کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
حدیث کسے کہتے ہیں اس سلسلے میں عموما لوگوں کا جواب یہ ہوتاہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات کو ’’حدیث‘‘ کہتے ہیں۔
لیکن یہ جواب غلط ہے اوراسی غلط جواب کی وجہ سے بہت سارے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوکر اس بات پر حیرانی ظا ہر کرتے لگتے ہیں کہ ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ضعیف کیسے ہوسکتی ہے‘‘۔
اگرحدیث کی مذکورہ تعریف درست مان لی جائے تو یہ اعتراض سوفیصد درست ہے ، آخر جب حدیث کی تعریف میں یہ فیصلہ کردیا گیا کہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا قول یا فعل یا تقریر ہے تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر کو ضعیف کہنا یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی توہین ہے۔
کوئی بھی سچا مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو ضعیف کہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
دراصل حدیث کی مذکورہ تعریف ہی درست نہیں ہے اورحدیث کا مذکورہ مفہوم ہی غلط ہے ، حدیث کی صحیح تعریف ملاحظہ ہو:
ہروہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے وہ ’’حدیث ‘‘ ہے۔
ملون اورخط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے منسوب کیا جائے ۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف لازمی طور پر آپ ہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔ بلکہ کسی کا بھی ہو لیکن اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا گیا تو محض نسبت سے وہ حدیث ہوجائے گا قطع نظر اس کے کہ یہ نسبت صحیح ہے یا غلط۔
اب اگر نسبت ثابت ہے تو حدیث مقبول ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ حدیث رسول ہے اوراگرنسبت ثابت نہیں توحدیث مردود ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ حدیث تو ہے لیکن حدیث رسول نہیں ہے ، اس لئے مردود ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جب ہم حدیث کوضعیف کہتے ہیں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر یا وصف کو ضعیف ہرگز نہیں کہتے بلکہ ایسے قول وفعل وغیرہ کو ضعیف کہتے ہیں جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے بلکہ کسی اور کا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ جوقول یا فعل وغیرہ محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہواوروہ آپ صلی علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو اسے بھی حدیث کہنے کی کیا دلیل ہے؟
توعرض ہے کہ اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی فرامین ہیں ،چند ملاحظہ ہوں:
أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ»
[صحيح مسلم 1/ 12رقم 7]
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ» [صحيح مسلم 1/ 8 مقدمہ]
عَنْ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 36 رقم 2662]
عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ رَوَى عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبَيْنِ» [سنن ابن ماجه 1/ 15 رقم 40]
مذکورہ فرامین نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ جوبات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ ہو اگراسے محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا جائے تو اسے حدیث بولا جائے گا جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف جھوٹ منسوب کردہ بات کو حدیث کہا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہو بلکہ حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ حدیث ہروہ بات ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا گیا ہو چنانچہ جتنے بھی مستند اہل علم نے حدیث کی تعریف کی ہے سبھوں نے رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردہ بات ہی کو حدیث کہا ہے۔
مثلا:
ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قولٍ ، أو فعلٍ ، أو تقريرٍ ، أو صفةٍ .
تحرير علوم الحديث لعبدالله الجديع [1 /10]
الحديث المرفوع :
ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة
شرح الموقظة في علم المصطلح ـ عبدالله السعد [ص 221]
الحديث:
لغة: الجديد. ويجمع على أحاديث على خلاف القياس .
اصطلاحا : ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة.
تيسير مصطلح الحديث [ص 9]
الحديث: ما أضيف إلى النبي صلّى الله عليه وسلّم من قول، أو فعل، أو تقرير، أو وصف.
الحديث والمصطلح للعثيمين [45 /2]
كتعريف "الحديث"، وهو: "ما أضيف إلى النبى-- صلى الله عليه وسلم -- من قول، أو فعل، أو تقرير، أو صفة"
معجم المصطلحات الحديثية [ص 4]
فالحديث: هو ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة
منظومة مصباح الراوي في علم الحديث [ص 25]
الحديث المرفوع: هو ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم خاصة من قول أو فعل أو تقرير أو وصف.
منهج النقد في علوم الحديث [ص 325]
والحديث المرفوع هو : ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول ، أو فعل ، أو تقرير ، أو صفة .
منهج الرواية وميزان الدراية في الحديث الشريف لمعرفةالصحيح والحسن والضعيف [ص 22]
فقد عرّف علماء مصطلح الحديث بأنه ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول، أو فعل، أو تقرير، أو صفة.
أحاديث في جامع الترمذي أدار الترمذي حولها سؤالات [9 /28]
معلوم ہوا کہ حدیث کا مفہوم یہ کہ جو قول یا فعل یا تقریر یا وصف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو یا نہ اگر ثابت ہے تو قابل قبول کیونکہ ایسی صورت میں وہ حدیث رسول ہے اور اگر ثابت نہیں یعنی ضعیف ہے تو وہ حدیث تو ہے مگر حدیث رسول نہیں اس لئے مردود ہے۔
اب کسی کو یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ضعیف کیسے ہوسکتی ہیں ، اس لئے کہ جن احادیث کو ضعیف کہا جاتا ہے وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں ہوتی ہیں بلکہ آپ کی طرف بغیر کسی بنیاد کے منسوب ہوتی ہیں۔
لطیفہ :
یہ فلسفہ سنجی کہ ’’حدیث ضعیف نہیں ہوسکتی‘‘ اس کا مظاہرہ بعض حضرات کی طرف سے صرف اس وقت ہوتا ہے جب ان کی مستدل حدیث ضعیف ثابت ہوجائے ، لیکن یہی لوگ اپنے اس فلسفہ کو اس وقت بھول جاتے ہیں جب اپنے موقف کے خلاف وارد احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں وہ بھی بلاوجہ حتی کہ صحیحین تک کی احادیث کو اپنے موقف کے خلاف پاکر ضعیف کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں۔
نوٹ:
اس موضوع کے ساتھ درج ذیل موضوع کا مطالعہ بھی مفید ہوگا:
ضعیف حدیث مردود کیوں ہوتی ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات کو ’’حدیث‘‘ کہتے ہیں۔
لیکن یہ جواب غلط ہے اوراسی غلط جواب کی وجہ سے بہت سارے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوکر اس بات پر حیرانی ظا ہر کرتے لگتے ہیں کہ ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ضعیف کیسے ہوسکتی ہے‘‘۔
اگرحدیث کی مذکورہ تعریف درست مان لی جائے تو یہ اعتراض سوفیصد درست ہے ، آخر جب حدیث کی تعریف میں یہ فیصلہ کردیا گیا کہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا قول یا فعل یا تقریر ہے تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر کو ضعیف کہنا یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی توہین ہے۔
کوئی بھی سچا مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو ضعیف کہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
دراصل حدیث کی مذکورہ تعریف ہی درست نہیں ہے اورحدیث کا مذکورہ مفہوم ہی غلط ہے ، حدیث کی صحیح تعریف ملاحظہ ہو:
ہروہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے وہ ’’حدیث ‘‘ ہے۔
ملون اورخط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے منسوب کیا جائے ۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف لازمی طور پر آپ ہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔ بلکہ کسی کا بھی ہو لیکن اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا گیا تو محض نسبت سے وہ حدیث ہوجائے گا قطع نظر اس کے کہ یہ نسبت صحیح ہے یا غلط۔
اب اگر نسبت ثابت ہے تو حدیث مقبول ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ حدیث رسول ہے اوراگرنسبت ثابت نہیں توحدیث مردود ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ حدیث تو ہے لیکن حدیث رسول نہیں ہے ، اس لئے مردود ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جب ہم حدیث کوضعیف کہتے ہیں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر یا وصف کو ضعیف ہرگز نہیں کہتے بلکہ ایسے قول وفعل وغیرہ کو ضعیف کہتے ہیں جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے بلکہ کسی اور کا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ جوقول یا فعل وغیرہ محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہواوروہ آپ صلی علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو اسے بھی حدیث کہنے کی کیا دلیل ہے؟
توعرض ہے کہ اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی فرامین ہیں ،چند ملاحظہ ہوں:
أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ»
[صحيح مسلم 1/ 12رقم 7]
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ» [صحيح مسلم 1/ 8 مقدمہ]
عَنْ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 36 رقم 2662]
عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ رَوَى عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبَيْنِ» [سنن ابن ماجه 1/ 15 رقم 40]
مذکورہ فرامین نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ جوبات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ ہو اگراسے محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا جائے تو اسے حدیث بولا جائے گا جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف جھوٹ منسوب کردہ بات کو حدیث کہا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہو بلکہ حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ حدیث ہروہ بات ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا گیا ہو چنانچہ جتنے بھی مستند اہل علم نے حدیث کی تعریف کی ہے سبھوں نے رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردہ بات ہی کو حدیث کہا ہے۔
مثلا:
ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قولٍ ، أو فعلٍ ، أو تقريرٍ ، أو صفةٍ .
تحرير علوم الحديث لعبدالله الجديع [1 /10]
الحديث المرفوع :
ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة
شرح الموقظة في علم المصطلح ـ عبدالله السعد [ص 221]
الحديث:
لغة: الجديد. ويجمع على أحاديث على خلاف القياس .
اصطلاحا : ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة.
تيسير مصطلح الحديث [ص 9]
الحديث: ما أضيف إلى النبي صلّى الله عليه وسلّم من قول، أو فعل، أو تقرير، أو وصف.
الحديث والمصطلح للعثيمين [45 /2]
كتعريف "الحديث"، وهو: "ما أضيف إلى النبى-- صلى الله عليه وسلم -- من قول، أو فعل، أو تقرير، أو صفة"
معجم المصطلحات الحديثية [ص 4]
فالحديث: هو ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة
منظومة مصباح الراوي في علم الحديث [ص 25]
الحديث المرفوع: هو ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم خاصة من قول أو فعل أو تقرير أو وصف.
منهج النقد في علوم الحديث [ص 325]
والحديث المرفوع هو : ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول ، أو فعل ، أو تقرير ، أو صفة .
منهج الرواية وميزان الدراية في الحديث الشريف لمعرفةالصحيح والحسن والضعيف [ص 22]
فقد عرّف علماء مصطلح الحديث بأنه ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول، أو فعل، أو تقرير، أو صفة.
أحاديث في جامع الترمذي أدار الترمذي حولها سؤالات [9 /28]
معلوم ہوا کہ حدیث کا مفہوم یہ کہ جو قول یا فعل یا تقریر یا وصف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو یا نہ اگر ثابت ہے تو قابل قبول کیونکہ ایسی صورت میں وہ حدیث رسول ہے اور اگر ثابت نہیں یعنی ضعیف ہے تو وہ حدیث تو ہے مگر حدیث رسول نہیں اس لئے مردود ہے۔
اب کسی کو یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ضعیف کیسے ہوسکتی ہیں ، اس لئے کہ جن احادیث کو ضعیف کہا جاتا ہے وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں ہوتی ہیں بلکہ آپ کی طرف بغیر کسی بنیاد کے منسوب ہوتی ہیں۔
لطیفہ :
یہ فلسفہ سنجی کہ ’’حدیث ضعیف نہیں ہوسکتی‘‘ اس کا مظاہرہ بعض حضرات کی طرف سے صرف اس وقت ہوتا ہے جب ان کی مستدل حدیث ضعیف ثابت ہوجائے ، لیکن یہی لوگ اپنے اس فلسفہ کو اس وقت بھول جاتے ہیں جب اپنے موقف کے خلاف وارد احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں وہ بھی بلاوجہ حتی کہ صحیحین تک کی احادیث کو اپنے موقف کے خلاف پاکر ضعیف کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں۔
نوٹ:
اس موضوع کے ساتھ درج ذیل موضوع کا مطالعہ بھی مفید ہوگا:
ضعیف حدیث مردود کیوں ہوتی ہے۔