محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 884
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 69
وضو کے لیے نیت کے شرط ہونے کے بارے میں علماء کے دو اقوال ہیں:
1- وضو کےصحیح ہونے کے لیے نیت شر ط ہے، یہ امام مالک، امام شافعی ، امام احمد، امام ابوثوراور داود ظاہر ی رحمہم اللہ کاقول ہے۔
2- وضو کے لیے نیت کا ہونا شرط نہیں ہے، یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔
پہلے قو ل کی دلیل:
تمام عبادات میں کے صحیح ہونے کے لیے نیت شرط ہے ، وضو بھی عبادت ہےتو اس کے لیے بھی نیت شر ط ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ (البينة: 5)
’’اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں۔‘‘
حضرت عمر بن خطاب ؓ کو منبر پر یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا۔‘‘ (صحیح البخاری: 1)
دوسرے قول کی دلیل:
وضو معقول المعنی عبادت ہے اور نجاست سے طہارت حاصل کرنے کے مشابہ ہے، جب نجاست کو زائل کرنے کے لیے نیت شرط نہیں ہے تو وضو کے لیے بھی نیت شرط نہیں ہو گی۔
راجح:
پہلا قول راجح ہےکیونکہ قرآن وسنت کی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کووضو کرنے پر ثواب ملتا ہےاور بغیر نیت کے بالاجماع ثواب نہیں ملتااور وضو ایسی عبادت ہے جو صرف شریعت کی نصوص سے معلوم ہو سکتی ہے تو اس میں نیت شرط ہو گی۔
نوٹ: نیت دل کے ارادے کوکہتے ہیں، زبان سے اس کاکوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے زبان سے نیت کرنا جائز نہیں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کیا کرتے تھے، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کی وضاحت کرتے۔ ویسے بھی زبان سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی انسان کے دل کے ارادے کو جانتا ہے۔
1- وضو کےصحیح ہونے کے لیے نیت شر ط ہے، یہ امام مالک، امام شافعی ، امام احمد، امام ابوثوراور داود ظاہر ی رحمہم اللہ کاقول ہے۔
2- وضو کے لیے نیت کا ہونا شرط نہیں ہے، یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔
پہلے قو ل کی دلیل:
تمام عبادات میں کے صحیح ہونے کے لیے نیت شرط ہے ، وضو بھی عبادت ہےتو اس کے لیے بھی نیت شر ط ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ (البينة: 5)
’’اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں۔‘‘
حضرت عمر بن خطاب ؓ کو منبر پر یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا۔‘‘ (صحیح البخاری: 1)
دوسرے قول کی دلیل:
وضو معقول المعنی عبادت ہے اور نجاست سے طہارت حاصل کرنے کے مشابہ ہے، جب نجاست کو زائل کرنے کے لیے نیت شرط نہیں ہے تو وضو کے لیے بھی نیت شرط نہیں ہو گی۔
راجح:
پہلا قول راجح ہےکیونکہ قرآن وسنت کی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کووضو کرنے پر ثواب ملتا ہےاور بغیر نیت کے بالاجماع ثواب نہیں ملتااور وضو ایسی عبادت ہے جو صرف شریعت کی نصوص سے معلوم ہو سکتی ہے تو اس میں نیت شرط ہو گی۔
نوٹ: نیت دل کے ارادے کوکہتے ہیں، زبان سے اس کاکوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے زبان سے نیت کرنا جائز نہیں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کیا کرتے تھے، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کی وضاحت کرتے۔ ویسے بھی زبان سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی انسان کے دل کے ارادے کو جانتا ہے۔