طاہرالقادری جو مثال دے رہا ہے یہ بالکل فضول ہے، اس کے مطابق جس طرح تار اندر سے کرنٹ والی ہوتی ہے اور اوپر سے انسانی ہاتھ کو بچانے کی خاطر خول چڑھا ہوتا ہے ، اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم اندر سے نور اور باہر سے بشر تھے (نعوذباللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سخت گستاخی ہے، پہلی بات تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات اپنے بارے میں نہیں بتائی، جبکہ اللہ کے ہر حکم کی تکمیل کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے، جیسے اللہ کا حکم ہوا تھا (
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۔۔۔سورۃ الکھف) تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو بشر کہا (
إنما أنا بشر مثلكم، أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني"
بس میں تمہارے جیسا انسان ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں پس میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلادیا کرو۔(صحیح بخاری) کیونکہ
( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ۔۔۔المائدہ) تو اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتاتے، ان عقلی مثالوں کو دلیل بنانے سے آپ کا موقف ثابت ہونے سے رہا، جبکہ اب میں جو قرآن کی آیات پیش کر کے اس سے استدلال کروں گا اس سے آپ کے اور طاہرالقادری کے باطل نظریات کی عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔ ان شاءاللہ
ابراہیم علیہ السلام نے انسانوں کی طرف اللہ کی آیات تلاوت کرنے، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینے اور ان کا تزکیہ کرنے کی خاطر جس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث کرنے کی دعا مانگی وہ ان کی اپنی جنس (بشر) میں سے ہی مانگی، نا کہ کسی ایسے رسول کی دعا مانگی جو غیر جنس میں سے ہو۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴿١٢٩﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ: اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبہ واﻻ اور حکمت واﻻ ہے
اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا اور ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴿١٦٤﴾۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی جنس میں سے ہی پیغمبر کو مبعوث کر کے اللہ نے انسانوں پر احسان عظیم فرمایا ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ (
لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ) سے واضح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر جنس سے پیغمبر ہونے کی صورت میں انسانوں کے لئے مشکلات درپیش تھیں، کفار بھی بشر کے لئے رسالت کی نفی کے قائل تھے تو ان کو سمجھانے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُل لَّوْ كَانَ فِى ٱلْأَرْضِ مَلَٰٓئِكَةٌۭ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَلَكًۭا رَّسُولًۭا ﴿95﴾
ترجمہ: کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے (کہ اس میں) چلتے پھرتے (اور) آرام کرتے (یعنی بستے) تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے (سورۃ بنی اسرائیل،آیت 95)
اب اگر طاہر القادری اور اس جیسے اصحاب الضلال لوگوں کو یہ باور کروائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کی جنس سے نہیں آئے تھے تو یہ کھلم کھلا اللہ کی خلاف ورزی ہے۔