• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نومولود کے کان میں اذان دینا سنت ہے؟

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
کیا نومولود کے کان میں اذان دینا سنت ہے؟
جملہ فقہاء کی رائے ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے داہنے کان میں اذان اور باہنے کان کیں اقامت کہنا مستحب ہے اور اس طرح اس کی تحنیک بھی مستحب ہے۔ (موسوعہ فقہہ الکویتیہ ۳۹/ ۳۷۲)
شافعیہ کے ہاں نومولود کے کان میں اذان دینا مسنون ہے۔ اس کے لئے وہ مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں:
حدیث
حدثنا يونس قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا سفيان الثوري، عن عاصم بن عبيد الله، عن عبيد الله بن أبي رافع، عن أبيه، قال: «رأيت النبي صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن حين ولدته أمه فاطمة بالصلاة»
ابو رافع بیان کرتے ہیں کہ جب فاطمہ کے ہاں حسن پیدا ہوئے تو میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے کانوں میں نماز والی اذان دیتے دیکھا۔
(مسند ابو داود ۱۰۱۳)
اس روایت کوعبدالرزاق (المصنف ۷۹۸۶)، ابن حنبل (مسند احمد بتحقیق ارنؤوط۲۳۸۶۹)، ترمذی (جامع ترمذی ۱۵۱۴) ، طبرانی (معجم الکبیر ) ، امام حاکم (المستدرک ۳/ ۱۷۹ح )، بیہقی (سنن الکبریٰ ۹/ ۳۰۵) نے روایت کیا ہے۔
اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ متروک ہے۔
امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں کہا کہ عاصم ضعیف ہے۔

حدثنا جبارة، حدثنا يحيى بن العلاء، عن مروان بن سالم، عن طلحة بن عبيد الله، عن حسين قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان»
حسین فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے نومولود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، اسے ام الصبیان نقصان نہیں پہنچائے گی۔
(مسند ابو یعلیٰ ۶۷۸۰، مجمع الزوائد ۴/ ۵۹)
اس کی سند میں یحییٰ بن العلاء الرازی اور مروان بن سالم الغفاری متروک ہیں ۔
امام ابن عدی نے اس روایت کو یحییٰ بن العلاء الرازی کی منکر روایات میں بیان کیا ہے۔ (الکامل فی الضعفاء ۹/ ۲۴)
امام ہیثمی نے کہا کہ اس کی سند میں مروان بن سالم الغفاری متروک ہے ۔ (مجمع الزوائد ۴/ ۵۹)
بوصیری نے کہا کہ اس کی سند یحییٰ بن العلاء کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (اتحاف الخیرۃ المہرۃ ۵/ ۳۲۹)
امام شوکانی نے کہا کہ اس احادیث کا مدار عاصم بن عبیداللہ پر ہے اور وہ ضعیف ہے۔ (نیل الاوطار ۵/ ۱۶۱)
شیخ البانی نے اسے موضوع کہا ہے۔ (سلسلہ احادیث ضعیفہ ۱/ ۴۹۱)

وأخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار، حدثنا محمد بن [ص: ١٠٧] يونس، حدثنا الحسن بن عمر بن سيف السدوسي، حدثنا القاسم بن مطيب، عن منصور ابن صفية، عن أبي معبد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم: " أذن في أذن الحسن بن علي يوم ولد، فأذن في أذنه اليمنى، وأقام في أذنه اليسرى " في هذين الإسنادين ضعف، قال: " والثانية أن يحنكه بتمر، فإن لم يجد فبحلو يشبهه، وينبغي أن يتولى ذلك منه من يرجى خيره وبركته "
حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی کے کان میں اذان دی جس دن وہ پیدا ہوئے، آپ نے ان کے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
(شعب الایمان ۱۱/ ۱۰۶)
اس کی سند میں حسن بن عمر السدوسی اور محمد بن یونس الکدیمی متروک و واضع ہیں۔
امام بیہقی نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس کی سند ک ضعیف کہا ہے۔
شیخ البانی نے بھی یہی کہا ہے۔ (سلسلہ احادیث ضعیفہ ۱۳/ ۲۷۲)

درج بالا احادیث ضعیف ہیں اور کسی صحیح و حسن سند سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل ثابت نہیں ہے، اس لئے اسے سنت کہنا جہالت و گمراہی ہے۔
اہل علم کے اقوال اور ان کے جواب:
امام ترمذی نے فرمایا کہ کئی اہل علم اس حدیث کی طرف گئے ہیں۔ (جامع ترمذی ۱۵۱۴)
امام ترمذی کا یہ کہنا شریعت نہیں ہے، اپنی جامع میں امام ترمذی نے اہل علم کے ایسے متعدد مواقف کو نقل کیا ہے جن کو اہلِ حدیث حجت نہیں مانتے ہیں۔ تو پھر کسی صحیح و حسن حدیث کی غیر موجودگی میں امام ترمذی کے اس عمل کو صحیح ماننا صرف اپنے علماء کا دفاع ہے۔
حافظ عمران ایوب لاہوری نے کہا کہ امت کا متواتر و متوارث عمل اس کی تقویت کا باعث ہے۔ (تفہیم الکتاب والسنہ ۔ اولاد اور والدین کی کتاب ص ۴۹)
حافظ عمران ایوب لاہوری کا یہ موقف قطعاً قابل حجت نہیں، امام ترمذی نے اپنی جامع میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کے تحت لکھا ہے کہ کئی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ تو کیا اس سے اہل حدیث یہ مانیں گے کہ اہل علم کا یہ عمل ہے اور امت کے ایک حصہ کا اس پر اتفاق ہے؟
حافظ عمران ایوب لاہوری نے مزید لکھا ہے کہ دور حاضر کے علماء عبدالمنان نورپور، عبدالسلام بھٹوی، صلاح الدین یوسف اور عبدالستار حماد کے مطابق یہ ثابت اور قابل عمل ہے۔
درج بالا علماء موجودہ دور کے ہیں اور ان کی بات حجت نہیں ہے۔
نیز امام ترمذی کا یہ کہنا کہ اہلِ علم میں سے کئی اس حدیث کی طرف گئے ہیں کا مطلب یہ بھی ہے لہ کئی اہل علم نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا ہے۔
موسوعہ فقہ الکویتیہ میں بحوالہ صریح یہ بیان کیا گیا ہے کہ شافعیہ اس کو مسنون کہتے ہیں اور حنابلہ بھی اس کو قابل عمل سمجھتے ہیں، جبکہ مالکیہ اور حنفیہ اس کی طرف نہیں گئے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پوری امت کا عمل یا موقف نہیں بلکہ امت کے ایک حصے کا عمل اور موقف ہے۔
اگر ضعیف الاسناد احادیث سے صرف اس بنیاد پر حجت لی جائے کہ اہل علم کا عمل ہے اور چند ضعیف احادیث سے دوسری احادیث کو تقویت ملتی ہے تو پھر اہل علم کے تمام مواقف کو درخور اعتناء سمجھنا چاہییے۔۔یہ نہیں کہ صرف اپنے علماء کے دفاع کے لئے ہی اصول حدیث کو توڑ مروڑ دیا جائے۔
واللہ اعلم
(محمد سعید عمران)
 
Top