باپ فوت ہو چکا ہے اور گھر ماں کے نام ہے اور ان والدین کی 6 بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں اور ماں نے اپنی زندگی میں گھر ایک بیٹی کے نام کر دیا ہے بطور گفٹ کیا اس میں ماں گناہ گار تو نہیں ہو گی -
اگر انکی ماں نے ایسے کرتے ہوئے دوسرے بچوں کو انکے شرعی حق سے محروم کیا ،،تو ایسا کرنے والی ماں ۔۔مامتا کے جذبہ سےمحروم ۔۔اور گناہ گار ہوگی ؛
آپ درج ذیل فتوی دیکھیں :
باپ کا اولاد کو جائداد تحفے میں دینا
شروع از بتاریخ : 24 April 2013 09:39 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا باپ اپنی زندگی میں اپنی جائداد دو بیٹوں کو تحفے میں دے سکتا ہے؟ جبکہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں محروم کردی جائیں- فوت ہوئے بیٹے کا حصہ اس کی اولاد اور بیوی کو ملے گا یا نہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ انسان اپنی زندگی میں اپنے مال میں تصرّف کا حق رکھتا ہے، لہٰذا وہ کسی کو بھی اپنے مال سے کچھ حصہ ہبہ کرنے کا اختیار رکھتا
ہے۔ لیکن یہ ہبہ اگر اولاد کو کرنا ہو تو ان میں عدل اور برابری ضروری ہے بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا ظلم وجور ہے۔
صحیحین میں سیدنا نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے کہ ان کے باپ (بشیرؓ )نے ان کی ماں کے کہنے پر انہیں کچھ مال ہبہ کر دیا، تو ان کی ماں نے کہا کہ اس پر نبی کریمﷺ کو گواہ بنا لو۔ سیدنا بشیرؓ نے جب نبی کریمﷺ نے اس کی درخواست کی تو نبی کریمﷺ نے پوچھا کہ کیا تمہاری کوئی اور اولاد بھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں!
نبی کریمﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے سب کو اتنا ہی مال ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں! تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔
2۔ اگر کوئی شخص اپنے والدین کی زندگی میں فوت ہوگیا ہو تو وہ اپنے ماں باپ کا وارث نہیں، بلکہ اس کے ماں باپ اس کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ وراثت کی شرائط میں سے ہے کہ مورّث کی وفات کے وقت وارث زندہ ہو۔
البتہ اگر یہ شخص اپنی ماں یا باپ کی وفات کے بعد لیکن ان کی وراثت کی تقسیم سے پہلے فوت ہوگیا تو اس کا حصہ بھی نکالا جائے گا جو اس کے ورثا میں تقسیم ہوگا۔ اسے وراثت کی اصطلاح میں مناسخہ کہا جاتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته ؛
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ زندگی میں اپنی جائیداد ورثا کو دے دینا تقسیمِ وراثت نہیں بلکہ ہبہ کے قائم مقام ہے، کیونکہ تقسیمِ وراثت کی شرائط میں سے ہے کہ مورّث (یعنی صاحبِ ترکہ) فوت ہوجائے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص زندگی میں اپنا مال تقسیم کردے تو یہ ہبہ متصوّر ہوگا اگر اس میں شرعی ہبہ کے منافی کوئی کام نہ ہو۔
2۔
اگر اولاد کو ہبہ کیا جائے تو ضروری ہے کہ سب میں برابری کی جائے۔ اولاد میں بعض کو دینا اور دوسروں کا نہ دینا یا بعض کو زیادہ اور بعض کو کم دینا ناجائز ہے، اگر ایسا ہو تو ہبہ واپس لوٹادیا جائے گا۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ سیدنا نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ۔ کو ان کے والد بشیررضی اللہ عنہ نے کچھ ہبہ کیا۔ اور پھر اپنی بیوی کے کہنے پر رسول کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور اس پر گواہ بننے کی درخواست کی۔ رسول کریمﷺ نے پوچھا:
« أكل ولدك نحلت مثله؟ » کہ کیا تو نے اپنی باقی تمام اولاد کو بھی اسی کی مثل ہبہ کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: « فارجعه » کہ اس کو واپس لے لو۔ (صحيح البخاری: 2586)
بعض علماء نے ہبہ میں قبضہ کو بطور شرط بیان کیا ہے۔
اگر یہ ہبہ کی شرائط پوری ہیں تو یہ ہبہ صحیح ہے یہ ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، ورنہ اسے لوٹا کر ترکہ میں شامل کیا جائے گا اور تمام ورثا میں ان کے حصص کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔