاد اور ناقابل ِ اعتنا ہیں اور قبروں کے پاس قرآن کی تلاوت قابل انکار بدعت ہے ,جس سے اجتناب لازمی اور ضروری ہے

اللہ ہمیں کتاب و سنت کا شیدائی و فدائی بنائے ,اتباع ِ قرآن و حدیث کی توفیق ارزانی کرے اور بدعات و خرافات سے ہمیشہ بچائے آمین یا رب العالمین
 

اٹیچمنٹس

Top