- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
محترم بھائی @عامر عدنان نے سوال کیا ہے کہ :
سوال:
”لَا اِیمانَ لِمَنْ لا أ مانةَ لَہ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہ“(سنن بیھقی-۱۲۶۹۰)
ترجمہ: ” جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال یہ آیا ہے کہ :
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
اس شخص کی نماز نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے (بخاری)
اور
لا إيمان لمن لا أمانة له
اس شخص کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں ( مسند احمد )
اگر امام کے پیچھے پڑھنے والے کی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر بالکل ہوتی ہی نہیں تو پھر امانت کے بغیر ایمان بھی بالکل نہیں ہونا چاہیئے
ایسے بندہ کو اہل حدیث حدیث کی روشنی میں کافر قرار دیں گے ؟
مفتی محبوب خان حسامی
شیخ @اسحاق سلفی توجہ دیں ۔
جزاک اللہ خیرا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭جواب :
اس سوال کے پس منظر میں دراصل دو اور بنیادی مسئلے ہیں ،اسلئے اس سوال کا جواب سمجھنے کیلئے ان دو مسائل کو سمجھنا ضروری ہے ،
(1) نماز میں سورۃ فاتحہ فرض ہے ،یا مسنون و مستحب ؟
(2) (لا صلوٰۃ ) میں لائے "نفی " جنس کا ہے ،یا نفی کمال کا ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دراصل مقلد مفتی صاحب یہاں کہنا چاہ رہے ہیں کہ :
جس طرح (لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ) میں " لا " پورے ایمان کی نفی نہیں کررہا ،بلکہ صرف کمالِ ایمان کی نفی کیلئے ہے یعنی جو امین نہیں اس کا ایمان تو ہے مگر ناقص ہے ،
اسی طرح (لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ) میں سرے سے نماز کی نفی نہیں ہوتی بلکہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ "جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اسکی نماز ناقص ہے کامل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات واضح ہے کہ حنفی مفتی صاحب نے یہ تو تسلیم کرلیا ہے کہ :
جس طرح خائن و بد دیانت آدمی کا ایمان ناقص ہوتا ہے ،اسی طرح نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ناقص وادھوری ہوتی ہے ،کامل نہیں ہوتی ،یعنی حنفی لوگ ناقص وادھوری نمازیں پڑھ رہے ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آتے ہیں اصل مسئلہ طرف :
عن عبادة بن الصامت، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب".
سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔
یہ حدیث نماز میں سورۃ فاتحہ کے رکن ہونے اور فرض ہونے کی واضح دلیل ہے ، یعنی سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ،
(لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ) میں "لا " نفی جنس کا ہے یعنی جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوگی ،
اس حدیث کے اس معنی پر اس حدیث کا دوسرے طریق سے مروی متن دلیل ہے جو امام دارقطنیؒ امام ابن حبانؒ اور امام ابن خزیمہؒ نے روایت کیا ہے کہ :
عبادة بن الصامت , يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب». قال زياد في حديثه: لا تجزئ صلاة لا يقرأ الرجل فيها بفاتحة الكتاب , هذا إسناد صحيح (سنن الدارقطنیؒ 1225)
یعنی اس کی نماز جائز ہی نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا ،
امام دارقطنیؒ اس کو صحیح الاسناد کہا ہے ،
اور صحیح ابن خزیمۃؒ میں یہی الفاظ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ لَا يَقْرَأُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ» (صحیح ابن خزیمۃؒ 490 ) صحیح ابن حبانؒ 1794 )
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ نماز بالکل نہیں ہوتی جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے ۔
اس حدیث کے یہ الفاظ "نص صریح " ہیں کہ سورۃ فاتحہ نماز کا ایک رکن ہے جس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں ، اوراس میں تاویل کی گنجائش نہیں ،اور اس مسئلہ میں جمہور کا یہی مذہب ہے ،
لیکن حنفیہ اس مسئلہ میں جمہور کے خلاف ہیں ، اور منفرد یعنی اپنی تنہا نماز پڑھنے والے کیلئے بھی نماز میں سورۃ فاتحہ کے رکن یا فرض ہونے کے قائل نہیں ،
حنفی مذہب میں منفرد یعنی تنہا اپنی نماز پڑھنے والے پر بھی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ ضروری نہیں !
قال محمد: السنة أن تقرأ في الفريضة في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، وفي الأخريين بفاتحة الكتاب، وإن لم تقرأ فيهما أجزأك، وإن سبحت فيهما أجزأك، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله
موطاء ،بَابُ الرَّجُلِ يَقْرَأُ السُّورَ فِي الرَّكْعَةِ الْوَاحِدَةِ مِنَ الْفَرِيضَةِ
امام محمد فرماتے ہیں کہ : سنت یہ ہے کہ فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ساتھ کوئی اور سورۃ پڑھو،
اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحہ پڑھو ، اور اگر ان آخری دو رکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھا توبھی جائز ہے ، اور اگر ان دو میں صرف سبحان اللہ کہہ دے تو بھی جائز ہے ، امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے مؤطا مترجم خواجہ عبدالوحید
مقدمہ : مولوی زاہد الکوثری ، مولوی عبدالرشید
https://archive.org/details/MOUTTAIMAMMUHAMMADHASSANBINSHAYBANIUrdu/page/n201
اور مؤطا کا دوسرا ترجمہ مترجم مولوی یسین قصوری
https://archive.org/details/MuwattaImamMuhammadBinHasanShaybani-Urdu/page/n102
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
محترم شیخ @مقبول احمد سلفی صاحب لکھتے ہیں :
اس حدیث کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں "لا" نفی صحت کے لئے نہیں بلکہ نفی کمال کے لئے ہے یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز تو ہوجاتی ہے مگر کامل نہیں ہوتی ،ناقص ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں "لا" جنس کا ہے جس سے ذات کی نفی مراد ہے جسے نفی صحت بھی کہہ سکتے ہیں یعنی اس کی نماز صحیح نہیں ہے جو سورہ فاتحہ نہیں پڑھے ۔ احادیث سے اس کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں یہی معنی مراد لیا جاتا ہے جو مقلدین کے یہاں بھی تسلیم شدہ ہے ۔ چند مثالیں :
(1) لاالہ الا اللہ ( نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ) یہاں لا اپنے اسی معنی میں ہے ۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے علاوہ بھی عبادت کے لائق ہے وہ بے شک مشرک ہے ۔
(2) لا نِكاحَ إلَّا بوليّ (صحيح ابن ماجه:1537)
ترجمہ : ولی کے بغیر نکاح ہی نہیں ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں لا نفی کمال کے لئے یعنی نکاح تو ہوجاتا ہے مگر مکمل نہیں ہوتا وہ کفر کرتا ہے ، ایسا نکاح نکاح نہیں حرام کاری ہے۔
(3) أنا خاتمُ النبيِّينَ لا نبيَّ بعدي( صحيح أبي داود: 4252)
ترجمہ : میں سب سے آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
کس کی جرات ہے کہ یہ کہہ دے یہاں "لا" جنس کی نفی کے لئے نہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپﷺ جیسانبی نہیں آئے گا مگر دوسری قسم کا نبی آئے گا ۔ ایسا شخص مرتد اور خارج ملت ہے ۔ (یہی عقیدہ قادیانی کاہے)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور نماز کی بنیادی شرط (وضوء ) کے متعلق بھی ارشاد پیغمبرﷺ ہے کہ :
لا صلاةَ لمن لا وضوءَ له (السلسلة الصحيحة: 4/545) سنن ابی داود 101
ترجمہ: اس کی نماز نہیں جس نے وضو نہیں کیا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ جو بھی وضو نہ کرے اس کی نماز نہیں خواہ امام ہو یا مقتدی ۔
اسی طرح نماز کا حال ہے جو بھی سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوگی ۔
یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے لئے یہ باب باندھا ہے : "باب وجوب القرأۃ للامام والمأموم في الصلوات کلھا في الحضر والسفر وما یجھر فيها وما یخافت"یعنی امام ومقتدی کے لیے سب نمازوں میں قرأت (سورہ فاتحہ ) واجب ہے، نماز حضری ہو یا سفری، جہری یا سری ، یعنی ہر قسم کی نماز میں امام ومقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم”لَا اِیمانَ لِمَنْ لا أ مانةَ لَہ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہ“(سنن بیھقی-۱۲۶۹۰)
ترجمہ: ” جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔
اس حدیث کے پیش نظر ایک حنفی مقلد مفتی نے سوال کیا ہے کہ :
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
اس شخص کی نماز نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے (بخاری)
اور
لا إيمان لمن لا أمانة له
اس شخص کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں ( مسند احمد )
اگر امام کے پیچھے پڑھنے والے کی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر بالکل ہوتی ہی نہیں تو پھر امانت کے بغیر ایمان بھی بالکل نہیں ہونا چاہیئے
ایسے بندہ کو اہل حدیث حدیث کی روشنی میں کافر قرار دیں گے ؟
مفتی محبوب خان حسامی
شیخ @اسحاق سلفی توجہ دیں ۔
جزاک اللہ خیرا
سوال:
”لَا اِیمانَ لِمَنْ لا أ مانةَ لَہ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہ“(سنن بیھقی-۱۲۶۹۰)
ترجمہ: ” جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال یہ آیا ہے کہ :
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
اس شخص کی نماز نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے (بخاری)
اور
لا إيمان لمن لا أمانة له
اس شخص کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں ( مسند احمد )
اگر امام کے پیچھے پڑھنے والے کی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر بالکل ہوتی ہی نہیں تو پھر امانت کے بغیر ایمان بھی بالکل نہیں ہونا چاہیئے
ایسے بندہ کو اہل حدیث حدیث کی روشنی میں کافر قرار دیں گے ؟
مفتی محبوب خان حسامی
شیخ @اسحاق سلفی توجہ دیں ۔
جزاک اللہ خیرا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭جواب :
اس سوال کے پس منظر میں دراصل دو اور بنیادی مسئلے ہیں ،اسلئے اس سوال کا جواب سمجھنے کیلئے ان دو مسائل کو سمجھنا ضروری ہے ،
(1) نماز میں سورۃ فاتحہ فرض ہے ،یا مسنون و مستحب ؟
(2) (لا صلوٰۃ ) میں لائے "نفی " جنس کا ہے ،یا نفی کمال کا ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دراصل مقلد مفتی صاحب یہاں کہنا چاہ رہے ہیں کہ :
جس طرح (لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ) میں " لا " پورے ایمان کی نفی نہیں کررہا ،بلکہ صرف کمالِ ایمان کی نفی کیلئے ہے یعنی جو امین نہیں اس کا ایمان تو ہے مگر ناقص ہے ،
اسی طرح (لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ) میں سرے سے نماز کی نفی نہیں ہوتی بلکہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ "جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اسکی نماز ناقص ہے کامل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات واضح ہے کہ حنفی مفتی صاحب نے یہ تو تسلیم کرلیا ہے کہ :
جس طرح خائن و بد دیانت آدمی کا ایمان ناقص ہوتا ہے ،اسی طرح نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ناقص وادھوری ہوتی ہے ،کامل نہیں ہوتی ،یعنی حنفی لوگ ناقص وادھوری نمازیں پڑھ رہے ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آتے ہیں اصل مسئلہ طرف :
عن عبادة بن الصامت، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب".
سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔
یہ حدیث نماز میں سورۃ فاتحہ کے رکن ہونے اور فرض ہونے کی واضح دلیل ہے ، یعنی سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ،
(لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ) میں "لا " نفی جنس کا ہے یعنی جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوگی ،
اس حدیث کے اس معنی پر اس حدیث کا دوسرے طریق سے مروی متن دلیل ہے جو امام دارقطنیؒ امام ابن حبانؒ اور امام ابن خزیمہؒ نے روایت کیا ہے کہ :
عبادة بن الصامت , يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب». قال زياد في حديثه: لا تجزئ صلاة لا يقرأ الرجل فيها بفاتحة الكتاب , هذا إسناد صحيح (سنن الدارقطنیؒ 1225)
یعنی اس کی نماز جائز ہی نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا ،
امام دارقطنیؒ اس کو صحیح الاسناد کہا ہے ،
اور صحیح ابن خزیمۃؒ میں یہی الفاظ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ لَا يَقْرَأُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ» (صحیح ابن خزیمۃؒ 490 ) صحیح ابن حبانؒ 1794 )
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ نماز بالکل نہیں ہوتی جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے ۔
اس حدیث کے یہ الفاظ "نص صریح " ہیں کہ سورۃ فاتحہ نماز کا ایک رکن ہے جس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں ، اوراس میں تاویل کی گنجائش نہیں ،اور اس مسئلہ میں جمہور کا یہی مذہب ہے ،
لیکن حنفیہ اس مسئلہ میں جمہور کے خلاف ہیں ، اور منفرد یعنی اپنی تنہا نماز پڑھنے والے کیلئے بھی نماز میں سورۃ فاتحہ کے رکن یا فرض ہونے کے قائل نہیں ،
حنفی مذہب میں منفرد یعنی تنہا اپنی نماز پڑھنے والے پر بھی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ ضروری نہیں !
قال محمد: السنة أن تقرأ في الفريضة في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، وفي الأخريين بفاتحة الكتاب، وإن لم تقرأ فيهما أجزأك، وإن سبحت فيهما أجزأك، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله
موطاء ،بَابُ الرَّجُلِ يَقْرَأُ السُّورَ فِي الرَّكْعَةِ الْوَاحِدَةِ مِنَ الْفَرِيضَةِ
امام محمد فرماتے ہیں کہ : سنت یہ ہے کہ فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ساتھ کوئی اور سورۃ پڑھو،
اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحہ پڑھو ، اور اگر ان آخری دو رکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھا توبھی جائز ہے ، اور اگر ان دو میں صرف سبحان اللہ کہہ دے تو بھی جائز ہے ، امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے مؤطا مترجم خواجہ عبدالوحید
مقدمہ : مولوی زاہد الکوثری ، مولوی عبدالرشید
https://archive.org/details/MOUTTAIMAMMUHAMMADHASSANBINSHAYBANIUrdu/page/n201
اور مؤطا کا دوسرا ترجمہ مترجم مولوی یسین قصوری
https://archive.org/details/MuwattaImamMuhammadBinHasanShaybani-Urdu/page/n102
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
محترم شیخ @مقبول احمد سلفی صاحب لکھتے ہیں :
اس حدیث کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں "لا" نفی صحت کے لئے نہیں بلکہ نفی کمال کے لئے ہے یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز تو ہوجاتی ہے مگر کامل نہیں ہوتی ،ناقص ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں "لا" جنس کا ہے جس سے ذات کی نفی مراد ہے جسے نفی صحت بھی کہہ سکتے ہیں یعنی اس کی نماز صحیح نہیں ہے جو سورہ فاتحہ نہیں پڑھے ۔ احادیث سے اس کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں یہی معنی مراد لیا جاتا ہے جو مقلدین کے یہاں بھی تسلیم شدہ ہے ۔ چند مثالیں :
(1) لاالہ الا اللہ ( نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ) یہاں لا اپنے اسی معنی میں ہے ۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے علاوہ بھی عبادت کے لائق ہے وہ بے شک مشرک ہے ۔
(2) لا نِكاحَ إلَّا بوليّ (صحيح ابن ماجه:1537)
ترجمہ : ولی کے بغیر نکاح ہی نہیں ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں لا نفی کمال کے لئے یعنی نکاح تو ہوجاتا ہے مگر مکمل نہیں ہوتا وہ کفر کرتا ہے ، ایسا نکاح نکاح نہیں حرام کاری ہے۔
(3) أنا خاتمُ النبيِّينَ لا نبيَّ بعدي( صحيح أبي داود: 4252)
ترجمہ : میں سب سے آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
کس کی جرات ہے کہ یہ کہہ دے یہاں "لا" جنس کی نفی کے لئے نہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپﷺ جیسانبی نہیں آئے گا مگر دوسری قسم کا نبی آئے گا ۔ ایسا شخص مرتد اور خارج ملت ہے ۔ (یہی عقیدہ قادیانی کاہے)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور نماز کی بنیادی شرط (وضوء ) کے متعلق بھی ارشاد پیغمبرﷺ ہے کہ :
لا صلاةَ لمن لا وضوءَ له (السلسلة الصحيحة: 4/545) سنن ابی داود 101
ترجمہ: اس کی نماز نہیں جس نے وضو نہیں کیا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ جو بھی وضو نہ کرے اس کی نماز نہیں خواہ امام ہو یا مقتدی ۔
اسی طرح نماز کا حال ہے جو بھی سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوگی ۔
یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے لئے یہ باب باندھا ہے : "باب وجوب القرأۃ للامام والمأموم في الصلوات کلھا في الحضر والسفر وما یجھر فيها وما یخافت"یعنی امام ومقتدی کے لیے سب نمازوں میں قرأت (سورہ فاتحہ ) واجب ہے، نماز حضری ہو یا سفری، جہری یا سری ، یعنی ہر قسم کی نماز میں امام ومقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Last edited: