درج ذیل پوسٹس اس دھاگے سے غیر متعلق ہونے کی بنا پر یہاں منتقل کی گئی ہیں۔ انتظامیہ
سورۃ نساء آیت نمبر ایک
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا 4:1
ترجمہ: لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک (معمولی ) خلیہ (Single Cell) سے پیدا کیا پھر اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔
اس آیت میں "تخلیق آدم " کی ابتداء کے بارے میں بات کی گئی ہے، "کسی آدم علیہ السّلام" کی بات نہیں کہی گئی۔ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ سے مراد خلیہ ہے، اور آج سائنس اس بات کی توثیق کرچکی ہے زندگی کی ابتداء ایک خلیہ سے ہوئی جو ابتدا ء میں منقسم ہوا اور پھر اس سے مختلف انواع و اقسام کے جاندار پیدا ہوئے اور قریباً نو ارب سال کا طویل فاصلہ طے کرکے نوع انسان وجود میں آئے۔مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ یہ دلیل بھی آپ نہیں مانیں گے، لیکن اسی آیت میں جو ضمیر استعمال کی گئی ہے جو نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ پر دلالت کرتی ہے وہ " مِنْهَا "کی ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی مذکر ہوتا یعنی آدم علیہ السّلام ہوتے تو ضمیر "منه"استعمال ہوتی
لہذا آپکا آدم علیہ السّلام کے بار ے میں خود ساختہ نظریہ یہی دم توڑ دیتا ہے۔نساء کا ترجمہ "بچی "کرنے کےلیے آپ کیسی بچگانہ دلیلیں دیتے ہیں، جو آپ جیسے محقق کے لیے شایان شان نہیں۔اس آیت میں نساء کا ترجمہ "عورتیں " ہی ہوگا اور عورتیں بالغ ہوتی ہیں۔ شادی لائق ہوتی ہیں۔عورت یا خاتون کا لفظ مزید کسی تشریح کا قائل نہیں۔پتہ نہیں آپ "چھ سالہ عائشہ کی شادی 53 سالہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کرانے پر کیوں تلے ہیں۔ جبکہ ہم ہر لحاظ سے ثابت کرچکے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے "نابالغ" بچوں (بچے ہوں یا بچیاں) کی شادی جائز نہیں۔ بلکہ اس کا تذکرہ تک نہیں۔ قرآن کریم میں شادی کے حوالے جس کا تذکرہ ضروری تھا، وہ ہے، یعنی "بالغ" خواتین و حضرات " کا۔
فی امان اللہ،
و ما علینا الاالبلاغ المبین
ثم تتفکروا
والسّلام،عمران علی
سورۃ نساء آیت نمبر ایک
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا 4:1
ترجمہ: لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک (معمولی ) خلیہ (Single Cell) سے پیدا کیا پھر اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔
اس آیت میں "تخلیق آدم " کی ابتداء کے بارے میں بات کی گئی ہے، "کسی آدم علیہ السّلام" کی بات نہیں کہی گئی۔ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ سے مراد خلیہ ہے، اور آج سائنس اس بات کی توثیق کرچکی ہے زندگی کی ابتداء ایک خلیہ سے ہوئی جو ابتدا ء میں منقسم ہوا اور پھر اس سے مختلف انواع و اقسام کے جاندار پیدا ہوئے اور قریباً نو ارب سال کا طویل فاصلہ طے کرکے نوع انسان وجود میں آئے۔مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ یہ دلیل بھی آپ نہیں مانیں گے، لیکن اسی آیت میں جو ضمیر استعمال کی گئی ہے جو نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ پر دلالت کرتی ہے وہ " مِنْهَا "کی ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی مذکر ہوتا یعنی آدم علیہ السّلام ہوتے تو ضمیر "منه"استعمال ہوتی
لہذا آپکا آدم علیہ السّلام کے بار ے میں خود ساختہ نظریہ یہی دم توڑ دیتا ہے۔نساء کا ترجمہ "بچی "کرنے کےلیے آپ کیسی بچگانہ دلیلیں دیتے ہیں، جو آپ جیسے محقق کے لیے شایان شان نہیں۔اس آیت میں نساء کا ترجمہ "عورتیں " ہی ہوگا اور عورتیں بالغ ہوتی ہیں۔ شادی لائق ہوتی ہیں۔عورت یا خاتون کا لفظ مزید کسی تشریح کا قائل نہیں۔پتہ نہیں آپ "چھ سالہ عائشہ کی شادی 53 سالہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کرانے پر کیوں تلے ہیں۔ جبکہ ہم ہر لحاظ سے ثابت کرچکے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے "نابالغ" بچوں (بچے ہوں یا بچیاں) کی شادی جائز نہیں۔ بلکہ اس کا تذکرہ تک نہیں۔ قرآن کریم میں شادی کے حوالے جس کا تذکرہ ضروری تھا، وہ ہے، یعنی "بالغ" خواتین و حضرات " کا۔
فی امان اللہ،
و ما علینا الاالبلاغ المبین
ثم تتفکروا
والسّلام،عمران علی