• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نماز کے بعد اجتماعی دعا ثابت ہے؟

شمولیت
اپریل 10، 2021
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
21
بسم الله الرحمن الرحيم سوال نمبر#035 =========================
سوال: کیا نماز کے بعد اجتماعی دعا ثابت ہے؟
جواب: ف 10:38 فتاوى عبر الأثير مفرغة 3 #س995 #فتاوى_عبر_الأثير (( 995 )) - السؤال:- هل يجوز الدعاء الجماعي في الصلاة بعد السلام من الصلاة؟ - الجواب:- قد سُئل الإمام أحمد -رحمه الله تعالى- عن هذه المسألة, فقال تلميذه إسحاق أبن منصور المعروف بالكوسج قال: قلت يُكره أن يجتمع القوم يدعون الله سبحانه وتعالى ويرفعون أيديهم, فقال أحمد (ما أكرهه الإخوان إذا لم يجتمعوا على عمد إلا أن يكثروا), قال إسحق -رحمه الله تعالى- الكوسج (وإنما معنى أن لا يكثروا يقول أي أن لا يتخذونها عادة حتى يعرفوا بها). - وقد قال شيخ الإسلام أبن تيميه -رحمه الله تعالى- (فقيد أحمد الإجتماع على الدعاء بما إذا لم يتخذ عادة), وقال أيضا -رحمهم الله- (وأما دعاء الإمام والمأمومين بعد الصلاة جميعا, رافعين أصواتهم أو غير رافعين, فهذا ليس من سنة الصلاة الراتبه, ولم يكن يفعله النبي -صلى الله عليه وسلم-) أنتهى كلامه رحمه الله. - فالأولى الإشتغال بالأذكار الصحيحة المستحبه بعد الصلاة, فهذه هي السنة الواردة عنه صلى الله عليه وسلم, فإن أتخذ الناس الدعاء بعد صلوات الفريضة عادة فهذه بدعة ينبغي إنكارها... والله أعلم _---------------_-----____----- #فتاوى_عبر_الأثير (( 995 )) سوال:- کیا سلام پھیرتے ہی نماز کے بعد اجتماعی طور پر دعا مانگنا جائز ہے؟! جواب:- امام احمد رحمہ اللہ تعالی سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کے شاگرد اسحاق ابن منصور المعروف الکوسج نے کہا: میں نے کہا کہ یہ ناپسندیدہ ہے کہ لوگ جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکاریں اور ہاتھ اٹھائیں ۔ احمد نے کہا (میں ان بھائیوں سے نفرت نہیں کرتا اگر وہ جان بوجھ کر جمع نا ہوں سوائے اس کے کہ وہ اسے کثرت سے کرنے لگیں)۔ اسحاق - رحمہ اللہ تعالی - الکوسج نے کہا (ان کی مراد کثرت سے نا کرنے کی یہ تھی کہ وہ اسے عادت نا بنا لیں یہاں تک کہ وہ اس کے ساتھ معروف ہو جائیں) شیخ الاسلام ابن تیمیہ -رحمہ اللہ تعالی- نے کہا کہ (احمد نے نماز کے بعد اجتماعی دعا کے جواز کو عادت نا بنائے جانے کے ساتھ مقید کیا ہے) اور انہوں نے یہ بھی کہا - اللہ ان پر رحم کرے - (جہاں تک امام اور مقتدیوں کا نماز کے بعد اجتماعی طور پر دعا کرنے کا مسئلہ ہے چاہے بلند آواز سے ہو یا بلند آواز سے نہ ہو، صلاۃ الراتبہ کی سنت میں سے نہیں ہے، اور نا کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا). انتھی کلامه رحمه الله تعالي. پس بہتر ہے کہ نماز کے بعد صحیح اور مستحب ذکر میں مشغول ہوا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول سنت یہ ہی ہے۔ اگر لوگوں نے فرض نماز کے بعد دعا کو عادت بنا لیا ہے تو یہ بدعت ہے جسے کا انکار کرنا چاہیے۔ والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 
Top