• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا وٹہ سٹہ کی شادی حرام ہے ؟؟؟؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر ایسی شادیوں میں ”ادلہ بدلہ کی شرط“ عائد نہ ہو اور یکے بعد دیگرے یا ایک ساتھ والدین یا بچوں کی رضا سے ایک ہی گھر یا خاندان سے لڑکی لی اور دی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حدیث میں ممانعت ”شادی کے بدلہ شادی کی شرط“ کی ہے۔ نہ کہ ایک ہی گھر یا خاندان سے لڑکا اور لڑکی دونوں کی شادی کی ممانعت۔
واللہ اعلم بالصواب
لیکن اس طرح کی شادی میں نیت تو یہی ہوتی ہے کہ ہماری بیٹی خوش اور محفوظ رہے - ورنہ کون وٹہ سٹہ کی شادی کو ترجیح دے- (چاہے شرط پر شادی نہ طے کی گئی ہو)-
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
وٹہ سٹہ کی شادی کے متعلق شرعی حکم
شروع از عبد الوحید ساجد
بتاریخ : 10 June 2014 11:04 AM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شرعی طور پر وٹہ سٹہ کی شادی کے متعلق کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


وٹہ سٹہ کی دو صورتیں ہیں
کہ کسی شخص نے اپنے بھائی کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا ، اس کے بعد اس نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے سے کر دیا، نکاح کرتے وقت کوئی شرط وغیرہ نہیں رکھی گئی، اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے،
دوسری قسم وٹہ سٹہ ارادی ہے، یعنی نکاح کرتے وقت یہ شرط کر لی جائے تم اپنی بیٹی کا رشتہ میرے بیٹے سے کرو گے، اسے شریعت کی اصطلاح میں "شغار" کہتے ہیں۔ شرعی طور پر ایسا کرنا جائز اور حرام ہے۔ حدیث میں بیان ہے کہ شغار کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔
(صحیح مسلم ، النکاح :۳۴۶۸)

رسول اللہ ﷺ نے نکاح شغار سے منع کیا ہے
(صحیح بخاری ، النکاح:۵۱۱۲)

حدیث میں شغار کی تعریف بایں الفاظ کی گئی ہے:
‘‘کوئی آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ دوسرا بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے گا اور درمیان میں کوئی حق مہر نہ ہو۔’’
(صحیح بخاری ، الحیل :۶۵۶۰)

بعض علما کا خیال ہے کہ اگر درمیان میں مہر رکھ دیا جائے تو نکاح شغار کے دائرہ سے نکل جاتا ہے ، حالانکہ اس تعریف میں حق مہر کا ذکر اتفاقی ہے احترازی نہیں ہے، جیسا کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ
عباس بن عبداللہ ؓ نے اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحمٰن بن حکم سے کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی عباس بن عبداللہ ؓ کے عقد میں دے دی، انہوں نے درمیان میں مہر بھی رکھا، حضرت امیر معاویہؓ کو جب اس نکاح کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے گورنر مروان کو مدینے میں خط بھیجا کہ ان کے درمیان فوراً تفریق کرا دی جائے کیونکہ یہ وہی شغار ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا تھا۔
(ابو داؤد، النکاح: ۲۰۷۵)

جب معاشرتی طور پر نکاح شغار کو دیکھا جاتا ہے کہ مہر ہونے یا نہ ہونے سے اس کی قباحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ جب خرابی پیدا ہوتی ہے تو دونوں گھر اجڑ جاتے ہیں، حالانکہ قصور ایک کا ہوتا ہے اور دوسرا بلاوجہ زیادتی کے لئے تختہ مشق بن جاتا ہے، لہٰذا اس قسم کےنکاح سے اجتناب کرناچاہیے، اگرچہ احناف کا موقف ہے کہ اگر اس قسم کا نکاح ہوجائے تو درمیان میں حق مہر رکھنے کےبعد اسے سند جواز مہیا کی جاسکتی ہے لیکن اس قسم کی حیلہ گری کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔ وٹہ سٹہ کا نکاح سرےسے منعقد ہوتا۔ (واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتویٰ اصاب الحدیث
ج2 ص311
محدث فتویٰ

ح

مزید تحقیق کے ساتھ تفصیلی مطالعہ کے لئے یہاں بھی

 
Top