فتویٰ کا لنک:
كيا ماں اپنے ساتھ رہنے والے اكيس سالہ بيٹے كو اپنى زكاۃ ادا كر سكتى ہے، كيونكہ بيٹا ابھى تعليم حاصل كر رہا ہے اور تعليم مكمل كرنے كے ليے قرض نہيں لينا چاہتا، بلكہ صرف ہفتہ وار چھٹى كے دن كام كرتا ہے، جس سے ہونے والى آمدنى كافى نہيں ہوتى ؟
الحمد للہ:
علماء كرام كا اتفاق ہے كہ زكاۃ دينے والے كے ليے ايسے شخص كو زكاۃ دينى جائز نہيں جس كا نفقہ زكاۃ دينے والے كے ذمہ ہو.
اس بنا پر اس ماں كى حالت ديكھى جائيگى اگر توشرعى طور اس كى اولاد كا خرچ ماں كے ذمہ ہے تو پھر وہ اپنى اولاد كو زكاۃ نہيں دے سكتى، اور اگر اولاد كا نفقہ شرعا ماں كے ذمہ نہيں تو پھر اسے زكاۃ دينے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ كسى دوسرے شخص كو دينے كى بجائے اولاد كو دينا افضل ہو گى.
ماں پر اس كے بچے كا نفقہ درج ذيل شروط كى بنا پر واجب ہوتا ہے:
1 - باپ موجود نہ ہو تو.
اس ليے جب بچے كا باپ موجود ہو بچے كا صرف اكيلے باپ پر ہى نفقہ واجب ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر بچے كا باپ نہ ہو تو ماں پر بچے كا نفقہ واجب ہو گا، امام ابو حنيفہ اور امام شافعى رحمہم اللہ كا قول يہى ہے " انتہى
2 - ماں اتنى مالدار ہو كہ اس كے پاس ضرورت سے زائد مال ہو.
3 - بيٹا تنگ دست اور مال كا ضروتمند ہو.
جب يہ تين شروط پائى جائيں تو اس صورت ميں والدہ كے ليے اپنے بيٹے پر خرچ كرنا واجب ہوگا، اور اسے بيٹے كو زكاۃ دينا جائز نہيں ہو گى.
اور اگر باپ موجود ہو تو ماں كے ليے اپنے بيٹے كو زكاۃ دينا جائز ہوگى، كيونكہ اس وقت ماں پر بيٹے كا نفقہ واجب نہيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابن منذر وغيرہ نے اس پر اجماع نقل كيا ہے كہ بيٹے كو واجب اور فرض زكاۃ كے پيسے نہيں ديے جائيں گے.
حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ بات محل نظر ہے، كيونكہ فرضى زكاۃ اسے دينى جائز نہيں جس كا خرچ زكاۃ دينے والے پر واجب ہو، اور باپ كى موجودگى ميں ماں پر بيٹے كا خرچ واجب نہيں ہوتا " انتہى بتصرف.
ماخوذ از: فتح البارى.
اور جب ماں اپنے بچے پر نفقہ كى استطاعت اور قدرت نہ ركھے تو پھر اسے زكاۃ دينے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس حالت ميں بيٹے كا نفقہ ماں پر واجب نہيں ہے.
ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر والدين آباء و اجداد اور اولاد نچلى نسل تك فقراء اور تنگ دست ہوں اور وہ ان پر نفقہ كرنے سے عاجز ہو تو انہيں زكاۃ كے پيسے دينے جائز ہيں، امام احمد كا ايك قول يہى ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 104 ).
اور مجموع الفتاوى ميں درج ہے:
" جب بيٹا نفقہ كا محتاج ہو، اور باپ كے پاس اس كے نفقہ كے ليے كچھ نہيں تو اس ميں نزاع و اختلاف ہے، ظاہر يہى معلوم ہوتا ہے كہ اس كے ليے باپ كى نكالى ہوئى زكاۃ لينى جائز ہے، ليكن اگر وہ باپ كے نفقہ سے مستغنى ہو تو پھر اسے زكاۃ كى ضرورت نہيں " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 92 ).
اسى طرح اگر بيٹا مقروض ہو تو بيٹے كے قرض كى ادائيگى كے ليے اپنى زكاۃ بيٹے كو دے سكتى ہے.
واللہ اعلم .